عنبرین شہزاد حسینی
11 اکتوبر 2013
قران مقدس کا لسانی، تاریخی، تفسیری ، سماجی، نفسیاتی، انسانیاتی اور جمالیاتی وغیرہ جیسے مختلف پہلوؤں سے مطالعہ کیا گیا ہے ۔ قرآن مقدس کے مطالعہ میں جتنے زیاہ پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے گا اس کے متعلق ہمارے علم میں اتنا ہی اضافہ ہوگا اور اس کی تفہیم میں گہرائی و گیرائی پیدا ہو گی ۔ لوگ قرآن مقدس کا اپنے اپنے نقطہ نظر سے مطالعہ کرتے ہیں ، ان کے مطالعہ کو ان کی ضروریات ، مفادات اور تجربات سے تقویت فراہم ہوتی ہے ۔اس مضمون میں قرآن کو سراہنے کے لئے اس کے فنکارانہ پہلو کو اجاگر کیا جائے گا ۔ اس سے قارئین یہ سمجھ سکیں گے کہ مسلمانوں نے فنکاری کے ذریعہ کس طرح قرآن کا مطالعہ کیا ہے اور اس کا تجربہ کیا ہے ۔
فنکاری احساسات اور افکارو خیالات کو ظاہر کرنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کا ایک مضبوط ہتھیار ہے ۔ یہ کسی بھی مذہب کا ایک ایسا جزولازم ہے جو اسے آرائش و زیبائش عطا کرتاہے اور اس کے پیروکاروں کے لئے ایک مقدس اور متبرک ماحول پیدا کرتا ہے ۔ مثال کے طور پر مذہبی فنکارانہ مظاہروں کا دوسرے عالمی مذاہب کے درمیان عیسائیت ، ہندو مت اور اسلام میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے ۔
مختلف طریقوں سے مذہب اور معتقدات کا اظہار کرنے کے لئے فنکاری ہمیشہ اسلامی معاشرےکا ایک حصہ رہی ہے ۔
مسلم فنکاروں نے اپنے انوکھے انداز میں کلام الٰہی کو سراہنے کے لئے اسے سیکھا ہے اور فنکاری صورت میں اسے استعمال کیا ہے ۔ فن کاری کے سب سے واضح مظاہرے کا آغاز اس وقت ہوا جب وہ قرآنی متون کو اصل عربی میں لکھنے کی کوشش کر رہے تھےجو کہ خود فن کاری کی دوسری شکلوں سے مختلف خطاطی جیسے ایک فن کی صورت اختیار کر گیا ۔
فارس میں ایک ماہر دست کار اور افغانستان میں ایک قالین بنانے والے نے اسی مصدر تحریک سے فنکارانہ مظاہرے کا اظہار کیا لیکن ان کا اسلوب اظہار ذرا مختلف تھا ۔ اگر چہ دونوں فنکاروں کے سیاق و سباق مختلف تھے پھر بھی اپنے سیاق و سباق کی تحریک کے مطابق اپنی فنکاری کو پیش کرنے میں ان دونوں کا محور کلام الٰہی کا ایک ہی مرکزی تصور تھا ۔
مزید برآں یہ کہ کسی فنکاری کو پیش کرنے کے مقاصد مختلف ہو سکتے ہیں ، کسی کے ذہن میں اقتصادی اور مالی ضرورت ہو سکتی ہے جبکہ کے کسی کے ذہن میں متن کو سراہنے کی کا مقصد اور فنکاری کے متعلق اس کا جذبہ اور اس کی محبت ہو سکتی ہے ۔ لیکن دونوں کچھ ایسا پیش کر رہے ہیں جن کا تعلق اسلام کے مرکزی تصور سے ہے ۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فنکا رانہ مظاہرہ کچھ فنکاروں کے لئے روحانی ارتقاء کا سبب ہو جب کہ دوسروں کے لئے ہو سکتا ہے اس کے لئے پیچھے کوئی سیاسی وجہ مضمر ہو مثلاً اسکوں اور سرکاری جھنڈے پر فنکارانہ انداز میں مقدس متن کندہ کر وانا ۔
قرآنی انداز بیان ، الفاظ اور آیات کا استعمال بڑے پیمانے پر مختلف مودا کے ساتھ مختلف مقاصد کے لئے کیا گیا ہے ۔ آج اکثر ایسی دکانیں جہاں آرائشی آلات و اسباب فروخت کئے جاتے ہیں بکثرت ایسے نمونوں سے بھری ہوتی ہیں جو مختلف قرآنی الفاظ و آیات کے نقش و نگار سے بھرے ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ خود متن قرآن میں حسن نظم پایا جاتا ہے ، قرآن مجید کے حواشی میں فنکاروں کی دلی خواہش یہ رہی ہے کہ وہ کلام خدا کو آراستہ و پیراستہ کرنے کے لئے حتیٰ الامکان اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔
مسلم فنکاروں نے بھی حیوانوں مثلاً شیر یا دسرے یا قدرتی منظر جیسی دوسری چیزوں کی تصویر کشی کرنےکے لئےقرآنی نقش و نگار کو استعمال کیا ہے ۔
ایسے بہت سارے مشہور ومعروفنکار ہیں جنہوں نے فنکاری کے ذریعہ قرآن کو سمجھنے کےلئے نئے نظریات قائم کئے ہیں اور اس پر پر جوش انداز میں کام کیا ہے ۔پاکستان میں صادقین اور گلگی نامی دو ایسے مشہور فنکا ر ہیں جنہوں نے اپنی فنکاری میں کسی بھی تصور کو پیش کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر لفظ اللہ کا استعمال کیا ہے ۔ان کی فنکاری کو کراچی کے فریر ہال اور اسلام آباد کی شاہ فیصل مسجد میں دیکھا جا سکتا ہے، اس کے علاوہ ان کی پینٹنگ کے نمونے دوسرے سیاق و سباق اور مقامات میں پائے جاتے ہیں ۔
بہت سے فنکاروں نے چاول کے دانے سے لیکر بڑی بڑی دیواروں یا مساجد کی میناروں اور دوسری سرکاری عمارتوں مثلاً یونیورسٹی اور یہاں تک کہ اسپتال تک چھوٹی اور بڑی چیزوں پر ایک خوبصورت انداز میں قرآنی آیات کے نقش و نگار بنا کر آرائش و زیبائش کرنے کی پوری کوشش کی ہے ۔
اس کے علاوہ مسلم معاشرے میں بہت مشہور و معروف فن قرآن کی خوش الحانی کے ساتھ تلاوت کا فن ہے ۔ خوش الحانی کے ساتھ خوبصورت انداز میں قرآن کی تلات کے فن کو علم القرأت و التجوید کہتے ہیں ۔ مختلف مسلم ممالک میں اکثر مختلف قارئین کے درمیان تلاوت قرآن کے مسابقے کا انعقاد کیا جا تا ہے اور ثقاتی طور پر یہ قرآن کا جشن منانے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔
روایتی نمائشی طریقہ تعلیم سے اوپر اٹھ کر اسکول ، کالج اور یونورسیٹیاں اپنے طلباء کوقرآن کی تعلیم دینے کے لئے ان فنکارانہ طریقوں کو استعمال کر سکتی ہیں جس طرح مسلم معاشرے میں قرآن کو پڑھا اور سمجھا گیا ہے ۔
فنکاری کا استعمال چیزوں کو خوبصورت بنانے کے لئے کیا جاتاہے۔ ایسے کچھ خاص فنون ہیں جنہیں ہوسکتا ہے کہ پیشہ ور فنکار سراہیں لیکن کچھ فن ایسے ہوتے ہیں جنہیں عوام بھی دادو تحسین سے نوازتے ہیں ۔ عوامی دادو تحسین اور مطالبہ کی وجہ سے قرآنی الفاظ یا آیات یہاں تک کہ پورے قرآن کو خوبصورتی اور حسن عطا کرنے کے متعلق آرائش و زیبائش کا فن، مختلف بازاروں اور خاص طور پر مسلم ممالک میں، فنکاری کے نمونوں کے تجارتی مصنوعات کے ذریعہ، اب ایک بہت بڑی صنعت و حرفت کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔
ان مصنوعات کو لفظ اللہ کے ساتھ لوگوں کے ذاتی لگاؤ ، سرکاری عمارتوں، تعلیمی اداروں، تجارتی مقامات، دکانوں، گاڑیوں، فیکٹریوں اور گھر کو سجانے اوربرکت حاصل کرنے سمیت دوسرے مقاصد کے لئے بھی خریدا جا تا ہے ۔
قرآن کے مفسرین نے قرآن کے معانی اخذ کرنے کے لئے اکثر دانشورانہ مباحث پر ہی انحصار کیا ہے جبکہ فنکاروں نے برش ، رنگوں اور ترپال کے ذریعہ ایسا کرنے کی کوشش کی ہے ۔دونوں راستے انسانوں کے خدائی تجربات میں اضافہ کرتے ہیں پہلا معقولاتی و منقولاتی استدلال کے ذریعہ اور دوسرا آنکھوں کے ذریعہ اس لئے کہ خوبصورتی مشاہدہ کرنے ولے کی آنکھ میں بس جاتی ہے۔
قرآن کے مطالعہ کے دونوں طریقےدل اور آنکھوں کو منور مجلیٰ کرتے ہیں جن کے ذریعہ ہم ان تمام چیزوں کی خوبصورتی کا مشاہدہ کرتے ہیں جن میں حسن و جمال ہے ۔
(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام)
ماخذ: http://www.dawn.com/news/1048957/the-quran-and-art
URL for English article:
https://newageislam.com/islamic-society/the-quran-art/d/13942
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/the-quran-art-/d/34837