شیش نارائن سنگھ
20جنوری،2020
کافی عرصہ ہوا مجاز لکھنوی نے ہندوستان کی خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا:
تیرے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تواس آنچل سے ایک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا
بات آئی گئی، لیکن آج ان خواتین نے بات کو دل پہ لے لیاہے۔ دہلی کے شاہین باغ میں تقریباً ایک ماہ سے سیکڑوں خواتین دھرنے پر بیٹھی ہیں۔شہریت ایکٹ 1955ء میں ہوئی ترمیم کے خلاف دسمبر 2019ء میں مرکزی حکومت کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ میں طلبہ کااحتجاج ہوا تھا۔پولیس نے کیمپس اور لائبریری میں گھس کر طلبہ پر شدید حملہ کیا تھا۔ اس زیادتی کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے ہوئے۔ جامعہ نگر کے شاہین باغ میں بھی خواتین مخالفت کے لئے جمع ہوگئی تھیں۔ انہیں شاید امید تھی کہ حکومت ان سے بات چیت کرے گی اور جامعہ میں پولیس کی زیادتی کے خلاف کوئی کارروائی کرے گی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہ دھرناشہریت قانون میں ترمیم کے خلاف ایک تحریک کی شکل اختیار کرچکا ہے اور آج پوری دنیا میں شاہین باغ کی خواتین کی تحریک کا بول بالا ہے۔وہ پردہ نشین خواتین جو مجاز کی اپیل سے آگے نہیں آئی تھیں، جو خواتین کیفی اعظمی کے تخاطب کو کبھی کا نظر انداز کر چکی تھیں، وہ آج میدان میں آچکی ہیں۔ کیفی نے جنگ آزادی کے دوران ہی اپیل کردی تھی:
توڑ یہ عزم شکن دغدغہ پند بھی توڑ
تیری خاطر ہے جو زنجیر وہ سوگند بھی توڑ
طوق یہ بھی ہے زمررد کا گلوبندبھی توڑ
توڑ پیمانہ مردان خرد مندبھی توڑ
بن کے طوفان چھلکناہے ابلناہے تجھے
لیکن کوئی فرق نہیں پڑا تھا، لیکن آج جب مرکزی حکومت نے ہندوستانی عوام کے اتحاد کو توڑ نے کی غرض سے ان کی شہریت کو بحث کے دائرہ میں لا دیا ہے تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ عورتیں اٹھی نہیں تو ظلم بڑھتا جائے گا‘۔ آج دہلی کے شاہین باغ میں خواتین کی قیادت میں ایک سیاسی طاقت نے کوچ کرلیا ہے اور ان کے عزم کودیکھ کر لگتا ہے کہ اب ان کے ڈیرے منزل پر ہی ڈالے جائیں گے۔شاہین باغ میں دھرنے پربیٹھی خواتین تاریخ لکھ رہی ہیں۔ پورے ملک میں ان کی بات کو سمجھنے کے لئے لوگ تیاربیٹھے ہیں اور اب لگتا ہے کہ حکومت کی سمجھ میں آہستہ آہستہ ہی سہی آنے لگاہے کہ غریب آدمی کے وجودکو سوالوں کو گھیرے میں لانے کی ان کی غلطی ان کے لئے بہت مشکل پیدا کرچکی ہے۔شاہین باغ کی خواتین کی تحریک اس ملک کی تاریخ میں ایک بہت ہی اہم سیاسی واقعہ بن چکا ہے۔ مہاتما گاندھی کے ستیہ گرہ کے تجربہ کو شاہین باغ کے ذریعہ پوری دنیا میں نئے طریقے سے پھیلا یا جارہا ہے۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ جہاں شاہین باغ کی بستی آباد ہے وہاں گاندھی جی کی یاد سے وابستہ یونیورسٹی ہے۔ یہاں 1935ء تک جمناکے کنارے آباد ایک بہت ہی چھوٹا ساگاؤں اوکھلا ہوا کرتاتھا۔ مہا تما گاندھی کی تحریک سے جامعہ ملیہ اسلامیہ کو یہاں ڈاکٹر ذاکر حسین 1935ء میں لائے۔ اس سے پہلے جامعہ ملیہ کا کیمپس دہلی کے قرول باغ میں ہوا کرتا تھا۔ وہاں جگہ بہت کم تھی اس لئے 1935ء میں اسے اوکھلا لایا گیا۔ یہاں زمین آسانی سے دستیاب ہوگئی۔ مہاتما گاندھی نے جب1920ء کی تحریک کے دوران انگریزوں کے تعلیمی اداروں کے بائیکاٹ کی اپیل کی تھی تو جامعہ ملیہ اسلامیہ، کاشی ودیا پیٹھ، گجراب ودیا پیٹھ جیسے کچھ اداریوں کی تشکیل ہوئی۔ جامعہ کا قیام توبنیادی طور پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کیمپس میں ہی کردیا گیا تھا۔ مولانامحمود حسن نے مہاتما گاندھی کی عدم تعاون تحریک میں بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔اس تحریک کی مسلم لیگ اور جناح نے مخالفت کی تھی، لیکن مولانا صاحب کے ساتھ ہونے کی وجہ سے پورے ملک میں بڑی تعداد میں مسلمانوں نے جناح کی مخالفت کی او رگاندھی کے ساتھ ہوگئے۔ آزادی کی لڑائی میں اتنے بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے شامل ہونے کے بعد ہی انگریزوں کو سمجھ میں آگیا تھا کہ ہند و مسلم اتحاد ان کے اقتدار کاتختہ الٹنے کے لئے متحرک ہوچکا ہے۔ اسی گھبراہٹ کے دور میں انگریزوں نے اپنے خاص لوگوں کی مدد سے کچھ ایسی تنظیمیں تیار کیں جو ہندو اور مسلمان کے درمیان جھگڑے کروا سکے۔ اسی حب الوطنی کی آندھی کے دور میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کا قیام عمل میں آیا تھا۔ جامعہ کو ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے ایک مقدس ادارے کے طور پر یا د کیا جارہا ہے، کیونکہ یہ آزادی کی لڑائی کا ورثہ ہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانیوں میں شیخ الہند مولانامحمود حسن، مولانا محمد علی جوہر، حکیم اجمل خان، ڈاکٹر مختار انصاری، خواجہ عبدالمجید او رڈاکٹر ذاکر حسین پیش پیش تھے۔ جامعہ کا قیام 1920ء میں عمل میں آیا تھالیکن اپنا کیمپس نہیں تھا۔ 1925ء میں حکیم اجمل خاں کے تعاون سے جامعہ کو قرول باغ میں جگہ مل گئی لیکن وہ بہت چھوٹی جگہ تھی۔ جب ڈاکٹر ذاکر حسین اس یونیورسٹی کو اس وقت کے اوکھلا گاؤں میں لائے تب خوب جگہ ملی اور آج یونیورسٹی خاصی بڑی جگہ میں ہے۔ شروع میں تویہاں جامعہ کے عملے کے لوگوں نے ہی گھروغیرہ بنوائے، لیکن آج یہ مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی ہے۔ اسی آبادی میں شاہین باغ بھی ایک محلہ ہے۔ اس لئے شاہین باغ میں جو خواتین آج اکٹھا ہوئی ہیں، وہ مہاتما گاندھی کی آزادی کی جنگ والی اسی وقت وراثت کا حصہ ہیں۔ڈاکٹر ذاکر حسین کہا کرتے تھے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ واقعی تعلیم اور ثقافتی نشاۃ ثانیہ کی جد وجہد کی تحریک ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ یہ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے ایک خاکہ تیار کرے گا جس کے مرکز میں تو اسلام ہوگا لیکن وہ سبھی ہندوستانیوں کے لئے ایک قومی ثقافت کی ترقی کی راہ ہموار کرے گا‘۔ اسی قومی ثقافت کے مرکز میں آج مہاتما گاندھی کے ستیہ گرہ کے تجربہ کااستعمال کرتے ہوئے اتنی بڑی تحریک کھڑی ہوگئی ہے کہ اہل اقتدار کو یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا کیا جائے۔
شاہین باغ کے دھرنے کو ایک ماہ سے زیادہ ہوگیا۔ اسی سے تحریک پاکر ملک کے متعدد شہروں میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف خواتین کے دھرنے شروع ہوچکے ہیں۔ آلہٰ آباد، ممبئی، کوٹہ، بیگوسرائے،پٹنہ، بھوپال، کولکاتہ وغیرہ میں شاہین باغ کی طرز پر لوگ جمع ہورہے ہیں اور احتجاج کررہے ہیں۔حکومت کی کوشش ہے کہ تحریک کو پر امن طور پر ختم کیا جائے، لیکن ایسا ہو نہیں رہا ہے۔ دہلی کی جامع مسجد، سلیم پور اور جامعہ میں شروع ہوئے احتجاج کو ختم کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرنے او راسے مسلمانوں کا احتجاج ثابت کرنے کی حکومت کی کوشش الٹی پڑ چکی ہے۔ اب یہ ثابت ہوچکا ہے کہ تحریک صرف مسلمانوں کی نہیں ہے، بلکہ سبھی مذاہب اور فرقے کے لوگ اس میں شامل ہیں۔ سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ سی اے اے کی مخالفت میں تحریک نے ایک بار پھر پوری طاقت سے ثابت کردیا ہے کہ اقتدار کی مخالفت کرنے کے لئے سول نافرمانی اورستیہ گرہ نام کے جو ہتھیار مہاتما گاندھی نے دئے تھے وہ اب بھی اتنے ہی کار گر ہیں جس قدر اس وقت تھے۔ اہل اقتدار کے توپ اوربندوق کے سامنے نہتے انسانوں کی طاقت کے استعمال کا گاندھی جی نے جو طریقہ اپنا یا تھا، اب پوری دنیا میں کامیابی سے اس کا استعمال کیا جارہا ہے۔اقتدار کی دوڑ میں شامل ہندوستانیوں میں ایک طرح کاشک پیدا ہورہا تھا کہ کہیں گاندھی جی کے ہتھیار کہیں کمزور تو نہیں پڑ گئے۔ شاہین باغ کی نہتی خواتین نے ایک بار پھر اسے درست پس منظر میں رکھ دیا ہے۔
20جنوری،2020، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/the-tricolour-became-hijab-shaheen/d/120841
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism