خامہ بگوش مدظلہ، نیو ایج اسلام
17 اپریل، 2013
پاکستان میں سلفی اسلام کی علمبردار تنظیم جماعت الدعوہ سابق دعوۃوالارشاد1993ء سے لے کر اب تک اپنے مجلہ جات مجلہ الدعوہ اور مجلہ الحرمین میں ایک ہزار کے قریب ایسے نوجوان شہداء کے حالات زندگی اور محاذ جنگ یا جہاد پر بہادری و جانثاری کے واقعات شائع کرچکی ہے جن میں نہ صرف حیرت انگیز انکشافات اور قتال کی لرزہ خیز داستانیں موجود ہیں بلکہ ایسے شہداء اور ان کے لواحقین کے بیانات بھی نقل ہیں جنہیں پڑھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
آدھے سے زیادہ شہداء کی عمریں سولہ سے اٹھارہ سال کے درمیان ہیں اور اُنہوں نے اپنی وصیتوں میں ہندو فوجیوں اور کشمیر کے عام ہندو باسیوں کو ذبح کرنے کی شدید ترین خواہش کا اظہار کیا ہے اور اِن کو یقین ہے کہ جب تک ہندو کافر اور بت پرست مشرک کو ذبح نہ کیا جائے کشمیری مسلمانوں پر جاری ظلم و ستم کا مکمل بدلہ نہیں لیا جاسکتا۔انیس سو چھیانوے میں لشکر طیبہ کے مرکز الدعوۃ والارشاد مریدکے میں منعقد ہونے والے سالانہ سہ روزہ اجتماع کے اہم ترین اور اختتامی دن حافظ محمد سعید کے خطاب سے پہلے مقبوضہ کشمیر کے رہائشی ایک ایسے نوجوان کو اسٹیج پر لایا گیا جس نے نعرہ تکبیر کے بعد کہا کہ الحمد واللہ میں اب مسلمان ہوں اور اپنے ہندو والدین اور ایک بھائی کا سر قلم کرچکا ہوں۔اس نو مسلم اور ابوقتادہ کے جہادی نام کے حامل نوجوان نے لاکھوں کے مجمع، جس میںآئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل بھی موجود تھے،کے سامنے نہایت جذباتی انداز میں بتایا کہ کس طرح اس نے اپنے ہندو ماں باپ اور بھائی کو اسلام کی دعوت دی اور اُنہوں نے میرا مذاق اُڑایا تو رات کو میں نے کس اطمنان کے ساتھ اُنہیں جہنم واصل کیا۔اس کے بعد نعرہ تکبیر کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔مجلہ الدعوہ دسمبر انیس سو چھیانوے میں اس اجتماع کی روداد لکھتے ہوئے مصنف نے دعویٰ کیا ہے ’’ابوقتادہ بھائی مظفر آباد کے تربیتی کیمپ میں سارے جہادی بھائیوں کی آنکھوں کا تاراہیں کیوں کہ وہ اپنے جہادی بھایؤں کے ساتھ اس قدر رحمدلی کے ساتھ پیش آتے ہیں اور اتنی زیادہ محبت کا مظاہرہ کرتے ہیں اِن سے ملنے والے فوری طور پر اِن کے گرویدہ ہوجاتے ہیں‘‘
کوئی نہیں جانتا کہ اس وقت ابوقتادہ بھائی کہاں ہیں پاکستان یا بھارت میں برسرپیکار ہیں یا جنت میں اپنی72 خوبصورت بیویوں کے ساتھ ابدی راحت کے مزے لوٹ رہے ہیں۔جنوری انیس سو پچانوے میں شائع ہونے والے مجلہ الدعوہ کے صفحہ نمبر بائیس پر ایک چوکھٹے میں تحریر ہے’’ ابو جان آپ میری شادی کرنا چاہتے ہیں، کیا آپ کی نظر میں میرے معیار کے مطابق کوئی لڑکی ہے؟ ابو جان میرا معیار تو حور ہے جو اس دنیا میں نہیں جنت میں ہے اور شہادت کے بعدبس اسی کے ساتھ شادی کروں گا‘‘
جماعت الدعوہ نے گذشتہ دودہایؤں میں لاکھوں پاکستانی نوجوانوں کو متاثر کیا ہے اور اپنے اداروں میں شامل کیا ہے۔مجلہ الحرمین کی تازہ ترین اشاعت میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ رواں تعلیمی سال میں پورے پاکستان سے پچاس ہزار سے زائد بچوں نے الدعوہ ماڈل سکولوں، کالجوں اور دینی مدارس میں داخلہ لیا ہے۔اس انکشاف کے ساتھ یہ بھی تحریر ہے کہ انشاء اللہ مجاہدین اسلام کی تعداد تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے جو وطن عزیز میں بدعات و مکروہات اور فحاشی و عریانی کے علاوہ کفار کے ساتھ ہر محاذ پر برسرپیکار ہوں گے۔
اگرچہ اس طرح کے مکمل اعدادوشمار تو کہیں میسر نہیں لیکن جماعت الدعوہ کی مطبوعات کے مطالعہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دودہایؤں کی محنت کے بعد کتنے افراد اپنے آپ کو انتہا پند سلفی منہج کے لیے وقف کرچکے ہیں۔ لیکن یہ اب مشکل بھی نہیں رہا کہ سلفیت کو پاکستان کے سماج میں اُبھرتا ہوا نہ دیکھا جاسکے کیوں پاکستان کا اردو میڈیا ہو یا تعلیمی ادارے یا سرکاری و نجی دفاتر ہر جگہ سلفیت کے مظاہرے عام ہیں۔
پاکستان میں اب یہ ایک عام بات ہے کہ کسی کو بھی توہین کا الزام لگا کر بے دردی کے ساتھ قتل کردو۔لاتعداد ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں جن میں بے گناہوں کو قتل کیا گیا،اِن میں جہاں مسلمان بھی شامل تھے وہاں اقلیتوں کو بھی پوری قوت کے ساتھ نشانہ بنایا گیا۔ایسے تمام واقعات میں جماعت الدعوہ کے عسکری ونگ لشکر طیبہ نے بھرپور حصہ لیا ہے اور اقلیتوں پر منظم حملوں سے لے کر توہین رسالت کے الزام کی زد میں آنے والے عام لوگوں کو بھی قتل کرنے میں کردار ادا کیا ہے۔مثال کے طور پر تازہ ترین واقعات میں بہاول پور میں ایک پاگل شخص کو تھانے پر حملہ کرکے اغواء کیا گیا اور پھر بھرے بازار میں اینٹوں اور پتھروں سے مار مار کر زخمی کیا گیا۔جب وہ مرنے کے قریب تھا تو اس پر تیل چھڑک کر آگ لگادی گئی۔ہزاروں کا مجمع نعرہ تکبیر بلند کرتا رہا اور وہ بے بس انسان جل کر راکھ ہوگیا۔
اس کی موت کے بعد معلوم ہوا کہ وہ کچھ عرصہ پہلے پاگل خانے سے علاج کرواکے واپس پہنچا تھا لیکن پاگل پن کے اثرات ابھی پوری طرح زائل نہیں ہوئے تھے کہ ایک دن اس پر الزام لگا کہ اس نے قرآن پاک کی توہین کی ہے۔پولیس اس کو گرفتار کرکے تھانے لے گئی لیکن سلفی جوانوں نے پورے شہر کی مساجد میں اعلان کرکے لوگوں کو اکٹھا کرلیا اور تھانے پر حملہ کردیا۔تھانے کو آگ لگادی گئی جس سے ملحقہ عمارت میں رہائش پذیر ایک کانسٹیبل کا کوارٹر بھی جل گیا جس میں اس کی جوان بیٹیوں کا جہیز کا سامان موجود تھا۔بعد میں اس کانسٹیبل نے میڈیا کو بتایا کہ اس سامان میں قرآن مجید کے دو نسخے بھی موجود تھے جوایک پاگل شخص پر توہین قرآن کا الزام لگانے والے زبردست مسلمانوں نے خود ہی جلا دیئے۔اِسی طرح پنجاب میں گوجر ہ، شانتی نگر اور بادامی باغ لاہور میں توہین کے غیر ثابت شدہ الزامات کے بعد سلفی انتہا پسندوں نے حملے کیے اور نہ صرف دونوں دیہات کو جلا دیا گیا بلکہ کئی لوگوں کی ان حملوں میں جان بھی گئی۔
توہین کے الزام پر بپھرے ہوئے جذباتی لوگوں نے گرجے تک جلا ڈالے اور بائبل کے کئی نسخے اسی طرح کی توہین کے مراحل سے گزرے جیسے مبینہ طور پر قرآن مجید گزرا تھا۔لیکن قرآن مجید کی توہین کے الزامات ثابت نہیں ہوئے تھے کہ جذباتی سلفیوں نے بائبل اور گرجوں کی دیدہ دانستہ توہین کا ارتکاب کیا ۔حیران کن امر یہ ہے کہ جن لوگوں پر توہین کا الزام ثابت نہ ہوسکا اِن پر مقدمات توہین کی دفعات کے تحت درج کیے گئے اور جن لوگوں نے دیدہ دانستہ مذہبی کتابوں مثلاً بائبل اور مذہبی مقامات کی توہین کی اِن پر درج مقدمات توہین کی دفعات کے مقدمات نہیں تھے بلکہ اِن پر بلوے اور جلاو گھیراو کے مقدمات درج کیے گئے جو ناکافی شہادتوں اور ملزمان کی کثیر تعداد کے باعث کسی کو سزا سے ہمکنار کرنے کے قابل نہیں۔ناکافی گواہیوں کی اصل وجہ سلفی انتہا پسندوں کا خوف ہے کیوں کہ اس صورت میں کمزور اور بے بس اقلیتوں کی جان دوبارہ خطرات سے دوچار ہوسکتی ہے۔
توہین کے الزامات کے تحت قتل ہونے والوں کے مقدمات کے بے اثر ہونے کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملزمان کے لیے کوئی وکیل عدالت میں حاضر ہونے کی جرات نہیں کرسکتا کیوں اس صورت میں ایک شاتم کا حامی سمجھ کر اس کو قتل کیا جاسکتا ہے۔عدالتوں کے جج یہ دعائیں مانگتے ہیں کہ اُن کی عدالت میں توہین کا کوئی مقدمہ سماعت کے لیے نہ آئے۔اس کی وجہ سلفی انتہا پسندوں کا خوف ہے جو اس سے پہلے لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج عارف اقبال بھٹی کو قتل کرچکے ہیں ،جنہوں نے گوجرنوالہ کے رحمت مسیح اور منظور مسیح کو توہین رسالت کے الزام میں ناکافی شہادتوں کی بنیاد پر بری کردیا گیا تھا۔ملزمان میں سے ایک کو تو کمرہ عدالت سے باہر نکلتے ہی قتل کردیا گیا جب کہ دوسرے نے پاکستان سے بھاگ کر اپنی جان بچائی۔
پاکستان میں فروغ پذیر کٹر سلفیت کو روک دینا کسی کے بس کی بات نہیں رہی کیوں کہ جہاں طاقت ور ادارے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے باعث بھارتی کشمیر میں برسرپیکار سلفی انتہا پسندوں کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں وہاں افغانستان میں بھی اپنی مرضی مسلط کرنے کے لیے جہادیوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔پنجاب کی چھتیس ضلعی جیلوں میں جماعت الدعوہ کے تربیتی مراکز،ڈسپنسریاں اور کتب خانے قائم کیے گئے ہیں جن کا براہ راست کنٹرول جماعت الدعوہ کے پاس ہے جو لشکر طیبہ کے شاہینوں کی مدد سے اِن جیلوں میں موجود ہزاروں قیدیوں تک رسائی حاصل کرچکے ہیں۔سماجی سطح پر طاقت کے روایتی مراکز سیاست دانوں کی گرفت سے نکل کر سلفی انتہا پسندوں کے پاس جاچکے ہیں اور پنچائت تک کے فیصلے انتہا پسند کرتے ہیں جن سے کسی فریق کے انحراف کا مطلب اس کی اندوہناک موت ہے۔سیاسی جماعتیں انتخابات اور دیگر معاملات میں انتہا پسندوں کی مرہون منت ہیں جو مسلح حمایت سے لے کر تحفظ فراہم کرنے جیسا کام بھی کرتے ہیں اور آج لاتعداد سیاست دان، صنعت کار،زمین دار،بیوروکریٹ حتی کہ دانش ور اور صحافی مسلح مذہبی تنظیموں کو اپنے تحفظ کے لیے بھتہ فراہم کرتے ہیں۔
پنجاب کے ایک اعلیٰ ترین عہدیدار بھی ایک سلفی تنظیم کو بھتہ دیتے ہیں تاکہ اِن کی جان بچی رہے۔مستقبل میں صورت حال مزید مخدوش ہوتی نظر آرہی ہے کیوں کہ ایک ریاست کی حیثیت سے پاکستان کی اندرونی معاملات پر گرفت کمزور ہورہی ہے اور گرتی ہوئی معیشت ایک دوسری مصیبت ہے جو اس قسم کی تنطیموں اور جماعتوں کو حوصلہ فراہم کرتی ہے۔روزگار کی عدم دستیابی کے باعث نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی تنظیموں کے ہتھے چڑھ جاتی ہے جس کی روشن مثال ممبئی حملوں میں زندہ گرفتار ہونے والا اجمل قصاب ہے جو بیروزگاری کے باعث سلفی کیمپ میں شامل ہوگیا۔
خامہ بگوش مدظلہ۔تعارف
ایک متذبذب مسلمان جو یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ مسلمان کی اصل تعریف کیا ہے۔کیا مسلمان واقعی سلامتی کا داعی ہے یا اپنے ہی ہم مذہبوں کی سلامتی کا دشمن؟اسلام کی مبادیات،تاریخ،تہذیب اور تصور عالم کیا ہے اور کیوں آج مسلمان نہ صرف تمام مذاہب بلکہ تہذیبوں کے ساتھ بھی گتھم گتھا ہیں؟کیا اسلام غالب آنے کو ہے یا اپنے ہی پیروکاروں کے ہاتھوں مغلوب ہوچکا ہے؟میں اِنہی موضوعات کا طالب علم ہوں اور نیو ایج اسلام کے صفحات پر آپ دوستوں کے ساتھ تبادلہ خیال کی کوشش کروں گا۔
URL for this English article Part-2:
https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/the-salafi-wave-south-asia-2/d/11075
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/the-salafi-wave-south-asia-3/d/11174