باسل حجازی، نیو ایج اسلام
18مئی، 2014
امریکہ پر گیارہ ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد جارج ڈبلیو بُش کی انتظامیہ نے دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والی تنظیموں اور ممالک کے خلاف ایک طویل المدتی جنگ کا اعلان کرتے ہوئے ہر جگہ دہشت گردوں کا پیچھا کرنے کا فیصلہ کیا، القاعدہ تنظیم کے سربراہ اسامہ بن لادن نے یہ اعتراف کیا کہ یہ حملے اسی نے کرائے تھے جس پر وہ اور ان کے ہمنوا ایمن الظواہری فخر کرتے رہے، یہ بات بھی تقریباً یقینی ہوگئی کہ بیشتر دہشت گرد اسلامی تنظیموں کا القاعدہ سے کسی نہ کسی طرح کا تعلق ضرور ہے، لہذا اس وقت جارج ڈبلیو بش نے یہ اعلان کیا کہ یہ جنگ طول پکڑ سکتی ہے اور شاید اس میں پچاس سال کا عرصہ لگے کیونکہ دہشت گرد ایک طرح سے بھوتیا دشمن ہیں اور معاشروں کے اندر پھیلے ہوئے ہیں اور ایسی مذہبی سیاسی فکر کو جڑوں سے کھوکھلا کرنے کے لیے یقیناً وقت درکار ہے۔
گیارہ ستمبر کے حملوں سے پہلے مغرب کے خلاف دنیا بھر میں کئی دہشت گردانہ کاروائیاں ہوچکی تھیں خاص کر امریکی مفادات کے خلاف، یہ سابق صدر بل کلنٹن کا دور تھا، ایک اسلامی گروہ نے شیخ عمر عبد الرحمن کے اکسانے پر نیو یارک میں 1993ء میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کیا، القاعدہ کے کچھ دیگر گروہوں نے 1998ء میں نیروبی اور دار السلام میں امریکی سفارتخانوں پر حملے کیے، ان کے علاوہ بھی کئی ایسے حملے کیے گئے جن کا ذکر بغرض اختصار نہیں کیا جا رہا تاہم اس کے با وجود اس وقت کی کلنٹن انتظامیہ نے ان دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کوئی فعال اقدامات نہیں کیے سوائے غلطی سے سوڈان میں ایک دوائیوں کی فیکٹری پر حملے کے، چنانچہ دہشت گردوں کے حوصلے بلند ہوگئے اور انہوں نے اپنا مشن جاری رکھا جس کا نتیجہ بالآخر بوش انتظامیہ کے شروع کے دنوں میں ستمبر کے واقعے کی صورت میں سامنے آیا۔
یہاں ان واقعات میں تاریخ کی حکمت کی تجلی ہوتی ہے کہ اگر القاعدہ اس اندوہناک جرم کا ارتکاب نہ کرتی تو شاید دہشت گردی کے خلاف اس بڑے پیمانے پر جنگ کبھی شروع ہی نہ ہوپاتی، اس جرم نے امریکہ کو یہ جنگ شروع کرنے پر اکسایا، اس سے ہمیں دوسری عالمی جنگ میں پرل ہاربر پر جاپانیوں کے احمقانہ حملے کی یاد آتی ہے جس کی کوئی معقول وجہ نہیں تھی کیونکہ اس وقت امریکہ جنگ سے باہر تھا، جاپانیوں کے اس حملے کی وجہ سے امریکہ جنگ میں کود پڑا اور اگر امریکہ اس جنگ میں نہ کودتا تو آج شاید فاشٹ نازیت فتحیاب ہوکر دنیا پر راج کر رہی ہوتی، کہنے کی بات یہ ہے کہ اگر القاعدہ امریکہ پر حملہ نہ کرتی تو امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کبھی شروع ہی نہ ہوتی اور اب القاعدہ کئی عرب اور اسلامی ملکوں پر چھائی ہوئی ہوتی خاص کر پاکستان۔
امریکی قیادت میں افغانستان کی طالبانی اسلامی امارت پر اتحادی فوجوں کے حملے سے پہلے اور اسامہ بن لادن کی گیارہ ستمبر کے حملوں کی ذمہ داری قبول کر لینے کے بعد بش انتظامیہ نے طالبانی اسلامی امارت افغانستان سے مطالبہ کیا کہ وہ اسامہ بن لادن اور اس کے ساتھیوں کو امریکہ کے حوالے کر دے اور القاعدہ سے دستبردار ہوجائے تاہم “امیر المؤمنین” نے بڑی شدت سے انکار کردیا کیونکہ ظاہر ہے کہ طالبان نے القاعدہ کے رحم سے ہی جنم لیا تھا، القاعدہ اور اس کی دولت کے بغیر طالبان کچھ نہ تھے لہذا بوش انتظامیہ کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ افغانستان میں طالبان کی امارت پر حملے کر کے اسے گراتے اور افغانی قوم کو اس رجعت پذیر نظام سے آزاد کراتے اور القاعدہ اور طالبان کا تورا بورا سمیت ہر جگہ پیچھا کرتے جو کہ ہوا بھی۔
یہ عرب اور اسلامی دنیا کی خوش قسمتی تھی کہ امریکہ نے القاعدہ کے خلاف جنگ کا اعلان کیا اور طالبان کی افغانی امارت کو بر وقت گرا دیا کیونکہ القاعدہ کا مقصد افغانستان کو ہیڈ کوارٹر بنا کر دہشت گردوں کو ٹریننگ دینا تھا جس کے بعد وہ ساری دنیا میں دہشت گردی پھیلانے نکل کھڑے ہوتے خاص کر عرب ملکوں کے خلاف اور ان پر ایک ایک کر کے قابض ہوتے چلے جاتے اور وہاں اسلامی امارتیں قائم کرتے چلے جاتے جہاں وہابی ورژن کا اسلام نافذ ہوتا جیسا کہ افغانستان میں نافذ تھا اور پھر کسی عرب اور اسلامی ملک میں اتنی قوت نہ ہوتی کہ وہ اکیلے القاعدہ کا مقابلہ کر سکے، صرف مغربی قوتوں کے پاس ہی اتنی طاقت اور وسائل ہیں کہ اس کینسر کا مقابلہ کر سکے جس نے انسانی تہذیب کو خطرے میں مبتلا کیا ہوا ہے۔
تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بجائے اس کے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ پر مسلمان امریکہ کے شکر گزار ہوتے الٹا انہوں نے امریکہ پر یہ الزام لگانا شروع کردیا کہ یہ جنگ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہے اور دہشت گردی ایک خیالی چیز ہے جس کا کوئی وجود نہیں بلکہ اس مقصد کے حصول کے لیے اسے تخلیق کیا گیا ہے!! یقیناً یہ لوگ نظریہ سازش کا شکار ہیں ورنہ ایسا کبھی نہ کہتے۔
سبھی جانتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کو بلا استثناء مغرب میں وہ وہ آزادایاں حاصل ہیں جن کا وہ اپنے “دار الاسلام” نما ممالک میں تصور بھی نہیں کر سکتے، مغرب میں ہزاروں کی تعداد میں مساجد اور اسلامی ادارے ہیں بلکہ بعض کو تو ان کافر حکومتوں کی سپورٹ بھی حاصل ہے تاہم ان آزادیوں کے با وجود سیاسی اسلام کے پیروکاروں نے ان آزادیوں کا غلط فائدہ اٹھایا اور مشتبہ قسم کی اسلامی تنظیمیں بنائیں جن کے اغراض ومقاصد تو بظاہر پر امن نظر آتے ہیں لیکن باطن میں ان کے تانے بانے اخوان المسلمین اور دیگر دہشت گرد تنظیموں سے جا ملتے ہیں، نہ صرف یہ بلکہ دہشت گردی کے فروغ کے لیے مالیاتی ادارے تک تشکیل دیے گیے، بظاہر پر امن نظر آنے والی ان تنظیموں نے مغرب میں مسلم نوجوانوں میں انتہاء پسندی پروان چڑھائی اور انہیں مسلح جد وجہد کے لیے دہشت گرد تنظیموں کے لیے بھرتی بھی کیا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ دعوی کر کے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ دراصل اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہے یہ لوگ در حقیقت جانے انجانے میں اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں، سب سے پہلے تو ایسے دعوے کر کے یہ لوگ نہ صرف دہشت گردوں اور امن پسند مسلمانوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیتے ہیں بلکہ اسلام کی ایک بد نما تصویر بھی دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں کیونکہ دنیا کو یہ یقین ہوجاتا ہے کہ یہ دہشت گرد جو بھی کچھ کر رہے ہیں دراصل یہ اسلام کی اصل تعلیمات ہیں جو ظاہر ہے کہ بطور دین کے اسلام کے حق میں نہیں، اور نا ہی یہ مسلمانوں کی اس اکثریت کے مفاد میں ہے جو امن سے باقی دنیا کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں، چنانچہ ایسی صورت میں مغربی معاشروں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اسلام سے خوف زدہ ہوں اور مسلمانوں کو مشتبہ قرار دے دیں جب تک کہ اس کا برعکس ثابت نہ ہوجائے اگرچہ یہ ہم سب کے لیے ایک بہت بڑی خطرے کی گھنٹی ہے کہ ہمارے نام اسلامی ہیں، ایسی صورت میں سارا قصور سیاسی اسلام کے پیروکاروں کا ہے ناکہ اقوامِ مغرب کا، یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ آج انسانیت پر سیاسی اسلام کا خطرہ بیسویں صدی کے پہلے نصف میں نازیت اور فاشیت سے بھی زیادہ ہے جس کی انسانیت کو ایک بھاری قیمت چکانی پڑی اور عالمی جنگ کیے بغیر ان سے جان نہ چھوٹی۔
نیو ایج اسلام کے کالم نگار باسل حجازی کا تعلق پاکستان سے ہے۔ فری لانسر صحافی ہیں، تقابل ادیان اور تاریخ ان کا خاص موضوع ہے، سعودی عرب میں اسلامک اسٹڈیز کی تعلیم حاصل کی، عرب سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں، لبرل اور سیکولر اقدار کے زبردست حامی ہیں، اسلام میں جمود کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اسلام میں لچک موجود ہے جو حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے کی صلاحیت رکھتی ہے، جمود پرست علماء اسلام کے سخت موقف کے باعث دور حاضر میں اسلام ایک مذہب سے زہادہ عالمی تنازعہ بن کر رہ گیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جدید افکار کو اسلامی سانچے میں ڈھالے بغیر مسلمانوں کی حالت میں تبدیلی ممکن نہیں۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/the-west-fighting-islam-terrorism/d/77063