سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
16 جولائی 2024
پیغمبر اسلام ﷺ کے اہل
بیت کو یزید کی فوج نےیزید کے حکم پر 10 اکتوبر 680ء اور 58 ھجری کو 10ویں محرم
الحرام کو جس مقام پر شہید کیا تھا وہ میدان کربلا تھا جو دریائے فرات کے کنارے
واقع تھا۔ فرات کا لغوی معنی پیاس بجھانے والی ہے۔ اس دریا کا المیہ یہ ہے کہ یہ
اہل بیت کی پیاس نہیں بجھا سکا تھا۔ یہ دریائے فرات صرف شہادت اہل بیت کا ہی گواہ
نہیں ہے بلکہ تاریخ انسانی کے دیگر اہم واقعات و سانحات کا بھی گواہ رہا ہے۔
دریائے فرات ترکی کے کوہ ارارات سے نکلتا ہے۔ یہ کوہ ارارات وہی مقام ہے جہاں
کشتیء نوح آکر ٹھہری تھی ۔ فرات ترکی سے ہوتی ہوئی عراق اور شام سے گزرتی ہے اور
خلیج فارس میں گرتی ہے۔ اس ندی کی لمبائی 2800 کلو میٹر ہے۔ یہ شام میں عرفہ نامی
شہر سے بھی گزرتی ہے جہاں نمرود نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈلوایا
تھا۔ یہ عراق میں موصل سے بھی گزرتی ہے جہاں 2014ء سے 2017ء تک دہشت گرد تنظیم
داعش نے انسانیت کو شرمسار کرنے والے مظالم ڈھائے تھے۔
دریائے فرات کا ایک المیہ
تو یہ ہے کہ وہ اہل بیت کی پیاس نہ بجھا سکا۔ اس کا دوسرا المیہ ہی ہے کہ یہ دریا
رفتہ رفتہ خشک ہورہا ہے اور سائنسداںوں کا قیاس ہے کہ یہ 2040ء تک پوری طرح خشک ہو
جائے گا۔ جس دریا نے حضرت نوح علیہ السلام سے لیکر آج تک دنیا کے ایک بڑے حصے ک
سیراب کیا اور انسانی تہذیب کی آبیاری کی وہ آیندہ چند دہائیوں میں پوری طرح خشک
ہو جائے گا۔ دراصل دریائے فرات کے خشک ہونے کی پیشینگوئیاں کئی احادیث میں بھی
بیان ہوئی ہیں۔ بخاری اور صحیح مسلم۔کی کئی رویتوں میں دریائے فرات کے خشک ہونے
اور اس میں سونے کا پہاڑنمودار ہونے کی پیشینگوئی کی گئی ہے۔ ان حدیثوں کے مطابق
قرب قیامت میں دریائے فرات خشک ہو جائے گا اور اس میں سے سونے کا پہاڑ نمودار
ہوگا۔ اس سونے کو حاصل کرنے کے لئے بہت خونریز جنگ ہوگی اور اس جنگمیں سو میں سے
ننانوے افراد مارے جائینگے۔ ان میں سے ہر شخص اسی خوش فہمی میں مبتلا ہوگا کہ وہ بچ
جائے گا۔ حضور ﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اس سونے میں سے کچھ نہ لیں۔
دریائے فرات سے متعلق
حضورپاکﷺ کی پیشینگوئی اب سچ ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ دریائے فرات رفتہ رفتہ خشک
ہورہا ہے اور کئی مقامات پر پانی بہت کم ہوگیا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ترکی ، عراق
اور شام میں دریائے فرات پر 22 ڈیم بنائے گئے ہیں۔ان ڈیموں کی وجہ سے فرات میں
پانی کی کمی ہورہی ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ترکی اس حدیث کے مد نظر
منصوبہ بند طریقے سے دریائے فرات کو خشک کرنے کی کوشش کررہا ہے تاکہ وہ اس میں
چھپے ہوئے سونے کے ذخیرے کو حاصل کرلے۔ حکومت ترکی کی طرف سے جاری رپورٹوں یہ واضح
ہوتا ہے کہ اس کی مائننگ کمپنیوں نے گزشتہ چند برسوں میں سونے کے کئی بڑے ذخائر کا
پتہ بھی لگا لیا ہے اور ہرسال سینکڑوں ٹن سونا حاصل کررہا ہے۔ وہ سونے کی پیداوار
میں اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ 2001ء رواں سال تک ترکی نے 550 ٹن سے زیادہ
سونا حاصل کرلیا ہے۔ معدنیاتی سائنسدانوں کے مطابق ترکی میں کم۔از کم 4500 ٹن سونا
موجود ہے جس کی مالیت بین الاقوامی مارکیٹ میں اربوں روپئے ہے۔ اب تک ترکی نے جتنا
سونا حاصل کرلیا ہے وہ کئی ممالک کی جی ڈی پی سے کئی گنا زیادہ ہے۔
ایسے میں اگر دریائے فرات
کی تہہ میں بھی سونے کا ایک بڑا ذخیرہ دریافت ہوگیا تو اس سونے کے ذخیرے کے لئے
مغربی اور مشرقی ممالک میں بھیانک جنگ ہوگی جس کی پیشینگوئی احادیث میں کردی گئی
ہے۔ظاہر ہےاس جنگ میں نیوکلئیر ہتھیاروں کا بھی استعمال ہوگا ۔ان ہتھیاروں کی تباہ
کاری کے نتیجے میں سب تباہ ہو جائیں گے جب کہ ہر ملک کو یہی یقین ہوگا کہ وہی فتح
یاب ہوگا۔ اسی لئے مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اس جنگ میں شریک نہ ہوں
کیونکہ اس جنگ میں کسی کو تباہی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
دریائے فرات جو ابتدائے
تاریخ انسانی سے کئی بڑے واقعات و سانحات کا گواہ رہا ہے، غالباً چوتھی جنگ عظیم
کا بھی گواہ بنے گا جو سونے کے ذخائر کے لئے لڑی جائے گی اور یہ جنگ بھی جنگ کربلا
کی طرح فرات کے ساحل سے ہی شروع ہوگی۔قرائن تو یہی بتارہے ہیں۔
-------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism