ودود ساجد
15دسمبر،2024
بجلی کی رفتار سے شام کے جابر وآمر بلکہ پانچ لاکھ سے زیادہ شامیوں کے قاتل بشاالاسد کی حکومت کازوال خودشام کے عوام کے لئے انتہائی حیرت انگیز واقعہ ہے۔ اتنی آسانی کے ساتھ بشاالاسد کا اقتدار چھوڑ دینا اور پھر اتنی سرعت کیساتھ بہ حفاظت روس کی راجدھانی ماسکو پہنچ جانا اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز ہے۔پڑوسی ملک ایران اور مسلح تنظیم حزب اللہ نے ایسے وقت میں خاموشی کے ساتھ پسپائی اختیار کرلی جب ان کے دیرینہ اتحادی بشاالاسد کا 13سالہ اقتدار خطرہ میں تھا۔ اتنا بڑا انقلاب کسی بڑے اور قابل ذکر خون خرابہ کے بغیر رونما ہوگیا اور آزادی کامحض ایک نعرہ بلند کرنے پرنہتے شہریوں کے سروں پر گولیاں داغ دینے والی شامی فوج نے مسلح جنگجوؤں کا مقابلہ نہیں کیا۔
شام اور مشرقی وسطیٰ کے امور کے ماہرین ابھی تک کسی ایک ’تھیوری‘ پر متفق نہیں ہوپائے ہیں۔ لیکن اتنا تویقین سے کہاجاسکتا ہے کہ بشاالاسد کے بھاگ جانے اور مسلح تحریک کے غالب آجانے میں تنہا کسی ایک عنصر او رکسی ایک طاقت کاکردار نہیں ہے۔ ان قارئین کے لئے جن کی نظروں سے شام میں 2011 کے بعد رونما ہونے والے واقعات نہیں گزرے یہ جاننا ضروری ہے کہ آخر شام کے ’خاندانی حکمراں‘ بشاالاسد نے ایسا کیا کررکھاتھا جو وہ شام کے 70 فیصد علاقوں میں انتہائی غیر مقبول ہوگئے تھے۔ فرار کے وقت بشاالاسد عملاً شام کے محض 30 فیصد علاقوں پر حکمرانی کررہے تھے۔ میں نے 2011-12 میں انقلاب میں اس سلسلہ کے چار مضا مین لکھے تھے۔یہاں تک دواہم اقتباسات کانقل کرنا ضروری ہے۔ ایک مضمون کا پہلا پیراگراف یہ تھا: ”حلب کی تباہی نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو تڑپا کر رکھ دیا ہے۔ سچ کہئے تو یہ محض حلب کی تباہی نہیں تھی بلکہ’یزیدان وقت‘ کے ہاتھوں حسینی شامیوں کا قتل عام تھا۔ایسا ظلم وجبر اور دشمنوں کے ساتھ مل کر اپنوں کی ایسی قتل وغارت گری ماضی قریب میں کہیں دیکھی نہیں گئی تھی۔ کم و بیش ساڑھے تین دہائی قبل 60 ہزار افراد کو شہید کرکے جو بربادی قاتل بشاالاسد کے باپ حافظ الاسد نے مچائی تھی اب وہ بہت ہلکی او رپھیکی معلوم ہورہی ہے۔حافظ الاسد نے ’باغیوں‘ کی پوری بستی پر بلڈوزر چلوا کر محض چار گھنٹوں میں ایک پارک بنادیا تھا۔ لیکن اس کا مکروہ صفت بیٹا تو اس سے ہزار قدم آگے نکل گیا ہے“۔
اس ایک پیراگراف سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اب سے 12-13 سال پہلے بشاالاسد نے حریت پسند پر کیسے مظالم ڈھائے تھے۔حلب کی تباہی کے حوالہ سے لکھے گئے ایک اور مضمون کا پیراگراف اس طرح تھا: قاتل بشاالاسد نے روس او رایران کے ساتھ مل کر بے قصور شہریوں سمیت جن ’باغیوں‘ کو کچلا ہے وہ فی الواقع باغی نہیں تھے۔ انہیں اقوام متحدہ نے باقاعدہ ایک جائز اپوزیشن کے طور پر تسلیم کررکھا ہے۔ اس لئے انہیں دہشت گرد گروہ نہیں کہا جاسکتا۔ وہ بشار سے لوہا لینے کے لئے کہیں باہر سے نہیں آئے تھے۔ حلب شام کا ایک زرخیز صوبہ ہے جہاں ملک کی مجموعی آبادی کا 25فیصد حصہ آباد ہے۔ یہاں کے لوگ جفاکش اور محنتی ہیں۔وسائل سے بھرپور اس صوبہ سے پورا ملک فائدہ اٹھا تاہے لیکن خود اسی کے مکین ان وسائل سے محروم ہیں۔
ایک اور مضمون کا ایک پیراگراف یہ تھا: ”شستہ عربی زبان کے لئے مشہور شام کوئی غریب یا وسائل سے خالی ملک نہیں ہے۔ اس کے باوجود 2013 کی رپورٹ کے مطابق مواقع اور وسائل کی غیر منصفانہ فراہمی کاحال یہ ہے کہ ڈھائی کروڑ کی آبادی والے ملک میں انٹر نیٹ اور ٹیلی فوج کے 37لاکھ کنکشن ہیں۔ ٹیلی ویزن سا ت فیصد او ر ریڈیو 27فیصد لوگوں کے پاس ہے۔ محنت کش بڑی آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے مگر وسائل پر کم تعداد کی شہری آبادیوں کا تصرف ہے۔ شرح خواندگی 84 فیصد ہے مگر سیاسی آزادی نہ ہونے کے سبب لوگ اپنے حقوق سے باخبر نہیں۔ قانونی طور پر صرف ایک ہی(بددین) سیاسی جماعت ہے۔ صدر کو سات سال کے لئے ریفرینڈم کے ذریعہ منتخب کیاجاتاہے۔ سنیوں کی تعداد 74فیصد ہے 12فیصد علوی،10فیصد عیسائی اور چار فیصد دروز ہیں۔ حکمراں خاندان کا تعلق ’علویوں‘ سے ہے“۔
اب سوال یہ ہے کہ آخر گزشتہ 8دسمبر کو یہ کیسے ہوا کہ ادلب ’حلب‘ حمص اور درعا پر مکمل قبضہ کرنے کے بعد مسلح حز ب اختلاف کے جنگجو کسی مزاحمت کے بغیر شام کے دارالسلطنت دمشق میں داخل ہوگئے اور بشاالاسد خاموشی کے ساتھ فرار ہوگئے۔مختلف غیر مصدقہ تجزیات آرہے ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ اس پورے منظرنامہ کا اصل تخلیق کار ترکی ہے اور اس کے صدر رجب طیب اردوغان نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ کوئی ایران کوبھی اس نئی پیش رفت میں شامل بتارہا ہے۔ کوئی روس کوبھی اس کا کریڈٹ دے رہاہے۔ درپردہ کردار میں روس کے شامل ہونے کے امکان کی اس امر سے تصدیق ہوتی ہے کہ بشاالاسد کو اسی نے محفوظ راہداری سے نکال کر ماسکو میں پناہ دی ہے اور شام میں موجود اس کی فضائی عسکری قوت نے مسلح پیش قدمی کو نہیں روکا۔ ایران کی شمولیت کے امکان کی تصدیق اس امر سے ہوتی ہے کہ شام میں موجود اس کی عسکری قوت اور اس کے کمانڈروں نے خلاف معمول نہ بشاالاسد کی مدد کی او رنہ مسلح جنگجوؤں پر حملہ کیا۔ ترکی کی شمولیت کاامکان سب سے زیادہ قوی اس لئے ہے کہ شام کے 30 لاکھ پناہ گزین ترکی میں رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ 75ہزار شامی باقاعدہ ’رہائشی پرمٹ‘لے کر رہتے ہیں۔ظاہر ہے کہ اتنے عرصہ سے ترکی ان 30لاکھ شامیوں کی ضیافت کررہاہے تووہ ضرور چاہے گا کہ پناہ گزین جتنی جلد ممکن ہو اپنے ملک کو لوٹ جائیں۔ اب سنا ہے کہ مختلف ملکوں (بشمول ترکی) میں موجود شامی پناہ گزینوں نے لوٹنے کاعمل شروع بھی کردیاہے۔ لہٰذا یہ بھی ممکن ہے کہ مذکورہ تینوں ممالک نے مل کر اس صورتحال کو ممکن بنایا ہو۔
بشاالاسد کے مکروہ قضیہ کا ایک غیر سرکاری کردار ’حز ب اللہ‘ بھی تھی۔ حزب اللہ کا ہیڈ کواٹر شام سے متصل عرب ملک لبنان میں واقع ہے۔ شام اور لبنان سے اسرائیل کی سرحد ملتی ہے۔ حز ب اللہ کا دعوی ہے کہ وہ فلسطینیوں کی حامی اور اسرائیل کی مخالف ہے۔ کئی بار اس کی اسرائیل سے جنگ بھی ہوئی ہے۔ اس بار بھی اس نے اہل فلسطین یا حماس کے لئے اسرائیل سے لوہا لیا بھی ہے۔ اسرائیل بھی حزب اللہ سے گھبراتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے جس طرح 2006 میں حزب اللہ کے ساتھ 36 دن کی جنگ کے بعد ہی سمجھوتہ کرلیا تھا اس بار بھی دومہینے کی جنگ کے بعد جنگ بندی پر راضی ہوگیا۔ لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ حزب اللہ اس خطہ میں ایران کے مفادات کی محافظ کے طور پر بھی کام کرتی ہے۔ ایران کے کہنے پر بشاالاسد کے باپ حافظ الاسد نے حزب اللہ سے مراسم قائم کئے تھے۔ رپورٹس بتاتی ہے کہ ایران کے ذریعہ حزب اللہ کیلئے بھیجے جانے والے ہتھیار شام کے راستے حزب اللہ تک پہنچتے تھے۔ مگر بشاالاسد ہتھیار وں کاانتخاب اپنی مرضی سے کرتے تھے۔ مگر بشاالاسد کے برسراقتدار آنے کے بعد ایران شام اور حزب اللہ کے مثلث کے درمیان مراسم میں شدید مضبوطی آئی اور ایران نے جو ہتھیار بھیجنے چاہے بلاروک ٹوک بھیج دئے۔ اس کے بدلے میں حز ب اللہ نے حریت پسندوں کی مسلح ’بغاوت‘ کومتعدد بار کچلا بھی ہے۔سچ تو یہ ہے کہ نہ صرف حز ب اللہ نے بلکہ ایران اور روس نے بھی اپنے کمانڈروں اور فوجیوں کے ذریعہ ایسی ہر تحریک کو بے رحمی سے کچل کر رکھ دیا۔لیکن اس بار ایسا نہیں ہوسکا۔
بشاالاسد کے فرار کا پہلا نتیجہ ان ہزاروں شامیوں کی رہائی کی صورت میں نکلا جنہیں برسوں سے ایسی جیلوں میں بند رکھا گیا تھاجہاں سورج کی ایک کرن تک نہیں پہنچتی۔ مسلح جنگجوؤں نے ایسی ایسی جیلوں کا پتہ لگایا ہے کہ جن کا ایک صحیح العقل انسان تصور بھی نہیں کرسکتا۔ متعدد قیدی اپنا ذہنی توازن کھوچکے ہیں۔ متعدد رہاشدگان اپنے گھروالوں کو دیکھ کر فرط حیرت سے پاگل ہوگئے ہیں۔ ہزاروں عورتوں او ربچوں کو بھی جیلوں سے نکالا گیا ہے۔معلوم ہوا ہے کہ بشاالاسد کی فوج میں ایسے بھی شیطان کمانڈر تھے جو معتوب قسم کے قیدیوں کوبھوکے شیروں کے پنجروں میں ڈال دیا کرتے تھے۔ایسے ایک کمانڈر کو حال ہی میں پھانسی دی گئی ہے۔ متعدد جیلیں ایسی ہیں کہ جن کے اندر تک جانے کا راستہ نہیں مل رہاہے۔ کئی جیلوں کی چھتوں کو کاٹ کر قیدیوں کو باہر نکالا گیا ہے۔
گزشتہ 13دسمبر کو شام کے عوام نے پانچ دہائیوں کے بعد پہلی بار اتنی آزادی کے ساتھ جمعہ کا دن گزارا۔پورا شام ہی جشن میں ڈوبا ہوا تھا۔ تمام بڑی مساجد نمازیوں سے بھری ہوئی تھیں۔ سڑکوں پر لوگ اللہ اکبر کے نعرے لگاتے رہے اور آزادی کی خوشی کے نغمے گاتے رہے۔جامع مسجد بنو امیہ میں شام کے عبوری حکمراں محمدالبشیر نے خطبہ دیا۔نئے حکمرانوں نے کہا ہے کہ شام میں رہنے والے تمام طبقات اور فرقوں کو مسافی مواقع دئے جائیں گے اور کسی کے ساتھ مذہبی یا مسلکی بنیادوں پر امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔ نئے حکمرانوں کے سامنے ایک نہیں درجنوں چیلنجزہیں۔ جہاں تمام طبقات کو مساوی حقوق دینے کا چیلنج ہے وہیں کم سے کم سات مسلح گروپوں کو بھی ایک پلیٹ فارم پر لاکر ملک کو ایک بہتر اور کارگر نظام حکومت دینے کا بھی چیلنج ہے۔قومیت پرست گروپوں کے علاوہ ایک دوشدت پسند گروپ بھی ہیں اور ان سے نپٹنا بھی ایک چیلنج ہوگا۔ نئے حکمرانوں کو عالمی قوانین کے معیار کے مطابق خود کو ثابت کرنا اور خود کو دنیا کے تمام بڑے ممالک سے تسلیم کرانابھی چیلنج ہوگا۔
ادھر دنیا کا سب سے بڑا ظالم وغاصب ملک اسرائیل بھی اپنی شیطانیت سے باز نہیں آرہاہے۔ شام کے لوگ ایک مشکل سے نکل کر دوسری مشکل میں مبتلا ہوگئے ہیں۔اسرائیل نے سینکڑو ں حملے کرکے ملک میں موجود سرکاری اور غیر سرکاری عسکری طاقت کو برباد کردیاہے۔ ایسے میں ایک خطرہ بھی پیدا ہوگیاہے کہ اسرائیل شام کے کچھ علاقو ں پر قبضہ کرسکتا ہے۔ بہر حال ابھی نہیں کہاجاسکتا کہ ان تمام چیلنجز کامقابلہ وہ گروپ کس طرح کرسکیں گے جنہیں ابھی تک ایک جابر کا سامنا تھا اور جن کا زیادہ وقت اسی سے مقابلہ کرنے میں نکل گیا۔ شام کے احوال کوبگڑنے سے بچانے میں بلاشبہ اس کے پڑوسی ملکوں ’ایران، عراق، لبنان اور ترکی کا بھی بڑا کردار ہوگا۔اسی طرح عرب لیگ کو بھی کوئی کردار اداکرناہوگا۔عرب لیگ کے ایک موثر ترین ملک سعودی عرب نے شام کے احوال کو بہتر بنانے میں تعاون کرنے کا اشارہ دیاہے۔ اس نے اسرائیل کی جارحیت پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ دنیا کی توجہ غزہ کی بربادی سے ہٹ کر شام کی طرف ہوگئی ہے۔ لیکن بعض حلقوں کے اس الزام میں کوئی صداقت نظر نہیں آتی کہ غزہ کی طرف سے توجہ ہٹانے کیلئے ہی شام میں تختہ پلٹ ہوجانے دیا گیا۔ یہ تو اللہ کانظام ہے۔ ہر ظالم کا یہی انجام ہونا ہے۔ ہمارا یقین ہے کہ اہل فلسطین پر ظلم کرنے والو ں کا بھی جلد یا ابدیر یہی انجام ہوگا۔
15 دسمبر،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
-------------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/tragedy-oppression-syria-nation-turmoil/d/134074
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism