محمد یونس اور اشفاق اللہ سید
21 اگست 2015
(مصنفین اور ناشرین کی اجازت کے ساتھ نیو ایج اسلام کی خصوصی اشاعت)
31.2. سماجی معمول کے طور پر ایک شادی کا قرآن کا حکم
ایک سے زیادہ زوجہ کی صورت میں (4:3) ان تمام کے درمیان انصاف قائم کرنے والی آیت کے ساتھ آیت (4:129) کی قرآنی شرط سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قرآن کا بنیادی حکم صرف ایک ہی نکاح کا ہے۔ قرآن مکمل طور پر خود کو واضح کرنے کے لئے اس پر مزید روشنی ڈالتا ہے:
قرآن میں جہاں بھی ابراہیم1، نوح2، لوط3، عمران4، ایوب5 اور زکریا6 علیہم السلام کی بیویوں کاذکر ہے ان میں اس بات کا بھی اشارہ موجود ہے کہ ان میں سے ہر ایک نبی کے پاس صرف ایک ہی با حیات بیویاں تھیں۔
قرآن میں شریک حیات کے لئے لفظ زوجہ سے ایک مخالف جنس کے ایک جوڑے کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ لہٰذا، آدم علیہ السلام کے لیے صرف ایک ہی اہلیہ کا ذکر ہے7، اور ان دونوں کو ایک جوڑا قرار دیا گیا ہے8۔
قرآن میں فرعون9، اور ان امراء جنہوں یوسف علیہ السلام کو خریدا تھا10 اور ابو لہب 11 جیسے دوسرے لوگوں کے حوالے میں بھی اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ ان تمام لوگوں کے پاس ایک ہی با حیات بیویاں تھیں۔
بیٹے اور بیٹیاں (4:11)، دو یا دو سے زیادہ بیٹیوں (4:11)، بھائیوں اور بہنوں (4:176)، دو بہنوں (4:176)، دو سے زیادہ بھائیوں اور بہنوں (4:12) کے حصص کے حوالے سے قرآن کے وراثت کے قوانین میں بھی ان خاندان کے اراکین میں سے ہر ایک کی تکثیریت کا اشارہ ملتا ہے۔ لیکن ایک بیوہ کے مسئلہ میں وراثت کا قانون شوہر کے ساتھ متعلق ہے(4:12)، جن میں ایک سماجی معمول کے طور پر ایک مرد کے بعد ایک بیوہ کو تسلیم کیا گیا ہے۔
جس کا شوہر فوت ہو گیا ہو اس عورت کے لیے ایک سال تک اپنے مرحوم شوہر کے گھر میں رہنے اور گزر بسر کرنے کی قرآن کی اجازت (2:240 / باب 35.2) سے بھی اسی بات کی طرف اشارہ ملتا ہےکہ معمولاً ایک مرد اپنے پیچھے ایک ہی بیوہ چھوڑتا ہے۔
ان تمام قرآنی احکامات و بیانات سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ قرآن ایک سماجی معمول کے طور پر صرف یک زوجگی پر مبنی معاشرے کی تائید کرتا ہے۔ یہ نظریہ تیسری اسلامی صدی میں ہی بہت سے معروف اسلامی علماء نے پیش کیا تھا جن میں خاص طور پر یوسف علی، 12 اور امیر علی13، محمد اسد اور حسین ہیکل وغیرہ نے اس سلسلے میں اس آیت کا حوالہ پیش کیا ہے جس میں تعدد ازدواج کے حوالے سے قیود و شرائط کا ذکر ہے4:3، اور انہوں نے یہ کہا ہے کہ تعدد ازدواج کی اجازت صرف استثنائی صورت حال میں ہے۔14،15
چونکہ اس مسئلہ پر اسلام کی ابتدائی صدیوں میں بحث و مباحثے کیے گئے ہیں،لہٰذا یہ امر اس لائق ہے کہ اس پر مزید گفتگو کی جائے، جیسا کہ درج ذیل میں مذکور ہے۔16
حوالہ جات
1. 11:71، 51:29۔
2. 66:10۔
3. 11:81، 15:60، 29:33، 66:10۔
4. 3:35۔
5. 38:44۔
6. 3:40، 21:90۔
7۔ 2:35، 7:19، 20:117۔
8. 2:36، 7: 20-22، 20:121۔
9. 28:9، 66:11۔
10. 12:21، 26-12:23۔
11. 111:4۔
12. عبداللہ یوسف علی، قرآن مجید، لاہور 1934، اشاعت ثانی، میری لینڈ 1983، نوٹ 509۔
13. سید امیر علی، (The Spirit of Islam) ترجمہ: اسلام کی روح، دہلی 1923 ، اشاعت ثانی 1990، صفحہ 229۔
14۔ محمد اسد، (Message of the Qur’an) قرآن کا پیغام، جبرالٹر 1980، باب 4، نوٹ 4۔
15۔ محمد حسین ہیکل، (The Life of Muhammad) ترجمہ: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مقدسہ، انگریزی ترجمہ اسماعیل راگی، 8واں ایڈیشن، کراچی 1989، صفحہ 293۔
16. اسلام پر تعدد ازدواج کا لیبل لگانے پر اصرار کرنے والے ناقدین یہ مثال پیش کر سکتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی بیویاں تھیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 25 سال تک اپنی پہلی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ الکبریٰ کی ساتھ ہی زندگی بسر کی یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی۔ اور ان کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شادیاں استثنائی صورت حال کا نتیجہ تھیں (Enc۔ 2)۔ ناقدین اب بھی یہ سوال کر سکتے ہیں کہ اگر حکم ایک ہی شادی کا تھا تو پھر واضح طور پر اس کی صراحت کیوں نہیں کی گئی ؟ جواب بالکل آسان ہے: کہ اگر سختی کے ساتھ ایک شادی کا حکم دیا جاتا تو لامحالہ اس کا نتیجہ معاشرے کے فحش اورہوس پرست کوگوں کے ہاتھوں عورتوں پر ظلم و ستم اور ان کے استحصال میں اضافہ کی صورت میں ظاہر ہوتا۔
تاریخی تناظر میں یہ ایک ثابت شدہ امر ہے کہ صرف مرد ہی تجارت اور دیگر شہری، سیاسی یا فوجی مہمات میں حصہ لیتے تھے جس کے لیے انہیں اپنی بیویوں کو چھوڑ کر دور دراز کے مقامات کا سفر کرنا پڑتا تھا جو کہ خطرناک اور طویل المدت ہوتے تھے۔ مہینے اور کبھی کبھی برسوں کے لئے اپنی بیویوں کو چھوڑ کر سفر پر نکلنے والے ان لوگوں کو اپنے جسمانی، جذباتی اور حیاتیاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے خواتین کی ضرورت تھی۔ لہٰذا، اس صورت حال میں بھی سختی کے ساتھ صرف ایک شادی کا حکم دیا گیا ہوتا تو لامحالہ اس کا نتیجہ اس شکل میں ظاہر ہوتا کہ لوگ نکاح کے بغیر ہی خواتین کو استعمال کرتے جو کہ بڑے پیمانے پر عورتوں کے استحصال اور ساتھ ہی ساتھ سماجی برائیوں کا سب بھی ہے۔
زندگی کی ایک عالمگیر حقیقت یہ ہے کہ کسی شخص کی بیوی مستقل طور پر خرابیٔ صحت یا کسی حادثے کی وجہ سے اپنی ازدواجی ذمہ داریوں سے معذور ہو سکتی ہے، اس صورت میں صرف ایک ہی شادی کا سخت حکم کسی بھی لمحے ایسے مرد کی شادی کو ختم کر سکتا ہے، اور لامحالہ اسے اس بات پر مجبور کر سکتا ہے کہ وہ یا تو اپنی معذور بیوی کو طلاق دے اور پھر دوسری شادی کرے یا کسی بھی ازدواجی ذمہ داری کے بغیر ہی وہ کوئی رکھیل رکھ لے۔ ان دونوں صورتوں میں عورتوں کے ساتھ اور مجموعی طور پر معاشرے کے ساتھ نا انصافی اس مرد کے دسری شادی کرنے اور پہلی معذور بیوی کو اپنے پاس ہی رکھنے سے کہیں زیادہ ہوگی۔
کوئی سخت متذبذب قسم کا انسان اب بھی یہ سوال کر سکتا ہے کہ جس طرح ایک مرد کو بعض حالات کے پیش نظر دوسری شادی کرنے کی اجازت ہے اسی طرح ایک عورت کو بھی یہ اختیار دیا جانا چاہیے۔ جواب بہت آسان ہے: کہ خدا نے مردوں اور عورتوں کو مختلف حیاتیاتی ساخت کے ساتھ پیدا کیا ہے: ایک مرد کے اندر جسمانی طور پر ایک سے زیادہ بیوی کے ساتھ جنسی محرکات کی تسکین کرنے اور انہیں حاملہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے، لیکن ایک عورت حمل کی طویل مدت کی وجہ سے ایک سے زیادہ شوہر کے بچے کو حمل کرنے کرنے اور یہاں تک کہ ایک ہی شوہر کے اندر بار بار پیدا ہونے والی جنسی خواہشات کی تسکین کرنے سے معذور ہے۔ اس کے علاوہ، کئی شوہروں والی ایک عورت سے پیدا ہونے والے بچوں کی وراثت کا تعین کرنے میں بھی سنگین پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔ لہذا، عورت کے لیے ایک سے زیادہ شوہروں رکھنے کا تصور اس کی حیاتیاتی ساخت کے خلاف اور سماجی طور پر کمزور ہے۔
[16 حوالہ جات]
URL for English article: https://newageislam.com/books-documents/qur’anic-laws-protecting-orphans-women/d/104338
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/the-qur’an-recommends-monogamy-social/d/104375