خامہ بگوش مدظلہ، نیو ایج اسلام
12مئی، 2013
اگرچہ ہم کسی حدتک اس موضوع پر بحث کرچکے ہیں کہ جنوبی ایشیاء خصوصاً پاکستان اور بھارت میں تیزی کے ساتھ پروان چڑھتی ہوئی سلفیت اور مذہبی انتہا پسندی کا تدارک ممکن نہیں رہا اور مستقبل میں نہ صرف دنیا اس انتہا پسندی کا شکار ہوگی بلکہ مقامی معاشرے بھی اس کی لپیٹ میں آجائیں گے۔ہمارے کچھ کرم فرما اِن معروضات پر خوش نہیں اور اِن کا گمان ہے کہ ہم کسی حد تک مبالغہ آمیزی کے ساتھ اپنی بات میں وزن بڑھاتے ہیں۔اس کا بہترین جواب یہی ہوسکتا ہے کہ ہم اپنی طرف سے کم سے کم لکھیں اور حوالہ جات کی مدد سے انتہا پسند سلفیوں کی بات اُنہی کی زبانی سنیں۔ڈاکٹر اسرار احمد کے احمدیوں کے بارے میں ارشادات سے تو ہم کماحقہ واقف ہوچکے ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر اُن کے پاس طاقت کا کوئی ایک بھی گوشہ موجود ہوتا توپاکستان کے احمدی آج اس دنیا میں نہ ہوتے۔
پاکستان میں القاعدہ وطالبان کے سب سے بڑے ساتھی اور پنجاب میں فرقہ وارانہ جنگ سے لے کر بھارت کے خلاف مسلح جہاد تک صف اول میں رہنے والے مجاہد مولانا مسعود اظہر جنہیں طالبان نے بھارتی مسافر بردار جہاز اغواء کرکے تاوان میں بھارتی جیل سے رہا کروایا تھا آج کل پاکستان میں انتہا پسندلکھاریوں میں سب سے آگے ہیں۔مولانا مسعود اظہر جن کے بارے میں پاکستان کے سیکورٹی ادارے یہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ پاکستان میں موجود نہیں ،پاکستان کے تقریباً ہر بڑے شہر سے اخبارات اور رسائل و جرائد شائع کرتے ہیں۔جہادی موضوعات پر اِن کی بسیار نویسی ایک مثال کی سی حیثیت رکھتی ہے اور وہ اپنے اصل نام کے علاوہ لاتعداد جہادی ناموں سے تحریری جہاد میں ہمہ وقت مصروف دکھائی دیتے ہیں۔خواتین کے لیے شائع کیے جانے والے جریدے ’’بنات عائشہ‘‘ میں وہ مستقبل کی ایسی عظیم ماؤں سے مخاطب ہونے کے لیے اپنا اصل نام استعمال کرتے ہیں ،جو اُن کی جہادی تحریروں کے زیراثر اپنے جگر گوشے جہاد کی راہ میں قربان کردیں گی۔تقریباً دوسو صفحات پر مشتمل ماہنامہ بنات عائشہ کی پیشانی پر جائے اشاعت کے طور پر کراچی کا نام لکھا ملتا ہے لیکن اصل میں اس رسالے کی اشاعت کا سارا کام کالعدم جیش محمد کے مرکز جنوبی پنجاب کے شہر بہاول پور میں واقع جامعہ عثمان و علی کے ایک گوشے میں ہوتا ہے۔جہاں جیش محمد کے جہادی پاکستان بھر میں پھیلے ہوئے دیوبندی مدارس اور عام ارکان کے لیے جدید پرنٹنگ کے ساتھ یہ جریدہ تیار کرتے ہیں اور شائع کرتے ہیں۔اِسی طرح مولانا مسعود اظہر اور اُن کے ساتھی تقریباً آٹھ سال سے ہفت روزہ ’’القلم‘‘ شائع کررہے ہیں جس کی پیشانی پر جائے اشاعت کے طور پر پشاور درج ہے۔ اخباری سائز کے آٹھ صفحات پر مشتمل یہ ہفتہ روزہ اخبار پاکستان میں القاعدہ و طالبان اور فرقہ پرستوں کی حمایت کے لیے تحریری طور پر راہ ہموار کررہا ہے۔جیش محمد کے امیر مولانا مسعود اظہر اس ہفتہ روزہ میں بھی تسلسل کے ساتھ سب سے زیادہ مضامین لکھتے ہیں لیکن یہاں اُنہوں نے ’’سعدی کے قلم سے‘‘ کا قلمی نام اپنا رکھا ہے۔ان کے تحریری سلسلے کا نام ’’رنگ و نور‘‘ہے لیکن تحریروں میں رنگ کے نام پرخون اور نور کے نام پر موت کی سیاہی نمایاں ہوتی ہے۔دسمبر 2009ء کے ایک شمارے میں مولانا مسعود اظہر سعدی کے قلم سے رقمطراز ہیں ’’ اللہ کی شان اور رحمت خودکش حملہ آور کے ساتھ ساتھ چلتی ہے اور رحمت کے فرشتے اس کو اپنے سایے میں لیے ہوتے ہیں‘‘ ہفتہ روزہ القلم کے لوگو کے بالکل سامنے گذشتہ دوعشروں کے دوران دنیا پھر میں القاعدہ و طالبان سمیت دوسرے مسلمان انتہا پسندوں کی طرف سے کی جانے والی دہشت گردی کی وارداتوں کی تصاویر شائع کی جاتی ہیں تاکہ یاد رہے کہ ہمارا تعارف اس قسم کی تباہی ہے جس میں لاتعداد بے گناہ افراد مارے گئے اور ہم اس ’’مقدس سلسلے‘‘ کو جاری وساری رکھیں گے۔
مولانا مسعود اظہر عرف سعدی کے قلم سے جن کے بارے میں پاکستان کی حکومتیں اور زبردست خفیہ ادارے ببانگ دہل یہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ پاکستانی سرزمین پر موجود نہیں ،پاکستان میں عام انتخابات کو کس طرح کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور کہاں کہاں ان کو قباحتیں اور غیر شرعی اُمور نظر آرہے ہیں۔ مولانا مسعود اظہر ہفت روزہ ’’القلم‘‘ کے تازہ شمارے میں لکھتے ہیں’’ گیارہ مئی کا دن نزدیک ہے۔ معلوم نہیں انتخابات ہوتے ہیں یا نہیں۔اگر ہوتے ہیں تو کون آتا ہے؟ ہر حلقے سے اتنے اُمیدوار کھڑے ہیں کہ بیلٹ پیپر شائد کئی کئی گز کے ہوں گے۔آج کل سیاسی لیڈر ایک دوسرے کے خفیہ راز کھول کھول کر بیان کررہے ہیں۔سنا ہے کہ انٹرنیٹ پر ایک دوسرے کے خلاف شرمناک شواہد پر مبنی ویڈیوز لگائی جارہی ہیں۔اے ایمان والو ایسی کوئی ویڈیو دیکھنا جس میں کسی معروف شخس کے فحش گناہوں کو دکھایا یا سنایا گیا ہو بہت خطرناک گناہ ہے۔دوسری بڑی خرابی تحریک انصاف اور چند پارٹیوں کا گھروں پر دھاوا بولنا ہے۔مرد تو مرد عورتیں بھی طرح طرح کے بے پردہ لباس اور فیشنی برقعے پہن کر گھروں میں گھس رہی ہیں۔اِن بیچاروں کو پتا نہیں کس نے سمجھادیا ہے کہ ’’کپتان‘‘(عمران خان) کوئی مسیحا ہے اور وہ پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں جاری کردے گا۔کپتان بھی زرداری اور نواز شریف جیسا ہی ہے۔اس ملک کا نظام حکومت ایسا پیچیدہ ہے کہ نیک سے نیک شخص بھی آجائے تو زمین پر کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔جب تک کہ نظام حکومت کو اسلام کے سچے اور آفاقی قانون کے ذریعہ درست نہیں کیا جاتا پیپلز پارٹی بھی ظالم، نون لیگ بھی خطرناک اور کپتان بھی ڈبل خطرہ۔یااللہ مسلمان کہاں جائیں آپ ہی رحم فرمائیں۔ہم مسلمان الحمدللہ مایوس نہیں ہیں، مجاہدین کی قربانیاں اور اہل دل کی محنتیں انشاء اللہ رنگ لائیں گی اور ایک دن اس ملک میں بھی انشاء اللہ ایمان اور امن کی حکومت ہوگی‘‘
مولانا مسعود اظہر القلم کے دسمبر دوہزار دس کے ایک شمارے میں رقمطراز ہیں’’ اللہ کی شان اور رحمتوں کے ساتھ چمٹے ہوئے لوگوں پر رشک آتا ہے، آج کفار اور اسلام کے تمام دشمنان عراق اور افغانستان سے لے کر فلسطین اور دوسرے اسلامی ممالک میں مسلمانوں کو شہید کررہے ہیں اور اسلام کی طاقت کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔لیکن الحمدللہ آج وہ مجاہد جو دشمنان اسلام سے بدلہ لینے کا ارادہ کرچکے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کے دین کی محبت میں جان کی بازی لگانے سے دریغ نہیں کررہے ،اِن کی شان دیکھئے کہ جب ایک مجاہد دشمن پر خودکش حملہ کرنے کے لیے اپنے جسم کے ساتھ باردو باندھتا ہے تو اللہ کی رحمت اس کے شامل حال ہوجاتی ہے۔وہ جہاں جہاں جاتا ہے اللہ کے فرشتے اس پر اپنا سایہ کیے رہتے ہیں اور اس دوران جب وہ اپنا نشانہ تلاش کررہا ہوتا ہے اللہ کی رحمت اس کی مددگار ہوتی ہے۔جب وہ اپنی منزل(ٹارگٹ) کو پا لیتا ہے تو اس خوشی دیدنی ہوتی ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ اس کو اپنی قدرت کی مدد سے جنت کا نظارہ کروارہے ہوتے ہیں جہاں وہ اپنی بہتر72خوبصورت بیویوں کو محو انتظار دیکھتا ہے تو اس کے دل میں شہادت کی تڑپ مزید بڑھ جاتی ہے۔جب وہ اپنی منزل پالیتا ہے یعنی شہادت کے بلند مرتبے پر فائز ہوجاتا ہے تو اس کے زخمی بدن سے خوشبو کے فوارے پھوٹنے لگتے ہیں‘‘
پاکستان کے تقریباً تمام چھوٹے بڑے شہروں میں اخبار فروشوں اور کتب خانوں سے کالعدم جیش محمد کا ترجمان ہفت روزہ القلم حاصل کیا جاسکتا ہے جب کہ دوسری طرف حکومت مولانا مسعود اظہر کی تنظیم اور اس کی تمام مطبوعات کو خلاف قانون قرار دے چکی ہے۔ہفت روزہ القلم پاکستان کے ہزاروں دیوبندی مدارس میں پڑھا جاتا ہے اور ملک کے کئی نامور صحافی قلمی ناموں سے اس میں جہادی اور فرقہ وارانہ مضامین لکھتے ہیں۔ (جاری ہے)
خامہ بگوش مدظلہ۔تعارف
ایک متذبذب مسلمان جو یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ مسلمان کی اصل تعریف کیا ہے۔کیا مسلمان واقعی سلامتی کا داعی ہے یا اپنے ہی ہم مذہبوں کی سلامتی کا دشمن؟اسلام کی مبادیات،تاریخ،تہذیب اور تصور عالم کیا ہے اور کیوں آج مسلمان نہ صرف تمام مذاہب بلکہ تہذیبوں کے ساتھ بھی گتھم گتھا ہیں؟کیا اسلام غالب آنے کو ہے یا اپنے ہی پیروکاروں کے ہاتھوں مغلوب ہوچکا ہے؟میں اِنہی موضوعات کا طالب علم ہوں اور نیو ایج اسلام کے صفحات پر آپ دوستوں کے ساتھ تبادلہ خیال کی کوشش کروں گا۔
URL for English article:
https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/the-salafi-wave-south-asia–5/d/11531
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/the-salafi-wave-south-asia–5/d/11538