خامہ بگوش مدظلہ، نیو ایج اسلام
10اپریل، پاکستان اور بھارت میں مذہبی طور پر نئے کٹر پن کا مظاہرہ بہت عام ہوچکا ہے اور سوشل میڈیا سے لے کر ٹیلی ویژن پروگراموں اور ہر طرح کی سماجی مصروفیات کے ساتھ ساتھ سیاسی ومعاشی اصلاحات بھی تبدیل ہورہی ہیں۔مثال کے طور پر پاکستان میں سلفیت کے زیراثر سماجی تبدیلی بہت نمایاں ہے۔صدیوں سے عام مسلمانوں کے روزمرہ استعمال کا لفظ ’’خدا حافظ‘‘ تبدیل ہوکر اللہ حافظ بن چکا ہے۔کچھ عرصہ پہلے اس حوالے سے باقاعدہ ایک مہم چلائی گئی کہ خدا حافظ میں موجود خدا کا لفظ فارسی اور ہندو خداوں سے ماخوذ ہے اور خدا وہ ہوتا ہے جس کا بت بنایا جاتا ہے جبکہ اسلام کا رب اللہ ہے خدا نہیں۔خدا کی جمع خداوں ہے اور ہندو اساطیر میں بہت سے خدا ہیں جبکہ اسلام میں صرف ایک اللہ ہے اور لفظ اللہ کی جمع موجود نہیں۔پاکستان میں آپ کسی کو خدا حافظ کہیں تووہ ناراض ہو جائے گا اور اگر وقت رخصت اس کے پاس تھوڑا وقت موجود ہوگا تو وہ آپ کی تصحیح ضرور کرے گا کہ اللہ حافظ کہو، خدا حافظ کہہ کر آپ گناہ کے مرتکب ہورہے ہیں۔اگر کوئی اس کے جواب میں اعتراض یا کوئی علمی نکتہ پیش کرنے کی کوشش کرے تو ہوسکتا ہے آپ کو جان سے ہاتھ دھونا پڑیں کیوں کہ اس طرح کی بحث میں توہین کا پہلو بھی نکل سکتا ہے جس کے بعد یہ بھی ممکن ہے کہ بحث کرنے والے کو وہیں پر جذباتی مسلمانوں کا ہجوم تشدد کے بعد آگ لگا دے۔ایسے وقعات کا ذکر ابھی کچھ وقت کے لیے موخر کرلیتے ہیں ،میں آپ کے سامنے ایسے درجنوں واقعات پیش کروں گا کہ کس طرح معمولی قسم کی بحث کے بعد کئی افراد کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔
اگر کسی کو جماعت الدعوہ کے مرکز ننگل ساہداں(مریدکے) جانے کا اتفاق ہو تو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھے گا کہ مکہ اور مدینہ کالونی کے مرکزی دروازوں پر مسلح محافظ اپنے ہاتھ میں بڑے بڑے مارکر لے کر بیٹھے ہوئے نظر آئیں گے جو کالونیوں میں داخل ہونے والوں کی تلاشی لیتے ہیں۔اگر اُن میں سے کسی کے پاس کوئی اخبار یا میگزین یا کتاب ہو تو وہ اس کو بغور دیکھتے ہیں اور اگر کہیں کوئی تصویر نظر آجائے تو اس پر فوری طور پر سیاہی پھیر دی جاتی ہے۔کیوں کہ اسلام میں غیر محرم کی فوٹو دیکھنا حرام ہے اور فوٹو گرافی قطعی طور پر غیر اسلامی فعل ہے اور اس کا شمار شرک جیسے گناہوں کی صف میں ہوتا ہے۔لشکر طیبہ کے مجلہ جات ،مجلہ الدعوہ اور مجلہ الحرمین میں کوئی تصویر شائع نہیں ہوتی جب کبھی کسی ہجوم کی تصویر شائع کرنا ناگزیر ہو تو کوشش کرکے لوگوں کے چہروں کو دھندلا کردیا جاتا ہے۔یہی صورت حال ٹیلی ویژن کے حوالے سے بھی ہے کہ مکہ اور مدینہ کالونیوں میں آپ کوئی ٹی وی نہیں دیکھ سکتے کیوں کہ نیو سلفیت کی نظر میں ٹی وی دیکھنا حرام ہے، یہ الگ بات ہے کہ جماعت الدعوہ اور لشکر طیبہ کے مرکزی رہنما حافظ محمد سعید اور مولانا امیر حمزہ جو ٹی وی کے خلاف اپنے فتاویٰ جاری کر چکے ہیں اب کوشش کرکے ٹی وی پر آتے ہیں اور لمبے لمبے بھاشن جاری کرتے ہیں۔اس کے علاوہ کوئی بھی شخص مکہ اور مدینہ کالونیوں کے اندر سگریٹ اور پان نہیں لے جا سکتا کیوں کہ لشکر طیبہ کی نظر میں سگریٹ اور پان غیر اسلامی ہیں۔
پاکستا ن میں سلفیت کے طوفان کے بہت سے پہلو دیکھے جاسکتے ہیں، جو جابجا نظر آجاتے ہیں جو آج سے کچھ عرصہ پہلے موجود نہیں تھے۔مثال کے طور پر لشکر طیبہ نے خصوصی مہم کے تحت پنجاب میں آباد ہندووں کو وہاں سے نکل جانے پر مجبور کردیا ہے۔اس جبری ہجرت کے خلاف پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں ایک لفظ بھی شائع نہیں ہوا کیوں کہ اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے نیوز رومز میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو جہادی اور سلفی نقطہ نظر کے حامل ہیں اور جہادی و سلفی تنظیموں کی اس طرح کی کارروایؤں کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔سیالکوٹ، گوجرانوالہ،گجرات،شیخوپورہ اور کئی دوسرے اضلاع میں آباد سینکڑوں ہندووں کو خاموشی کے ساتھ وہاں سے بے دخل کردیا گیا ہے۔عمومی طریقہ کار ہندو لڑکیوں کے اغواء سے شروع ہوتا ہے جنہیں بعد ازاں اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔اگر وہ اسلام قبول کرلیں تو اِن کا ہندو خاندان اپنی بے عزتی کی وجہ سے علاقہ چھوڑ دیتا ہے اور اگر اسلام قبول نہ کریں تو اِنہیں مار دیا جاتا ہے جس کے بعد ہندو اپنے آپ کو مزید غیر محفوظ تصور کرتے ہوئے علاقہ چھوڑ دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔صرف پنجاب میں گذشتہ تین برسوں میں ایسے بائیس واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں یا تو مغوی لڑکیوں کو قتل کردیا گیا یا پھر اُنہیں زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔سیالکوٹ کے رہائشی بابو رام بھگت کے خاندان کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ اس سلسلے میں مثال کا درجہ رکھتا ہے کہ اس کی دو نواسیوں کو اغواء کیا گیا، ایک نے اسلام قبول کرلیا لیکن دوسری نے انکار کیا تو اُسے پھانسی دیدی گئی ، جس کے بعد یہ خاندان بھارت نقل مکانی کرگیا اور آج دربدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہے کیوں کہ اس خاندان کے افراد اپنے سابقہ گاوں کے لوگوں کو خط لکھ کر اپنی بدحالی سے باخبر رکھتے ہیں۔
سلفیت کے پھیلاو کے مظاہر میں سب سے نمایاں پنجاب کے دیہات میں صوفیاء کے مزاروں پر صدیوں سے لگنے والے میلوں اور تقریبات کا بتدریج خاتمہ ہے۔آج ستر فیصد ایسے میلے صرف قرآن خوانی تک محدود ہوچکے ہیں جہاں پہلے بازار لگتے تھے اور قوالوں سے لے کر لوک گیت گانے والوں تک کی آمد ہوتی تھی۔اب قوال سی ڈی ریکارڈ کرواکے فروخت کرنے اور محض ٹی وی چینلوں پر تہواروں کی مناسبت سے قوالی کرنے تک محدود ہیں۔روایتی قوالوں اور لوک فنکاروں کی بڑی تعداد قوالی اور گانے کو ترک کرچکی ہے۔جب کہ لاتعداد ایسے ہیں جو نعت خوان بن گئے تاکہ روزی روٹی سے بالکل محروم نہ ہوجائیں۔لاہور میں تھیٹر اور اسٹیج کے روایتی مراکز الحمراسینٹر کو دن میں درجنوں دھمکیاں وصول ہوتی ہیں کہ اگر خلاف اسلام ڈرامے اور رقص کو بند نہ کیا گیا تو پورے سینٹر کو بم سے اُڑا دیا جائے گا۔اس حوالے سے معروف فنکار عثمان پیرزادہ پریس کانفرنسیں بھی کر چکے ہیں۔
پاکستانی معاشرے میں سلفیت کے پھیلاو کی واضح ترین مثال 1974ء میں پارلیمنٹ کے پاس کردہ ایک قانون کی رو سے کافر قرار دیئے جانے والے احمدیوں کے بارے میں عوامی رائے ہے۔چند برس پہلے جب لاہور میں احمدیوں پر حملے کرکے سو سے زائد افراد کو ہلاک کردیا گیا تو اس واقعے کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں نے براہ راست تبصروں کے دوران احمدیوں کے بارے میں کہا کہ اُن کی مساجد پر حملے ہوئے ہیں۔فوری طور پر جہادی تنظیموں کے دفاتر سے ٹی و چینلوں پر فون کیے گئے کہ احمدیوں کی عبادتگاہوں کو مساجد نہ کہا جائے۔میڈیا کے لیے یہ ایک کھلی دھمکی تھی، فوری طور پر تمام ٹی وی چینلوں نے معذرت جاری کی اور مساجد کہنے پر پابندی عائد کردی گئی۔اب تمام ٹی وی چینلز نے ان جگہوں کو احمدی عبادت گاہیں کہنا شروع کردیا۔مثال کے طور پر کوئی احمدی کسی مسلمان کو اسلام وعلیکم نہیں کہہ سکتا کیوں کہ لفظ اسلام و علیکم مسلمانوں کی ملکیت ہے اور اس کو کوئی غیر مسلم استعمال نہیں کرسکتا ۔اس لیے جو احمدی اسلام و علیکم کہے گا اس پر توہین اسلام کا قانون لاگو ہوگا اور وہ295 بی کے قانون کے تحت سزا کا مستحق ہوگا۔انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے جاری کردہ اعدادوشمار کے تحت سینکڑوں احمدی پاکستان کی جیلوں میں گل سڑ رہے ہیں جنہوں نے کسی مسلمان کو اسلام علیکم کہا، کسی مسلمان کے سامنے الحمدواللہ یا ماشاء اللہ یا پھر انشاء اللہ جیسے الفاظ کہے۔کئی ایسے مقدمات بھی پاکستانی کی چھوٹی عدالتوں میں زیرسماعت ہیں جن میں احمدیوں کو سزاوں کا سامنا ہوسکتا ہے کیوں اِن احمدیوں نے ایسے شادی کارڈ چھپوائے جن پر ماشاء اللہ کے الفاظ اور بسم اللہ لکھی ہوئی تھی۔
مثال کے طور پر موجودہ سال چودہ فروری کو عام منائے جانے والے ویلنٹائن ڈے کو پاکستان میں’’حیاء ڈے‘‘ کے نام سے منایا گیا۔جنوری سے ہی سوشل میڈیا اور پاکستانی ذرائع ابلاغ پر یہ بحث شروع کردی گئی تھی کہ ویلنٹائن ڈے غیر اسلامی اور حیاء سوز دن ہے، اس کو منانا غیر اسلامی ہے اس لیے جماعت اسلامی اور جماعت الدعوہ کے نوجوانوں نے پاکستان بھر میں اس دن کو ’’حیاء ڈے‘‘ کے نام سے منانے کا علان کیا۔ذرائع ابلاغ میں حیا ڈے کا بہت زیادہ چرچا کیا گیا اور تمام مسلح متشدد جہادی تنظیموں نے دھمکی جاری کی کہ اگر کسی ہوٹل یا کسی دوسری جگہ پر کسی نے ویلنٹائن ڈے منانے کی کوشش کی تو اس کو سنگین نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ اسی طرح نیو ائر کی تقریبات کو پاکستان میں غیر اسلامی قرار دیدیا گیا اور متشدد جہادی تنظیموں نے اس دن پر غیر اسلامی تقریبات منعقد کرنے والوں کے خلاف باقاعدہ ڈنڈہ فورس قائم کی اور ایسی جگہوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی جہاں نئے سال کی مناسبت سے کسی تقرہب منائے جانے کا کوئی امکان تھا۔پاکستان میں فروغ پذیر سلفیت کو آسانی کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے اور یہ امکان بڑھ رہا ہے کہ اس کو روکنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جائے گا کیوں کہ سماجی و سیاسی طور پر سلفی الذہن لوگوں کی تعداد میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔اگلی قسط میں سلفی لٹریچر پر گفتگو ہوگی کہ پاکستان میں کس قسم کا سلفی لٹریچر فروغ پذیر ہے اور اس کی قبولیت کا عالم کیا ہے۔ (جاری ہے)
خامہ بگوش مدظلہ۔تعارف
ایک متذبذب مسلمان جو یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ مسلمان کی اصل تعریف کیا ہے۔کیا مسلمان واقعی سلامتی کا داعی ہے یا اپنے ہی ہم مذہبوں کی سلامتی کا دشمن؟اسلام کی مبادیات،تاریخ،تہذیب اور تصور عالم کیا ہے اور کیوں آج مسلمان نہ صرف تمام مذاہب بلکہ تہذیبوں کے ساتھ بھی گتھم گتھا ہیں؟کیا اسلام غالب آنے کو ہے یا اپنے ہی پیروکاروں کے ہاتھوں مغلوب ہوچکا ہے؟میں اِنہی موضوعات کا طالب علم ہوں اور نیو ایج اسلام کے صفحات پر آپ دوستوں کے ساتھ تبادلہ خیال کی کوشش کروں گا۔
URL for English article:
https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/the-salafi-wave-south-asia-2/d/11075
URL for Urdu article Episode-1:
URL for this article: