پرویز حفیظ
12اکتوبر،2023
امریکہ کے مشیر برائے قومی
سلامتی جیک سلیوان نے حال میں بڑے فخر سے
یہ اعلان کیا کہ مشرق وسطیٰ پچھلے دو دہائیوں
میں اتنا شانت کبھی نہیں تھا جتنا آج ہے۔ انہوں نے جس سکون کاذکر کیا تھا وہ طوفان سے پہلے
والی خاموشی تھی کیونکہ ان کے اس بیان کے ہفتے بھر کے اندر خطے میں جنگ کی ایسی آگ بھڑک اٹھی جو پچھلے دو دہائی
نہیں بلکہ نصف صدی میں نہیں
دیکھی گئی تھی۔اسرائیل پر ہوئے حماس کے حملے میں اب تک نو سو اسرائیلی ہلاک اور دو ہزار سے
زیادہ زخمی ہوگئے ہیں اور سو سے زیادہ
اسرائیلی باشندوں کو جنگی قیدی بنا لیاگیا
ہے۔ اسرائیل کی تاریخ میں ایک دن میں نہ اتنی زیادہ ہلاکتیں ہوئی تھیں
اور نہ ہی اتنی زیادہ ہزیمت۔ امریکہ کے مشہور تجزیہ کارتھامس فریڈمین نے اس
دن کو"Israel`s worst day at warقرار
دیا ہے کیونکہ اس دن حماس جنگجو غزہ کے سخت بارڈرکو توڑ کر اسرائیل کے دو درجن
علاقوں میں داخل ہوگئے۔ انہوں نے بارڈر پر تعینات فوجیوں کو مغلوب کرکے اسرائیل پر صرف چڑھائی ہی
نہیں کی اور لوگوں کو قتل ہی نہیں کیا بلکہ اسرائیلوں کویرغمال بناکر پھر اسی بارڈر کو کراس کرکے غزہ
لے گئے۔ کہاجاتا ہے کہ اس بارڈر پر اسرائیل نے ایک بلین ڈالر کا سرمایہ لگاکر ایسی
باڑ تعمیر کی ہے جس میں سیندھ لگانا
ناممکن ہے۔حماس نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔
مارچ ۲۰۰۳ء میں جب امریکہ نے عراق پر چڑھائی کی تھی تو دشمن کو
دہشت زدہ کرنےکیلئے بے پناہ فوجی طاقت استعمال کرنے کی امریکی ملٹری حکمت عملی کو
"shock and awe" کہا گیاتھا۔ لندن کے روزنامہ ’’" دی ٹائمز‘‘نے ہفتے کے
دن اسرائیل پر کی گئی حماس کے یلغار کو بیان کرنے کیلئے یہی اصطلاح استعمال کرتے
ہوئے لکھا ہے کہ ایک ہزار حماس جنگجوؤں
کے ہاتھوں اسرائیل کا پورا دفاعی
نظام بکھر گیا۔ یاد رہے اسرائیل ایک ایٹمی پاور ہے جس کے پاس اعلیٰ درجے کی فوج
اور بہترین انٹلی جنس سسٹم ہے ۔
ہم لوگوں کو کورونا کے دور میں ایک ماہ تک لاک ڈاؤن میں رہنا پڑا تو زندگی عذاب لگنے لگی۔ غزہ پٹی کے
تقریباًبائیس لاکھ باشندے سولہ برسوں سے
سخت ترین لاک ڈاؤن کا عذاب مسلسل جھیل رہے ہیں
کیونکہ اسرائیلی حکومت نے بحیرہ روم کے ساحل پر واقع اس تاریخی شہرکی بری،
بحری اور فضائی ناکہ بندی کررکھی ہے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ حماس جنگجو بری، بحری
اور فضائی تینوں راستوں سے اسرائیل میں داخل ہوکر کئی گھنٹوں تک تابڑ توڑ حملے کرتے رہے اور اسرائیل ڈیفنس
فورسزان کو روک نہ سکی۔ ایک بار پھر ثابت ہوگیا کہ جب آزادی اور عزت نفس جان سے
بھی زیادہ پیاری لگنے لگے تو پرندہ پنجرہ اور قیدی سلاخیں توڑ کر نکل جاتا ہے۔ بنجامن نیتن یاہو کے حامی
یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتے ہیں کہ انہوں
نے اسرائیل کو ایک ناقابل تسخیر اور محفوظ قلعہ میں تبدیل کردیا ہے اور اسی لئے وزیر اعظم کو’’مسٹر
سیکوریٹی ‘‘کا خطاب دیا گیا۔ لیکن حالیہ بحران نے اس مفروضے کی قلعی کھول کر رکھ
دی۔
مان لیا کہ غزہ کے باشندے
سترہ برس قبل جمہوری انتخابات کے ذریعہ حماس کو منتخب کرنے کی اجتماعی سزا بھگت
رہے ہیں لیکن مغربی کنارہ میں تو تیس برسوں
سے فتح کی قیادت والی فلسطینی اتھارٹی کی حکمرانی ہے۔ محمود عباس تو
اسرائیل کے اشاروں پر چلتے ہیں ۔ نیتن
یاہو کی انتہائی دائیں بازو کی نسل پرست
مخلوط حکومت نے مغربی کنارہ کے باشندوں کو
کیوں نشانہ بنارکھا ہے؟نہ صرف اسرائیلی
فوج بلکہ یہودی آبادکار کیوں ہر روز ان
پر ظلم ڈھاتے اور ان کی تذلیل کرتے ہیں ؟ اس سال ڈھائی سو فلسطینی شہری جن
میں چالیس بچے شامل ہیں قتل کئے جاچکے ہیں ۔ فلسطینیوں کو گھروں
سے نکال کر اور ان کی زمین ہڑپ کر وہاں
یہودی آباد کاروں کو بسایا جارہا
ہے۔ اسرائیل کے نسل پرست وزیر خارجہ بیزالیل سموٹرچ نے ایک فلسطینی شہر ہوارا کو
صفحہ ہستی سے مٹادینے کی دھمکی دی ہے۔ فلسطینیوں
کو سموٹرچ نے تین آپشنز دیئے ہیں : یا تو وہ ہجرت کرجائیں یا صہیونیوں
کی محکومی قبول کرلیں یا پھر مرنے
کیلئے تیار ہو جائیں ۔اس کے بعد بھی امریکہ، برطانیہ اوردیگر مغربی ممالک یہ دعویٰ
کررہے ہیں کہ اسرائیل کی جانب سے کوئی
اشتعال انگیزی نہیں ہوئی تھی اور حماس کے
حملے کا کوئی جواز نہیں تھا۔
پچاس لاکھ سے زیادہ
فلسطینی باشندے جن میں آدھی سے زیادہ
آبادی نوجوانوں اور بچوں پر مشتمل ہے پچپن برسوں سے غزہ اور ویسٹ بینک میں اسرائیل کے ناجائز فوجی تسلط میں رہ رہے ہیں ۔ ان کے تئیں صہیونی حکومت کے متعصبانہ اورحقارت آمیز رویے
کے مدنظر ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور خود اسرائیل کی انسانی حقوق کی
تنظیموں نے اسے اپارتھائیڈ نظام قرار دے
رکھا ہے۔ غزہ میں پچاس فی صد آبادی بے
روزگارہے۔ نہ وافر غذا انہیں ملتی ہے اور
نہ ہی صاف پانی اور بجلی۔ اس کے بعد بھی بائیڈن، رشی سوناک اور میکرون یہی راگ
الاپ رہے ہیں کہ اسرائیل کو اپنی دفاع کا
پورا اختیار ہے۔ اسرائیلی وزیر ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کررہا ہے کہ فلسطینی یا ہماری
غلامی قبول کرلیں یا مرنےکیلئے تیار
ہوجائیں ۔ پھر بھی خدا کا کوئی بندہ یہ نہیں
کہہ رہا ہے کہ فلسطینیوں کو بھی
اپنی بقا کا حق ہے۔ کیامغرب کی منافقت کی کوئی حد ہے؟
نیتن یاہو دس برسوں سے مشرق وسطیٰ کی جیو پالیٹکس میں فلسطینیوں
کو بے آواز، بے وقعت اور غیر متعلق بنانے کی مذموم کوشش کررہے ہیں ۔ پچھلے
ماہ اقوام متحدہ میں نیتن یاہو نے گریٹر
اسرائیل کا ایک نقشہ لہرایا جس میں مغربی
کنارہ اور غزہ کو اسرائیل کا علاقہ دکھایا گیا۔ دیگرالفاظ میں نیتن یاہو نے واضح کردیا کہ فلسطینیوں کو ایک چھوٹی سی ریاست کا جو لالی پاپ تیس سال
قبل دکھایا گیا تھا اس کی حیثیت صحرا کے سراب کی ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ سرائیل کے
مجوزہ معاہدے کے اعلان کے ساتھ نیتن یاہو نے یہ وارننگ بھی دی تھی کہ اس میں ’’
فلسطینیوں کو ویٹو‘‘ کا اختیار نہیں دیا جائے گا۔
پس نوشت: حسب توقع انتقامی کارروائی کرتے ہوئے اسرائیل غزہ کی اینٹ سے اینٹ
بجارہا ہے۔ نیتن یاہو غزہ کو جہنم بنادینے کی دھمکیاں دے رہے ہیں ۔اندیشہ ہے کہ سیکڑوں بے گناہوں
کے خون سے غزہ کی دھرتی ایک بار پھر لہو لہان ہوگی۔اسرائیل کے معروف
اخبار’ہاریٹز‘کے ایک کالم نویس نے لکھا ہے کہ حماس جیسی معمولی سی تنظیم
نے’’اسرائیل جیسے خطے کے سپر پاور کو برہنہ‘‘کر دیا ہے۔ اسرائیل اب اگر پورے غزہ
پٹی کو تباہ و برباد بھی کردے اور محمد دائف، خالد مشعل، یحیٰ سنوار اور اسمعیل
ہنیہ اور ان کے رفقا کو قتل بھی کردے پھر بھی اسرائیل کی پچاس سال کی سب سے بڑی
سیکوریٹی کی ناکامی اور ذلت کا ازالہ نہیں
ہوسکے گا۔
12 اکتوبر، 2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism