ارشد عالم ، نیو ایج اسلام
12 جون 2018
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی دوبارہ خبروں میں ہے۔ اور اس دفعہ اس کی وجہ بیئر کا استعمال کرنے پر وہاں تین طلباء کو سزا دئے جانے کا معاملہ ہے! اس معاملے کی حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ : ایک مشترکہ دوست کے ساتھ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تین طالب علموں نے بیئر پیکر کچھ موج مستی کرنے کا فیصلہ کیا۔ رمضان المبار ک کے مہینے میں جب کہ مسلمان کھانے اور پینے سے رکے رہتے ہیں ، ان طالب علموں نے نہ صرف یہ کہ اس ممانعت کی خلاف ورزی کی ، بلکہ انہوں نے سوشل نیٹ ورک سائٹ فیس بک کے ذریعے اس کی تشہیر کرنے کی بھی جرأت کی۔
ان تصاویر کی خاص طور پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اندر زبردست مذمت کی گئی ۔ کچھ ایسے طلباء نے جنہیں یہ محسوس ہو کہ اس سے ان کا سیاسی کیریئر بن سکتا ہے ، ان تینوں طالب علموں کے خلاف ایف آر درج کروا دی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی انتظامیہ اب تک ان طلباء کے بارے میں خاموش ہے جنہیں یونیورسٹی کے مختلف ثقافتی کلبوں سے معطل کر دیا گیا ہے۔ ایف آئی آر ایک خبر کی طرح پھیل گئی اور سوشل میڈیا پر مسلم برادری کی جانب سے ان طالب علموں کے خلاف ایک زبردست رد عمل دیکھنے کو ملا۔ کچھ لوگوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ انہیں کفر و ارتداد کا مرتکب قرار دیکر قتل کر دیا جانا چاہئے۔ بہرحال وہ تینوں طالب علم اپنے فون بند کر کے ابھی چھپے ہوئے ہیں اور انہوں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کر دیا ہے۔ اس قدر سخت دباؤ کے ماحول میں انہیں لبرل طبقے کی بھی کوئی حمایت حاصل نہیں ہے۔ ان کے دوست اچانک دشمن بن چکے ہیں ، اور اس سے برا کیا ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی ہی برادری میں ذلیل و رسوا ہو کر رہ گئے ہیں۔
چند ہفتے قبل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے اپنے اسٹوڈینٹ یونین کی دیوار پر جناح کی تصویر کا جم کر دفاع کیا۔ تاہم، جناح کی مجرمیت کے مسئلے کو تقسیم ہند کے دائرے میں رکھنے کے بجائے انہوں نے ان کے دفاع میں قسم قسم کے حیلے اور بہانے بنائے اور ہندو انتہاپسند جماعتوں کے احتجاج کے بعد پولیس تشدد پر اپنی توانائی صرف کی۔ اس بات کا مقصد یہ ہے کہ انہیں واضح طور پر یہ بیاندینا چاہئے تھا کہ : بھارت کی تقسیم کے لئے صرف جناح کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اس وقت اقتدار میں یہ تین کھلاڑی تھے: کانگریس، مسلم لیگ اور برطانیہ۔ لہٰذا ،تقسیم ہند کے لئے ان تینوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جانا ضروری ہے اس لئے کہ اگر وہ اسے روکنا چاہتے تو روک سکتے تھے۔
اس کے بجائے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی خلط مبحث کا شکار ہوئی اور اس نے یہ ثابت کرنے کے لئے تاریخ کے اوراق پلٹنے شروع کر دئے کہ میں ہندو انتہاپسندوں کابھی یہی نظریہ تھا ، لہٰذا تقسیم کے لئے انہیں بھی مورد الزام ٹھہرایا جانا چاہئے۔ جبکہ بات یہ ہے کہ یہ ہے کہ اس وقت غالب قوتوں کے مقابلے میں ہندو انتہاپسند جماعتوں کی طاقت معمولی تھی ، لہٰذا تقسیم کے لئے انہیں ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
ہر بحران اپنے ساتھ ایک موقع بھی لیکر آتا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے جدید ہندوستانی تاریخ میں جناح کی حیثیت پر غیرجانب دارانہ بحث و مباحثہ کا ایک شاندار موقع کھو دیا ہے۔ لیکن جیساکہ ہم سب جانتے ہیں کہ جناح کی ضد افسانوی تھی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ان کے تئیں جو رویہ اختیار کیا اس سے غیر مطمئن ہو کر جناح کا بھوت اب موجودہ بحران کی شکل میں دوبارہ ہمارے سامنے ہے۔ جناح کو اپنی شراب سے پیار تھا اور انہیں یہ دیکھنے کی ہوگی کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اپنے موجودہ بیئر بحران کو نئی مشغولیات کے لئے ایک مکالماتی موقع میں کس طرح تبدیل کرتی ہے۔
اب تک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے حکام کا ردعمل صراحۃً مضحکہ خیز رہا ہے۔ انہیں مختلف ثقافتی کلبوں سے ہٹانے کی صورت ان طلباء کو سزا دیکر یونیورسٹی نے ثقافت کے نظریہ کو تہ و بالا کر دیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اپنی گزشتہ غلطیوں سے کوئی سبق سیکھنے کے لئے تیار نہیں ہے۔
کئی برس قبل کی بات ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں سیرس نامی ایک پروفیسر تھے جن کے اوپر یونیورسٹی نے صرف اس لئے تادیبی کاروائی کی تھی کہ وہ ہم جنس پرست (gay) تھے جس کے بعد پراسرار حالات میں انہیں مردہ پایا گیا تھا۔ پروفیسر سیرس کو جان بوجھ کر اور مجرمانہ طور پر جن طالب علموں نے دھمکی دی تھی انہیں یونیورسٹی سے نکالنے کے بجائے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے حکام نے ایک ایسے استاذ کو اخلاقیات کی تعلیم دینا شروع کردیا جو کئی طریقوں سے محرومیت کا شکار تھے۔
ایسا ہی کچھ اب پھر ہوتا ہو دکھائی دے رہا ہے۔ طالب علموں کے ایک طبقے کے اس متشدد رویہ کی مذمت کرنے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی حکام کے کی ناکامی کو ان کے اس رویہ کی تصدیق تصور کیا جائے گا۔ خاموش رہ کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے حکام آج اپنے ہی تین طالب علموں کو دھمکی دینے اور انہیں خاموش کرنے میں خود شامل ہیں۔ اگر زبردست دباؤ کے تحت وہ خودکشی کر لیتے ہیں یا کیمپس واپس آنے کے بعد ان کے ساتھ کسی طرح کی مارپیٹ کی جاتی ہے تو اس کے لئے صرف اور صرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے حکام ذمہ دار ہوں گے۔
یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ مسلمان اپنے مشروبات سے لطف اندوز ہوتے ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اندر ایسے بہت سارے لوگو ہیں جو ایسا کرتے ہیں۔ وہاں ایسے لوگ ہیں جو رمضان کے دوران پینا چھوڑ دیتے ہیں۔ اور وہا ں ایسے لوگ بھی ہیں جو ایسا نہیں کرتے۔ وہاں ایسے لوگ بھی ہیں جو رمضان کے دوران دم میں روزے رکھتے ہیں لیکن شام میں پیتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ جو لوگ ان نوجوان بالغوں کے اس غیر مذہبی اور ‘‘غیر مہذب’’ رویے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں وہ اچھی طرح یہ بات جانتے ہیں۔ لہٰذا، ان تین طالب علموں کو ہی نشانہ کیوں بنایا گیا؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ پینے کا نہیں ہے لیکن مسئلہ اس کا کھلم کھلا اظہار کرنے کا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اگر بیان کیا جائے تو معاملہ یہ ہے ان طلباء کو پینے کے لئے یہ سزا نہیں دی جارہی ہے بلکہ اس کے بارے میں انہیں احتیاط سے کام نہ لینے کی سزا دی جارہی ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا وہ ایک ایسی ثقافت کو فروغ دینا چاہتے ہیں جہاں منافقانہ رویہ کی پر انعام ملے اور ایمانداری کے لئے سزا ملے۔
در اصل سب سے بڑا مسئلہ اختلاف رائے اور فرق کی گنجائش کا ہے جو کہ تمام برادریوں کو اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے ، اور خاص طور پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسی جگہوں میں اس کے لئے ماحول ضرور سازگار ہونا چاہئے۔ مسلم سوسائٹی کے اندر ایک اہم ادارے کی حیثیت سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو شخصی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی کے لئے جدوجہد میں سب سے آگے ہونا چاہئے۔ اس لئے کہ جب تقریر کی آزادی سلب کی جاتی ہے تو اس سے اقلیتی برادریاں پسماندہ طبقات ہی متاثر ہوتے ہیں۔ تاریخ سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ یہ خود اقلیتوں کے حق میں ہے کہ وہ ذاتی آزادی کے علمبردار بنیں۔ لیکن آج ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ اس کے بالکل برعکس ہے۔
مسلم سوسائٹی کو تیزی کے ساتھ اس بات کا یقین ہو چلا ہے کہ مسلمانوں کے رویے کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ یقینی طور پر اپنی کمیونٹی کے اندر ان اقدار کو فروغ دئے بغیر کوئی بھی اپنے معاشرے میں وسیع پیمانے پر آزادی اور جمہوریت کی امید نہیں کر سکتا۔ مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ مسلمان خود کو صرف ایک مذہبی کمیونٹی کے طور پر پیش کرنے کے لئے فکر مند ہیں۔ اگر فقہ رویوں کی حدوں کا تعین کرنا شروع کر دے تو حقوق کی زبان اولین مصیبت بن جاتی ہے اور معاشرے کا مذاق بنتا رہتا ہے۔
ایسے بہت سارے مسائل ہیں جن کے بارے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو فکر مند ہونا چاہئے۔ اور رمضان کے دوران چند طالب علموں کے شراب پینے اور اس کی تشہیر کرنے پر اسے کم توجہ دینی چاہئے۔
URL for English article: https://newageislam.com/islam-politics/the-jinnah-redux-amu;-this/d/115521
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism