ارشد عالم، نیو ایج اسلام
3 مئی 2023
اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں مسلم خواتین داعش
میں شامل ہوئیں
اہم نکات:
حال ہی میں ریلیز ہونے والی
فلم ’دی کیرالہ سٹوری‘ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کیرالہ سے 32000 خواتین دہشت گرد تنظیم
آئی ایس آئی ایس میں شامل ہوئیں
اس فلم میں کیے گئے دعوں کی
بنیاد سابق ریاستی وزرائے اعلیٰ کے انٹرویو پر رکھی گئی ہے جنہیں سیاق و سباق سے ہٹ
کر توڑ مڑوڑ کر پیش کیا گیا ہے۔
ہندوستان کو اس بات پر فخر ہونا
چاہیے کہ یہاں کے مسلمانوں نے بار بار دہشت گردی کے نظریے سے کنارہ کشی کی ہے۔
بدقسمتی سے ہم نے اس ملک میں
ایک ایسے ہندو حلقے کو پالا ہے جو مسلمانوں کو بدنام کیے بغیر سانس بھی نہیں لے سکتا۔
------
ریلیز سے پہلے ہی ’دی کیرالہ اسٹوری‘ تنازعہ پیدا کرنے میں کامیاب
ہو چکی ہے۔ جزوی طور پر، فلم کے بنانے والے یہی چاہتے ہوں گے، کیونکہ تمام فلمیں پبلسٹی،
منفی یا مثبت پر ہی چلتی ہیں۔ فلم کے ٹیزر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کہانی کیرالہ میں
غیر مسلم لڑکیوں کے بارے میں ہے جنہیں مسلمان لڑکوں کے ذریعے ’لالچ دے کر‘ آئی ایس
آئی ایس کے جنگجوؤں میں شامل ہونے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ یہ 'لو جہاد' کے بارے میں
بیانیہ پر مبنی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان لڑکے جان بوجھ کر ہندو اور عیسائی لڑکیوں
کو شادی کے لیے دھوکہ دیتے ہیں اور گمراہ کرتے ہیں۔
جس کا واضح مقصد، جیسا کہ دعوی کیا جاتا ہے، انہیں مسلمان بنانا ہے؛
اس کا حتمی مقصد مسلمانوں کے حق میں ملک کی ڈیموگرافی میں تبدیلی لانا ہے۔ اس طرح کی
داستانیں ہندوؤں کے درمیان بہت پرانے خوف پر مبنی ہیں جن کی جڑیں استعماری دور سے جری
ہیں، کہ جب برادریوں کے تصور میں تعداد کو اہمیت حاصل تھی۔ لیکن فلم کے بارے میں جو
چیز واقعی عجیب ہے وہ یہ نہیں ہے کہ یہ ان دقیانوسی تصورات پر مبنی ہے بلکہ یہ دعویٰ
ہے کہ ایک بڑی تعداد میں اسلام قبول کرنے والی ایسی لڑکیوں کو آئی ایس آئی ایس میں
شامل ہونے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ فلم میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس طرح 32000 ہندو اور
عیسائی خواتین کو اسلام قبول کرنے کے بعد شام، یمن اور افغانستان میں دہشت گردی کے
کیمپوں میں بھرتی کیا گیا۔
لیکن فلم میں 32000 کی اس گنتی کا دعویٰ کس بنیاد پر کیا گیا ہے؟ فلم
کے ڈائریکٹر نے ایک مین اسٹریم آن لائن پورٹل پر اس دعوے کو پیش کیا ہے۔ ان کی دلیل
ہے کہ 2010 میں کیرالہ کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ اومن چانڈی نے کہا تھا کہ 3200 لڑکیوں
نے اسلام قبول کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ ڈائریکٹر سدیپٹو سین نے دس سالوں میں اس اعداد
و شمار کو 32000 تک پہنچا دیا ہے۔ یعنی ان کے پاس اس دعویٰ کی کوئی بنیاد نہیں ہے کہ
آخر کار اتنی بڑی تعداد میں خواتین آئی ایس آئی ایس کے زیر کنٹرول علاقوں میں کیسے
چلی گئیں۔
ذرا یہاں افواہ کی پرواز تو دیکھیں۔ اول تو
یہ کہ اگر اومن چانڈی کی گنتی درست ہو تب بھی، یہ گنتی صرف ایک خاص سال کے لیے ہے اور
اس بات پر یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہی گنتی اگلے دس سالوں میں دس گنا بڑھ
گئی ہوگی ۔ دوم، کیرالہ میں مذہب تبدیل کرنا غیر قانونی نہیں ہے اور یہ متعدد وجوہات
کی بنا پر ہو سکتا ہے۔ لیکن فلم کے ڈائریکٹر کے مطابق، اگر کوئی اسلام قبول کرتا ہے،
تو اس کی وجہ صرف دہشت گردی ہی ہوتی ہے۔ لہٰذا، وہ نہ صرف یہ مانتے ہیں کہ ایک اتنی
بڑی تعداد نے مذہب تبدیل کیا بلکہ یہ بھی کہ ان سب نے دہشت گردی کو فروغ دیا۔
مزید یہ کہ سین صریح جھوٹ بول رہے ہیں۔ چیف منسٹر چانڈی نے جو کہا
تھا وہ یہ تھا کہ 2006-2010 کے دوران کیرالہ میں کل 2600 لڑکیوں اور خواتین نے اسلام
قبول کیا ہے۔ اس سے ہمیں ہر سال اوسطاً 650 کی تعداد میں مذہب کی تبدیلی کا پتہ چلتا
ہے، جو کہ ڈائریکٹر سین کے دعوے سے بہت کم ہے۔ اس کے علاوہ، چانڈی نے کبھی یہ نہیں
کہا کہ زبردستی یا دھوکہ سے ان کا مذہب تبدیل کروایا گیا۔ انہوں نے یہ بھی کبھی دعویٰ
نہیں کیا کہ یہ لڑکیاں ایک مقدس جنگ لڑنے کے لیے داعش کے علاقوں میں ہجرت کر گئیں۔
سین کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ کیرالہ کے ایک اور سابق چیف منسٹر وی ایس
اچوتانندن نے کہا کہ ریاست میں بالآخر مسلمان اکثریت میں آ جائیں گے۔ واضح رہے کہ سابق
وزیر اعلیٰ نے پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے تناظر میں یہ بات کہی تھی، جس میں یہ بتایا
گیا تھا کہ کس طرح یہ تنظیم نوجوانوں کو اپنے تفرقہ انگیز نظریہ کی طرف راغب کر رہی
ہے۔ اور سابق وزیر اعلی نے کبھی بھی 32000 کے کسی ایسے اعداد و شمار کا حوالہ نہیں
دیا جسے فلم اب بنیادی سچائی کے طور پر پیش کرتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ چانڈی اور اچوتانندن
دونوں نے مذہبی تبدیلیوں کے بارے میں بات کی اور بعض اوقات انہوں نے اسے اپنی تعداد
بڑھانے کے لیے مسلمانوں کی ایک شعوری حکمت عملی بھی قرار دیا۔ لیکن انہوں نے کہیں بھی
مذکب تبدیل شدہرنے والے مردوں یا عورتوں کی اتنی بڑی تعداد کے بارے میں بات نہیں کی
جو عراق یا شام یا یمن میں ISIS میں شامل ہونے کے لیے ملک چھوڑ رہے ہیں۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کبھی کوئی ہندوستانی آئی ایس آئی ایس میں
شامل نہیں ہوا۔ تاہم، اب جلد ہی ریلیز ہونے والی فلم میں دعوی کردہ تعداد بالکل بے
بنیاد ہے۔ مختلف اخبارات نے جون 2021 میں خبر چھاپا تھا کہ کل چار ہندوستانی خواتین
اپنے شوہروں کے ساتھ داعش میں شامل ہونے کے واضح ارادے سے خراسان منتقل ہوئی ہیں۔ امریکی
محکمہ خارجہ کے مطابق، ISIS میں شامل ہونے کے لیے جانے والے ہندوستانیوں کی کل تعداد 66 سے زیادہ
نہیں تھی۔ مزید یہ کہ 2019 میں آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق،
2014 اور 2018 کے درمیان کیرالہ میں داعش کے حامی معاملات کی تعداد 200 کے قریب تھی۔
تاہم، یہ تمام کے تمام تصدیق شدہ دہشت گرد نہیں ہیں جو ISIS کے علاقے میں منتقل ہوئے تھے۔
ORF کے مطابق،
ان تمام افراد نے یا تو ISIS کے بارے میں آن لائن معلومات اور پروپیگنڈا
شیئر کیا تھا یا پھر وہ ISIS کے زیر تسلط علاقوں میں داخل ہونے کا راستہ
تلاش کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ آخر کار، ہندوستانی وزارت داخلہ کے مطابق، 150 سے زیادہ
افراد داعش کے حامی نہیں تھے۔ ان میں سے صرف چند ہی تنظیم میں شامل ہونے میں کامیاب
ہوئے۔ اتنی کم تعداد کے پیش نظر، 32000 خواتین کے داعش میں شامل ہونے کی بذت ایک صریح
جھوٹ ہے اور کچھ نہیں۔
اگر فلم بنانے والوں نے کچھ تحقیقات کر لی ہوتیں تو انہیں اپنے بیانیے
کی حماقت کا اندازہ ہوتا۔ تاہم، اگر مقصد حقائق کی پرواہ نہیں بلکہ صرف ہندوستانی مسلمانوں
کے خلاف بے ہودہ پروپیگنڈہ کرنا ہے، تو یہ ایک اور کہانی ہے۔ اس فلم پر پہلے ہی متعدد
نیوز چینلوں پر بحث ہو چکی ہے اور ان میں سے بہت کم مباحثوں میں اس فلم کے مبالغہ آمیز
دعووں کو مسترد کیا گیا ہے۔ لیکن بات یہی ہے کہ آج کی صحافت کے بارے میں جتنا کم کہا
جائے اتنا ہی اچھا ہوگا۔
ہندوستان کو اس بات پر فخر ہونا چاہئے کہ یہاں کے مسلمان شہریوں نے
القاعدہ اور آئی ایس آئی ایس جیسی دہشت گرد تنظیموں کے پیغام سے کنارہ کشی اختیار کی
ہے۔ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے اس مہلک نظریے کو مسترد کرنے کے لیے قوم مسلم
کی تعریف کی تھی۔ لیکن آج کے قوم پرست ہندو مسلمانوں کو لعن طعن کرنے میں کوئی کسر
نہیں چھوڑیں گے۔ یہاں تک کہ اگر اس دعوے کی تائید کے لیے کافی دستاویزات موجود ہیں
کہ ہندوستانی مسلمان دہشت گرد تنظیموں سے دور رہے، تب بھی اس سے قوم پرست ہندوؤں کی
اس نئی نسل میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
یہ بڑی شرم کی بات ہے کہ ہم نے اس ملک میں ایک ہندو حلقہ بنا لیا ہے
جس کا اصل مقصد مسلمانوں کو بدنام کرنا ہے۔
-----۔
English Article: ‘The Kerala Story’ is a Blatant Lie
URL: https://newageislam.com/urdu-section/the-kerala-story-is-a-blatant-lie-urdu/d/129697
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism