ڈاکٹر راشد شاز
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کےمختلف شعبہ ہائے علوم و فنون اور معاہد و مراکز میں مرکز برائے فروغ تعلیم و ثقافت مسلمانان ہند کو یہ خاص امتیاز حاصل ہے کہ ہندوستانی پارلیمنٹ نےیونیورسٹی ایکٹ 1981ء (5(2)سی) کے تحت اسے پورے ہندوستان میں مسلمانوں کے مابین تعلیم و ثقافت کے فروغ کا اختیار سونپ رکھا ہے۔ جہاں یونیورسٹی کے جملہ ادارے کوئی تیس ہزار طلباء و طالبات کی تعلیم و تربیت کا کام انجام دے رہےہیں وہیں صرف اس ایک مرکز کو ملک کے مختلف اطراف و اکناف میں پھیلے ہوئے بیس کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان تعلیم و ثقافت کے فروغ کاکام انجام دینا ہے۔
کوئی دو ڈھائی سال پہلے اس مرکز نے فارغین مدارس کےلئے برج کورس کے نام سے ایک سالہ کورس وضع کیا تھا ۔ ہماری خواہش تھی کہ دینی مدارس کےو ہ فارغین جو یونیورسٹی میں عربی ، فارسی ، اردو یا دینیات کے علاوہ دوسرے تمام علوم و فنون کے دروازے اپنے اوپر بند پاتے ہیں اور جو ایک طرح کی دائمی اور ناقابل تلافی احساس محرومی کے ساتھ یونیورسٹی لائف کی شروعات کرتےہیں، ان کےلئے بھرپور علمی زندگی جینے اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کا ایک باوقار راستہ نکل آئے ۔ یہ محض اللہ کا فضل ہے کہ پچھلے دو تین سال کے تجربوں نے نوجوان علماء و عالمات پر علوم و فنون کی نئی دنیا واکی ہے ۔ اس وقت ہمارے (برج کورس) طلبا ء و طالبات قانون، تجارت، سیاحت، معاشیات اور انگریزی ادب کے علاوہ مختلف عمرانی علوم کے شعبوں میں امتیازی کامیابیوں کے ساتھ حصول علم میں سرگرم ہیں ۔مسرت افزابات یہ ہے کہ انگریزی اسکول سے آنے والے اپنے ہم سبقوں کے مقابلے میں ان نئے علماء و عالمات کی کار کردگی کہیں بہتر ہے۔ نئے علما ء کا یہ قافلہ خود اعتمادی اور خدا اعتمادی سے سرشار ہے۔ اب تک ان کے پیشر و عربی، فارسی اور اسلامیات تک محدود رہنے کے سبب یونیورسٹی میں خود کو دوسرے درجے کا طالب علم سمجھتے تھے ۔ چند ماہ میں ان کی ظاہری ہیئت کچھ اس طرح بدلتی کہ ان کے ناموں میں اگر ندوی یا قاسمی لاحقے نہ ہوں تو یہ پتا کرنا مشکل ہوتا کہ ان کا تعلق بھی کبھی کسی دینی درسگاہ سے رہا ہے۔ اس کےبرعکس یہ نئے علماء جو علوم جدیدہ میں اپنی کامیابی کی داستان رقم کررہےاس احساس سے سرشار ہیں کہ انگریزی ادب، معاشیات یا قانون و تجارت و سیاحت کے شعبوں میں اپنے ہم سبقوں پر بازی لے جانے کے علاوہ مدرسے کی ابتدائی تعلیم نے انہیں مشرقی اور اسلامی علوم پر جو دسترس عطا کی ہے وہ اللہ کا ایک فضل خاص ہے ۔ یہ ایک ایسا اضافی سرمایہ ہے جو آئندہ بھی علمی زندگی میں انہیں اپنے ہم سبقوں پر تفوق عطا کرتا رہے گا۔
برج کورس کا یہ تجربہ صرف اہل مدرسہ کے لیے ہی نہیں بلکہ یونیورسٹی کے لیے بھی ایک خوشگوار اور امید افزا تجربہ رہا ہے۔ذہن نوجوانوں کی ایک ایسی کھیپ جو دین کے مراجع و مآخذ سےراست واقفیت کے سبب تحقیق و جستجو کےجدید مناہج کو متاثر کرسکے ، ایسے لوگ اتنی بڑی تعداد میں ہماری جدید دانشگاہوں میں اس سے پہلے اس طرح داخل نہیں ہوسکے تھے ۔ یونیورسٹی کی منجمد تقلیدی علمی زندگی میں ہم اسے تازہ خون کے داخلے پر محمول کرتے ہیں ۔
سوشل سائنسز ، کمپیوٹر اپیلی کیشن ، قانون و تجارت اور انگریزی ادب میں فارغین مدارس کی قابل ذکر کامیابی کے بعد اب ہماری کوشش ہے کہ خالص سائنس اور ٹکنالوجی بشمول میڈیکل سائنسز اور انجنیئر نگ کے دروازے بھی فارغین مدارس پر کھل جائیں ۔گوکہ میڈیکل یا انجینئر نگ میں داخلے کو ہم علمی فتوحات کی معراج و منتہیٰ نہیں سمجھتے لیکن ہم یہ ضرور چاہتے ہیں کہ جس طرح دوسرے طلباء کےلئے امکانات و استفادے کے تمام دروازے کھلے ہوتے ہیں اسی طرح اہل مدرسہ پر بھی تمام علوم کےدروازے کھلے ہوں خواہ وہ انہیں اپنے لئے منتخب کرنا پسند کریں یا نہیں ۔
چند ماہ پہلے سائنس اسٹریم کے پہلے بیج کی ترتیب و تنظیم کے دوران ہمیں اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ ہمارے فارغین میں سائنس کے تئیں والہانہ ذوق و شوق کے باوجود معلومات کی سخت کمی ہے جس پر ہم ایک نئی عمارت تعمیر کرنا چاہتے ہیں ۔گذشتہ ربع صدی میں سیکولر اسکولوں میں سائنس کی تعلیم میں مواد او رمعیار ہر دو اعتبار سےحیرت انگیز تبدیلی آئی ہے۔ دینی مدارس میں پڑھانے جانے والے معلومات عامہ، جغرافیہ اور الطقس والمناخ کے واجبی علم سے اب نئے سائنسی نصاب کی بنیاد کا کام نہیں لیا جاسکتا ۔ جب مشرق کی تا بندہ جامعات اس احساس میں جیتی ہوں کہ ان کی پیہم کوششوں کے باوجود سائنس کی نئی فتوحات کا قبلہ و کعبہ اب بھی دور مغرب میں واقع ہے ، جہاں ہمارے سائنسی ماہرین کی فوج ظفر موج اب بھی کیچ اپ سنڈروم سے باہر نہ آسکی ہو وہاں یقیناً ہمیں یہ توقع بھی نہیں کرنا چاہئے کہ موجودہ دینی مدارس سائنسی علوم کی مبادیات کے سلسلے میں کوئی تسلی بخش کام انجام دے سکتے ہیں ۔ البتہ اسلام کی تہذیبی تاریخ پر جن لوگوں کی نظر ہے وہ اس نکتہ سے نا آگاہ نہیں کہ سائنسی فتوحات کے قبلہ وکعبہ کی عالم اسلام میں منتقلی کےلئے لازم ہے کہ اس تحریک کو دینی درسگاہوں اور بالغ نظر علماء کی معاونت اور مشائیت حاصل ہو۔ جب تک مسلمان تسخیر و اکتشاف کو ایک مذہبی فریضے اور دینی ذمہ داری کے طور پر انجام دیتے رہے اور جب تک دینی درسگاہوں میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے جو بیک وقت سائنسی علوم کےموجد و مکتشف رہے اور مآخذ دین پر ان کی دسترس بھی رہی ، ہماری قرآنی تہذیب کا تخلیقی سرچشمہ جاری رہا ۔ اقوام عالم پر ہماری تفوق بر قرار رہا ۔
اس بات پر اہل مدرسہ جتنا بھی فخر کریں کم ہے کہ تہذیب کی یہ تابانی ، جس کے دم سے معاصر دنیا کی چمک دمک قائم ہے، اس کی بنیاد ہمارے علما ئے شرع نے ہی رکھی تھی ۔ تہذیب کا یہ قالب جو فطرت پرستی کے بجائے کتاب کائنات میں غور و فکر اور تسخیر و اکتشاف سے عبارت ہے دراصل وحی قرآنی کارہین منت ہے جو بندوں کو تفکرو تدبر اور تعقل کا فن سکھاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان علماء نے اکتشافی علوم کی اپنے خون جار سے آبیاری کی ۔ نصیر الدین طوسی جن کے طوسی کپل (الصغیرۃ و الکبیرۃ) کے بغیر کائنات کی تفہیم ممکن نہیں اپنے عہد کے کبار اسماعیلی علماء میں شمار ہوتے تھے ۔ ان کے شاگرد قطب الدین شیرازی جو مراغہ کی رصد گاہ سے وابستہ ایک معروف سائنس داں تھے بیک وقت اصول حدیث اور فن تفسیر میں ید طولیٰ رکھتے تھے ۔ ابن نفیس ، جو ابن سینا کے القانون فی طب کے محاکمے کےلئے مشہور ہیں فقہِ شافعی کے اسا تین میں سے تھے ۔ اسی طرح نظام الدین نیشاپوری جو اپنی سائنسی تالیف شرح التذ کرہ اور شرح المحسطی کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں، وہ بیک وقت غرائب القرآن و رغالب الفرقان کے مصنف بھی ہیں۔ ابن شاطر جن کی تحریروں سے مغرب میں نئے نظام کائنات کی بحث شروع ہوئی اور جس کے سرقے سے کوپرنکس کو مغرب میں جدید دنیا کا بانی مبانی سمجھا گیا ان کی بابت تو ہر شخص کومعلوم ہے کہ وہ دمشق کی مسجد اموی میں موقیت کے عہدےپر مامور تھے ۔ حتیٰ کہ وہ لوگ بھی جن کے لتباس فکری اور آزاد خیالی کا چرچا ہوتا رہا ہے جس میں ابن رشید کا نام سر فہرست ہے وہ بھی اشبیلیہ اور قرطبہ میں عہدۂ قضاۃ سے وابستہ تھے ۔ گویا ظہور اسلام سے سولہویں صدی عیسوی تک تحریک تسخیر و اکتشاف بنیادی طور پر ایک مذہبی تحریک تھی جس کمان اہل مدرسہ کے ہاتھوں میں تھی ۔
برج کورس کا قیام دراصل اس خیال سے عبارت ہےکہ قرآنی تہذیب کا جو سر چشمہ گزشتہ چند صدیوں سےخشک چلا آتاہے ، اور جس کے عوامل اور تجزیہ کا یقیناً یہ موقع نہیں ، اسے پھر سے بتمام و کمال جاری کردیا جائے۔ کل بھی اہل مدرسہ نے اس کام کو انجام دیا تھا آج بھی اس تہذیب کی تابانی کا کوئی کام ان کے بغیر انجام نہیں پاسکتا ۔ ہم چاہتے ہیں کہ فارغین مدارس کےلئے سائنسی علوم کے امکانات کا جائزہ لینے اور مستقبل کی منصوبہ بندی میں آپ کی رہنمائی اور مشائیت ہمیں ضرور حاصل ہو۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سائنسی اور دینی علوم کے حاملین ۔۔۔ یونیورسٹی اور دینی جامعات ۔۔ ایک دوسرے کے حریف نہیں بلکہ امت کی شیرازہ بندی میں ایک دوسرے کے معاون اور رفیق بن سکتے ہیں ۔
اپریل، 2016 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL: