ڈاکٹر یوسف رامپوری
12 اگست،2024
یہ عالم اسلام کا بہت بڑا
المیہ ہے کہ وہ 57 ممالک پر مشتمل ہونے کے باوجود بین الاقوامی سطح پر اپنا کوئی
اثر ورسوخ نہیں رکھتا او رعہد رواں کی عالمی طاقتوں کے دباؤ میں نظر آتاہے۔ جب کہ
اپنی تعداد او رآبادی کے لحاظ سے اسے خود
ایک ایسی متحدہ طاقت ہوناچاہئے تھا کہ عالمی طاقتیں اس کی حیثیت کو تسلیم کرنے
پرمجبور ہوتیں لیکن آج بڑی طاقتیں یا ممالک تو کیا چھوٹے چھوٹے ملک میں بھی پورے عالم اسلام کی متحدہ آواز کو یکسر نظر
انداز کردیتے ہیں اور اسے سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ اس کی کتنی ہی مثالیں ہمارے سامنے
ہیں کہ مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی کی طرف سے جاری کردہ اپیلوں او رمطالبوں پر
کوئی دھیان نہیں دیتا۔سوال یہ ہے کہ آخر وہ پلیٹ فارم جس پر دنیا کے 57 ممالک کھڑے
ہوئے ہیں، اتنا کمزور کیوں ہے کہ اپنی طرف سے کوئی مضبوط فیصلہ بھی نہیں لے سکتا
او رنہ ہی اپنے فیصلے پر عمل درآمد کرانے کی طاقت رکھتاہے۔ اگر ایسا ہوتا تو آج
پورے غزہ شہرکو تباہ وبرباد نہ کردیا گیا ہوتا اور ہزارو ں چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں
او ر عورتوں کو بمباری کی زد میں آکر لقمہ اجل نہ بننا پڑتا۔
جب ہم عالم اسلام کی بے
بسی وکمزوری کی وجوہات پر غور وخوض کرتے ہیں تو ہمیں اس کمزوری وبے بسی کے پیچھے
ایک دو یا دوچار نہیں بلکہ بہت سی وجوہات نظر آتی ہیں، جن میں سے ایک بڑی وجہ یہ
بھی دکھائی دیتی ہے کہ موجودہ عہد میں زیادہ تر مسلم ممالک اندرونی اتھل پتھل کے
شکار ہیں۔ رواں صدی میں ہم نے کئی مسلم ملکوں میں انقلابات کی تیز و تند آندھیاں
دیکھی ہیں اور آج بھی کئی مسلم ملکوں میں اندرونی کشمکش جاری ہے۔ اندرونی خلفشار
کا ایک بڑا نقصان تو یہ ہوا کہ یہ ممالک آج بھی سیاسی، اقتصادی او رمعاشرتی
استحکام سے کوسوں دور ہیں، دوسرے یہ کہ یہ ممالک بین الاقوامی سازشوں کی آماجگاہ
بن گئے اورعالمی طاقتوں کے چنگلو ں میں اس
طرح پھنس گئے کہ اب چاہنے کے باوجود بھی ان سے جلد چھٹکارہ نہیں پاسکتے۔ہم نے
دیکھا ہے کہ بین الاقوامی سازشوں کے نرغے میں آکر تیونس، لیبیا، مصر، سوڈان، عراق،
افغانستان، یمن، شام جیسے درجنوں ملکو ں کو شدید نقصان اور عدم استحکام سے دوچار
ہوناپڑا۔ حیران کن امریہ ہے کہ بہت سے مسلم ممالک کی اندرونی تصادم و کشاکش
کاسلسلہ ہنوز جاری ہے جس کے سبب آج بھی وہ امن و سلامتی اور سیاسی مضبوطی و
استحکام سے محروم ہیں۔ الجزائر، یمن، پاکستان، عراق، اور شام جیسے ممالک کے بارے
میں تو ہم سنتے او رپڑھتے ہی رہتے ہیں مگرکچھ او ربھی ایسے ملک ہیں جن کے اندرونی
اختلافات کی گھن گرج عالمی فضاؤں میں تو سنائی نہیں دیتی مگر اندر اندر وہ بھی
کھوکھلے ہوتے جارہے ہیں کہ نہ جانے کب حالات کی ستم ظریفیوں کے معمولی زلزلوں کے
جھٹکے ان کی ظاہری پرُشکوہ عمارتوں کو زمین بوس کردیں۔ اسکی ایک تارہ ترین مثال
بنگلہ دیش کا حالیہ انقلاب ہے۔
چند ہفتے قبل تک کوئی یہ
اندازہ بھی نہیں کرسکتاتھا کہ عنقریب بنگلہ دیش میں تاج وتخت زیر وزبر ہوجائے
گا۔وہاں کی حکومت اور سیاست پر اپنا غلبہ رکھنے والے حکمراں و افسران اپنا سب کچھ
چھوڑ کر راہ فرار تلاش کرتے پھریں گے او ربڑے بڑے عہدوں سے مستعفی ہوکر اپنی
زندگیوں کو بچاتے ہوئے نظر آئیں گے اور تاج وتخت معمولی سمجھے جانے والے لوگوں کو
ٹھوکروں میں آن پڑے گا۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ سب اچانک ہوا، مگر ایسا بالکل
بھی نہیں ہے۔ اتنے بڑے انقلاب و تغیرات دفعتاً رونما نہیں ہوجاتے۔ یقینا ان کے
پیچھے سالہاسال کی کشمش کار فرما ہوتی ہے اورجن ممالک میں اس طرح کے حالات آتے
ہیں، وہ اچانک ملکوں او رحکومتوں کی ان کمزوریوں کو منکشف کردیتے ہیں جو دبیز
چادرو ں کے نیچے دبی ہوئی ہوتی ہیں۔ بنگلہ دیش کے حالیہ انقلاب نے یہ بات بالکل
آشکار کردی ہے کہ یہ ملک چاہے کتنا ہی ترقی پذیر یا مضبوطی کی طرف بڑھتا ہوا
دکھائی د ے رہا تھا،مگر سچائی یہ تھی کہ وہاں ایک کھوکھلا پن تھا اور اپنے قیام کے نصف کے بعد بھی مضبوطی و
استحکام سے محروم تھا۔ جب کہ کسی ملک کو آگے بڑھنے او رمضبوط ہونے کے لیے پچاس سال
کا عرصہ اچھا خاصا ہوتا ہے،لیکن حیرت ہے کہ پانچ دہائیوں کے گزرنے کے بعد بھی
بنگلہ دیش آج بالکل وہیں کھڑا ہوا ہے جہاں شاید اپنے قیام کی پہلی دہائی میں کھڑا
ہوا تھا۔یہ ملک 1971 ء میں اس لیے الگ ہوا تھا کہ اس کا اپنا ایک مستحکم وجود
ہوگا۔لیکن افسوس پاکستان کی طرح یہا ں بھی کھینچا تانی اور رسہ کشی کاسلسلہ شروع
ہوگیا۔ ذرا غور کرکے دیکھئے کہ بنگلہ دیش کے قیام کے چند برسوں بعد ہی بانی بنگلہ
دیش شیخ مجیب الرحمن کو ان کے خاندان سمیت بے رحمی سے قتل کردیا گیا تھا۔ اس کے
چند برسوں بعد بنگلہ دیش کے صدر ضیاء الرحمن کی بھی وہی درگت کی گئی۔ بعد ازاں
خالدہ ضیا اور شیخ حسینہ کے مابین ہرموڑ پر کشمکش دیکھی گئی۔ اس اثناء میں کتنے
لیڈروں کو پابند سلاسل کیا جاتارہا، کتنوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، کتنی جماعتوں
اور لیڈروں پر پابندیاں لگائی گئیں، کتنی آوازوں کو بزورطاقت دبایا گیا۔ سابق
وزیراعظم خالدہ ضیاء کو بھی جیل کی سلاخوں کا منہ دیکھنا پڑا او روزیر اعظم شیخ
حسینہ کو بھی وقتاً فوقتاً بنگلہ دیش کی سیاست میں کئی بار سخت ترین حالات کا
سامنا کرنا پڑا اور بالآخر ان کے خاندان کے نام کاصفایا کرنے کے واسطے ان کے والد
او ربنگلہ دیش کے قیام کے ہیرو کے نام و نشان تک کو مٹانے کے مقصد سے ان کے مجسموں
تک کو اکھاڑ پھینک دیا گیا۔ یہ صورت حال اس بات کی غماز ہے کہ بنگلہ دیش کے قائدین
و عمائدین گزشتہ نصف صدی کے دوران سیاسی سطح پر اپنے ملک کو مضبوط کرنے میں ناکام
رہے۔
ایسے ہی ناگفتہ یہ حالات
ہمیں بنگلہ دیش کے شعبہ اقتصادیات میں بھی نظر آتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ گزشتہ
کچھ برسوں کے دوران بنگلہ دیش کی معیشت کے حوالے سے اچھی خبر یں سننے کو ملتی رہیں
لیکن آج جب کہ بنگلہ دیش کی معاشی بدحالی کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں تو بنگلہ
دیش کی معیشت کے حوالے سے شائع ہونے والے اعداد وشمار کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا
جانے لگا ہے۔ پڑھے لکھے طبقے کی بے روزگاری اس طو رپر اظہر من الشمس ہوگئی کہ
حالیہ انقلاب کا بڑا سبب ان کو سرکاری ملازمتوں سے دوررکھنا اوران کا مسلسل بے
روزگاری کی مار جھیلنا تھا۔ سرکاری ذخیرے پر چند فیصد لوگوں کی جارہ داری نے ایک
بہت بڑے طبقے کو معاشی بدحالی سے دوچار رکھا۔ علاوہ ازیں شہر سے دور کے دیہی
وقصباتی علاقوں میں بھی غربت ومفلوک الحالی کے بہت سے واقعات بنگلہ دیش کے ناگفتہ
بہ معاشی حالات کو زبان حال سے بیاں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اگر ہم بنگلہ دیش کی
معاشرتی صورت کا جائزہ لیں توہمیں یہاں بھی مایوسی نظر آتی ہے۔کہنے کوتو بنگلہ دیش
ایک مسلم ملک ہے مگر معاشرتی سطح پر جو بنگلہ دیش میں ہوتا ہے، اس کااسلام سے دور
کا بھی واسطہ نہیں ہوسکتا۔ معاشرتی وثقافتی نقطہ نظر سے بنگلہ دیش آج بھی اصلاحات
سے بہت دور ہے۔ تعلیمی وتربیتی سطح پر بھی بنگلہ دیش میں کوئی خاص ترقی نظر نہیں
آتی۔ آج بھی بنگلہ دیش کی بہت بڑی آبادی ناخواندہ ہے اور تعلیم کے تئیں کوئی
دلچسپی نہیں رکھتی۔بنگلہ دیش کے اس پورے منظرنامہ کو دیکھ کر یہی سوال ذہن میں
آتاہے کہ آخر گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصے میں بنگلہ دیش مضبوط کیوں نہیں ہوسکا اور
جن لوگوں کے ہاتھوں میں اس ملک کی زمام اقتدار رہی انہوں نے کیا کیا؟ تشویش کی بات
یہ ہے کہ یہ صورت حال صرف بنگلہ دیش کی ہی نہیں بلکہ دیگر او ربہت سے مسلم ملکوں
کی بھی ہے جو گزشتہ ایک صدی کے دوران بھی اپنے آپ کو مضبوط نہیں کرسکے۔ظاہر ہے کہ
جو ممالک اندرون ملک اس قدر کمزور یوں میں مبتلا ہوں ان سے بیرون ملک کوئی اہم رول ادا کرنے کی توقع نہیں کی
جاسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ آج پوری مسلم دنیا عالمی سطح پر کوئی کردار ادا کرنے سے
قاصر دکھائی دیتی ہے او ربیرونی حملوں سے
اپنے کسی ملک کی حفاظت کی بھی سکت نہیں رکھتی۔
12 اگست،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism