New Age Islam
Mon May 19 2025, 10:47 PM

Urdu Section ( 23 Dec 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Visit to the Famous Tomb of Sufi Sheikh Rukn-ud-Din Abul-Fath in Multan: A 13th Century Masterpiece روحانیت کا مسکن بر صغیرکے اہم بزرگان دین میں سے ایک صوفی شیخ رکن الدین ابوا لفتح کے 13ویں صدی میں ملتان میں تعمیر کئے گئے شہرہ آفاق مقبرہ کی زیارت کی روداد

شبیر شاد

20دسمبر،2024

گذشتہ ہفتے ایک قریبی عزیز کی شادی کے سلسلے میں پاکستان جانا ہوا ۔پہلے بھی پاکستان جانے اور وہاں کےعوام وخواص،ادباء ،شعراء، دانشوروں اور صحافیوں سےملنےکا موقع ملا۔ایک بار سابق وزیر اعظم آنجہانی اندرکمار گجرال کے ساتھ بھی جہلم میں واقع ان کا آبائی گھر دیکھنے کا موقع بھی ملا۔ لیکن اس بار کا جانا باقی دنوں سے مختلف تھا ۔مجھے پہلے کے پاکستان اور موجودہ پاکستان میں کافی فرق محسوس ہوا۔ آج کا پاکستان سیاست دانوں کی آپسی لڑائی کا شکار ہے۔مہنگائی،بےروزگاری اوربدعنوانی کے سبب موجودہ پاکستان مشکلات میں مبتلانظر آیا۔ اس بار ملتان میں معروف صوفی بزرگ شیخ رکن الدین رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پرجانے کی بھی خواہش تھی۔ یہاں پہنچتے ہی ایک عجیب سا روحانی سکون حاصل ہوتا ہے۔ گجرانوالہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کی اہم کمشنری میں شمار ہوتا ہے۔ تقسیم وطن کے بعد ہمارا پورا خاندان بھارت میں ہی رہاتاہم میرے تایا حاجی محبوب الہی پاکستان چلے گئے تھے۔

مقبرہ شاہ رکن عالم

----------

پچھلے دنوںمیرے بھتیجے انیس الرحمان کی بیٹی کی شادی کا دعوت نامہ ملا تو میں نے ایک ہفتہ کے سفر کا ارادہ کیا۔ ویزا کے لیے درخواست دی، وہاں سے آنے والے شادی کارڈ اوراپنا شناختی کارڈ وغیرہ جمع کرانے کے بعد مجھے ویزامل گیا۔اس دوران میں لاہور اور ملتان بھی دو دو دن کے لیے گیا ۔لاہور میں میرے دوست شکیل شمسی لاہور لارنس گارڈن کاسمو پولیٹن کلب کے رکن ہیں۔ وقت کی قلت کی وجہ سے طے ہوا کہ متعلقین کو وہیں مدعو کر لیا جائے تاکہ اپنے عزیز و اقارب ،شعرا ءاور ادباء حضرات جو پہلے سے مجھ سے واقف ہیں ان سے ملاقات ممکن ہوجائے۔ وہاں کلب کے چیئرمین ایم قادری‘ صدرظفر حسین‘ طارق ملک ‘جوار حسین شاہ ‘معروف قلم کار ڈاکٹر سعادت سعید (پروفیسر ایمرٹس جی سی یونیورسٹی لاہور) قمر بھائی شمس شانی شمسی ماورا پبلشر کے مالک خالد شریف اور ناہید صاحبہ سے ہند و پاک میں اردو ادب کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو رہی۔ گجرانوالہ کی شادی میں بھی وہاں کے چند صحافیوں اور دانشوروں سے ملاقات رہی۔ ملتان جانے کے لئے ارادہ کیا تو میرے رفیق انیس الرحمان اپنی روایت کا پاس رکھتے ہوئے اپنی کار سے مجھے ملتان لے گئے۔  ہم چار گھنٹے میں ملتان پہنچ گئے جہاں طارق فہیم، تصور رشید اور ان کے برادر اصغر سابق میئر اور سابق ممبر نیشنل اسمبلی ملتان طارق رشید وغیرہ سے ملاقات رہی ۔ سفر کے دوران میں نے فاتحہ کے لیے صوفی بزرگ شیخ رکن الدین کے مقبرے پر جانے کی خواہش کا اظہار کیا ۔ طارق رشید نے درگاہ کے ذمہ داران سے رابطہ قائم کیا ،ہم وہاں پہنچے تو ملک خالد نمائندہ اوقاف قصور بھٹی گدی نشین شاہ محمود قریشی کیئر ٹیکر قصور بھٹی اور مرزا عبد لرحمان ہمارے منتظر تھے ۔میرے ساتھ وہاں پہنچنے والوں میں طارق رشید، تصور رشید اور شیخ محمد عاصم سعید بھی تھے ۔درگاہ کے ذمہ داران کی جانب سے مجھ ناچیز کو اعزاز عطا کیا گیا۔مجھے اجرک سندھی ٹوپی اور تبرک دیا گیا۔ ایک گھنٹہ بعد ہماری واپسی ہوئی جو ایک یاد گار بن گئی۔ طارق رشید نے دوران گفتگو  بتایا کہ شاہ رکن عالم کا مقبرہ ، صوفی بزرگ شیخ رکن الدین ابوالفتح کا مزار ہے۔ اس درگاہ کو تغلق فن تعمیر کی ابتدائی نقوش کی مثال سمجھا جاتا ہے اور یہ برصغیر  ہندوو  پاک کے سب سے متاثر کن مزاروں میں سے ایک ہے۔ ایک لاکھ سے زیادہ عقیدت مندان ہر سال عرس پر منتیں مانگنے،چادر چڑھانے اور فاتحہ پڑھنے آتے ہیں۔ علاوہ ازیں سینکڑوں افراد روز ہی وہاں حاضری دیتے ہیں۔ عقیدت مندوں کے جم غفیر کو دیکھتے ہوئے انتظامیہ نے آن لائن حاضری کی درخواست کا بھی بندوبست کر رکھا ہے۔ عالمی شہرت کا یہ مقبرہ ملتان قلعہ کے شمال مغربی کنارے پر واقع ہے۔بتایا جاتا ہے کہ ۱۳۲۰ اور۱۳۲۴ عیسوی کے درمیان غیاث الدین تغلق نے مغلیہ عہد سے پہلے کے تعمیراتی انداز میں اس کو تیار کرایا تھا۔ مقبرے کو تغلق فن تعمیر کا ابتدائی نمونہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ مقبرہ اس وقت تعمیر کیا گیا تھا جب غیاث الدین دپل پور کے گورنر کی حیثیت سے مامور تھا۔ صوفی رکن عالم کو بہاؤ الدین زکریا کے مزار میں سپرد خاک کیا گیا ہے ۔بتایا جاتا ہے کہ موجودہ مقبرہ محمد بن تغلق نے رکنِ عالم کی اولاد کو تحفے میں دیا تھا ،مزار کی ترتیب سہرا واڑی مقبرے کی طرح ہے ، جس میں تین داخلی دروازے ، ایک مغربی چہرے والی محراب اور جنوبی محور پر ایک مرکزی دروازہ ہے۔ اسلام کی آرتھوڈوکس تشریحات کے مطابق  مکہ کے ساتھ مزار کے محور کو سیدھ میں کرنے کی کوشش کے طورپر مرکزی دروازہ کو مشرق میں منتقل کر دیا گیاتھا۔ ملتان کے فارس اور افغانستان سے مضبوط روابط تھے۔ وہ روابط جو قبرستان پر پائے جانے والے وسطی ایشیائی اور فارسی فن تعمیر کی طرز کے ہیں، بہت نمایاں نظر آتے ہیں ۔ جیسے اینٹوں ، چمکیلی ٹائلوں اور لکڑی کی چھتوں کا استعمال ۔یہ مزار ملتانی فن تعمیر کے اختتام کی نمائندگی کرتا ہے جو کبیروالا کے قریب مزار خالد بن ولید کے ساتھ شروع ہوا تھا۔مقبرہ تین درجے کا ڈھانچہ ہے۔ اگرچہ دوسرا اجتماعی درجہ ملتان کا مخصوص ہے ، آکٹون کی شکل میں پہلا درجہ قریبی مزار بہاؤ الدین زکریا اور اس سے قبل کے دیگر مزارات سے مختلف ہے جو مربع نما شکل میں ہے۔ پہلے درجے کا قطر ۱۵میٹر ہے اور دیواروں کی لمبائی چارفٹ ہے۔ پہلے درجے میں لکڑی کے بینڈ شامل ہیں جو بیرونی اینٹوں سے بنے کام میں ایک وقفے کو پیدا کرتے ہیں۔آکٹاگونل کا پہلا درجہ اس کے ۸ کونوں میں میناروں کے سائز والے چھوٹے ٹاورز کی مدد سے باندھا جاتا ہے جو اس ڈھانچے کو مدد فراہم کرتے ہیں۔ دوسرا آکٹون پہلے درجے پر قائم ہے جس میں عمارت کے آٹھ کونوں میں سے ہر ایک میں چھوٹے گنبد نمایاں ہیں۔

ایک تیسرا درجہ دوسرے کے اوپر رہتا ہے اور اس کا قطر گنبد۱۵ میٹر کے ذریعہ بنتا ہے۔ پوری ساخت۳۵ میٹر لمبی ہے ، ڈھلواں دیواروں کے ساتھ گنبد کو ہندو مندروں میں پائے جانے والے آمالکا کی ساخت سے ڈھانپا گیاہے۔مقبرہ پوری طرح سے سرخ اینٹوں سے بنا ہوا ہے ، شیشم کی لکڑی کے شہتیروں سے جڑا ہوا ہے ، جو صدیوں سے کالا ہے۔ بیرونی حصے میں لکڑی کے پینل ، کھدی ہوئی اینٹوں ، شٹرنگ کورسز اور بینڈمنٹ سے وسیع پیمانے پر زیور سجایا گیا ہے۔ مزار کے اوپری حصے پر بٹریس ، برج اور سرپٹاؤ یہاں تک کہ غیر عسکری عمارتوں پر بھی تغلق فوجی فن تعمیر کے اثر کو ظاہر کرتے ہیں۔ بیرونی حصے میں مزید پھولوں ، عربوں اور ہندسی نقشوں میں گہرے نیلے رنگ ، سرخ رنگ اور سفید ٹائلوں کے ساتھ علاقائی طرز کے ٹائلوںسے مزین ہے۔ یہ سب کچھ گہری سرخ باریک چمکتی اینٹوں سے بناہوا ہے۔ سفید گنبد نیلے رنگ کے ٹائل ورک کے ساتھ اس کے نچلے حصے میں سجا ہوا ہے۔  ابتدائی طور پر داخلہ کو وسیع ٹائل کے کام سے سجایا گیا تھا ، جسے بعد میں پلاسٹر  سے ڈھانپ دیا گیا ، حالانکہ مقبرہ کا وسیع و عریض داخلہ اب بڑی حد تک کھلا ہوا ہے۔ زمینی سطح پر طاق اندرونی جگہ کو مزید وسعت دینے کا کام کرتے ہیں۔ لکڑی کا محراب اس کی صنف کی ابتدائی مثالوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ رُکنِ عالم کا طعنوں کا مرکز قدرے دور ہے اور اس کے چاروں طرف ان کے ۷۲رشتہ داروں کی قبریں ہیں جو کربلا کی جنگ میں پیغمبر اسلام حضرت محمد کے پوتے ، امام حسین کے  شہید ۷۲ساتھیوں کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ ۱۹۷۰  کی دہائی میں محکمہ اوقاف پاکستان نے اس مقبرے کی مکمل مرمت اور تزئین و آرائش کرائی تھی ۔ پورا چمکتا ہوا داخلہ ملتان کے کاشیگروں یا ٹائل بنانے والوں کے ذریعہ کی گئی نئی ٹائلوں اور اینٹ ورک کا نتیجہ ہے۔یہ قبر یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ  کی عارضی فہرست میں شمار کی جاتی ہے ۔ راقم الحروف ملتان سے لاہور ہوتا ہوا واگہہ سرحد پار کرکے جمعہ کو اپنے وطن واپس آگیا ۔

20 دسمبر،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

--------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/tomb-multan-sufi-sheikh-rukn-ud-din-abul-fath/d/134105

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..