شکیل شمسی
21مارچ،2017
اب تک تو ہم یہی سنتے آئے تھے کہ مسلمان ایک ایسا ووٹ بینک ہیں جن کو سیکولر پارٹیوں کی طرف سے ہمیشہ اپنی جیت کے لئے استعمال کیا جاتا تھا، یہ پہلا موقع ہے جب سیکولر ہونے کا دعویٰ کرنے والی پارٹیاں اپنی شکست کے لئے مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرارہی ہیں۔ان کے ووٹ ایک جگہ نہ پڑنے کو ان کی غلطی قرار دے رہی ہیں جب کہ ہونا تو یہی چاہئے تھا کہ جمہوری اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے ہارنے والے لوگ اپنی شکست کو قبول کرتے اور فتح یاب ہونے والی جماعتوں کو مبارکباد پیش کرکے اپنی ناکامی کے اسباب اپنے ہی اندر تلاش کرتے۔ای وی ایم کو مورد الزام ٹھہرا کر ، مسلمانوں کے ووٹوں کی تقسیم کا بہانا بنا کر ،مسلم علماء کی اپیلوں کے منفی اثرات ، ملی تنظیموں کی طرف سے ساتھ نہ دیئے جانے اور مسلمانوں کے ووٹ ایک ہی پارٹی کی جھولی میں نہ جانے کا شکوہ کرنے کے بجائے ہارنے والی پارٹی اور شکست خوردہ سیاسی جماعت کے لیڈران اپنا محاسبہ کریں تو بہتر ہوگا۔ ان کو سوچنا ہوگا کہ بھیڑیا آیا، بھیڑیا آیا چلانے والی پالیسی کام کیوں نہیں آئی؟
ان کو سو چنا ہوگاکہ محض بی جے پی کو اقتدار میں آنے سے روکنے کی کوشش کو وہ لوگ الیکشن کا کوئی ایشو کیوں نہیں بناسکے؟ اپنا اقتدار کھونے والو کو خود سے ہی سوال کرنا چاہئے کہ راشٹریہ علماء کونسل، علماء او رمشائخ بورڈ اور شیعہ علماء نے ان کے خلاف ووٹ ڈالنے کی اپیلیں کیوں کیں؟ شکست خوردہ پارٹی نے مسلمانوں کی فلاح بہبود کا خیال رکھا یا اپنی پارٹی کے مسلم لیڈروں کی جھولیاں بھریں؟ کیا مظفر نگر کے فساد زدگان کی باز آبادکاری ایسا کوئی ایشو نہیں تھا جس کی وجہ سے مسلمان ناراض ہوکر دوسری جماعت کو ووٹ دے دینے پر مجبور ہوئے؟ کیا دہشت گردی کے جھوٹے الزاموں میں جیلوں میں بند مسلم نوجوانوں کی رہائی کا وعدہ یو پی کی ہاری ہوئی جماعت نے پورا کیا تھا؟ کیا سماج وادی پارٹی نے کتنے ہی ایسے مسلم نوجوانوں کو جیل میں نہیں ڈالا جنہوں نے وقف بورڈ میں چل رہی دھاندلیوں کے خلاف آواز بلند کرنے کی جرأت کی تھی؟ کیا بے گناہ مسلم نوجوانوں پر محض اس لئے غنڈہ ایکٹ نہیں لگایا گیا کہ وہ اوقاف کی خورد برد کے خلاف صف آراہوئے تھے او راگرہائی کورٹ غنڈہ ایکٹ کو ختم نہ کرتا تو کیا ان نوجوانوں کی زندگیاں برباد نہیں ہوتیں؟ کیا سماج وادی پارٹی کے لیڈروں نے تکبر اور غرور کے معاملے میں سابق نوابین ریاست اور جواڑوں کو پیچھے نہیں چھوڑ دیا تھا؟ کیا مسلمانوں کو اس بات پر ناراض ہونے کا حق نہیں تھا کہ کتنی ہی عبادت گاہوں کو وقف خورنگل گئے مگرسی بی سی آئی ڈی کی رپورٹ کے باوجود وقف بورڈ مافیا کا کوئی فرد اس لئے گرفتار نہیں ہوا کہ وہ سماجوادیوں کے ربط میں تھا؟
کیا سماجوادی پارٹی کے پلیٹ فارم سے مختلف علماء کی شان میں گستاخیاں نہیں کی گئیں؟ کیا کانگریس کے عہد میں بابری مسجد کا تالا کھلوانے اور بابری مسجد کے انہدام کو مرکزی سرکار کے خاموشی سے دیکھتے رہنے کے جرم کو اس لئے مسلمان معاف کردیتے ہیں کہ اس نے سماجوادیوں سے سمجھوتہ کر لیا ہے؟ کیامسلمانوں کی ناراضگی کو سماج وادی پارٹی کے لیڈروں نے اپنے تکبر کی وجہ سے دیکھنے میں کوتاہی نہیں کی؟ کیا جس پارٹی کی پالیسیوں سے مسلمان مطمئن نہیں تھے اس کی گود بھرائی اس لئے کردیتے کہ ایسی پارٹی آجائے گی جس سے مسلمانوں کو ہمیشہ ڈرایا جاتا رہا ہے ؟ سیکولر ووٹوں کی تقسیم کا رونا رونے والوں کو چاہئے کہ اپنے گھر میں جھانک کر دیکھیں کہ انہوں نے مایا وتی، ڈاکٹر ایوب اور اویسی کے ساتھ اتحاد کرنے کی بات کیوں نہیں سوچی؟ انہوں نے پرشانت کشور کے جو ڑ ، گھٹاؤ ضرب اور تقسیم کو ہی حرف آخر کیوں سمجھ لیا؟دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اب بھی شکست کھانے والے یہ جاننے کی کوشش نہیں کررہے ہیں کہ مسلمانوں نے یہ جاننے کے باوجودکہ ان کے ووٹ بیکار جائیں گے، پیس پارٹی او رمجلس اتحاد المسلمین کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیوں کیا۔ یہ بات معلوم ہونے کے بعد بھی کہ بہوجن سماج پارٹی کوووٹ دینے سے مسلم ووٹ بٹ جائے گا یوپی کے مسلمانوں نے سماج وادیوں کو متحد ہوکر ووٹ کیوں نہیں دئے ؟ کیوں مسلمانوں نے اس بار کسی کو جتوانے کا کام نہیں کیا بلکہ ان لوگوں کو ہروانے میں رول ادا کیا جو کام بولتا ہے کہ نام پر مسلمانوں کی زبانوں کوبند کرنے میں لگے رہے؟ ابھی بھی وقت ہے اپنا محاسبہ کیجئے اور 2019ء کی تیاری آج کے آئینے میں کیجئے ۔
21مارچ،2017 بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/there-no-issue-accepting-defeat/d/110479
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism