New Age Islam
Sun Jun 22 2025, 11:24 AM

Urdu Section ( 29 Jan 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Third Gender and Our Society تیسری جنس اور ہمارا سماج

پروفیسر محمد قطب الدین

28جنوری، 2025

انگریزی اخبار ’دی انڈین ایکسپریس‘نئی دہلی،2جنوری 2025میں شائع ایک خبر کے مطابق ٹرانس جینڈر (تیسری جنس)کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی حیدرآباد کی28سالہ بی سِراوانی چنی کا تعین سکندر آباد کے اُسی ٹریفک سگنل پر بہ حیثیت ٹریفک اسسٹنٹ ہوا جہاں وہ گزشتہ دس برسوں سے بھیک مانگ کر گزربسر کررہی تھی۔رپورٹ کے مطابق تلنگانہ سرکار نے دسمبر 2024کے اوائل میں چھے ماہ کے لیے پائلٹ پروجیکٹ کے تحت تلنگانہ پولیس ڈپارٹمنٹ میں ہوم گارڈز کی طرح ٹریفک سگنل کو منظم کرنے کے لیے پچاس ٹرانس جینڈر افراد کے لیے خالی اسامیوں اورٹریفک اسسٹنٹ کے طور پر اُن کی تعیناتی کا اعلان کیا تھا۔ دسمبر 2024کے آخری ہفتے میں حیدرآباد ٹریفک پولیس میں 39 ٹرانس جینڈر بطور ٹریفک اسسٹنٹ شامل ہوئے۔شمولیت سے پہلے اُن تمام لوگوں نے تحریر ی و جسمانی امتحانات پاس کیے،نیز شہر کے اہم چوراہوں پر ٹریفک کو منظم کرنے کے لیے بیس دنوں کی تربیت بھی حاصل کی۔ اُن ہی تقرریوں میں مذکورہ بالا بی سراوانی چنی بھی شامل ہے جو اپنی تقرری پر کافی خوش اور اسی ٹریفک سگنل پر اپنے تعین کو باعث افتخار سمجھتی ہے جہاں وہ گزشتہ دس برسوں سے لوگوں کے سامنے دست سوال پھیلا کر اپنی زندگی گزاررہی تھی۔

بلا شبہ تلنگانہ سرکار کا یہ قد م قابل ستائش اورقابل تقلید ہے اور بی سِراوانی اپنے جیسے دیگر افرادکے لیے قابل نمونہ ہے۔اس کمیونٹی کے اور بھی افراد ہیں جنھوں نے زندگی کے تلخ تجربوں اور پر پیچ راہوں سے گزرکر کامیابی حاصل کی اور وہ زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی  صلاحیتوں کا مظاہرہ کررہے ہیں اور قومی دھارے میں شامل ہوکر ملک و سماج کی بہتر خدمات انجام دے رہے ہیں جن پر سماج کو ناز ہے۔مگر اُن کی تعداد بہت کم ہے اور اُن کی داستانِ سفر بہت دردناک ہے۔روزمرہ کے مشاہدے اور اس موضوع پرموجود لٹریچر کے مطالعے سے بہ خوبی اندازہ ہوتاہے کہ خدا کی اس بے قصور مخلوق کو سماج میں کس قدر غیر اخلاقی اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مختلف ناموں سے پکارے جانے والے (مثلاً خواجہ سرا،کِنّر، ہیجڑا،مخنث اور تیسری جنس وغیرہ) اس طبقے کو زمانہئ قدیم سے ہی سماج میں حاشیے پر رکھا گیا۔آج بھی سماجی،اقتصادی اور سیاسی طورپر اس طبقے کے افراد کو امتیازی سلوک سے دوچار ہونا پڑرہاہے۔انھیں سماج کا حصہ نہیں سمجھا جاتا، وہ ذلت و رسوائی اور جنسی تشدد کے بھی شکار ہوتے ہیں۔اردو کی مشہور ناول نگار رینو بہل اِن بے قصور افراد کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھتی ہیں:”اکیسویں صدی میں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور یہ طبقہ جینے کی چاہ سے محروم ہے۔اُن کی پہچان کو لوگ قبول کرنے کو تیار نہیں۔سب سے پہلے گھر والوں کو نظریہ بدلنا ہوگاتبھی معاشرے کی سوچ بدل پائے گی۔اگر اوپر والے نے ہم کو ایسا ہی بنایا تواس میں ہمارا کیا قصور؟جس طرح مرد، عورت کے وجود کو دنیا قبول کرتی ہے،اسی طرح Third Genderکو بھی تسلیم کرنا چاہیے۔“(میرے ہونے میں کیا برائی ہے۔ ص: 37)۔

ایچ آئی وی اور ایڈز کے خلاف اقوام متحدہ کے مشترک پروگرام کی’تنظیم UNAIDS‘کے مطابق ہندستان میں اس طبقے کے 90فیصد افراد یاتو خود ہی گھرچھوڑ کرچلے جاتے ہیں یا 15سال کی عمر کے بعد انھیں نہایت بے دردی سے گھر سے نکال دیا جاتاہے۔مالی پریشانی سے دوچار ہونے کی وجہ سے انھیں سڑکوں پر رہنا پڑتاہے۔اکثر اوقات یہ لوگ سیکس ورکر کے طورپر کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ تیسری جنس کو دوسروں کے مقابلے میں 34گنا زیادہ ایچ آئی وی لاحق ہونے کا خدشہ ہوتاہے۔دنیا بھر میں اس  طبقے کے افراد کو عموما پسماندہ  اور زندگی کے ہر  شعبے میں پیچھے سمجھا جاتا ہے۔

جہاں تک ہندستان میں ٹرانس جینڈر یا تیسری جنس کے آئینی و جمہوری حقوق کا تعلق ہے تو ’ٹرانس جینڈر ایکٹ 2019‘کے مطابق اس کمیونٹی کے افرادکو تمام آئینی تحفظ فراہم کیے گئے ہیں اور اُن کے ساتھ کسی طرح کا امتیازی سلوک برتنا اور اُن کے حقوق کی پامالی غیر قانونی اور قابل سزاجرم ہے۔تعلیم ہو یا روزگار، صحت ہو یا کسی اور نوعیت کے مواقع،کہیں بھی اُن کے ساتھ امتیازبرتنا ممنوع ہے۔ قانون کے مطابق متعلقہ حکومت کی یہ بھی ذمے داری ہے کہ وہ سماج کی ہر سرگرمی اور ہرشعبے میں اُن کی شراکت کو یقینی بنائے اور اُن کی ترقی،فلاح و بہبود اور روزگار کے مواقع زیادہ سے زیادہ فراہم کرے۔پبلک پلیس کے استعمال سے انھیں روکنا،گھریا گاؤں سے انھیں باہر نکال دینا، جسمانی،جنسی،زبانی،اقتصادی اور جذباتی کسی بھی طرح سے انھیں پریشان کرنا قابل سزا جرم ہے۔ 

(Transgender Act 2019.An  Analysis: Anmol Rohilla, Chapt.4,P. 7)

مذکورہ بالا قانونی اختیارات اور تحفظ کے باوجودزمینی حقائق اس کے پرے ہیں۔ اس طبقے کے افراد سماج میں امتیازی سلوک،غربت،افلاس،بے روزگاری اور ناخواندگی کے شکار ہیں نیز بھیک مانگنا،مختلف موقعوں پرناچنا،گانا، نشہ خوری وغیرہ جیسے غیر مناسب کاموں میں ملوث ہونے پر مجبور ہیں۔عوامی مقامات پر علاحدہ بیت الخلا کے مسائل، اسپتالس، اسکولس اور جیلوں تک میں امتیازی سلوک سے دوچار ہیں۔انھیں خاندان بھی نظر انداز کرتاہے اورسماج بھی اُن کے بارے میں منفی رویہ رکھتاہے۔”سب سے بڑا دکھ تو اپنوں سے بچھڑ جانے کا ہے۔اگر اپنے پریو ار، اپنے سگوں، اپنے لوگوں کا سہارا ہو تو بڑی بڑی مشکلیں آسانی سے جھیلی جاسکتی ہیں، مگر بے یارومددگار زندگی کی تاریک راہوں پر چلنا  آسان کہاں ہے۔ گھر سے نکالے جانے کا غم،معاشرے کا بائیکاٹ،اپنوں کا منھ پھیرلینا،ذلت،غربت،بے روزگاری،جسم فروشی،چوری چکاری،چھینا جھپٹی یا پھر بھیک مانگنے کا راستہ یہ سب برداشت کرنے کا حوصلہ چاہیے۔ اور جب یہ حوصلہ پست ہوجاتاہے تو نشے میں خود کو غرق کرنا ہی سب سے ا ٓسان راستہ نظر آتا ہے، درد کو خاموشی سے سہنے اور اس سے نجات پانے کی قوت حاصل ہوجاتی ہے۔ جب تک گھراورسماج ہمیں قبول نہیں کرے گایہ سلسلہ رُکے گا نہیں،ہمیں بھی جینے کا حق ملنا چاہیے۔دنیا بے شک ہمیں عزت نہ دے،کم سے کم حقارت کی نگاہ سے تو نہ دیکھے،ہمیں ذلیل تونہ کرے۔“(میرے ہونے میں کیا برائی ہے۔رینو بہل،ص:93)۔

 اُن کے پاس روزگار کے مواقع محدود ہیں،یا تو ناخواندہ ہیں یا کم پڑھے لکھے۔اگر کسی نے زیادہ پڑھ لیا تو نوکریاں حاصل کرنا بھی کافی دشوار ہے۔ حکومت کی جانب سے فراہم کردہ اسکیموں اور سہولتوں سے اس طبقے کے زیادہ تر لوگ یا تو ناواقف ہیں یا طویل کاغذی کارروائیوں کی وجہ سے اُن سے محروم ہیں۔

مختلف موقعوں اورچھوٹے بڑے شہروں کے ٹریفک سگنلز پر ہر گزرنے والا روزانہ اس طبقے کے افراد کو لوگوں کے سامنے دست ِ سوال دراز کرتے دیکھتا ہے اوراُن سے آشیرواد لینے کی خاطر انھیں کچھ دے کر خود کو خوش نصیب سمجھتا ہے۔حالاں کہ اس کارِ خیر سے نہ تو اس طبقے کا کچھ بھلا ہونے والا ہے اور نہ اُن کے تئیں سماج کا نظریہ ہی بدلنے والا ہے۔بلکہ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ سماج کے اندر بیداری پیدا کی جائے،اس طبقے کے تئیں والدین اور سماج دونوں اپنی سوچ بدلیں نیز تعلیم و ہنرکے مزید مواقع فراہم کرکے انھیں با اختیار بنایا جائے تاکہ وہ خود کو اس سماج کا اٹوٹ حصہ سمجھیں اور خدا کے عطا کردہ بہترین ذہن و دماغ کو استعمال کرکے سماج کی تعمیر وترقی میں اپنا مثبت ومفید رول ادا کرسکیں۔

28 جنوری،2025، بشکریہ:انقلاب،نئی دہلی

------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/third-gender-society/d/134462

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..