New Age Islam
Fri Jul 18 2025, 01:14 PM

Urdu Section ( 4 Jun 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Tradition of Objective Study Of Religions مذاہب کے معروضی مطالعہ کی روایت

ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام

4 جون 2025

 مذاہب و ادیان اور افکار و نظریات کے مطالعہ کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ جب کسی دوسرے مذہب کا مطالعہ کیا جائے تو معروضی طریقہ اختیار کیا جائے ۔ واضح رہے کہ تحقیق و تفتیش اور تصنیف و تدوین میں خواہ اس کا تعلق کسی بھی موضوع سے ہو معیاری تحقیق وہی کہی جاتی ہے جس میں جانبداری اور طرفداری نہ پائی جاتی ہو ۔ مذاہب کے اسکالر پر یہ ذمہ داری مزید عائد ہوتی ہے کہ وہ ان حقائق و معارف کو بروئے کار لائے جو سماج میں خیر سگالی اور ہمدردی کا ذریعہ ثابت ہوں۔

معروضی تحقیق اور مطالعہ کا اثر سماج پر مثبت مرتب ہوتا ہے اور اس سے جو نتائج برآمد ہوتے ہیں وہ بھی بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ۔

مذاھب کا معروضی مطالعہ سماجی یکجہتی اور قومی اتحاد و یگانگت کے لیے بھی ضروری ہے۔ تاریخ شاہد کہ جب بھی لوگوں نے مذاہب کا مطالعہ معروضی انداز میں نہیں کیا ہے تو اس کے نتائج مایوس کن برآمد ہوئے ہیں ۔  مثلا مستشرقین نے اسلام کے حوالہ سے جو تحقیقات  پیش کی ہیں ان میں عصبیت اور اسلام دشمنی کی بو آتی ہے ۔ مستشرقین کی تحقیقات کے جو منفی اثرات سماج ہر مرتب ہوئے ہیں یا  ہورہے ہیں وہ کسی کی نظروں سے مخفی نہیں ہیں ۔ اسی کا اثر ہے کہ اسلامو فوبیا جیسی اصطلاح  ایجاد کرکے عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کی کردار کشی کی جارہی ہے اور انہیں تشدد و انتھاء پسندی سے جوڑ کر دیکھا جارہا ہے ۔ مستشرقین کا اسلام کے متعلق یہ غیر منطقی اور غیر فطری عمل ابھی بھی جارہی ہے ۔ مطالعہ اور تحقیق کی افادیت و اہمیت کو دیر پا بنانے کے لیے بنیادی طور محقق ، نقاد اور مطالعہ کرنے والے کو معروضیت کے اصولوں کو مد نظر رکھ کر کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ کسی بھی موضوع پر مطالعہ اور تحقیق کی روح معروضیت ہی ہے۔

دوسری مثال یہ دی جاسکتی ہے کہ عہد حاضر میں ہندوستان جیسے متنوع عقائد و نظریات والے ملک میں اسلام اور مسلمانوں کی بابت جو سوچ اور نظریہ پروان چڑھ رہا ہے اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ جو لوگ بھی اسلام کا مطالعہ کررہے ہیں وہ پہلے سے ایک آئیڈیا لوجی اور فکر سامنے رکھ کر کر رہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں مسلمانوں کا ہر عمل اور اسلام کی جملہ تعلیمات میں نقص نظر آتا ہے (نعوذ باللہ) اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے بھارت میں اس رویہ کے مظاہر تو بہت پہلے سے پائے جارہے ہیں البتہ اس میں تیزی اور کثرت گزشتہ چند برسوں سے آئی ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ تعصب اور نفرت کی انتھاء ہوچکی ہے یہی وجہ ہے کہ ہر روز مسلمان کہیں نہ کہیں اس نفرت کا شکار ہورہے ہیں ۔  ملک کی سالمیت اور تہذیبی قدروں کی بحالی ،نیز سماجی رابطوں کی عظمت رفتہ کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کا مطالعہ تعصب و تنگ نظری کی عینک لگا کر نہ کیا جائے ۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو اس سے ہندوستان کی عظمت پر داغ آئے گا جو ہم سب کی آن بان اور شان ہے ۔

ایک دور وہ تھا جب وطن عزیز کی ہندو برادری نے اور ہندو محققین و مصنفین نے اسلام کا مطالعہ معروضی انداز میں کیا اور انہوں نے اس حوالے سے اپنی تحقیقات بھی پیش کیں جن کی اہمیّت آج بھی مسلم ہے ۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ بھارت کی سرزمین کا ایک ممتاز دانشور اور مفکر جس نے اسلام کی تعلیمات کا معروضی تجزیہ پیش کیا  اور ہندو مسلم اتحاد کی عملی شہادت پیش کی ۔ جی ہاں اس ممتاز شخصیت کا نام پنڈت سندر لال ہے۔  پنڈت سندر لال نے  اسلام اور محمد ، گیتا اور قرآن ، ہندو مسلم ایکتا اور سن ستاون جیسی کتابیں تصنیف کرکے  ہندو کمیونٹی کے لیے مطالعہ کےروشن خطوط متعین کیے ۔ اسی طرح اور بھی کئی ہندو منصفین ہیں جنہوں نے اسلام کا معروضی مطالعہ کیا ،  جن کی تحریریں اور افکار و نظریات آج بھی مشعل راہ ہیں ۔

اس لیے  مطالعہ مذاہب کے مثبت اثرات سے سماج اسی وقت ہمکنار ہوسکتا ہے جب کہ معروضی مطالعہ کیا جائے ۔ پنڈت سندر لال اور مالک رام یا دیگر مصنفین جنہوں نے اسلام کا مطالعہ بغیر کسی تعصب کے کیا ہےان کے وضع کردہ اصولوں اور ضابطوں کی روشنی میں آج کی ہندو کمیونٹی کو اسلام کے متعلق سوچنے اور اس پر کوئی تحقیقی عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔

نفرت کی بنیاد پر انجام دیا گیا ہر کام اور ہر نظریہ وقت کے ساتھ ساتھ معدوم ہو جاتا ہے البتہ اس کے منفی اثرات رہ جاتے ہیں جن کا نقصان ہماری نسلوں کو ہوتا ہے ۔ لہٰذا ہمیں اس پہلو پر بھی غور کرنا ہوگا ۔

اسی طرح جن مسلم مفکرین اور دانشوروں نے ہندو دھرم اور دیگر ادیان کا مطالعہ معروضی انداز میں کیا ہے ان کی تحریریں اور افکار و نظریات سے آج بھی استفادہ کیا جارہاہے اور دانشگاہوں میں باضابطہ تحقیق ہو رہی ہے ۔

اس کی واضح مثال ابو ریحان البیرونی کی کتاب الہند ہے۔ ابو ریحان البیرونی نے ہندو دھرم کے متعلق جو تحقیق اور مطالعہ پیش کیا ہے اس کا انداز معروضی ہونے کے ساتھ ساتھ شواہد و تجربات پر بھی مبنی ہے ۔

البیرونی ہندو دھرم پر کام کرنے والا ایسا محقق ہے جس نے ہندوستان میں رہ کر یہاں کی ہندو برادری اور پنڈتوں کے ساتھ میل جول کرکے گراں قدر کارنامہ تصنیف کیا ہے ۔ بیرونی کی ہندو مذہب پر تحقیق کی اہمیت آج بھی اسی لیے قائم ہے کہ اس نے تعصب کا سہارا نہیں لیا،  جو حقائق اسے ملے وہ اس نے من وعن پیش کردییے ہیں۔  آج اگر کوئی مسلم اسکالر ہندو دھرم کا مطالعہ کرنا چاہتا ہے یا کوئی تحقیق و تصنیف منصہ شہود پر لانے کا خواہاں ہے تو اسے سماج و قوم اور ملک میں ہم آہنگی اور رواداری قائم کرنے کے لیے ان خطوط کے مطابق تحقیق کرنی ہوگی جن رویوں کو بیرونی نے اختیار کیا ہے۔ گویا بیرونی کے معروضی طریقہ تحقیق نے سماج کے تقریبآ دانشوروں کو متاثر کیا ہے ۔ چنانچہ معروف اسلامی اسکالر پروفیسر اختر الواسع نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے:

" ہندوستان سے متعلق بیرونی کا علمی کارنامہ جسے ہم "کتاب الہند "کے نام سے جانتے ہیں، ہند شناسی کی بنیاد ساز کاوش ہے، اس کتاب میں البیرونی نے ہندو فلسفہ، ہندو مذہبی روایات اور رسوم و رواج کا نہایت معروضی مطالعہ پیش کیا ہے، جس میں اس کا اپنا عقیدہ کہیں بھی مزاحم نہیں ہوا ہے۔  اس ہمہ جہت اہل دانش نے اس کتاب کی تصنیف کے لیے سنی سنائی باتوں پر بھروسہ نہ کرتے ہوئے سنسکرت زبان میں مہارت حاصل کی اور ہندوستان کے کئی سفر کیے جس کے دوران یہاں کے اہل علم سے سرگرم رابطے کے ذریعے ان کے مبلغ علم تک پہنچنے اور ان کی اصلاحات کو سمجھنے کی ایسی کوشش کی کہ جس کی نظیر اور کہیں دکھائی نہیں دیتی۔  کتاب الہند ہند شناسی کا حرف آغاز ہونے کے ساتھ ساتھ مذاہب کے تقابلی مطالقہ کا پہلا سنگ میل بھی ہے اس میں جس تجرباتی اور استقرائی طریقے تحقیق سے کام لیا گیا ہے اس سے مذاہب کے معروضی مطالعے کی ایک نئی منہاج قائم ہوئی"

اسی طرح مطالعہ مذاہب پر معروضی انداز میں بحث کرنے والی ایک اور کتاب جو عہد مغلیہ میں تصنیف کی گئی ہے دبستان مذاہب کے نام سے ہے۔ اس کتاب میں مذاہب کا جس انداز میں مطالعہ کیا گیا ہے وہ اس بات کا شاہد ہے کہ مذاہب کا مطالعہ اس طرح کرنا چاہیے کہ جس کی بناء پر سوچ و فکر میں توسع پیدا ہو ۔

بالائی سطور میں مطالعہ مذاہب و ادیان سے متعلق پیش کی گئیں مثالیں ایسے مظاہر ہیں جو آج کے سماج کے لیے بہت کچھ پیغام دیتی ہیں ۔اسی طرح محققین و مصنفین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی تحقیقات میں معروضی طریقہ کو اختیار کریں یہی آج کی ضرورت ہے اور اسی نظریہ کی ترویج و استحکام کی بنیاد پر سماج کو کچھ دیا جاسکتا ہے ۔ علاوہ ازین کوئی ایسا راستہ نہیں ہے جو سماج میں امن و امان کے قیام میں ممد و معاون ثابت ہوسکے ۔ تحریر میں معروضیت پیدا کرنا اور محقق کا غیر جانبدار ہونا سماجی رشتوں کی بقاء کے لیے ناگزیر ہے ۔

 تعصب و تنگ نظری کی بناء ترتیب دیا گیا سرمایہ ہمیشہ سماج میں پرخاش اور دوریاں پیدا کرتا ہے اور جو کتابیں بھی اس نظریہ کو سامنے رکھ کر لکھی گئیں ہیں ان کا حشر ہمارے سامنے ہے ۔ معاشرے میں بقائے باہم کو فروغ دینے کے لیے لازمی طور مذاھب کے مطالعہ کے وقت معروضی انداز اختیار کرنا مصنف و مؤلف پر فرض ہے تاکہ کسی کی مذہبی روایات و اقدار مجروح نہ ہوں اور کسی کی مذہبی دل آزاری بھی نہ ہو سکے ۔

----------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/tradition-objective-study-religions/d/135775

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..