ڈاکٹر راشد شاز۔۔۔۔علیگڑھ
(عصر حاضر میں غلبہ اسلام کے امکانات)
سوال: تجدد پسند مسلمانوں کے بعض حلقے اور اہل تصوف کے بعض گروہ یہ اعتراض وارد کرتے رہے ہیں کہ غلبہ اسلام ایک دینی ایجنڈے کے طور پر مطلوب ومقصود نہیں ہے۔ تجدد پسند اگر ایک غیر اسلامی نظام میں دین کو ایک اخلاقی فلسفے کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں تو اہل تصوف اسے ذاتی نجات ، خدا او ر بندے کے ذاتی رابطہ او راس پر پڑنے والے اثرات تک محدود بتاتے ہیں پھر غلبہ اسلام کی اصطلاح سے مسلمانوں کے سیاسی غلبے اور تفوق کا بھی احساس ہوتا ہے جس سے غیر مسلم قوموں کو ایسا لگتا ہے گویا اسلام کے نظریاتی لبادے میں مسلمان اپنے قومی غلبے کی راہ ہموار کررہے ہیں۔ ایسی صورت میں غلبہ اسلام ایک دینی ایجنڈے کے طور پر کیوں کر قابل قبول ہوسکتا ہے ؟
جواب: یہ ساری الجھن اس لئے پیدا ہوئی ہے کہ مختلف ذہنوں میں غلبہ اسلام کے مختلف معانی موجود ہیں بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر میں تویہ کہوں گا کہ مختلف لوگوں نے اسلام بھی مختلف مفہوم متعین کررکھے ہیں ۔ پھر ایسی صورت میں اگر غلبہ اسلام سے ہر شخص اپنے تعمیر کردہ تصورات مراد لے تو کچھ حرج نہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم غیر مسلم قوموں کے لئے ہی نہیں بلکہ خود مسلمانوں کے لئے بھی اسلام کے وہ معانی متعین کریں جو قرآن مجید کے صفحات سے بر آمد ہوتے ہیں ۔ ورنہ ہوگا یہ کہ ہم غلبہ اسلام کے نام پر اپنی خواہشات و تصورات کے غلبے کی راہ ہموار کرتے رہیں گے۔ ضرورت ہے کہ اس مسئلے کی ذرا سادہ انداز سے وضاحت کردی جائے ۔
پہلا او ربنیادی سوال تو یہ ہے کہ فی نفسہ اسلام ہے کیا؟ اور یہ کہ مسلمان کسے کہتے ہیں ؟ہمارا یہ مقام نہیں کہ ہم کسی کے ایمان یا کفر کا فیصلہ کرسکیں ۔ ماضی میں جن لوگوں نے اس فیصلے کو اپنے ہاتھوں میں لینا چاہا انہوں نے اپنے علاوہ ساری دنیا پر کفر کے فتوے صادر کئے ہیں ۔ ایک گروہ نے اپنے متعین کردہ پیمانے پر جب دوسرے کے اسلام کی پیمائش کی تو اسے اپنے علاوہ کسی اور کا ایمان لائق اعتبار دکھائی نہ دیا ۔ اسلام تاریخ میں شاید ہی کوئی قابل ذکر عالم ،فلسفی ، دانشور ایسا گزرا ہو جس پر مختلف اوقات میں ان کے بعض خیالات کے لئے کفر کے فتوے نہ لگائے گئے ہوں ۔ یا انہیں ضال مضل نہ کہاگیا ہو۔ ہماشما کو تو چھوڑ ئے جن ائمہ فقہ کی اتباع پر آج امت کے مختلف طبقوں کا اتفاق ہے خود ان کاحال یہ ہے کہ وہ دوسرے کے ایمان کو ساقط الاعتبار قرار دینے میں کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے ۔حتیٰ کہ امام ابوحنیفہ جیسا بد بخت کوئی دوسرا پید ا نہیں ہوا ۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ ابوحنیفہ میں اس کے علاوہ او رکوئی خوبی نہ تھی کہ وہ اچھے مناظرہ باز تھے ۔ سفیان ثوری نے انہیں ضال مضل قرار دیا ۔ بقول امام شافعی ابو حنیفہ او راس کے اصحاب کی کتابوں میں دو تہائی باتیں کتاب سنت کے خلاف ہیں بلکہ سفیان ثوری کے بارے میں تو خطیب بغداد نے یہاں تک لکھا ہے کہ ابو حنیفہ کی موت پر انہوں نے خدا کا شکر ادا کیااو رکہا کہ ’’ انفتان ھذہ الامتہ قدمات‘‘ کہ آج امت کو ایک ابتلاسے نجات مل گئی ۔
مسلمان کو ن ہے اور یہ کہ کسی کو مسلمان قرار دینے کے لئے کم از کم شرائط کیا ہوسکتی ہیں یا کسی کے کفر کا فیصلہ کن بنیادوں پر کیا جاسکتا ہے، ان سوالات کو جب فقہاء نے اپنے ہاتھوں میں لیا تو مذہبی انار کی کی صورت حال پیدا ہوگئی اور ہم نے دیکھا کہ کبار فقہاء دین بھی محفوظ و مامون نہیں رہا۔ معاصر تاریخ میں پاکستان بننے کے بعد جب وہاں یہ سوال زیر بحث آیا کہ یہاں کس اسلام کو ریاست کامذہب بنایا جائے تو ایک بار پھر منیر کمیشن نے اس سوال کا حتمی جواب تلاش کرنے کی کوشش کی۔ مومن کون ہے؟ اس بارے میں مختلف علماء نے جو جواب ارسال کئے اس میں سے کسی دو کے جواب بھی یکساں نہ تھے۔ ہر شخص نے اپنی فہم، بصیرت اور ذاتی رجحان کی بنیاد پر مسلمان کی ایک تعریف وضع کر رکھی تھی لیکن حیرت ہوتی ہے کہ تحکیم کی کوشش میں اس سخت ناکامی کے باوجود مسلمانوں کے ارباب حل و عقد نے اس سوال پر کسی غیر روایتی انداز سے غور و فکر کی ز حمت نہیں کی۔
ہمارے مذہبی تاریخ میں مسلم عقیدے پر بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں ۔بعض کتابیں مختلف فرقوں نے اپنے لئے ترتیب دی ہیں اور بعض کتابوں کو اہل سنت میں عمومی اعتبار حاصل ہے ۔ مختلف عہد میں لکھی جانے والی ان کتابوں کا ایک مقابلہ با آسانی اس راز سے پردہ اٹھادیتا ہے کہ ہر عہد میں جو مسائل بحث و مباحثہ کا موضوع رہے ہیں، یا جس پر امت میں تفقے کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے اسے مختلف گروہوں نے اپنے اپنے انداز سے عقیدے کا جزء باور کرانے کی کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر عہد شافع میں سنت قولی کی جحیت نے اتنی ہنگامہ خیز صورت اختیار کر لی کہ اہل علم کے ایک گروہ نے اسے ’’ حکمت ‘‘ مماثل اور ’’ وحی غیر متلو‘‘ باور کرایا ۔دو سری طرف وہ لوگ جو سنت کے اس تصور سے متفق نہ تھے انہیں بشمول ابو حنیفہ ،منکرین سنت میں شمار کیا گیا، جس کے لئے دوسری صدی میں اہل الرائے کی اصطلاح عام تھی۔ احمد بن حنبل کے عہد میں خلق قرآن کے مسئلے نے اتنی اہمیت حاصل کرلی کہ اس کی بنیاد پر کفر و اسلام کا فیصلہ ہونے لگا۔ یہاں تک کہ بہت سے خدا ترس مسلمانوں کومحض ایک علمی مسئلے پر مختلف رائے رکھنے کی وجہ سے سخت آزمائشوں سے گزرنا پڑاجس کی ایک مثال تو خود احمد بن حنبل ہیں ۔ بعد کے عہد میں علماء نے باضابطہ اسلامی عقیدے کاتفصیلی خاکہ تیار کیا اوریہ طے کرنے کی کوشش کی کہ مسلمانوں کے لئے توحید و رسالت ،کتاب اور آخرت اور وہ امور جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں اس کے علاوہ او رکیا ایسی باتیں ہوسکتی ہیں جن کی جزئیات پر بھی ایمان لانا ضروری ہے۔ عقیدے کی کتابوں میں بیان ہونے والی تفصیلات نے صرف یہ کہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتی تھیں بلکہ ان میں بیان ہونے والے مسائل بھی صورت حال کے پیش نظر بدلتے رہتے تھے ۔اس لئے یہ سوال کہ مسلمان کون ہے؟ عقائد کی کتابوں میں ایک مسئلہ یخل بن کر رہ گیا ۔
حالانکہ اس بارے میں اگر قرآن چوکھٹے میں غور و فکر کو کافی سمجھا جاتا تو سرے سے یہ ضرورت نہ ہوتی کہ ہم ایل ایمان پر تحکیم کی ضرورت محسوس کریں ۔ جو شخص خود دین کا اقراری ہو اس کے ایمان کی پیمائش کو تو چھوڑ ئیے قرآن تو اس بات سے بھی منع کرتا ہے کہ مسلمان اہل کتاب یا دوسرے ادیان کے اصحاب خیر کا احتساب کرنے بیٹھ جائیں او ریہ طے کرنے لگیں کہ کون ناجی ہے اور کن غیر ناجی فیصلے کایہ کام اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھوں میں لے رکھا ہے۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئِينَ وَالنَّصَارَىٰ وَالْمَجُوسَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا إِنَّ اللَّـهَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ (الحج ۔17)
اب آئیے سوال کے پہلے لاحقے کی طرف کہ اسلام ہے کیا؟ اس کے بعد یہ سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ غلبہ اسلام کا حقیقی مفہوم کیا ہے اوریہ کہ فی زمانہ غلبہ اسلام سے کیا صورت حال پیداہوگی ؟
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسلام مسلمانوں کا ایک قومی مذہب ہے۔ اور چونکہ اس کی پشت پر آج چودہ صدیوں کی تہذیبی تاریخ موجود ہے جسے اسلام ہی کے توسیعہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے اس لئے غیر مسلم ہی نہیں مسلمانوں کے لئے بھی حقیقی اسلام کا راست ادراک کچھ آسان نہیں ۔ گویا ہماری تہذیبی تاریخ حقیقی اسلام کے ادراک میں ایک ایسا حجاب بن گئی ہے جس کے چاک کرنے کا خیال تو کسی کو کیا آئے خود اس حجاب کاشعور بھی کم ہی لوگوں کو ہے۔
آج کم ہی لوگ اس شعور سے آشنا ہیں کہ الیواکملت لکم دینکم کی بشارت کے بعد ہماری مذہبی تاریخ میں جو کچھ ہوتا رہا ہے اس کی حیثیت ایک تہذیبی تاریخ کی ہے جسے کسی بھی طرح امر قاطع قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ گویا اسلام کی اصل شکل و صورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عہد میں ہے،، جہاں پیغمبر کی قیادت میں ایک انسانی مثالی معاشرہ قائم ہوا اور اس کا علمی تحریر ی و ثیقہ قرآن مجید وجود میں آیا اس کے بعد آگے جو کچھ ہے وہ اہل ایمان کی علمی ، ثقافتی او ر سیاسی تاریخ ہے جس کی بنیاد پر نہ تو کوئی عقیدہ و ضع کیا جاسکتا ہے او رنہ ہی کسی کو یہ اختیار ہے کہ وہ تاریخ کی اپنی تفہیم کی بنیاد پر کسی سے ایمان تاریخ ہے جس کی بنیاد پر نہ تو کوئی عقیدہ و ضع کیا جاسکتا ہے اورنہ ہی کسی کو یہ اختیار ہے کہ وہ تاریخ کی اپنی تفہیم کی بنیاد پر کسی سے ایمان لے آنے کا مطالبہ کرے ۔ باالفاظ دیگر یہ کہا جاسکتاہے کہ اگر اسلام کو اس کی اصل شکل و صورت میں ملاحظہ کرنا ہوتو اس کے لئے لازم ہوگا کہ ہم تاریخ میں ان چودہ صدیوں کو عبور کرتے ہوئے عہد رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں واپس جائیں اور وحی کے تحریری و ثیقے اسی نبوی ماحول میں اپنے دل و دماغ پر مستحضر کریں ۔یہ تو رہاحقیقی اسلام کے ادراک کا طریقہ کار۔
رہا مروجہ اسلام جس سے عام طور پر مسلمانوں کا قومی غلبہ مراد لیا جاتاہے ۔تو اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ ہم اپنی تہذیبی تاریخ کو پیغام وحی سے خلط ملط کردیتے ہیں ۔ ہماری تاریخ مختلف قسم کی غلطیوں سے پرْ ہے۔ کسی بھی انسانی معاشرے میں انحراف فکری اور زوال نظر کے جتنے رنگ و روپ ہوسکتے ہیں وہ سب ہماری تاریخ میں نظر آتے ہیں ۔ ہمارے یہاں جب خلافت نبوی منہج سے ہٹ گئی تو سلاطین و خلفاء کچھ اسی انداز کی سلطنتیں قائم کرنے میں لگ گئے جو عام ملک گیر حکمراں کیا کرتے ہیں اور جن کی مختلف شکل و صورت قیصر و کسریٰ کی حکومتوں میں پائی جاتی تھی ۔ اُموی حکومت میں غیر عرب قوم ایک طرح کی احساس کمتری لئے جیتی تھی موالی کے ادارے کو ہم خواہ مخواہ کتنا ہی جواز بخشنے کی کوشش کیوں نہ کریں یہ سارا تصور ’’ ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم‘‘ سے انحراف کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا ۔ عباسی عہد میں ایرانیوں او ر ترکوں نے جب امور حکومت میں غیر معمولی دخل دینا شروع کیا تب بھی خلافت عباسیہ بنیادی طور پر ایک عرب ایمپائر نظر آتی تھی ۔ ابن خلدون جو ہمارے یہاں پہلا فلسفی مورخ ہے اس نے سقوط بغداد کی ایک اہم وجہ عرب عصبیت کا تحلیل ہونا بتایا ہے۔ بعد کے دنوں میں آل ترک کو عباسیوں کے عرب نزاد خلیفہ کی جو آؤ بھگت کرنا پڑی اس کی وجہ یہی تھی کہ اس عرب علامت کے بغیر اس وقت کے مسلم دل و دماغ میں خلافت کا تصور مکمل نہیں ہوسکتا تھا ۔بعد کی صدیوں میں جب ترک پوری طرح پر قابض ہوگئے تو عرب قوموں کو ایسا محسوس ہونے لگا گویا وہ اجنبی قوموں کی حکمرانی میں آگئے ہیں۔
خلافت کا یہ نیا ترکی ماڈل بھی سلطانی و قہاری ایک مسلم شکل تھی جس کو الٹ پھینکنے کے لئے عرب نیشنلزم کاسہارا لیا گیا ۔ خلافت کا یہ ادارہ نبوی ماڈل سے انحراف پر مبنی تھا ۔ کچھ یہی حال مغل و صفوی ریاستوں کاتھا جو اپنی تمام تر شان و شوکت کے باوجود اسلام اور اسلامی طرز حکمرانی کے نمائندہ نہیں کہے جاسکتے ۔ لہٰذای اگر کوئی شخص غلبہ اسلام سے یہ سمجھتا ہے کہ ہم ماضی کی ان مسلم حکمرانیوں کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتے ہیں تو یہ اس کی سخت بھول ہے۔ اسلام نہ تو باجبروت حکومتوں کے قیام کے لئے دنیا میں آیا ہے اور نہ ہی کسی بھی قسم کی سلطانی و پیری کو اس کے منسلک کرنا قرین انصاف ہے۔ مسلمانوں کی حیثیت سے ہمیں ہر حال میں انصاف کا دامن تھامنا ہوگا اور دنیا کو یہ بتانا ہوگاکہ ماضی کی یہ ریاستیں نہ تو نبوی اسلام کانمونہ تھیں او رنہ ہی مستقبل میں اسلام کسی ایسی ریاست کی تعمیر کاکوئی پروگرام رکھتا ہے ۔ بلکہ اسلام کو تو ایک ایسی صورت حال مطلوب ہے جہاں ہر شخص کے لئے آزادانہ طور پر خود اپنے آپ کو برتنے ، الہٰی ہدایتوں کو خود اس کی روشنی میں سمجھنے او روحی کے نور سے اپنی شمع کو روشن کرنے کے مواقع میسر آجائیں ۔ مسلمان کی حیثیت سے ہم یہ قطعی یہ ذمہ داری نہیں ڈالی گئی ہے کہ ہم کسی قوم کی جاہ و حشمت کی بحالی کے لئے کام کریں یا غرناطہ، بغداد یا مغل دہلی کی عظمت رفتہ کو واپس لانے کے لئے اپنی قوتوں کو صرف کریں ۔ اس کے برعکس اسلام کو ایک ایسی صورت حال مطلوب ہے جہاں رنگ و نسل ،وطن او رمذہب کی شناخت سے پرے نجات و ہدایت او رسکون و انبساط کا ایک عمومی ماحول پیدا ہو۔ یہی وہ ؟ وہ صورت حال ہے جسے ہم غلبہ اسلام سے تعبیر کرتے ہیں اور جسے قرآن میں ویکون الذین کلہ للہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
جون ،2018 بشکریہ: صوت الحق ، کراچی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism