ایس ایم حالی
01 اپریل 2014
مفتی اعظم کے ادارے سے ایک مذہبی حکم کا جاری ہونا ایک لازمی عمل ہے کیونکہ اسلام میں اس عہدے کا بہت بڑا مقام ہے اس لئے کہ مفتی کا ایک مشہور و مقبول عالم ہونا ضروری ہے جس نے بڑی تفصیل کے ساتھ قرآن و سنت اور شریعت کی تعلیم حاصل کی ہو۔
سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ الشیخ نے ایک فتویٰ (مذہبی حکم) یہ صادر کیا ہے کہ خودکش حملے اسلام میں غیر قانونی اور ناجائز ہیں۔ مفتی اعظم نے خود کش بمباروں کو "جرائم پیشہ افراد" قرار دیا ہے جن کا ٹھکانہ "جہنم" ہے۔ فاضل مفتی نے کہا کہ خودکش حملے "عظیم جرائم" ہیں اور جو لوگ اس بھیانک عمل میں ملوث ہیں "وہ مجرم ہیں اور اپنے اس عمل کی بنیاد پر تیزی کے ساتھ جہنم کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں"۔ شیخ نے خود کش حملہ آوروں کے بارے میں کہا کہ "ان کے ہوش وحواس گم ہو گئے ہیں اور ان کا استعمال خود ان کو اور معاشروں کو تباہ کرنے کے لیے (ایک ہتھیار کے طور پر) کیا گیا ہے"۔
مسلمانوں کے لئے فتوی اسلامی فقہ سے متعلق امور پر ایک مستند عالم دین کے ذریعہ قرآن و حدیث کی ایک علمی اور تحقیقی تشریح پر مشتمل ہوتا ہے۔ مروجہ غلط تصورات کے برعکس ہر مذہبی رہنما فتویٰ جاری نہیں کر سکتااس لیے کہ فتویٰ اپنی من مانی یا اپنی مرضی سے نہیں دیا جاتا بلکہ وہ عام طور پر درپیش مسئلہ کے متعلق عالم کے استدلال، منطق اور اسلامی تعلیمات اور قرآن و حدیث کے حوالہ جات کی تفصیلات پر مشتمل ہوتا ہے۔ لہٰذا فتویٰ پر عمل کو واجب سمجھا جاتا ہے اور اس کی خلاف ورزی کو کفر کے مترادف مانا جاتا ہے۔
مفتی اعظم کے ادارے سے ایک مذہبی حکم کا جاری ہونا ایک لازمی عمل ہے کیونکہ اسلام میں اس عہدے کا بہت بڑا مقام ہے اس لئے کہ مفتی کا ایک مشہور و مقبول عالم ہونا ضروری ہے جس نے بڑی تفصیل کے ساتھ قرآن و سنت اور شریعت کی تعلیم حاصل کی ہو، یونیورسٹی تھیسس پیش کی ہو اور اس کی نگرانی بھی کی ہو اور تھیسس پر بات چیت اور بحث و مباحثے میں حصہ بھی لیا ہو۔ مفتی اعظم کا دفتر علما کو با اختیار بناتا ہے اور اسلامی اور سائنسی تحقیق اور فتوی جاری کرنے کے لئے مملکت سعودیہ عربیہ کی مستقل کمیٹی کی سربراہی بھی کرتا ہے۔ مملکت سعودیہ عربیہ کا شمار اسلام میں مقدس ترین مقامات میں ہوتا ہے جہاں مکہ میں کعبہ اور مدینہ مسجد نبوی ہے، جہاں ہر سال لاکھوں مسلمان ارکان حج ادا کرتے ہیں اور مفتی اعظم کے مذہبی احکام کو بجا لاتے ہیں۔
جہاں تک پاکستان کا معاملہ ہے شیخ عبدالعزیز کا یہ فتوی بالکل مناسب وقت پر آیا ہے۔ ایک دہائی سے بھی زیادہ سے پاکستان دہشت گردانہ واقعات اور حادثات کا شکار رہا ہے جس میں تقریبا بچاس ہزار قیمتی جانیں برباد ہو چکی ہیں۔ علماء اور مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنماؤں نے دہشت گردانہ حملوں کو غیر اسلامی سمجھتے ہوئے ان کی مذمت کی ہے اس لیے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو امن اور ہم آہنگی کا قیام چاہتا ہے جبکہ دہشت کے سوداگر معتدل نہیں ہوئے ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے بڑی تباہی کے لیے خودکش بمباروں کو ایک اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے پاکستان میں وسیع پیمانے پر تباہی مچائی ہے۔ مملکت سعودیہ عربیہ کے مفتی اعظم کا فتوی شریعت اسلامیہ اور اس کی حساسیت کو فراموش کر دینے کی وجہ سے انہیں جھنجھوڑ کر رکھ دےگا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ٹی ٹی پی پاکستان میں شرعی قانون نافذ کرنے کی کوشش کا دعوی کر رہی ہے لیکن یہ جان بوجھ کر خواتین اور بچوں سمیت معصوم شہریوں کو ہدف بنا رہی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں، مسلح افواج اور سرکاری تنصیبات پر حملہ کے علاوہ تحریک طالبان پاکستان کے خودکش بمباروں کو عبادت کے مقامات، مذہبی اجتماعات، بازاروں، تفریحی پارکوں اور تعلیمی اداروں خاص طور پر خواتین کے لئے تعلیمی اداروں ، بس اور ریلوے اسٹیشنوں اور اسپتالوں پر بھی حملہ کرنے میں کوئی تردد محسوس نہیں ہوئی۔ ان انتہائی مذموم سرگرمیوں کی اصلیت ہمارے درمیان متشکک لوگوں کے لیے واضح کر دی جانی چاہیے جنہوں نے تحریک طالبان پاکستان کو شک کا فائدہ دینا چاہا۔
تحریک طالبان پاکستان جس نے اپنے حملوں کا جواز پیش کرنے کے لیے قرآنی تعلیمات کو مسخ کر کے اپنے اس گھناؤنے ایجنڈے کے لئے اوسط پاکستانی کی ہمدردی حاصل کرنے کی جو کوشش کی تھی وہ اب مفتی اعظم کے واضح فتویٰ کے سامنے بے نقاب ہے جنہوں نے خودکش حملوں کو ‘‘حرام’’ قرار دیا ہے۔ اس فتویٰ میں شک کی کوئی گنجائش نہیں رہی کہ ان تباہ کن ہتھیاروں کو استعمال کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ اسلام کے خیر خواہ نہیں ہیں۔
لوگوں کی زندگیوں کی حفاظت کرنا حکومت پاکستان کا بنیادی فریضہ ہے پاکستان تحریک طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کرنے کی حکومت کی کوشش اس سمت میں ایک اہم قدم ہے۔ یہ عمل طویل اور پریشان کن ہے اور متعدد رکاوٹیں اس میں پیش آ چکی ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان جنگ بندی کے اعلان کے بعد بھی اب تک کئی دہشت گردانہ حملے کر چکی ہے۔ تاہم حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے والے اصل سرغنے تحریک طالبان پاکستان پر مشتمل مختلف گروپ قیام امن کے اس عمل میں واضح طور پر خلاف ہیں اور بحث و مباحثہ کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور مزید یہ کہ وہ تحریک طالبان پاکستان کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔ فوج سمیت حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اس کے اداروں نے اہم چیزوں کی نشان دہی کرتے ہوئے اپنے کام کو ختم کر دیا ہے۔ انہیں ان لوگوں کی شناخت کرنا ضروری ہے جو دہشت پھیلانے والوں کے خلاف سخت حملہ کرتے ہوئے قیام امن کے حق میں ہیں اور انہیں مذاکرات میں مصروف رکھتے ہیں۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اپنے نظریہ کی تشہیر کرنے کے لئے سوشل میڈیا اور ساتھ ہی ساتھ مرکزی دھارے میں شامل ذرائع ابلاغ دونوں کا سہارا لیتے ہوئے تحریک طالبان پاکستان بھی میڈیا پسند بن گیا ہے۔ اس ملک میں رائے سازوں کو حالات میں تبدیلی پیدا کرنے اور مملکت سعودیہ عربیہ کے مفتی اعظم کے فتویٰ اور اس کے متعلق قرآنی احکامات کو عام کرنے کے لیے مختلف ذرائع ابلاغ کا سہارا لینے کی ضرورت ہے تاکہ انہیں دن کے اجالے کا علم ہو۔ تاہم میڈیا کو بھی احتیاط کے ساتھ کام لینا چاہیے اس لیے کہ اب دہشت گرد شرپسندوں کی حقیقی تصویر پیش کرنے سے باز رکھنے کے لئے براہ راست میڈیا کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
(انگریزی سے ترجمہ: مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام)
ماخذ: http://www.dailytimes.com.pk/opinion/01-Apr-2014/timely-Fatwa
URL for English article:
https://newageislam.com/islamic-sharia-laws/timely-fatwa-suicide-attack/d/66381URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/timely-fatwa-suicide-attack-/d/66446