طا لبان کے ترجمان رسالے نوائے افغان جہاد کے اس مضمون میں طالبانی مفتی غیر مسلموں سے کسی بھی طرح کے تعلقات رکھنے کو غیر اسلامی اور کفر قرار دیتے ہیں اور اس طرح سے دنیا کے نصف حصے میں بسنے والے مسلمانوں کے لئےجو اقلیت میں ہیں اور انکا روزوشب غیر مسلموں سے واسطہ پڑتا ہے غیر مسلموں سے تعلق توڑ کر زندہ رہنا دشوار ہی نہیں نا ممکن ہے یہ پاکستان جیسے مسلم اکثریت والے ملک میں رہنے والے طالبانی کیا جانے۔ پھر اس عذر کے جواب میں وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر غیرمسلم اقلیت والے ملک میں رہنا مسلمانوں کے لئے ممکن نہیں تو خدا کی زمین بہت کشادہ ہے وہاں سے ہجرت کیوں نہیں کرجاتے ایسے ملک میں جہاں مسلمان اکثریت میں ہوں۔ مگر شاید وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ آج کے جدید دور میں ایک ملک کی سرحد سے نکلنا کتنا مشکل ہے اور اگر کسی طرح سے مظلوم مسلمان مسلم اکثریت والے ملک میں داخل بھی ہو جاتے ہیں تو وہاں کی اسلامی حکومت انہیں اپنانے سے انکار کردیتی ہے۔ مثال کے طور پر جب برما میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور وہاں کے مسلمان بنگلہ دیش میں پناہ کے لئے داخل ہوئے تو وہاں کی حکومت جو مسلموں کی حکومت ہے نے انہیں اپنے یہاں پناہ دینے سے انکار کر دیا۔ یہ لوگ آج در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کی تقسیم کے بعد بنگلہ دیش کے اردو داں طبقے نے بنگلہ دیش کو اپنا وطن ماننے سے انکار کردیا اور پاکستان واپس آنا چاہتے ہیں مگر پاکستان انہیں اپنانے کو تیار نہیں ہے ۔ لہذا وہ گذشتہ ۴۰ برسوں سے بنگلہ دیش کے رفیوجی کیمپوں میں کسمپرسی کی ذندگی گذار رہے ہیں۔ طالبان اگر دین کے اتنے ہی بڑے پیرو ہیں تو حکومت پاکستان سے کہ کربرما اور بنگلہ دیش کے خانماں برباد مسلمانوں کو پاکستان میں بسانے کا انتظام کرے۔
اسلام پڑوسیوں اور ہم وطنوں اور رفقائے کار سے حسن سلوک کی تلقین کرتاہے اور اس میں کسی مذہب کی بنیاد پر تفریق کو روا نہیں رکھتا۔اسلام صرف ان غیر مسلموں سے دور رہنے کا مشورہ دیتاہے جو مسلمانوں کے خلاف جارحانہ رویہّ اختیار کرتے ہیں، ان کے خلاف سازشیں کرتے ہیں یا سازشوں میں اعانت کرتے ہیں یا ان کی جاسوسی کرتے ہیں۔قرآن کا حکم اس معاملے میں بہت واضح ہے۔ذیل میں ہم اس مضمون کو پیش کررہے ہیں تاکہ قارئین طالبان کے خطرناک نظریات سے آگاہ ہوسکیں اور اس کے سدباب کا کوئی اجتماعی حل ڈھونڈ سکیں ۔۔ نیوایج اسلام ایڈٹ ڈیسک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا عبدالستار مد ظلہ العالی
دسمبر، 2012
آج کے دور میں ایک بڑا فتنہ جس کا شکار موجودہ دور کے مسلمان ہوچکے ہیں وہ فنتۃ موالاۃ الکفار ہے یعنی کافروں سے دوستیاں اور روابط رکھنے کا فتنہ
انسانوں کی خدائی تقسیم :
اللہ پاک نے دو قومیں بنائی ہیں:
ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ فَمِنکُمْ کَا فِر وَ مِنکُم مُّؤْ مِن ( التغابن :2)
‘‘ وہی ہے جس نے تم کوبنایا پھر تم میں سے کوئی انکار کرنے والا بنا اور کوئی ایمان لانے والا’’۔
اللہ پاک کی تقسیم کے مطابق انسانوں میں دو قسم کے افراد ہیں، ایک ایمان والے اور دوسرے کافر ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمان آپس میں ایک برادری کی طرح ہیں ، ایک کنبے کی طرح ہیں ، ایک جسم کی مانند ہیں۔
انسانوں کی صرف یہی دو قسمیں ہیں، مومن او رکافر ....... تقسیم تو دو اقسام پر تھی لیکن بد قسمتی سے ایمان والوں نے آپس میں نہ جانے کتنی قسمیں بنائی ہیں۔ پنجابی ، پٹھان ، بلوچ ، مہاجر اور نہ جانے کیا کیا۔ پھر برادریوں میں اختلاف ، میمن برادری، سوداگر برادری وغیرہ وغیرہ ۔ سب ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئےہیں اور جو اصل تقسیم تھی اسے فرامو ش کردیا ہے۔ اب مسلمان کا تو یہ حال ہے کہ آغا خانی بھی اس کا دوست بن رہا ہے، ہندو بھی اس کا دوست بن رہا ہے، عیسائی بھی اس کا یار بن رہا ہے ، فلاں بھی اس کا دوست بن رہا ہے، اور یہ ایمان والا چو نکہ دوسری برادری کا ہے، دوسری قوم کا ہے، پنجابی ہے، پٹھان ہے، میمن ہے اس لیے دوستی کے لیے تیار نہیں ہے (العیاذ باللہ )۔
تو میرے عزیز ! اصل میں انسانوں کی دو اقسام ہی ہیں۔ مومن انسان اور کافر انسان ....... قومیں، خاندان اور برادریاں یہ صرف تعارف کے لیے ہیں ، پہچان کے لیے ہیں تاکہ ایمان و الوں میں آپس میں پہچان ہوسکے ورنہ اصل تقسیم صرف دو قسموں پر ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اور ایمان والے ایک دوسرے کے بھائی ہیں ، برادری کا حصہ ہیں ۔ اب تو بد قسمتی یہ ہے کہ اگر مسلمان کوئی رفاہی کا م بھی کرتے ہیں تو وہ بھی اپنی برادری کا...... ارے ! تیری برادری میں تو تمام مسلمان شامل ہیں۔ تیری خدمات تو سارے مسلمانوں کے لیے ہونی چاہئیں ناکہ صرف اپنی برادری کے لیے ۔ اگر ہر کوئی اپنی برادری کے لیے کام کرے گا تو آہستہ آہستہ یہی چیز انتشار اور اختلافات کا سبب بن جائے گی۔
یہیں سے عصبیت پیدا ہوتی ہے جس سے قومیں تقسیم ہوجاتی ہیں تو اصل تقسیم بس ایمان اور کفر کی بنیاد پر ہے۔ قرآن نے بس یہی دو اقسام بیان کی ہیں۔
اس لیے اللہ رب العزت نے فرمایا ہے کہ اپنی برادری سے تو دلی محبت ہو، اپنے مسلمانوں سے تو دلی محبت ہو اس لیے کہ وہ تمہارے دینی بھائی ہیں، ان کے ساتھ تمہارا اسلامی رشتہ ہے۔ تمہارے اندر اخو تِ اسلام کا رشتہ مضبوط سے مضبوط تر ہونا چاہیے ، قرآن کریم نے ایمان والوں کی نشانی یہ بتائی ہے کہ وہ آپس میں نرم خو ہوتے ہیں۔
انصار کا ایثار :
جب مہاجرین مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے تو بے سرو سامان تھے، ان کے پاس ضروریات زندگی کی چیزیں نہ ہونے کے برابر تھیں اور یہ مہاجرین مدینہ والوں (انصار) کے کوئی خاندانی رشتہ دار نہیں تھے۔ ان کے درمیان کوئی خونی رشتہ بھی نہیں تھا، نسبی رشتہ بھی نہیں تھا، قومی رشتہ بھی نہیں تھا بلکہ صرف اور صرف دین کی بنیاد پر اسلامی رشتہ تھا۔ اب چونکہ اسلامی رشتہ وہاں مضبوط تھا تو انصار نے مہاجرین سے کہا کہ ہماری دو دو تین تین بیویاں ہیں۔ آپ لوگ یہاں اجنبی ہیں، بیوی بچے چھوڑ کر آئے ہیں ، اس لیے ہم اپنی ایک ایک بیوی کو طلاق دیتے ہیں ، آپ لو گ ان سے نکاح کرلیں( اللہ اکبر) ۔ اگر کسی انصار ی کے پاس دو دکانیں تھیں تو اس نے ایک دکان اپنے مہاجر بھائی کو دے دی کہ یہ تم لےلو اگر کسی کے پاس دو تین زمینیں تھیں تو اس نے اپنے مہاجر بھا ئی سے کہا کہ میری تین جگہ کھیتیاں ہیں ، ایک تم لے لو۔
میرے عزیز و! اس اخوت کا تو آج مسلمان تصور بھی نہیں کرسکتا ۔ صرف دینی اور مذہبی رشتے کی بنیاد پر بھائی چارگی کا ایسا عظیم الشان مظاہرہ کسی اور قوم نے آج تک پیش نہیں کیا اس لیے کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دینی اور مذہبی رشتہ ہی ایسا مضبوط کرادیا تھا کہ اس کے سامنے دیگر رشتے ہیچ تھے ۔
مومن کی شان:
تو مومنوں کی شان یہ ہے کہ آپس میں نرم ہوں اور کافروں کے مقابلے میں سخت ہوں، کفار کے ساتھ ان کا رویہ دوستی والا نہ ہو، دلی محبت والانہ ہو، بھروسے اور اعتماد والا نہ ہو۔ اس لیے قرآن کریم میں مسلمانوں کے لیے بطور نمونہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا طرز زندگی ذکر فرماکرکہا گیا کہ دیکھو ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں تمہارے لیے بہترین نمونہ موجود ہے۔
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةُحَسَنۃُ فِي إِبْرَاھيمَ وَالَّذِينَ مَعہُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِھِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّہِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّیٰ تُؤْمِنُوا بِاللّہِ وَحْدَهُ إِلَّا قَوْلَ إِبْرَاھيمَ لِأَبِيہِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللّہِ مِن شَيْءٍ رَّبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (الممتحنہ :4)
‘‘ تمہارے لیے ابراہیم اور اس کے ساتھیوں (کی زندگی) میں بہترین نمونہ ہے۔ جب انہو ں نے اپنی قوم سےکہاکہ ہم تم سے الگ ہیں اور (ان سے بھی ) جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ ہم نے تمہارا انکار کیا اور ہمارے اور تمہارے بیچ ہمیشہ کے لیے اس وقت تک دشمنی ظاہر ہوگئی جب تک کہ تم ایک اللہ پر ایمان نہ لے آؤ’’۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کفر سے تعلق رکھنے والی ساری برادری سے کہہ دیا کہ تمہارا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں، تمہارےاور میرے درمیان بغض اور عداوت ہے۔ جب تک تم ایک اللہ کو نہیں مانوگے اس وقت تک میرے اور تمہارے درمیان کوئی رشتہ نہیں ہے۔ ان کے والد بھی انہی میں تھے ، سارا خاندان بھی ان میں تھا۔ اس کے باوجود صاف طور پر انہوں نے کہہ دیا کہ تم تو اللہ کے دشمن ہو اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو حکم دیا ہے کہ
يَا أَيّھَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ (الممتحنۃ:1)
‘‘ جومیرے اور تمہارے دشمن ہیں ان کو اپنادوست مت بنانا’’۔
ایک اور مقام پر فرمان خداوندی ہے:
يَا أَيّھَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانۃً مِّن دُونِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاھِھِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُھُمْ أَكْبَر (آل عمران : 118)
‘‘ اے ایمان والوں ! تم کافروں کو ہر گز اپنا راز دار نہ بناؤ (انہیں موقع ملا تو ) یہ تمہارا نقصان کرنے میں کسی قسم کی کمی نہیں کریں گے اور تمہیں جس قدر زیادہ تکلیفوں کا سامنا ہوتا ہے، اس کی خو شی بھی ( بڑھتی جاتی ہے) کبھی کبھی ان کا بغض (نفرت)ان کی زبانوں پر بھی ظاہر ہوجاتا ہے اور یہ اپنے دلوں میں تمہارے بارے میں جو بغض رکھتے ہیں وہ (ظاہر ی بغض سے) بہت زیادہ ہے’’۔(جاری ہے)
دسمبر 2012 نوائے افغان جہاد
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/the-talibani-ideology-that-declares-part-1/d/10631