New Age Islam
Sun Feb 16 2025, 02:28 PM

Urdu Section ( 12 Nov 2016, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Victim: Muslims Or Islam? مظلوم کون؛ مسلمان یا اسلام؟

مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام

11 نومبر 2016

اس حقیقت کو ثابت کرنے کے کیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے کہ اسلام ایک ایسا ہمہ گیر اور آفاقی مذہب ہے جو علاقائی حصار ، سلطنتوں اور حکومتوں کی حد بندی، قومیت کے مرض، نسل پرستی کی وبا اور سرحد وں کی گھیرابندیوں سے آزاد بے پناہ وسعت، گر ائی و گہرائی، ہمہ جہت آفاقی اقدار اور ہمہ گیر یت کا حامل ہے۔

اس کے برعکس توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ مذہب اسلام کے اس قدر ہمہ جہت آفاقی اقدار اور ہمہ گیریت کا حامل ہونے کے باوجود آج پوری امت مسلمہ آپسی اختلافات و انتشار، مذہبی، مسلکی اور طبقاتی نزاعات، قومی سطح پر غیرفطری سماجی تقسیم، اسلام مخالف عناصر کی تخریبی ریشہ دانیوں، معاندانہ اقدامات اور معاشی،اقتصادی، جنگی، اخلاقی، معاشرتی اور سا سی استحصال کا شکار کیوں کر ہوئی۔ اور اس کے محرکات اور اس کے داعیات کیا ہیں جنہوں نے حقیقۃً اقوام عالم کے درمیان اسلام کی روح کو، اس کی بنیادی تعلیمات کو اور اس کے آفاقی اقدار کو مجروح اور مسلمانوں کو ذلیل و رسوا کر کے رکھ دیا ہے۔

اگر اسلامی تعلما ت اور قرآنی آیات سے اس کا جواب تلاش کا جائے تو اس کی وجہ واضح ہے۔

مسلمان مندرجہ ذیل قرآنی احکامات اور تعلیمات سے عملی طور پر بغاوت کر رہے ہیں:

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ۔ (3:103)

اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو، اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے، اور تم (دوزخ کی) آگ کے گڑھے کے کنارے پر(پہنچ چکے) تھے پھر اس نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لاا، یوں ہی اللہ تمہارے لئے اپنی نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔ (ترجمہ؛ عرفان القرآن)

وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ۔ (3:139)

اور تم ہمت نہ ہارو اور نہ غم کرو اور تم ہی غالب آؤ گے اگر تم (کامل) ایمان رکھتے ہو۔ (ترجمہ؛ عرفان القرآن)

اس کے علاوہ اور بھی دیگر بے شمار آیات قرآنیہ ہیں جن کی روشنی میں مسلمانوں کے زوال کا محاسبہ کیا جا سکتا ہے اور امت مسلمہ میں اس قیامت خیز اختلاف و انتشار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن ہم مسلمانوں کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں سردست موجود ان دو قرآنی آیتوں کا ایک سرسری جائزہ لیں گے۔

قرآن مقدس کی آیت "3:103" میں اللہ رب العزت نے واضح طور پر مسلمانوں کو نہ صرف یہ کہ آپسی اختلافات و انتشاراور مذہبی، مسلکی اور طبقاتی نزاع اور منافرت کی تمام دیواروں کو گرا کر اپنی صفوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کا حکم دیا ہے بلکہ اللہ نے صدیوں سے چلی آرہی ان کی آپسی قبائلی اور نسلی دشمنی کو ایمان اور اسلام کی برکتوں سے ختم کر کے اور ایمان کے نور سے ان کے دلوں کو ایک دوسرے کے لیے (جو کہ صدیوں سے آپسی دشمنی اور عداوت کی آگ میں جل رہے تھے ) اخوت، محبت، ہمدردی، جانثاری اور جذبہ ایثار و قربانی سے بھر دیا اور اسے اپنی نعمت کا قرار دیا۔

مزید یہ کہ اسی آیت کریمہ میں اللہ نے یہ فرما کر ؛ "وَكُنْتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا،ترجمہ: اور تم (دوزخ کی) آگ کے گڑھے کے کنارے پر(پہنچ چکے) تھے پھر اس نے تمہںی اس گڑھے سے بچا لا )" اس بات بھی کا واضح اعلان فرما دیا کہ آپسی اختلافات و انتشار اور مذہبی، مسلکی اور طبقاتی نزاع اور منافرت تمہارے لیے جہنم کا باعث ہے اور آپسی اخوت، محبت، ہمدردی، جانثاری اور جذبہ ایثار و قربانی اللہ کی نعمت کی علامت اور جہنم سے نجات کا باعث ہے۔

اگر ہم تاریخی زاویہ نظر سے امت مسلمہ میں آپسی اختلافات و انتشار اور مذہب و مسلک، ملک و ملت اور طبقات کی بنیاد پر نزاع، منافرت، انتہا پسندی، عدم رواداری اور علیحدگی پسندی کا جائرہ لینے کی کوشش کرتے ہیں تو اس سلسلے میں فرقہ وہابیہ سب سے زیادہ ممیز اور ممتاز نظر آتا ہے عملی طور پر جس کا جنم نجد کی سرزمین پر ہوا اورجس نے رفتہ رفتہ امت مسلمہ کے ایک بڑے طبقے کو اپنے فاسد اور تخریبی نظریات کی آغوش میں لے لیا۔ عالم عرب اور بیشتر ایشیائی ممالک میں نجدیت، سلفیت، دیوبندیت اور تبلیغی جماعت کے نام سے پہچانے جانی والی جماعتوں کو فرقہ وہابیت کی ہی شاخ قرار دیا جا سکتا ہے۔

اس فرقے کی بیشتر نظریاتی اساس جن علماء کی تعلیمات پر ہے ان میں ابن تیمیہ  ، محمد ابن عبدالوہاب، سید قطب، مولانا ابو الاعلی مودودی جیسے انتہا پسند نظریہ سازوں کے نام سر فہرست ہیں۔

اب قدرے تفصیل کے ساتھ ان نتہاء پسند اور قدامت پرست نظریہ سازوں کی ان تعلیمات کا جائزہ لیتے ہیں جنہوں نے اسلام کی پر امن فضا کو مکدر کر دیا اور اس میں مذہب، مکتب، مسلک اور فقہی نظریات اور نظریاتی بنیاد پر اختلاف، انتشار اور آپسی بغض و عناد کا زہر گھول دیا۔

فرقہ وہابیہ کے سب سے زیادہ بااثر بنیاد پرست نظریہ ساز سید قطب نے اسلام کے نام پر اپنے سیاسی مفادات کو حاصل کرنے کے لیے اسلامی جہاد کے ایک غلط تصور کی بیج بوتے ہوے یہ نظریہ پیش کیا کہ:

"ہم صرف ایک ایسی اسلامی قیادت کی اطاعت تسلیم کرتے ہیں جس کا مقصد عملی زندگی میں اسلام کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کرنا ہے، اور اس کے علاوہ ہر قسم کے معاشرے اور قیا دت سے اپنی علیحدگی کا اعلان کرتے ہیں*۔" [فی ظلال القرآن [انگریزی سے ترجمہ۔]، 7/143]

فرقہ وہابیت کا ایک سنگ میل کی حیثیت رکھنے والے مولانا مودوی نے دو قدم اور آگے بڑھ کر پوری دنیا کی مملکتوں اور حکومتوں کو اسلامی حکومت میں تبدیل کرنے کا ایک نیا تصور پیش کیا اور پوری دنیا کے کافروں اور مشرکوں کے خلاف (جس میں پوری دنیا کے وہ مسلمان بھی شامل ہیں جو نظریہ وہابیت کو مسترد کرتے ہیں) جہاد فی سبیل اللہ کا نعرہ بلند کیا، جس نے جہاد جیسے مقدس اسلامی تصور کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا، اور جس کو بنیاد بنا کر ان کے بعد پیدا ہونے والے فرقہ وہابیہ کے قائدوں نے پوری دنیا کے کافروں، مشرکوںسمیت امن پسند غیر وہابی اور غیر سلفی مسلمانوں کو مباح الدم قرار دیا، یعنی ان کے خون بہانے اور ان کی مال و دولت اور عزت و آبرو لوٹنے کو جائز قرار دیا۔

"اسلام روئے زمین پر ان تمام ریاستوں اور حکومتوں کو تباہ کرنا چاہتا ہے جو اسلامی نظریات اور منصوبوں کی مخالفت کرتے ہیں، اس ملک یا قوم سے قطع نظر جو ان پر حکمرانی کرتی ہے ۔ اسلام کا مقصد اپنے نظریات اور اور منصوبوں پر مبنی ایک ریاست قائم کرنا ہے، اس بات سے قطع نظر کہ کون سا ملک اسلام کے معیاری کردار کا حامل ہے یا کس ملک کی حکمرانی نظریاتی طور پر اسلامی ریاست کے قیام کے عمل میں کمزور ہے۔ اسلام صرف ایک حصہ نہیں بلکہ پوری روئے زمین کا مطالبہ کرتا ہے ......۔ پوری انسانیت کو اسلامی نظریہ اور اس کے فلاح و بہبود کے منصوبوں سے فائدہ حاصل کرنا چاہے....۔ اس مقصد کے حصول میں اسلام ان تمام قوتوں کے استعمال کا متمنی ہے جو ایک انقلاب پیدا کر سکیں ۔ ان تمام قوتوں کو استعمال کرنے کے لئے ایک جامع اصطلاح 'جہاد' ہے .....۔ اسلامی 'جہاد' کا مقصد غیر اسلامی نظام حکومت کو ختم کرنا اور اس کے بجائے ایک اسلامی نظام قائم کرنا ہے*۔ "

(مودودی، الجھاد فی الاسلام )

اسی مفروضہ کو بنیاد بنا کر خودساختہ خلیفہ بغدادی نے دین اسلام کی بنیاد کو مکمل طور پر منہدم کرتے ہوئے یہ اعلان کر دیا کہ ‘‘اسلام کبھی ایک دن کے لئے بھی امن کا مذہب نہیں رہا ہے"۔

مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں اب ارباب علم و بصیرت سے یہ امر پوشیدہ نہیں کہ اسی فرقہ وہابیت ونجدیت اور سلفیت کی نئی شاخ داعش کے خود شاختہ خلیفہ ابوبکر البغدادی کی یہ تمام تباہ کاریاں اور مظلوم انسانوں پر اس کے یہ تمام قیامت خیز مظالم کچھ اور نہیں بلکہ بانیان فرقہ وہابیت کی انہیں تعلیمات کی عملی تعبیر ہیں۔

معاملہ صرف یہ نہیں ہے کہ یہ تمام انتہاپسند جماعتیں صرف میدان جنگ میں ہی ان گمراہ گر نظریہ سازوں کی تعلیمات اور اصول نظریات کو عملی جامہ عطا کر رہی ہیں بلکہ یہ تمام باطل طاقتیں منظم ہو کر تعلیمی اداروں اور علمی مراکز کو اپنے زہریلے نظریات کی ترویج و اشاعت کے استعمال کر رہی ہیں۔ اور پوری دنیا میں ان کی اس نظریاتی تحریک کو سعودیہ عربیہ کی مکمل طور پر سرپرستی اور حمایت حاصل ہے۔

اس ضمن میں پروفیسر عبداللہ دومتو کی ایک مشہور کتاب "(Teaching Islam) ‘درس اسلام’" سے چند اقتباسات نقل فائدے سے خالی نہیں جو سعودی نصاب تعلیم میں شامل ہے:

‘‘یہ توحید کا ایک قانون ہے کہ مسلمانوں کو (مؤحد، وہابی) مسلمانوں کے ساتھ وفاداری کا معاملہ رکھنا چاہے’ اور مشرکوں (صوفی، غیر مسلموں) سے دشمنی رکھنی چاہیے: "[ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کوئی خدا لئے محبت کرتا ہے اور خدا لئے نفرت کرتا ہے خدا کے لیے کسی سے وفاداری ظاہر کرتا ہے اور خدا کے لیے کسی سے عداوت رکھتا ہے وہ اپنے اس عمل کی وجہ سے اللہ کی ولایت حاصل کرلے گا، اور جب تک کوئی مومن ایسا نہیں کرتا تب تک اسے ایمان کا ذائقہ نہیں مل سکتا اگر چہ وہ نماز اور روزہ میں زیادہ ہو (10b: 110)*۔’’

"وہ مشرک دشمن کون ہیں اور موحد مسلمانوں کو کن سے دشمنی رکھنی چاہےا؟ عبد الوہاب کے لئے مشرک کوئی اور نہیں بلکہ دیگر مسلمان ہی ہیں، خاص طور پر عثمانی ترکی، شیعہ، صوفی اور ہر وہ شخص جو تعویذ وغیرہ کرتا ہے یا جادو سحر کرتا ہے*۔ " (B: 11110

"کافروں کو عید مبارک کہنا صلبت کی عبادت کرنے کی طرح برا ہے، شراب کے ساتھ جام و پما نہ پیش کرنے سے بھی زیادہ بدتر گناہ ہے، یہ خود کشی سے بھی بدتر ہے اور یہ حرام کاری میں ملوث ہونے سے بھی برا ہے اور بہت سے لوگ ایسا کر دیتے ہیں اور انہیں احساس بھی نہیں ہوتا کہ انہوں نے کتنا بڑا گناہ کر دیا ہے*۔ (b: 11810

"ہجری کے بجائے "عیسو ی" کا استعمال کرتے ہوئے کافروں سے مشابہت بھی ایک الگ مسئلہ ہے، "عیسولی" سے حضرت عیسی علیہ السلام کی تاریخ پدوائش کا اشارہ ملتا ہے جس کی وجہ سے کافروں کے ساتھ ایک تعلق اور ربط ظاہر ہوتا ہے.........۔ جیساا کہ ابن تیمیہ نے کہا ہے کہ: "اہل کتاب کے ساتھ ان چیزوں پر اتفاق کرنا جو ہمارے مذہب مں نہیں ہیں اور جو ہمارے اسلاف کی روایت نہیں رہی ہے دین میں فساد ہے*۔"

"اگر کوئی ایک بھی ایسا مسلمان موجود ہو جو یہ کام کر سکتا ہے تو کسی کافر کو ملازم نہیں بنانا چاہئے، اور اگر ان کی کوئی ضرورت نہ ہو تو کبھی بھی ان کی خدمات حاصل نہیں کرنی چاہئے کیوں کہ کافروں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا *۔(10b: 121

کسی بھی مسلمان کو مستقل طور پر کافروں کے درماان نہیں رہنا چاہئے اس لیے کہ اس سے اس کے ایمان کے ساتھ سمجھوتہ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اللہ نے مسلمانوں کو (بلاد کفر) سے (بلاد اسلام) کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا ہے*۔ (B: 12110

جبکہ دنیا کے مختلف گوشوں میں ایسے بھی چند اعتدال پسند اور روشن خیال مفکرین اور ارباب علم و دانش موجود ہیں جو وقتاً فوقتاً ان باطل نظریات و تعلیمات کی تردید کرتے رہتے ہیں اور ان فرقہائے باطلہ کے خالص توحید پرستی کے بھرم کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرتے رہتے ہیں۔ انہیں میں سے ایک مشہور و معروف نام ڈاکٹر خالد ابو الفضل کا ہے۔

"ڈاکٹر خالد ابو الفضل (2003) کا کہنا ہے کہ، ‘‘سالگرہ کی تقریبات خاص طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سالگرہ کی ممانعت اور فنون لطفہ کو حرام قرار دیا جانا یہ تمام کے تمام وہابی ثقافت کی تاریخی میراث ہیں اور ان کی جدید ساخت کا حصہ ہیں ۔ "ایسے کسی بھی انسانی معمول کے خلاف وہابیوں کی دشمنی جو تخلیقی صلاحیتوں اور تخیلات کو عروج بخش سکتے ہیں شاید وہابیوں کی انتہائی مضحکہ خیز اور مہلک فطرت ہے۔ انہوں نے کہا کہ "ہر وہ عمل جو تخلیقی صلاحیتوں کی طرف ایک قدم آگے لے جاتا ہےوہ وہابیوں کے نزدیک کفر کی طرف ایک قدم ہے*۔ "

یہ تمام باتیں اور یہ تمام حقائق وہ ہیں جو اول الذکر قرآنی آیت کے ضمن میں آتی ہیں، اور جہاں تک بات آخر الذکر قرآنی آیت کی ہے جس میں اللہ نے یہ فرمایا ہے کہ:

"وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ"۔ (3:139)

ترجمہ:

'اور تم ہمت نہ ہارو اور نہ غم کرو اور تم ہی غالب آؤ گے اگر تم (کامل) ایمان رکھتے ہو'۔ (ترجمہ؛ عرفان القرآن)

میں اس آیت کریمہ کے ضمن میں صرف ایک بات عرض کرنا چاہوں گا کہ عصر حاضر کے تناظر میں یہ آیت کریمہ جس طرح مسلمانوں کی اخلاقی اور علمی پسماندگی ، فکری زبوں حالی اور نظریاتی افلاس کی وجہ کا تعین کرتی ہےاسی طرح مسلمانوں کو اس بات کی دعوت فکر بھی دیتی ہے کہ امت مسلمہ اب بھی اپنی عظمت رفتہ کی بازیابی کر سکتی ہے، اور اب بھی پوری مسلم قوم ایک مہذب، متمدن، باوقار اور صاحب عزت و ثروت قوم کی حیثیت سے اپنا وقار دوبارہ بحال کر سکتی ہے بشرطیکہ وہ اسلام کی ان امن پسندی، تکثیریت پسندی، محبت و ہمدری، اخوت و بھائی چارگی اور امن و آشتی کا پیغام دینے والی ان تعلیمات کو پھر سے اپنا کر حقیقی اسلام کو گلے لگا لے جس پر ایمان کی اساس اور مکمل بنیاد ہے۔ اور اجتماعی طور پر پوری امت مسلمہ ان انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف اور خود ان کے سرپرست اور فرمانروا سعودی عرب کے خلاف بھی ایک نظریاتی اور فکری جنگ کا اعلان کر دے اور ہر محاذ پر ان سے مقابلہ کرنے لیے اپنی پوری توانائی صرف کرے۔

(*بحوالہ؛ سلطان شاہین، ایڈیٹر نیو ایج اسلام۔ مزید تفصیلات کے لیے اس لنک پر کلک کریں:

http://www.newageislam.com/urdu-section/سلطان-شاہین،-ایڈیٹر،-نیو-ایج-اسلام/preventing-further-radicalisation-is-the-challenge-muslims-must-undertake--بنیاد-پرستی-کی-مزید-پیش-قدمی-کو-روکنا-مسلمانوں-کے-لیے-سب-سے-پڑا-چیلنج--چند-ٹھوس-تجاویز/d/102808

URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/the-victim-muslims-islam-/d/109078

New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..