نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر
30 مارچ 2024
داعش سلفیت کی ایک حقیقی پیداوار
ہے، اور ہمیں اس سے پوری شفافیت کے ساتھ نمٹنا چاہیے۔
اہم نکات:
1. شیخ کلبانی اس سلفی نظریے کی مذمت کرتے ہیں جو داعش اور اس سے متعلقہ
گروہوں کے لیے بنیاد کا کام کرتی ہے۔
2. دہشت گردانہ نظریات کی اشاعت کو روکنے کے لیے، وہ عقل و استدلال کی روشنی میں اسلامی تاریخ کا تجزیہ
کرنا ضروری قرار دیتے ہیں۔
3. وہ مختلف شعبوں کی غفلت کی وجہ سے، نوجوانوں میں دہشت گردی کے فروغ
پر تنقید کرتے ہیں۔
4. وہ علماء، اساتذہ اور مذہبی رہنماؤں کو تاکید کرتے ہیں، کہ وہ بچوں
کو اسلام کی صحیح تعلیمات سے آگاہ کریں، تاکہ دہشت گردانہ نظریات کو پھیلنے سے روکا
جا سکے۔
5. ان کی دلیل ہے کہ تکفیری دہشت گرد گروہوں کا مقصد ہمارے بچوں میں
یہ عقیدہ پیدا کرنا ہے، کہ صرف وہی سچے مسلمان ہیں اور باقی سب قبر پرست، مشرک یا مرتد
ہیں۔
6. کلبانی اس تکفیری نظریہ کی اشاعت کو روکنا ضروری قرار دیتے ہیں،
جس میں مسلمانوں اور دیگر کا قتل جائز ہے۔
------
مکہ مکرمہ کی مسجد کے سابق
امام شیخ عادل الکلبانی نے اعلان کیا ہے، کہ داعش سلفی اسلام کی پیداوار ہے، اس لیے
سلفی فرقے میں ہی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔
-----
"داعش سلفیت کی حقیقی پیداوار ہے، اور ہمیں اس سے پوری شفافیت
کے ساتھ نمٹنا چاہیے۔"
یہ دعویٰ کسی غیر وہابی یا
غیر سلفی مسلمان کا نہیں، بلکہ خود ایک سلفی
اور مکہ مکرمہ کی مسجد کے سابق امام شیخ کلبانی کا ہے۔ انہوں نے یہ دعویٰ 15 اگست
2014 (@abuabdelelah) کو اپنی ٹویٹ میں کیا تھا۔
سوشل میڈیا پر شور شرابے کے
بعد، دس دن بعد، 24 اگست کو شیخ کلبانی نے،
الریاض کے لیے ایک مضمون لکھا، جس کا عنوان تھا "کیا دہشت گردی ایک سلفی
پیداوار ہے؟"
داعش کے خلاف بات کرنے، اور
اس تنظیم کو سلفیت کی پیداوار قرار دینے والے،
کلبانی پہلے سلفی نہیں ہیں۔ اگرچہ، دیگر سعودیوں نے بھی داعش کے مذموم اقدامات
کی مذمت کی ہے، لیکن کلبانی داعش پر اپنی تنقید میں ایک قدم اور آگے نکل چکے ہیں۔ انہوں
نے کھلے عام اس سلفی نظریے کی مذمت کی ہے، جو آئی ایس آئی ایس اور اس سے متعلقہ تنظیموں
کی بنیاد کا کام کرتا ہے، اور یہ کہا کہ اسلامی تاریخ اور موجودہ دور میں، اس کے اطلاق
کا عقل و استدلال کی روشنی میں تجزیہ کیا جائے، اور یہ بے سوچے سمجھے کوئی قدم اٹھانے سے بہتر ہے۔
اپنے مضمون میں، شیخ کلبانی
نے نوجوانوں میں دہشت گردی کے فروغ پر تنقید کرتے ہوئے والدین، مذہبی رہنماؤں، علماء،
مبلغین اور سماجی ماہرین کی غفلت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے دہشت گردانہ نظریات
کے فروغ کو روکنے کے لیے، بچوں کو اسلام کی صحیح تعلیمات سے آگاہ کرنا ضروری اور اہم
قرار دیا ہے۔ انہوں علماء، اساتذہ اور مذہبی رہنماؤں کو اس بات کی تاکید کی، کہ وہ
بچوں کو اسلام کی صحیح تعلیمات سے آگاہ کریں تاکہ وہ دہشت گردانہ نظریات کا شکار نہ
ہوں۔ اور اس میں ناکامی افسوسناک نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔
مزید برآں، شیخ کلبانی ان
لوگوں کی بھی مذمت کرتے ہیں جو سلفی ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں، تکفیری فتوے جاری
کرتے ہیں، اور مسلمانوں کے بارے میں سخت فیصلے کرتے ہیں، انہیں مرتد، مشرک کہتے ہیں،
اور ان پر صراط مستقیم سے بھٹک جانے کا الزام
لگاتے ہیں۔ کیونکہ اس سے کسی کا بھی اپنے مخالفین کو مرتد قرار دینا، اور ان کے قتل کو جائز ٹھہرانا ممکن ہو جاتا ہے،
نیز، یہ حق بھی حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ جسے چاہے قتل کر دے اور جسے چاہے چھوڑ دے۔
مسلمان کو مرتد اور کافر قرار
دینا اور اس بنیاد پر اس کے قتل کو جائز قرار دینا، ایک ایسا ناسور بن چکا ہے جس کا
سامنا کرنے کی ہمت کسی میں نہیں۔ ہمارے بچوں کو یہ سکھایا جا رہا ہے کہ فلاں فرقے کے
لوگ مشرک ہیں، فلاں فرقے کے لوگ کافر ہیں اور فلاں فرقے کے لوگ مرتد ہیں۔ صورتحال اس
قدر مخدوش ہو چکی ہے، کہ ہمارے نامور علماء بھی اپنے تکفیری فتویٰ سے محفوظ نہیں رہے۔
انہوں نے اپنے مضمون میں،
انتہاپسندوں کے ہاتھوں اسلامی تعلیمات کی غلط تشریح، اور اسلام سے متصادم نظریات کا
پروپیگنڈہ کرنے کا مسئلہ بھی اٹھایا۔ تکفیری دہشت گرد گروہ صرف خود کو ہی حق اور توحید
کے حقیقی علمبردار مانتے ہیں، جس سے اسلامی نظریات اور اسلامی اقدار کی خوفناک تحریف
کا پتہ چلتا ہے۔
کلبانی کے مطابق سلفیوں اور
ان تکفیری گروہوں کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیونکہ سلف کی زندگی معافی، بھائی چارے،
امن اور سلامتی پر مبنی ہے۔ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے ساتھ انصاف، امن اور سکون کی
زندگی بسر کرنا ہی سلف کی تعلیم رہی ہے۔
تکفیری دہشت گرد گروہوں کا
مقصد ہمارے بچوں میں یہ عقیدہ پیدا کرنا ہے، کہ صرف وہی سچے مسلمان ہیں اور باقی سب
قبر پرست، مشرک یا مرتد اور مستحق قتل ہیں۔ کلبانی نے زور دے کر کہا کہ "سلفیوں"
کو اس تکفیری نظریہ کی اشاعت بند کر دینا چاہیے، جس میں مسلمانوں اور دیگر کا قتل جائز
ہے۔ جب تک ہم اس میں کامیاب نہیں ہوتے، ہم خود کو صحیح طور پر سلفی نہیں کہہ سکتے۔
وہ موجودہ سلفی تحریک کے نظریات اور سلف کی تعلیمات کے درمیان واضح تضاد ظاہر کرنے
کی کوشش کرتے ہیں۔
مزید برآں، تکفیری دہشت گرد
گروہ ہمارے بچوں میں یہ عقیدہ پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ ان کے علماء و مشائخ کے علاوہ
کوئی بھی نیک و متقی نہیں ہے۔ وہ باقی سب کو سلف صالحین کا غدار سمجھتے ہیں، اور صرف
خود کو ہی ان کا اصلی وفادار مانتے ہیں۔ اگر ہم نے ان خیالات و نظریات کا گلا نہیں
گھونٹتے، تو ہم قتل اور خونریزی کا مشاہدہ کرتے رہیں گے۔
وہ ایک صحت مند، نفع بخش پودے
کو ایسے برے نظریات اور وائرس سے بچانے، نیز پودے کی جڑوں کی اچھی طرح دیکھ بھال کرنے
کی بات کرتے ہیں، جو اس کے پھلوں اور بیجوں کو زہریلا بنا سکتے ہیں۔ آخر میں، کلبانی
کہتے ہیں کہ ماضی کو تباہ کرنے کے بجائے، اسے حال اور مستقبل کی تعمیر کے لیے ایک زینے
کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے۔ آپ ان کا پورا مضمون ذیل میں پڑھ سکتے ہیں:
Is
Terrorism a Salafi Product?
کیا دہشت گردی سلفیت کی پیداوار
ہے؟
شیخ عادل الکلبانی
ہم جب بھی ہمارے نوجوانوں کو فتنہ
کے جال میں پھنستے ہوئے دیکھتے ہیں، اور انہیں ایک ایسی کھائی میں گرتے ہوئے دیکھتے
ہیں، جہاں سے وہ صرف خون میں لت پت نکلتے ہیں،
تو ہم افسوس کے ساتھ اپنی انگلیاں کاٹتے ہوئے کہتے ہیں کہ "یہ کیسے ہوا؟"
اور وہ اس کھائی میں کیسے گر گئے، کیونکہ ہم پہلے سے اس کے لیے کچھ نہیں کر سکے تھے۔
وہ بنیادی طور پر ہماری غفلت کی وجہ سے اس گمراہی کا شکار ہو گئے۔ ہماری غفلت سے میری
مراد، والدین کی غفلت، اور ساتھ ہی ساتھ معاشرے کے معزز ارکان مثلاً، علماء، اساتذہ،
مبلغین، فقہاء اور ماہرین سماجیات کی غفلت ہے، جن کا اس معاشرے پر براہ راست اثر ہے۔
وہ الفاظ، کتابیں، خطبات، ڈرامے، اور ہر قسم کی فنکارانہ تخلیقات اور [سامعین سے] ضروری
ربط، جو یہ لوگ ہر قسم کے ذرائع ابلاغ میں پیش کرتے ہیں، چاہے وہ پرنٹ میڈیا، ریڈیو،
یا ٹیلی ویژن ہو، ان سب سے نوجوانوں کے افکار وخیالات کی نگرانی کرنے اور ان میں توازن پیدا کرنے کا [موقع ملتا
ہے]۔ میں یقیناً اس چھوٹی سی اقلیت کو اس سے
خارج سمجھتا ہوں، جن کا گلا، سلفیوں کی انتہا پسندی کے بارے میں چیخ چیخ کر ، شک ہو چکا ہے۔
جی ہاں، یہ وہ پودا ہے جو
ان لوگوں کا کوڑادان بن چکا ہے، جو حد سے زیادہ دوسروں پر اپنا فیصلہ تھوپتے ہیں، اور
سلفیت کی نمائندگی کا ڈھونگ رچتے ہیں۔ انہوں نے دوسروں پر ارتداد، گمراہیت، بدعت اور
بے حیائی کے کیسے کیسے سنگین الزامات لگائے ہیں- گویا ان کے سامنے میدان کھلا ہوا ہے
اور نہ کوئی ان کی مذمت کرنے والا ہے اور نہ کوئی انہیں سزا دینے والا۔ مزید برآں،
ان کا استقبال انتہائی عزت و توقیر کے ساتھ کیا جاتا ہے، اور ان کے سامنے ہمارے نوجوانوں
کے ذہنوں میں یہ بات ڈالنے کے مواقع کھلے رہتے ہیں کہ، فلاں گمراہ ہے، فلاں کافر ہے
اور فلاں بےدین ہے۔ حتیٰ کہ ماضی اور حال کے بڑے بڑے علماء بھی اپنے ہی چلائے تیروں
سے نہیں بچ سکے۔
وہ اسلام کے اصولوں کو توڑ
مروڑ کر پھیلاتے ہیں، جس سے اسلام کا پیغام ناقابل فہم یا مسخ ہو جاتا ہے۔اور وہ ایسی
باتوں پر اصرار کرتے ہیں، جو اسلام کے خلاف ہیں۔ وہ جج، تعلیم یافتہ، طالب علموں اور
یہاں تک کہ سادہ لوح لوگوں کو بھی، اس پیمانے سے ناپتے ہیں جو ان[یعنی ان انتہا پسندوں]
کی گھٹی میں ڈال دی گئی ہے، لیکن سمجھ نہیں پاتے، اور اس گمان میں رہتے ہیں کہ، وہ یہ فیصلہ کرنے کے حقدار ہیں کہ مذکورہ بالا
مرتد ہیں، اور ان پر اللہ کے وہ عذاب نازل
کرنا ہمارا حق ہے، جو اب نافذ ہی نہیں، اور ایسا کر کے وہ اپنے گمان میں یہ سمجھتے
ہیں کہ، ہم توحید کی شان و شوکت کو بحال کر دیں گے۔
"یہ گروہ یہ سمجھتا ہے کہ ہم اور ہمارے حامیوں کے علاوہ، کوئی
بھی خیر کا سرچشمہ اور توحید کا محافظ نہیں ہے- کیونکہ [ان کےحامیوں] نے اپنی ماں کے
دودھ میں ہی [یہ خیال] بھی پی لیا ہے کہ دنیا
بھر کے تمام مسلمان [توحید] کو نہیں سمجھتے، اور وہ ایک اللہ کی عبادت نہیں کرتے، بلکہ وہ مشرک ہیں جو قبروں کو پوجتے ہیں... اور
یہ کہ ان کے اپنے مولویوں اور ان کے شاگردوں کے علاوہ دنیا میں اور کوئی سچا عالم ہی
نہیں۔
[ان کا خیال ہے کہ] صرف وہی مولوی جس سے وہ پیار کرتے ہیں، جس کی وہ
سنتے اور مانتے ہیں، اور جس کے کہنے پر وہ [دوسروں کو] رد کرتے ہیں یا مانتے ہیں-صرف
وہی حق پر ہے اور صرف وہی [اسلام کے] سلف صالحین کے طریقے پر ہے۔
وہ پھیلتے اور بڑھتے گئے،
اور انہوں نے کھلے عام کسی شیخ کے نقش قدم پر چلنے اور ان کی باتوں کو پوری طرح قبول
کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے لوگوں، مبلغین اور علماء کی درجہ بندی کرنا شروع کر دی
- مثلاً، اس شیخ کی بات نہیں سنی جانی چاہیے کیونکہ وہ یہودیوں اور عیسائیوں سے بھی
زیادہ قابل نفرت ہے، اور یہ فتویٰ [گمراہ کن] ہے، لہٰذا، جو اسے مانے اس کے پیچھے نماز پڑھنا، اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا،
اس کے ساتھ کھانا پینا، یا اس کی تعظیم کرنا حرام ہے۔ انہوں نے نوجوانوں کو ان مولویوں سے الگ کرنا شروع
کر دیا ہے، جو سمجھتے ہیں کہ [ان کی اس سرگرمی کا] نتیجہ کیا ہونے والا ہے، اور قوم ان کی وجہ سے کن کن مشکلات سے دوچار ہونے
والی ہے۔
درحقیقت ان انتہا پسندوں کے
طریقوں اور سلفیوں کے طرز عمل کے درمیان کوئی تعلق ہی نہیں ہے، کیونکہ ان کا راستہ
رواداری، ہمدردی اور نرمی کا راستہ ہے، جس میں انتہا پسندی اور [مذہبی] جنون کے لیے
کوئی جگہ نہیں۔ [سلفیت] ایک ایسا راستہ ہے جو مسلمانوں کے درمیان محبت، بھائی چارہ
اور دوسروں کو اپنا بنانے اور غیر مسلموں کے ساتھ بقائے باہمی کی تبلیغ کرتا ہے۔ لیکن
ضرورت ، ایسا کرنے کا صرف ڈھونگ رچانے کی نہیں،
بلکہ اسے سمجھنے اور اس پر اس طریقے سے عمل درآمد کرنے کی ہے، جو ماضی کی مضبوط جڑوں
اور حال کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔
تاہم، ان سب کے تدارک کے لیے،
اصلاحی افکار و نظریات تشکیل دینے کی ضرورت ہے، نہ کہ صرف نصیحت، ملامت، رد عمل اور
لفاظی سے کام لیا جائے، جو علامات کا تو علاج ہیں، مگر بیماری کا نہیں۔ نظریاتی اور
عملی طور پر [ان خیالات] کو بحال کرنے، اور معاشرے کو فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہونے
سے بچانے کے لیے اب بھی کافی وقت ہے، جو ان معزز شخصیات کے پیچھے چل پڑتے ہیں جنہیں [گناہ اور غلطی] سے استثناء حاصل ہےاور جو تقدس
کی چادر میں لپٹے ہوئے ہیں، اور ہر گروہ یہ سوچتا ہے کہ اسے قوم کی رہنمائی کرنے اور
اپنے نوجوانوں کو اپنے گروہ میں شامل کرنے کا حق حاصل ہے۔
"پودا ہمیشہ اپنی جڑوں کی طرح ہوتا ہے۔ اگر ہم ایک اچھا پھلدار
پودا چاہتے ہیں تو ہر ایک پر فرض ہے کہ وہ اس کی جڑوں، اس کے پانی کے ذرائع، اس کی
شاخوں کے پھیلاؤ اور زمین کی زرخیزی [جس سے وہ اگتا ہے] کی دیکھ بھال کرے، اور اسے
خیالات و نظریات اور وائرس سے بچائے، جو اس کے ان پھلوں اور بیجوں کو زہر آلود کر دیتے
ہیں، جسے نسلیں سیراب ہوتی ہیں اور جس پر نوجوان
پروان چڑھتے ہیں؛ اور [ان بیجوں] سے ایک ایسا پودا اگتا ہے، جس میں ہمدردی کی کوئی
جگہ نہیں ہوتی اور وہ محبت اور دوستی کے جذبے سے بالکل عاری ہوتا ہے۔"
"ہم ماضی بعیدکے کسی تہ خانے میں قید ہیں"؛ ہمیں حال اور
مستقبل کی تعمیر کے لیے " اپنے ماضی کو ایک بنیاد بنانا چاہیے " ، نہ کہ
اسے تباہ
کرنا چاہیے۔
English
Article: ISIS Is A True Product Of Salafism: Terrorism And
Salafism From Sheikh Kalbani's Perspective
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism