سہیل وحید
14 اپریل،2025
آئین ہند جسے ہندوستانی جمہوریت کے دستور اعلیٰ کا خطاب حاصل ہے۔ یہ ایسا قانونی دستاویز ہے جس میں ہندوستان کے بنیادی سیاسی اختیارات اور نکات شامل ہیں اور اسی میں لکھا ہے کہ کیسے سرکاریں کام کریں گی۔ مانا جاتا ہے کہ آئین ہند دنیا کا سب سے اہم تحریری دستور ہے۔ اس آئین کی مجلس مسودہ سازی کے سربراہ بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر تھے جنہیں اس دستور کا معمار اعظم کہا جاتا ہے۔
ڈاکٹر امبیڈکر
-------
یہ بات آج کے پس منظر میں جاننا بے حد دلچسپ ہے کہ ڈاکٹر امبیڈکر نے کبھی کہا تھا کہ ہندوستان کے درج فہرست ذات کے لوگوں کے حالات اور اختیارات ملک کی اقلیتوں سے بھی زیادہ خراب ہیں۔ انہوں نے کبھی درج فہرست ذات کے لیے اقلیت لفظ کا استعمال کیا تھا۔ ’آل انڈیا شیڈیولڈ کاسٹس فیڈریشن‘ کی درخواست پر دستور ساز اسمبلی کو دئیے جانے والے ایک میمورنڈم کو تیار کرتے ہوئے ڈاکٹر امبیڈکر نے کہا تھا کہ یہ میمورنڈم انسان کے بنیادی حقوق، اقلیتوں کے اختیارات اور درج فہرست ذات کے لوگوں کے حقوق کو متعین کرتا ہے۔
وہ لوگ جن کا نظریہ یہ ہے کہ درج فہرست ذاتیں اقلیت نہیں ہیں، وہ اس معاملے میں کہہ سکتے ہیں کہ میں اس امر کی تمام سرحدوں کو پار کر گیا ہوں۔ یہ خیال کہ درج فہرست ذاتیں اقلیت نہیں ہیں، یہ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے ذریعے جاری کیا گیا نیا فلسفہ ہے۔ ایسا ماننے کے لیےدرج فہرست ذات کو مجبور کیا ہےاور دلتوں کی نمائندگی کرنے والوںنے اس کے دائرۂ عمل اور اس کی معاشیات کو معین اور مختص کرنے کی کبھی پروا نہیں کی ہے۔ کوئی بھی شخص جو کھلے دماغ سے پڑھے گا، تو ضرور اس کے دوہرے تجزیے کو حق بجانب ٹھہرائے گا۔
دوسرے الفاظ میں اس کے معانی یہ ہیں کہ درج فہرست ذات کے لوگوں کی سماجی، معاشی اور تعلیمی حیثیت اور حالات دوسرے شہریوں اور اقلیتوں سے بہت زیادہ بدتر ہیں۔ دوسرے اقلیتی لوگوں کےتحفظ کے علاوہ بطور شہری اور اقلیت کی شکل میں جو تحفظ ملتا ہے، اکثریتی طبقہ کی سفاکیت اور اونچ نیچ کے بھید بھائو کے خلاف درج فہرست ذات کو مخصوص تحفظاتی تدبیروں کی ضرورت درکار ہوگی۔ اس کا دوسرا پہلو یا تجزیہ یہ بھی ہے کہ درج فہرست ذاتیں اقلیتوں سے مختلف ہیں۔ اس لئے وہ اس تحفظ کی حقدار نہیں ہیں جن کے حقدار اقلیتی طبقے کے لوگ ہیں۔ یہ تجزیہ تو بالکل لا یعنی معلوم ہوتا ہے اور کوئی بھی با شعور شخص اس بات پر غورو فکر بھی نہیں کرے گا۔ اگر درج فہرست ذات کے لوگ اس پہلوپر غور نہیں کرتے ہیں تو وہ قابل معافی ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو اس نظریے سے متفق ہیں کہ درج فہرست ذاتیں اقلیت ہی نہیں، بلکہ اس سے بھی زیادہ اقلیت ہیں، تو پورا بھروسہ ہے کہ درج فہرست ذات کے لوگ ایک عام شہری کے تمام بنیادی حقوق کے فوائد، اقلیتوں کے حقوق کے علاوہ مخصوص حفاظتی تدابیر کی جو مانگ کر رہے ہیں، اسے حق بجانب ٹھہرائیں گے۔
یہ عرضداشت ڈاکٹر امبیڈکی طرف سے دستور ساز اسمبلی کو دی جانی تھی مگر بقول ڈاکٹر امبیڈکر اس میمورنڈم کی ٹائپ شدہ کاپی ان کے اعلیٰ ذات کے ہندو دوستوں کے ہاتھ لگ گئی اور انہوں نے ان پر دباؤ بنایا کہ اسے عام نہ کیا جائے تو اس کے لئے وہ تیار ہو گئے۔ بعد میں انہوں نے اس کے تمام نکات کو آئین کی مختلف شقوں کے مطابق تیار کیا اور اس کی حمایت میں جو اعدادو شمار تھے، ان کو بھی اس میں شامل کیا اور پھر اسے ایک کتابچے کے طور پر شائع کیا، جس کا عنوان انہوں نے ’ریاست اور اقلیت‘ رکھا۔ اس کتابچے کا ڈاکٹر امبیڈکر نے جو دیباچہ لکھا ہے اس پر ۱۵؍مارچ ۱۹۴۷ ءکی تاریخ درج ہے۔ اسی کتابچے میں ڈاکٹر امبیڈکر نے لکھا ہے کہ ہندوستان کی اکثریتی آبادی کے لوگوں کو الگ انتخا ب کا اختیار ہی نہیں ہے۔ جس کی توجیہ بہت آسان ہے کہ اس طرح سے اکثریتی طبقے کے لوگ بغیر اقلیتی طبقے کی مرضی سے ان پر حکومت کرنے کے اہل ہو جائیں گے۔ اس پس منظر میں سمجھنےکی دو باتیں بہت واضح ہیں، پہلی تو یہ کہ ڈاکٹر امبیڈکر نے درج فہرست ذات کے لوگوں کے بنیادی حقوق کے لیے انہیں اقلیت بھی ثابت کر دیا اور دوسرے یہ کہ انہوں نے اقلیت اور درج فہرست ذات دونوں ہی طبقوں کو اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے مظالم سے محفوظ رکھنے کے کس حد تک جتن کئے۔
اسی کتابچے میں ڈاکٹر امبیڈکر نے لکھا ہے ’ہندوستان کے اقلیتی طبقے کی بدنصیبی یہ ہے کہ یہاں قوم پرستی نے ایک نیا نظریہ گھڑ لیا ہے جسے اکثریتی طبقے کے ذریعہ اپنی خواہش کے مطابق اقلیت پر حکومت کرنے کاکلی اختیار کہا جا سکتا ہے۔ اقلیتوں کی حکومت میں نمائندگی کی مانگ کو اس نظریہ کے تحت فرقہ پرستی کا نام دیا جاتا ہے، جبکہ اکثریتی طبقے کے لوگوں کی حکومت میں شمولیت کو قوم پرستی یا راشٹرواد کا نام دیا جاتا ہے۔‘
ڈاکٹر امبیڈکر اگر آج ہوتے تو سچر کمیٹی کی رپورٹ کو دیکھ کر انہیںدکھ ہوتاکہ ہندوستان میں مسلمانوں کے حالات درج فہرست ذات سے بھی زیادہ ابتر ہو گئے ہیں۔ یہ رپورٹ ۶-۲۰۰۵کے اعدادو شمار کے مطابق تیار کی گئی ہے۔ قریب تیس سال ہونے کو آئے، اقلیتوں کے حالات بہتر ہونے کی بجائے اور زیادہ خراب ہوئے ہیں۔اس پس منظر میں ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت، مسلمانوں کو سوچنا اور سمجھنا چاہیے کہ آخر امبیڈکر نے درج فہرست ذات کے لیے اقلیتی درجہ کیوں مختص کیا تھا۔ اسی کے درپردہ اس پر بھی غور و خوض کیا جانا چاہیے کہ آخر وہ کون سے عوامل اور اسباب تھے کہ امبیڈکر نے، درج فہرست ذات و قبائل کے لیے لوک سبھا اور سبھی ریاستی اسمبلیوں میں سیٹیں ریزرو کرا لیں۔ اتنا ہی نہیں سرکاری نوکریوں میں بھی ریزرویشن حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
اسی کا نتیجہ ہے کہ ہندوستان کی آزادی کے۷۰؍ سال بعد بھی دلت آبادی میں سے بڑے پیمانے پر ڈاکٹر اور انجینئر ہی نہیں، آئی اے ایس اور آئی پی ایس بھی نکلے ہیں۔ دلتوں میں ایسےلوگ بھی مل جائیںگے جو کسی بھی معاملے میں اعلیٰ ہندو ذاتوں سے کمتر نہیں ہیں۔ اس کے برعکس مسلمانوں میں روز بہ روز کم مائیگی کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ درج فہرست ذات نے اپنی ذات کو ہی اپنا مذہب بنا لیا اور ترقی کی راہیں اپنے لیے آسان کر لیں جبکہ مسلمانوں نے اس طرف توجہ دینا مناسب نہیں سمجھا۔جبکہ دلتوں نے اپنے دانشور بھی بنا لیے ہیں اور ان کے وہاں ایک نئے سیاسی شعور نے بھی جنم لے لیا ہے جس کے مثبت نتائج اگلے دس بیس برسوں میں ہمارے سامنے ہوں گے اور مسلمانوں کے سارے معاملات ابھی تک مذہبی دائرے تک ہی محدود ہیں۔
14 اپریل 2025، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
--------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/theory-dr.-ambedkar/d/135188
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism