حقوق انسانی کونسل کا 21 واں
سیشن
دہشت گردی کے متاثرین کی یاد میں
جمعرات،
20 ستمبر 2012
10:00-12:00
روم نمبر: 24 ، اقوام متحدہ پلایس دیس
مقررین:
بشپ ڈاکٹر آمن ہورڈ، فیڈ ون ٹو ون فیملی این جی او،
نائجیریا
جناب سلطان شاہین، ایڈیٹر
نیو ایج اسلام
پروفیسر کے واریکو، سکریٹری
جنرل ، ہمالیان ریسرچ اینڈ کلچرل فاؤنڈیشن
محترمہ ڈیڈرے میکونیل، تمل
سنٹر فا رہیومن رائٹس
جناب میکائیل فلپس، پروجیکٹ
کوآرڈینیٹر اینڈ اسسٹنٹ ورلڈ یوغور کانگریس
چیئر مین: ڈاکٹر چارلس گریوس،
صدر FICIR
مباحثین:
ڈاکٹر سید نظیر گیلانی، سیکریٹری
جنرل، جموں کشمیر ہیومن رائٹس کونسل
پروفیسر ریاض پنجابی، ہمالیان
ریسرچ اینڈ کلچرل فاؤنڈیشن
ترجمہ: انگلش، فرنچ
عالمی دہشت گردی کے متاثرین
کی یاد میں ان کو خراج عقیدت
سلطان شاہین ،ایڈیٹر نیو ایج
اسلام
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ہماری یہ استدعا کہ وہ 19 اگست
کے دن کو دہشت گردی کے متاثرین کے لئےیوم خراج عقیدت کے طور پر منائے، دراصل
دہشت گردی کی خوفناکی کو دوبارہ یاد کرنے کی
ہماری کوششوں کا حصہ ہے ۔ ہم اس موقع پر یہ
عہد کرتے ہیں کہ اب دوبارہ کبھی دہشت گردی کی چپیٹ میں نہیں آئیں گے ۔
مختلف ممالک الگ الگ دنوں
میں دہشت گردی کے متاثرین کی یاد مناتے ہیں تاکہ وہ ان سنگین
مواقع کو ہمیشہ یاد رکھ سکیں ۔ مگر یہ ہندوستان اور روس جیسے ان ممالک کے لئے تقریبا محال سی بات ہے، جو اتنی
بار دہشت گردی کے شکار ہوچکے ہیں کہ اب ان کے لئے وہ ایام اور تواریخ بھی
یاد رکھنا مشکل ہو گیا ہے جب تشدد کے واقعات
نے ان کے شہریوں کو اپنے گھیرے میں لے لیا
تھا۔ تاہم ،19 اگست کا دن ہمیں دہشت گردی کے تمام متاثرین کو خراج عقیدت پیش
کرنے کا اجتماعی موقع فراہم کرتا ہے ۔
دہشت گردی ایک بدترین مجنونانہ تشددہے جو ان بےچارے معصوم
عوام کے خلاف برپا کیا جاتا ہے جن کا دہشت گردوں کی سیاست سے کسی طرح کا کوئی لینا
دینا نہیں ہوتا ۔لہذا اس موقع پر ہمیں دہشت گردی کے اس عفریت کی تمام تر شکلوں کے
خلاف محاذ آرا ہوجانا چاہئے اور اسے کہیں
بھی پنپنے کا موقع نہیں دینا چاہئے اور نہ ہی اقوام عالم کے درمیان تفریق وانتشار پھیلانے
کے اسکے ناپاک مقصد کو کامیاب بننے دینا چاہئے ۔
ابھی حال ہی میں ہم نے 11 ستمبر کے متاثرین کو نیو یورک میں
یاد کیا اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا ۔ دنیا بھر میں پورے سال اس طرح کے جو دن منائے
جاتے ہیں ، ان میں سب سے دلخراش اور المناک دن 22 جولائی ، 2012 کا تھا جب ناروے میں بم اور بندوق سے چھلنی ہونے والی
77بے گناہ جانوں کو یاد کیا گیا ۔ اس اندوہناک واقعہ نے ایک سال قبل امن وسلامتی کے
اس ملک کو ہراساں کردیا تھا۔ انڈریس بہرنگ بریوک نامی 33 سالہ شخص ایک دایاں بازو انتہاپسند تھا، جسے
اب عمر قیدکی سزا سنادی گئی ہے، کیوں کہ اس
نے اوسلو میں گورنمنٹ ہیڈکوراٹرز پر بمباری
کی تھی جس کے نتیجے میں آٹھ لوگ مارے گئے تھے اورجزیرۂ اوٹویا
میں لگائے گئے لیفٹ ونگ لیبر بارٹی یوتھ کیمپ پر فائرنگ کی تھی، جس کی وجہ سے69 لوگ جاں بحق ہوگئے
تھے۔
ماسکو میں 3ستمبر کو دہشت
گردی کے خلاف جنگ میں یکجہتی کے مظاہرے کے دن دہشت گردی کے متاثرین کو یاد کیا گیا
۔ اس طرح کی گیارہ تقریبات منعقد کی گئیں۔ ماسکوکے سیکڑوں باشندوں نے دہشت گردانہ کارروائیوں کی جائے وقوع پر جمع ہوکرمتاثرین
کو خراج عقیدت پیش کیا ۔ متعددمقامات پر متاثرین کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ریلیاں
نکالی گئیں ، ان میں ڈوبروکا تھیئٹرک سینٹر کے نزدیک واقع کلٹری پارک،لبیانکا اور اوٹوزاوسکا میٹرو اسٹیشن، ٹوشینو ہوائی اڈہ ، نزد ہوٹل نیشنل، نزد رزسکایا
میٹرو اسٹیشن، کاشرسکوے شاہراہ اور گریانو اسٹریٹ پر واقع مکانات کے وہ پرانے گراؤنڈز جن پر بمباری کی گئی تھی ، پشکنسکایا سکوائر اور
ڈوموڈیو ہوائی اڈہ کی انڈر گراؤنڈ کراسنگ قابل ذکر ہیں ۔ نیز اسی
طرح کی ایک ریلی پوڈکولوکولنی سائڈ اسٹریٹ اور
جنکشن ا ٓف سولیانکا پر واقع ورجن
آف کولشکی کے چرچ آف نیٹیوٹی کے سامنے واقع منومنٹ ٹو بیسلن ٹررسٹ ایکٹ کے نزدیک بھی نکالی گئی ۔
اب سے دو مہینے بعد ہمیں 26 نومبر کو اپنے ملک ہندوستا ن کی مشترکہ
تہذیب پر پاکستانی حملے کے خدشات لاحق ہیں ، 2008 میں ہونے والے حملہ کے ٹھیک چار سال
بعد جب کہ ملک بھر میں سیکڑوں کی تعداد میں خراج عقیدت کی تقریبات منائی جا رہی ہوں
گی
میں نے ابھی ہندوستان کی مشترکہ
تہذیب پر کئے جانے والے حملے کی بات کی، جو کہ تشریح طلب ہے ۔یقینا ! یہ حملہ ہندوستان
پر، ہماری عوام پر، ہمارے غیر ملکی سیاحوں پراور اس طرح ہندوستان کے بہت سے پہلوؤں
پر کیا گیاتھا۔چوں کہ ممبئی شہر ہندوستان کی اقتصادی راجدھانی ہے ، لہذا یہ حملہ ہندوستان
کی اقتصادی طاقت پر بھی تھا ۔یوں ہی یہ حملہ عالمی سطح پر بنی ہوئی ہندوستان کی
ایک پرامن شبیہ پر بھی تھا ، کیوں کہ اس حملے میں متعدد یہودی اور دیگر غیرملکی
زائرین مارے گئے تھے ۔اس طرح یہ حملہ ہندوستان کے مختلف اور متعدد پہلوؤں پر کیا گیا
، لیکن میں نے اسے خاص طور پر ہندوستان کی
مشترکہ تہذیب اور کثیر ثقافتی وکثیر مذہبی سماج
کے خلاف ایک حملہ قرار دیا ، وہ ہندوستانی سماج جس میں بلا تفریق مذہب ہندو،مسلم،سکھ،
عیسائی،یہودی ایک ساتھ مل جل کررہتے ہیں اور ان کے علاوہ نہ جانے کتنے لسانی ونسلی گروہ باہم شیر وشکر زندگی گزار رہے
ہیں، جن کا شمار نہیں کیا جاسکتا ۔ لیکن پھر بھی میں نے صرف ایک ہی پہلو یعنی ہندوستان
کی مشترکہ تہدیب کاہی خاص طور پر کیوں ذکر کیا؟
آپ میں سے بعض کو پتہ ہوگا
کہ ابو جندال ،دہشت گردانہ کارروائیوں کا وہ کوآرڈینیٹر جو کراچی
میں واقع اپنے کنٹرول روم سے ہندوستان میں
سرگرم پاکستانی دہشت گردوں کو ہدایات دے رہا تھا
اور جس کی آواز بھی ہندوستانی حکومت نے ریکارڈ کر لی ہے، اب سعودی عرب سے گرفتار
کیا جا چکا ہے ۔ اس نے یہ انکشاف کیا ہے کہ اس حملہ کے پس پردہ ہندوستانی ہندوؤں اور
مسلمانوں کو پھنسانے کی سازش کارفرما تھی
۔ یہی وجہ ہے کہ ان پاکستانی دہشت گردوں کو ممبئی کی عامیہ زبان کے کچھ بول چال کے
جملے سکھا دئے گئے تھے، تاکہ ہندوستانی سیکوریٹی کے ذریعہ ان کی شناخت ہندوستانی شہریوں
کےطور پر ہو ۔ ان سے کہا گیا تھا کہ وہ ہمارے شہر حیدرآباد سے منسوب کرکے اپنے لئے
کوئی فرضی مسلم گروہ کا نام اختیار کرلیں، تاکہ ان کے بارے میں یہ گمان
ہو کہ وہ کسی ہندوستانی شہر سے تعلق رکھتے ہیں ۔ دسوں دہشت گردوں نے حیدرآباد میں
واقع ارونودیا کالج کے فرضی شناختی کارڈ بنائے
ہوئے تھے ۔ حتی کہ انہوں نے اپنے ہندو نام بھی وضع کر لئے تھے، چنانچہ اجمل قصاب‘ سمیرچودھری’ اور اسماعیل خان
‘نریش ورما’ بن گیا تھا۔ لشکر طیبہ کے ایک
آپریٹر نے اپنا نام ‘کھرک سنگھ’ ظاہر کیا
اور اس نے ایک امریکی فرم سے 250 ڈالر (یعنی دس ہزار ہندوستانی روپئے) میں انٹرنٹ کالنگ
سروس خرید ی تھی۔ ان دہشت گردوں کو سمجھا دیا گیا تھا کہ وہ کراچی
میں مقیم اپنے آپریٹرز سے ہندوستانی سم کارڈ
والے فون سے گفتگو کیا کریں ۔
اسے پاکستان کی بدقسمتی کہئے
اور دنیائے انسانیت کی خوش قسمتی کہ ان میں سے ایک پاکستانی دہشت گرد اجمل عامر قصاب کو ایک
ہندوستانی پولس نے زندہ گرفتار کر لیا ،حالاں کہ اس دوران اس کو اپنی جان بھی گنوانی
پڑی۔ اس واقعہ نے پاکستانی سازش کو بےنقاب کر دیا اور ہمیں خود ہندوستان کے اندر دہشت
گردوں کو تلاش کرنے کے بجائے اصل مجرمین تک پہنچنے کا سراغ مل گیا ۔
اس سے یہ بات واضح ہو گئی
کہ ممبئی پر دہشت گردانہ حملے کے پس پردہ ہندوستان کے اہم مذہبی طبقات کو باہم لڑانے
اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کروانے کی ذہنیت کارفرما تھی ۔ میں یقین کے ساتھ کہ سکتا
ہوں کہ اگر قصاب کو گرفتار نہ بھی کیا گیا ہوتا ، تب بھی ہماری مشترکہ تہذیب اس نوعیت
کے حملوں کامضبوطی کےساتھ سامنا کر رہی ہوتی ۔ ہم نے اس سے قبل بھی متعدد بار اس طرح کے حملوں کا سامنا کیا ہے، مگر آج اس کے باوجود
بھی ہم متحد ہیں۔ تاہم ان دہشت گردانہ سرگرمیوں کے پیش نظر ایک سوال ہمارے ذہنوں میں
ابھرتا ہے ، اوروہ یہ ہے کہ آخر ہماری مشترکہ
تہذیب اور ہماری باہمی
ہم آہنگی میں وہ کون سی بات مضمر ہے جسے پاکستان اپنے وجود کے لئے ایک خطرہ سے کم نہیں سمجھتا ۔ آخر
کیوں پاکستان ہمارے خلاف ہندوستان میں شر کے اڈے تیار کر رہا ہے اور ہماری فرقہ
وارانہ سلامتی کو تباہ کردینا چاہتا ہے۔
پاکستان کےجہادی لشکر اور
26/11 پر تبصرہ کرتے ہوئے میں نے اس سے قبل
ایک بات کہی تھی جسے میں یہاں
پھر سے دہرانا چاہوں گا کہ:‘‘ ہم ہندوستانی مسلمانوں کے
پاس اس بات کا مطالبہ کرنے کے لئے معقول وجوہات ہیں کہ شر کے ان اڈوں کو بند کردیا
جائے اور ان کا خاتمہ کردیا جائے ۔ کیوں کہ اب اس
معلوم حقیقت میں ذرہ برابر شک کرنے
کی گنجائش نہیں کہ ان پاکستانی دہشت گرد تنظیموں
کا خاص ہدف ہندوستان کے مسلمانوں کی تباہی ہے، اور یہ حقیقت ممبئی پران کےدہشت گردانہ حملے اور ان
کے طریقۂ کار سے ظاہر ہے ۔
‘‘ہندوستان میں ہندوؤں اورمسلمانوں کا پرامن بقائے باہم اور ترقی وخوشحالی
کی طرف ان کی شاندار پیش رفت پاکستان کے وجود کےلئے ایک بنیادی خطرہ ہے۔کیوں کہ ہندوستان میں خوشحال مسلم کمیونیٹی
کا وجود دراصل پاکستان کے اس دوقومی نظریہ کاخاتمہ کر دے گا جس پر پاکستانی اسٹیٹ کی
پوری عمارت قائم ہے ۔ ایک طرف ہندوستان میں مسلمان نہ صرف آپس میں امن وسکون قائم
کئے ہوئے ہیں بلکہ دیگر مختلف مذہبی، لسانی،اور نسلی امتیازات کے حامل متعدد طبقات
کے ساتھ بھی وہ ہم آہنگ زندگی گزار رہے ہیں ، جب کہ دوسری جانب پاکستانی مسلمانو ں
کا حال یہ ہے کہ وہ آپس میں بری طرح بٹے ہوئے
ہیں اور باہم کشت وخون میں مبتلا ہیں ۔یہی
وہ المیہ ہے جس نے پاکستان کے پورے وجود کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔
پاکستان کے مسلم سندھی،بلوچی
،پٹھان، سرائیکس اور مہاجرین کو اگر ذرا بھی موقع فراہم ہوجائے تو وہ ہندوستانی مین اسٹریم سے جڑنا پسند کریں گے، اس لئے انہیں پاکستانی استحکام کے حوالے نہیں چھوڑا
جاسکتا جو کہ ان دہشت گرد تنظیموں کے پھلنے پھولنے اور اس کے توسط سے اپنے اسٹریٹیجک
منصوبوں کو پورا کرنے کے درپے ہے ۔ہم ہندوستانی مسلمان ، محض ہندوستان میں اپنے وجود
کی بناء پر اور اس بھی کہیں زیادہ اس ملک میں
اپنی سلامتی وخوشحالی کی بناء پر، پاکستان
کےپورے وجود کےلئے ایک خطرہ بنے ہوئے ہیں ، نہ کہ صرف پاکستانی دہشت گردوں کے لئے جو
لا محالہ پاکستانی استحکام کا حصہ ہیں۔ تاہم ، ہم اس تعلق سے کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔لہذا یہ خاص
طور پرہمارے مفاد میں اور تمام ہندوستانی مسلمانوں
کے مفاد میں ہے کہ دہشت گردی کے ان اڈوں کا
خاتمہ کر دیا جائے ان مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے، جنہوں نے نے ہمارے ملک
کی سرزمین پر شر وفساد مچایاہے’’۔
22 جولائی ، 2012 کو اوسلو
میں تاج پوشی کی ایک تقریب میں وزیر
اعظم جینس اسٹولٹن برگ نے کہا تھا کہ بریویک اپنے ہدف میں کامیاب نہیں ہوسکا ، جو ناروے کے کثیر ثقافتی اور مشترکہ معاشرتی اقدار کو تباہ
کردینے کا خواہاں تھا ۔ جینس اسٹولٹن برگ نے مزید یہ کہا تھا کہ:‘‘ناروے میں چلائی
گئیں گولیوں اور بموں کا مقصد ناروے کے اقدارکو
تبدیل کرنا تھا، لیکن ناروے کے باشندوں نے ہمارے اقدار کو سینہ سے لگا کر ان کا جواب دے دیا۔ لہذا سازش کرنے والے شکشت کھا گئے اور ہمارےلوگ جیت
گئے’’ ۔
26/11 کی تقریب کے اس موقع پر ہم ہندوستانی بھی پورے فخر سے یہ کہ سکتے
ہیں کہ پاکستانی دہشت گرد اور پاکستان میں موجود ان کے آپریٹرز ہمارے ہندوستانی معاشرے
کی کثیر ثقافتی تہذیب پر ایک دھبہ بھی نہیں لگا سکے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ آج پوری دنیا
میں جہاں کہیں بھی امن وسکون کے حالات بنے ہوئے ہیں ، وہاں دہشت گردانہ سرگرمیوں کی
وجہ سے ان پر کوئی منفی اثر مرتب نہیں ہو رہا ہے ، تو شاید ہماری یہ بات عالمی دہشت
گردی کے متاثرین کی روحوں کے لئے اس موقع پر سب سے بہترین خراج عقیدت ہوگی ۔ یہ متاثرین ہیدرا کی سربراہی میں چلنے والی اس بربری
آئیڈیالوجی کے شکار ہوگئے جو ہم سب کو انتہاپسند گروہوں میں تقسیم کردینا چاہتی ہے۔مگر
ہم نے ان دہشت گردوں کو کبھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہونے دیا اور آئیے! اب ہم
سب مل کر یہ عہد کریں کہ ہم انہیں دنیا کے کسی بھی حصہ میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
انگلش سے اردو ترجمہ: غلام
رسول ، نیو ایج اسلام
URL: