New Age Islam
Wed May 31 2023, 03:54 PM

Urdu Section ( 13 March 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Significance and Utility of the Quranic Verses of Morality and Character اخلاق و کردار کے قرآنی نمونوں کی اہمیت و افادیت

محمد یونس، نیو ایج اسلام

انگریزی سے ترجمہ  مصباح الہدیٰ ،  نیو ایج اسلام

"اور اسی طرح ہم نے تم کو امتِ معتدل بنایا ہے، تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو.......( 2:143)”

مدرسےکے نصاب میں شامل کرنے کے لئے علماء کی بارگاہ میں تجویزیں ۔

کام اور آمدنی  کے اعتبار سے سیروتفریح اور خرید و فروخت سے متأثر آج کی اس دنیا میں ،انسانی اخلاق و کرقدارقصۂ پارینہ بن کر رہ گئے ہیں ۔لیکن سچائی تو یہ ہے کہ اخلاقی اقدار شادی کے رشتے ،شادی شدہ رشتے  ، پرانی دوستی  یا کسی شخص کے  قریبی متعلقین یا  دور کے رشتہ داروں سے تعلقات بنا بھی سکتے ہیں اور بگاڑ بھی سکتے ہیں ۔

ہر شخص  کیلئے،روزانہ ملنے جلنے والوں  مثلاً، مالک، ہم منصب، ماتحت اور اس طرح کےدوسرے  لوگوں سے ،کسی اور طریقے کےبالمقابل ، ہمیشہ اچھے اخلاق و کردارسے پیش آنا بہتر ہے ۔قرآن ایسے اخلاقی نمونے پیش کرتا ہے جس پر عمل پیرا ہو کر  کوئی بھی دوستوں کا دل جیت سکتا ہے ، شوہر اور بیوی کے درمیان محبت ہیدا ہو سکتی ہے ، ہم  منصبوں سے  احترام حاصل ہو  سکتا ہے ،اور روز مرا کی ازدواجی اور پیشہ وارانہ زندگی کی چھوٹی بڑی پریشانیوں سے نجات پایا  جا سکتا ہے۔یہ باتیں  مروجہ اسلامی احکامات کا حصہ نہیں ہے۔اور انہیں قارئین  کی سہولیت ،پڑھنے میں آسانی اوراس میں گہرائی کے سا تھ غور فکر کر نے کی غرض سے ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔

1۔  انتقامی  نہ بنیں اور پرانی عداوتوں  کو بھول جائیں۔

’عفو اختیار کرو اور نیک کام کرنے کا حکم دو اور جاہلوں سے کنارہ کر لو۔‘(7:199)

’اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے۔مگر جو در گزر کرے اور (معاملے کو) درست کر دے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے۔اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنے والوں کوپسند نہیں کرتا ۔‘(42:40)

’مومنوں سے کہہ دو کہ جو لوگ خدا کے دنوں کی (جو اعمال کے بدلے کے لئے مقرر ہیں) توقع نہیں رکھتے ان سے در گزر کریں۔ تاکہ وہ ان لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دے۔‘(45:14)

’.....اور لوگوں کی دشمنی اس وجہ سے کہ انہوں نے تم کو عزت والی مسجد سے روکا تھا تمہیں اس بات پر امادہ نہ کرے کہ تم ان پر زیادتی کرنے لگو اور (دیکھو) نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور کدا سے ڈرتے رہو۔کچھ شک نہیں کہ خدا کا عذاب سخت ہے۔‘(5:2) *

*یہ آیت وحی کے اختتامی مرحلے کی ہے، جب مسلمان مکہ کے اپنے دشمنوں پر غالب آگئے تھے اور اس حالت میں تھے کہ اپنے اوپر دو دہائیوں سے بھی زیادہ کے مسلسل زیادتیوں کا بدلہ لیں اور انہیں لوگوں نے مسلمانوں کے غیر مسلح قافلے کو حج کے لئے مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔

2۔  غصّے کو قابو میں رکھیں اورظلم و زیادتی پر اصرار نہ کریں۔

’جو آسودگی اور تنگی میں (اپنا مال خدا کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں اور غصے کو روکتے ہیں اور لوگوں کے قصور معاف کرتے ہیں اور خدا نیکو کاروں کو دوست رکھتا ہے۔ (3:134)

 اور وہ کہ جب کوئی کھلا گناہ یا اپنے حق میں کوئی اور برائی کر بیٹھتے ہیں تو خدا کو یاد کرتے اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں اور خدا کے سوا گناہ بخش بھی کون سکتا ہے؟اور جان بوجھ کر اپنے افعال پر اڑے نہیں رہتے۔‘(3:135)

’خدا کا اجر ان لوگوں کے لئے ہے)جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے پرہیز کرتے ہیں ۔اورجب غصہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں۔ ‘(42:37)

3۔  خوش اخلاقی اور شائستگی   کا مظاہرہ کریں، تنازعات سے پرہیز کریں اور اپنے نفس  کی ملامت  کریں۔

’اور جب تم کو کوئی دعا دے تو  (جواب میں)  تم اس سے بہتر (کلمے) سے  (اسے) دعا دو یا انہیں لفظوں سے دعا دو بیشک خدا ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔ ‘(4:86)

’اور خدا اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو اعلانیہ برا کہے مگر وہ جو مظلوم ہو۔اورخدا (سب کچھ) سنتا (اور) جانتا ہے۔‘(4:148)

’اور میرے بندوں سے کہہ دو کہ (لوگوں سے) ایسی باتیں کہا کریں جو بہت پسندیدہ ہوں۔کیونکہ شیطان (بری باتوں سے) ان میں فساد ڈلوا دیتا ہے۔کچھ شک نہیں کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔‘(17:53)

4۔تکبر  اورسخت انداز گفتگو کو چھوڑدیں ۔

’اور زمین پر اکڑ کر (اور تن کر) مت چل کہ تو زمین کو پھاڑ تو نہیں ڈالے گا اور نہ لمبا ہوکر پہاڑوں (کی چوٹی) تک پہنچ جائے گا۔‘(17:37)

’اور  (ازراہ غرور) لوگوں سے گال نہ پھلانا اور زمین میں اکڑ کر نہ چلنا۔کہ خدا کسی اترانے والے خود پسند کو پسند نہیں کرتا۔(31:18) اور اپنی چال میں اعتدال کئے رہنا اور  (بولتے وقت) آواز نیچی رکھنا کیونکہ (اونچی آواز گدھوں کی ہے اور کچھ شک نہیں کہ ) سب آوازوں سے بری آواز گدھوں کی ہے۔‘(31:19)

5۔ افواہوں پر تصدیق کئے  بغیر یقین نہ کریں اور کسی پر جھوٹے الزامات لگانے سے بچیں ۔

’مومنوں! اگر کوئی بد کردا تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو (مبادا) کہ کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچا دو۔ پھر تم کو اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے۔‘(49:6)

’جو لوگ پرہیز گار اور برے کاموں سے بے خبر اور ایمان دار عورتوں پر بدکرداری کی تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت (دونوں) میں لعنت ہے۔اور ان کو سخت عذاب ہوگا‘(*24:23)

* ایک نیک خاتوں پر بد کرداری کا الزام لگانا ، نا اہل اور سر کش انسان کے لئے سب سےآسان کام ہے ۔ایسا اکثر ہوتا ہے کہ آئینی اعتبار سے مرد، عورتوں کے مقابلے زیادہ مضبوط دعوے کرنے  والا ہوتا ہے، اور جب عورتیں مخالفت کرتی ہیں تو مرد ،ان کے خلاف جھوٹے الزامات لگاتے ہیں۔

6۔  بخیل نہ بنیں ۔

’جو خود بھی بخل کریں اور لوگوں کو بھی بخل سکھائیں اور جو (مال) خدا نے ان کو اپنے فضل سے عطا فرمایا ہے اسے چھپا چھپا کر رکھیں اور ہم نے نا شکروں کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘(4:37)

’دیکھو تم وہ لوگ ہو کہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے بلائے جاتے ہو۔ تو تم میں ایسے شخص بھی ہیں جو بخل کرنے لگتے ہیں ۔اور جو بخل کرتا ہے اپنے آپ سے بخل کرتا ہے۔اور خدا بے نیاز ہے اور تم محتاج۔اور اگر تم منھ پھیرو گے تو وہ تمہاری جگہ اور لوگوں لو لے آئے گا اور وہ تمہاری طرح کے نہیں ہوں گے۔‘(47:38)

’اور جس نے بخل کیا اور بے پرواہ بنا رہا۔اور نیک بات کو جھوٹ سمجھا۔اسے سختی میں پہنچائے گا۔اور جب وہ (دوزخ کے گھڑے میں) گرے گا تو اس کا مال اس کے کچھ کام نہ آئے گا۔‘(92:8-11)

7۔  کسی دوسرےکا مزاق نہ بناؤ، اور نہ ہی ان کی  عیب جوئی کریں ۔

’مومنو! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے (تمسخر کریں) ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں۔اور اپنے  (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کا برا نام رکھو۔ایمان لانے کے بعد برا نام (رکھنا) گناہ ہے ۔اور جو توبہ نہ کریں وہ ظالم ہیں۔‘(49:11)

8۔  بہت زیادہ شک اور غیبت سے بچیں

’اے اہل ایمان! بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں۔ اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے۔کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟اس سے تو تم ضرور نفرت کروگے۔ (تو غیبت نہ کرو) اور خدا کا ڈر رکھو بے شک خدا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔‘(49:12)

’ہر طعن آمیز اشارتیں کرنے والے چغل خور کی خرابی ہے۔جو مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے۔‘(104:1-2)

9۔  عبادت گاہوں  کے معاملے میں معتدل اور نیک رویہ اختیار کریں  ۔

’اے بنی آدم! ہر نماز کے وقت اپنے تئیں مزین کیا کرو اور کھاؤ اور پیؤ اور بے جا نہ اڑاؤ کہ خدا بے جا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔‘(7:31)

’اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ ) گفتگو کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں۔ (25:63) اور جب وہ خرچ کرتے ہیں تو نہ بے جا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں بلکہ اتعدال کے ساتھ۔نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم۔‘(25:67)

10۔اعمال  صالحہ میں اور تمام  تر جائز سرگرمیوں میں ایک دوسرے سے  مقابلہ کریں ۔

 "اور ہر ایک کے لئے توجہ کی ایک سمت (مقرر) ہے وہ اسی کی طرف رُخ کرتا ہے پس تم نیکیوں کی طرف پیش قدمی کیا کرو، تم جہاں کہیں بھی ہوگے اﷲ تم سب کو جمع کر لے گا، بیشک اﷲ ہر چیز پر خوب قادر ہے،"(2:148)

".... ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے الگ شریعت اور کشادہ راہِ عمل بنائی ہے، اور اگر اﷲ چاہتا تو تم سب کو (ایک شریعت پر متفق) ایک ہی امّت بنا دیتا لیکن وہ تمہیں ان (الگ الگ احکام) میں آزمانا چاہتا ہے جو اس نے تمہیں (تمہارے حسبِ حال) دیئے ہیں، سو تم نیکیوں میں جلدی کرو۔ اﷲ ہی کی طرف تم سب کو پلٹنا ہے، پھر وہ تمہیں ان (سب باتوں میں حق و باطل) سے آگاہ فرمادے گا جن میں تم اختلاف کرتے رہتے تھے،" (5:48)

"اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بیشک اﷲ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے،" (49:13)

“*تقوی اور اسکے دوسرے مصادر کا وسیع تر تصور خدا اور روز جزا ء  پر ایمان رکھنے کے ساتھ عالمگیر سماجی اور اخلاقی ذمہ داریوں کی طرف  توجہ دینےسے عبارت ہے۔

نتیجہ: روایتی طور پر مسلمان اپنی مذہبیت کو اسلام کے پانچ سطون تک ہی محدود رکھتے ہیں، اور عالمی  سطح پر دین داری کے علامتی نشانات  مثلاً ، مسجدوں  کی اونچائی اوراسکے  میناروں کی بناوٹ، ڈاڑھی رکھنے ،عمامہ باندھنے اور خواتین کے لئے خاص اندازکے برقےاور قرآن میں نماز کے متعلق کچھ نقل و حرکت  کے لئے جانےجاتےہیں، لیکن مذہبی پندونصیحت  میں ،یہاں تک کہ خاندانی سطح پر  بھی مذہبی نو جوانوں میں بمشکل  ہی مثالی عادات واطوار نمایا ں ہوتےہیں ۔قرآن مسلمانوں سےاس بات کی  توقع کرتا ہے کہ وہ انسانیت کے لئے گواہ کے طورپر کردار پیش کریں ،جس طرح نبی کریم ﷺ اپنے وقت کے لوگوں کے لئے گواہ تھے۔اگر وہ دوسری  چیزوں کے علاوہ اوپر ذکرکئے گئے متوقع  اخلاق و کردار کے بنیادی معیار سے انجان رہے تو وہ بمشکل ہی نبی کریم ﷺ کو اس دور میں متعارف کرا پائیں گے ۔  تاہم، قرآن تمام انسانیت کے لئے ایک تنبیہ  (6:90، 12:104، 38:87، 68:52، 81:27) (ذکر العالمین) ہے اور اس طرح  یہ تمام انسانوں کے لئے اچھے اخلاق و کردار کا بہترین  نمونہ ہے ، اور اگر مسلمان  اپنے اطراف و جوانب کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کریں  تو وہ دیگر مذاہب  کے ایسے بے شمار لوگوں کو پائیں گے جنہوں نےکبھی قرآن پڑھی نہیں یا اس کے پیغامات سے منحرف  ہو چکے  ہیں  لیکن وہ قرآنی کے ذریعہ پیش کردہ مثالوں پر عمل کرنے  میں سبقت لے جا رہے ہیں۔جیسا کہ عظیم شاعر اقبال نے کہا کہ :ابراہیم کی وراثت کے امانت دار عیسائی ہو گئے ؛اور حجاز کی سر زمین پر  گرجا گھر کی تعمیر ہوئی۔

ایک زمانہ ہو گیا  کہ مسلمان بچوں کواخلاق و کردار کے متعلق  قرآن کی مثالیں اس کے معانی کو سمجھے بغیر روایتی انداز میں یا  مدارس میں اسکی تعلیم سمجھائے  بغیر محض تلاوت سکھانے کیلئے دی جا رہی ہے۔

محمد یونس نے آئی آئی ٹی سے کیمیکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے اور کارپوریٹ اکزی کیوٹیو کے عہدے سے سبکدوش ہو چکے ہیں اور90کی دہائی سے قرآن کے عمیق مطالعہ اور اس کے حقیقی پیغام کو سمجھنے  کی کوشش کر رہے ہیں۔ان کی کتاب اسلام کا اصل پیغام کو 2002میں الاظہر الشریف،قاہرہ کی منظوری حاصل ہو گئی تھی اور یو سی ایل اے کے ڈاکٹر خالد ابو الفضل کی حمایت اور توثیق بھی حاصل ہے اور محمد یونس کی کتاب اسلام کا اصل پیغام آمنہ پبلیکیسن،میری لینڈ ،امریکہ نے،2009میں شائع کیا۔

URL for English article: http://www.newageislam.com/islamic-sharia-laws/muhammad-yunus,-new-age-islam/paramount-significance-of-the-behavioral-paradigms-of-the-quran/d/6835

URL: https://newageislam.com/urdu-section/the-significance-utility-quranic-verses/d/6843

Loading..

Loading..