مجاہد حسین، نیو ایج اسلام
9 جنوری، 2013
پاکستان میں یہ بحث آخری مراحل
میں داخل ہوچکی ہے کہ پاکستان کو امریکہ اور نیٹو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے طالبان اور
القاعدہ کے ساتھ”بامعنی’’ مذاکرات کو حتمی راستہ سمجھ لینا چاہیے۔فتح مند طالبان اورخوش
گوار حیرت کے حامل القاعدہ کے عرب اور غیر عرب بیرونی جہادی خطے میں اپنی واضح ترین
کامیابی کے بالکل قریب کھڑے ہیں ۔ان کی کامیابی اتنی سریع اور تسلسل خیز ہے کہ گذشتہ
ہفتے میں اُنہوں نے پشاور کے گردونواح میں دودرجن کے قریب پاکستانی سیکورٹی اہلکاروں
اور مستونگ میں اتنے ہی شیعہ مخالفین کو زندگی سے محروم کردیا ہے۔ چوں کہ ریاست کے
والیان اور اہل ایمان قاتلوں سے‘‘بامعنی’’ مذاکرات پر آمادہ ہوچکے ہیں اس لیے مذکورہ
بالا نصف صد مقتولین کے جانی نقصان کے خلاف کوئی ردعمل ظاہر نہیں کرسکتے تاکہ کل کلاں
کو قاتلوں سے آمنا سامنے ہوتے وقت کسی قسم کی خفت کا احساس نہ ہو۔اس صورت حال میں مجھے
خود لفظ’’قاتل‘‘ عجیب محسوس ہورہا ہے لہٰذا میں کوشش کروں گا کہ اس منحوس لفظ کو دوبارہ
استعمال کرنے سے گریز برتوں کیوں کہ جب میری ریاست اور اس کے والیان ،کروڑوں اہلیان
ایمان سمیت اس لفظ کے استعمال سے تائب ہوچکے ہیں تو میں ایسا کرنے پر کیوں مُصر ہوں؟ظاہر
ہے اب لکھنے کے لیے کوئی لفظ، کوئی نام تو استعمال کرنا پڑے گا ۔میں نے فیصلہ کیا ہے
کہ دوسری سمت کھڑے لوگوں کے لیے اہل جہاد مناسب اور حقیقت حال کا آئینہ دار نام ٹھیک
رہے گا۔
تو صاحب ،اہل جہاد کے ہاتھوں
زندگی سے محروم ہوئے ہزاروں افراد اور ان کے لواحقین سے انتہائی معذرت کے ساتھ یہ عرض
ہے کہ ریاست پاکستان سرنگوں ہوچکی ہے ، اہل جہاد غالب آچکے ہیں اور اب اس کے سوا کوئی
چارہ باقی نہیں کہ ریاست ان کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لے۔جو اہل جہاد کے ہاتھوں مارے
گئے ان کا قصہ تمام ہوا،ریاست ان کے خون کے بدلے میں اہل جہاد سے کوئی مطالبہ نہیں
کرسکتی۔ریاست کے تمام تعلیمی اداروں کی اطلاح کے لیے عرض ہے کہ آپ جتنی جلد ممکن ہوسکے
اپنے ہاں سے جاری تعلیم کو اہل جہاد سے منظور کروالیں بصورت دیگر اہل جہاد اب آپ کے
تعلیمی اداوں کو بم لگا کر مسمار کرنے تک ہی محدود نہیں رہیں گے بلکہ آپ کو دین مخالف
تعلیم دینے کے جرم میں قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ایسا ہی پیغام غیر سرکاری اداروں
عرف این جی اوز،جو بلاوجہ پسماندہ اور پچھڑے ہوئے لوگوں کو زندہ ہونے کا احساس دلاتی
رہتی ہیں، کے لیے بھی ہے کہ صوابی کے قتل عام کو یاد رکھیں اور آئندہ کے لیے حتی المقدور
احتیاط برتیں کیوں کہ نتائج سے سب بخوبی واقف ہیں۔باقی رہیں سیاسی جماعتیں تو وہ اگرچہ
پہلے ہی ‘‘احتیاط’’ کا مکمل دامن تھامے ہوئے
ہیں، اِنہیں اپنی صفوں میں اہل جہاد کو ہر صورت میں شامل کرنا پڑے گا۔انتخابی نتائج
کے بہتر حصول سے لے کر مستقبل میں سلامتی کی ضمانت تک اس سے حاصل ہوگی۔ آخر میں میڈیا
والوں کے لیے میرے پاس کوئی اطلاع نہیں کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔کیوں کہ
میڈیا ہر قسم کے انتہاپسندوں کے نشانے پر ہے۔یہ ایک عجیب بات ہے کہ پاکستان کے غالب
میڈیا نے جتنی خدمت اور اشتہار بازی اہل جہاد کے لیے کی ہے،اس کی کوئی قدر نہیں کی
جاتی۔میڈیا کی صفوں میں موجود اہل جہاد کے کارندوں اور معذرت خواہ ‘‘برقی دانشوروں’’
کی خدمات کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔اہل جہاد اور پاکستان کے سیاسی وڈیروں
کو چاہیے کہ وہ میڈیا کے بارے میں اپنے روئیے میں قدرے نرمی لائیں،اتنی سختی بھی کوئی
اچھی روایت نہیں آخر خدمات کی کچھ تو قدر ہونی چاہیے۔
اگر ایک طرف قومی سطح پر‘‘مذاکرات’’
کے لیے اسٹیج تیار ہورہا ہے جہاں ملا نیک محمد مرحوم و مغفور کی طرح حکیم اللہ محسود
اور سینکڑوں اہل جہاد کو پھولوں سے لاد دیا جائے گا اور کسی اگلے ڈرون حملے تک لاتعداد
وعدے وعید ہوں گے تو دوسری طرف پاکستان میں جمہوری نظام کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکے کے
لیے کدالیں تیز کی جارہی ہیں۔شیخ السلام پورے طمطراق کے ساتھ جلوہ گزین ہیں اور سابقہ
قائد انقلاب الطاف حسین خم ٹھونک کر ان کی مدد کو آگئے ہیں۔پاکستان میں فائدے اور حتمی
فائدے کی سیاست کے بانی چوہدری خاندان کی طرف سے بھی شیخ السلام کو شاباش مل چکی ہے،عمران
خان اپنے مشہور زمانہ سونامی کے ہائی جیک ہوجانے کے خطرے سے دوچار پس وپیش کی عمدہ
تصویر بنے بیٹھے ہیں،وہاں مسلم لیگ نواز جو براہ راست توپ کے دھانے پر بیٹھی کپکپا
رہی ہے اور پنجاب میں فرقہ پرستوں کی مدد حاصل کرنے کے جتن کررہی ہے تاکہ ‘‘معرکے’’
میں کسی کاری زخم سے بچ سکے۔
تمام نظریں جی ایچ کیو کی
طرف ہیں، جو پہلی مرتبہ ریاست کو لاحق اندرونی خطرات کی نشاندہی میں مصروف ہے۔یہ ایک
ایسی نشاندہی ہے جو بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھی لیکن پھر بھی دیر آید درست آید ۔فوج
اس ذمے داری کو سیاسی قیادت کے سامنے رکھ رہی ہے ،وہی سیاسی قیادت جو ایک صوبے کے گورنر
کے بہیمانہ قتل کے بعد مذمت کا ایک لفظ بھی ادا کرنے کے قابل نہ تھی اور نہ ہی اب ہے۔پورے
وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ جن کو ذمہ داری سونپی جارہی ہے وہ اس ذمہ داری کا بوجھ
اُٹھانے کے قابل نہیں رہے۔مرکزی حکومت اے این پی جیسا رویہ اختیار کرنے کے قابل بھی
نہیں جو براہ راست نشانے پر ہے اور اپنے عہدیدار کھو رہی ہے۔اگر ایسی صورت حال میں
اُمید کی کوئی کرن ابھی باقی بچی ہے تو اس کو سامنے لانا چاہیے تاکہ حوصلوں کے مکمل
انہدام سے فرار کی کوئی صورت نکل سکے۔
کون کافر ہے جو کسی قسم کے
مذاکرات کا دشمن ہو، لیکن دل لگتی یہ ہے کہ جن کے ساتھ مذاکرات کی منتیں مانی جارہی
ہیں، وہ خود کسی قسم کے مذاکرات پر یقین نہیں رکھتے۔وہ لاتعداد بار اس بات کا اعادہ
کرچکے ہیں کہ کفر کے ساتھ مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں۔وہ فریق ثانی یعنی ریاست پاکستان
کو ہر حوالے سے اس قدر نقصان سے دوچار کرچکے ہیں کہ اس کا ازالہ اب اُن کے بس کی بات
نہیں۔ریاست تو شاید اُن کے مطالبات کو کسی قدر مان لے اور اُن کو پہنچنے والے نقصان
کا کسی حد تک ازالہ بھی کردے، وہ کیا کرسکیں گے ؟صرف یہ کہ مستقبل میں ریاست مخالف
کارروائیاں نہیں ہو ں گی؟اور پھر اس کی ضمانت کون دے گا؟ کیا صوفی محمد کی صورت میں
ہم اس قسم کی ضمانتوں کا انجام نہیں دیکھ چکے؟حیرانی کی بات یہ ہے کہ وہ غیر مسلح بھی
نہیں ہونا چاہتے،صرف کچھ عرصے کے لیے اپنی بندوقوں کو آرام دیں گے۔
حال ہی میں شائع شدہ کتاب
‘‘پنجابی طالبان’’ سمیت نو کتابوں کے مصنف،
مجاہد حسین اب نیو ایج اسلام کے لئے ایک باقاعدہ کالم لکھتے ہیں۔ تقریبا دو دہائیوں
سے وہ تحقیقاتی صحافی کی حیثیت سے معروف اخبارات میں لکھ رہے ہیں۔ ان کی تحریریں پاکستان
کے سیاسی اور سماجی وجود اوراسکے اپنی تشکیل
کے فوراً بعدسے ہی مشکل دور سے گزرنے سے متعلق موضوعات کا وسیع پیمانے پر احاطہ کرتی
ہیں۔ حالیہ برسوں میں مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی اور سلامتی سے متعلق
امور ان کے مطالعہ کے خصوصی شعبے رہے ہیں۔ مجاہد حسین کے پاکستان اور بیرون ملک کے
سنجیدہ حلقوں میں کافی قارئین ہیں۔ آزاد اور غیر جانبدارانہ طرز فکر کو ماننے والے
مصنف مجاہد حسین، بڑے پیمانے پر طبقوں، اقوام، اور انسانیت کو درپیش چیلنجوں کا ایماندارانہ
تجزیہ پیش کرتے ہیں۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/terrorist-taliban-turns-saviour-pakistan/d/9920