نیو ایج اسلام اسٹاف رائیٹر
28مارچ،2024
نوے کی دہائی سے پاکستان نے
دہشت گردی کو اپنی خارجہ پالیسی کی ایک حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا اور اس کا
سارازور ہندوزتان سے بنگلہ دیش میں۔ملنے والی شکست اور مشرقی پاکستان کے کھونے کا بدلہ۔لینے
پر تھا۔ ضیاءالحق کے دور میں طالبان کی تشکیل اور روس کے مقابلے میں اس کی کامیابی
نےدہشت گردی اور جنگجویانہ سیاست میں اس کا یقین پختہ کردیا اور اس نے ہندوستان کو
توڑنے کے لئے کشمیر اور پنجاب میں دہشت گردی کو فروغ دیا۔ پنجاب میں تو دہشت گردی کا
خاتمہ ہوگیا لیکن جموں و کشمیر میں پاکستان نے دہشت گردی کو نظریاتی بنیادوں پر استحکام
بخشا۔ ایک طرف تو اس نے جموں و کشمیر میں علیحدگی پسند سیاسی جماعتوں کی سرپرستی کی
اور دوسری طرف اس نے دہشت گرد تنظیموں کو فنڈنگ اور تربیت مہیا کی اور جموں و کشمیر
میں خون خرابہ کیا۔ ۔
گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد
پاکستان طالبان کے خلاف افغانستان میں امریکی قیادت میں ناٹو کی دہشت گردی مخالف مہم
میں شامل ہوگیا اور دہشت گردی مخالف جنگ میں تعاون دینے کے بہانے تقریباً بیس برسوں
تک امریکہ سے اربوں ملین ڈالر مالی امداد کے طور پر حاصل کئے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں
میں طالبان کے ٹھکانوں پر ڈورن حملوں کی امریکہ کو اجازت دی جس کے نتیجے میں ہزاروں
پاکستانی شہری مارے گئے۔ اس مالی امداد کا استعمال پاکستان نے کشمیر میں دہشت گردی
کو فروغ دینے میں کیا۔ اس دوران پاکستان میں ریاستی سرپرستی میں درجنوں جنگجو تنظیمیں
وجود میں آئیں اور ہزاروں جنگجو اور دہشت گرد پاکستان کی سرزمین پر تیار ہوئے۔
لیکن 15 اگست 2021ء کوطالبان
کے افغانستان۔میں اقتدار میں آتے ہی اس خطے کا سیاسی منظرنامہ ہی بدل گیا اور طالبان
نے پاکستان کو آنکھیں دکھانی شروع کردیں۔یہی نہیں طالبان نے طالبان کی پاکستانی شاخ
تحریک طالبان پاکستان کو تربیت دیکرپاکستان کے خلاف ہی استعمل کرنا شروع کردا۔ تحریک
طالبان پاکستان القاعدہ ، داعش اور طالبان کے جنگجوؤں کی تنظیم ہےجو پاکستان میں افغانستان
ہی کی طرح شرعی حکومت یا خلافت قائم کرنا چاہتی ہے۔یہ پاکستان کی جمہوری حکومت کو امریکہ
کی کٹھ پتلی اور کافروں کی حکومت سمجھتی ہے۔ لہذا، طالبان کے برسراقتدار آتے ہی تحریک
طالبان پاکستان اور دوسری دہشت گرد تنظیموں نے پاکستان میں اپنی مہم تیز کردی ۔ ان
کے ذریعہ پاکستان کی پولیس اور افواج پر حملے تیز کردئیے گئے ہیں۔ گزشتہ سال پاکستان۔میں
300 سے زیادہ دہشت گرانہ حملے ہوئے جن میں 700 افراد مارے گئے۔ یہ اعدادوشمار گزشتہ
برسوں کےمقابلے زیادہ ییں۔امسال فروری میں 90 سے زیادہ دہشت گردانہ حملے ہوئے۔ ان میں
سے زیادہ تر حملے قبائلی صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہوئے ہیں۔ دو دنوں قبل
خیبر پختونخوا میں ایک خود کش حملے میں پانچ چینی اہلکار مارے گئے۔ بلوچستان میں بھی
گزشتہ دنوں فوج پر کئی دہشت گردانہ حملے ہوئے ہیں۔
عمران خان کی حکومت نے پاکستانی
طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کئے تھے اور ان کے لڑاکوں کی بازآبادکاری کا منصوبہ بنایا
تھا اگرچہ جنگجوؤں کا ایک طبقہ دہشت گردی۔کی راہ چھوڑنے کو تیار نہیں تھا کیونکہ ان
کا نصب العین پاکستان۔میں ایک اسلامی خلافت قائم کرنا تھا۔ پھر بھی عمران خان پاکستانی
طالبان کے ایک بڑے طبقے کو اس پر آمادہ کرچکے تھے لیکن ان کی بازآبادکاری میں جو فنڈ
درکار تھے اس میں سندھ اوربلوچستان نے اپنا 3 فی صد کا حصہ دینے سے انکار کردیا۔ عمران
خان کی حکومت جانے کے بعد ن لیگ حکومت نے اس منصوبے کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا کیونکہ
دہشت گرد تنظیمیں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک حصہ ہیں اور ان کے ذریعہ وہ ہندوستان
میں لیحدگی پسندی اور دہشت گردی کو بڑھاوا دے سکتے تھے۔
اب جبکہ عمران خان کو اقتدار
میں آنے سے فوج اور ن لیگ نے روک دیا ہے عمران خان کے لئے نرم گوشہ رکھنے والی پاکستانی
طالبان نے پاکستانی فوج پولیس اور سرکاری تنصیبات پر حملے تیز کردئیے ہیں ۔اس وقت پاکستانی
حکومت کو دو طرف سے حملوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ایک تو شرعی حکومت کے قیام کا دعوی
کرنے والی۔پاکستانی طالبان اور دوسری طرف بلوچ قوم پرست تنظیم بلوچ لبریشن آرمی جو
پاکستان سے آزادی چاہتی ہے۔آئے دن دونوں طرف سے ہونے والے حملوں سے پاکستانی فوج اور
حکومت کی حالت پتلی ہے۔ جن دہشت گرد تنظیموں کو پاکستان نے ہندوستان کے خلاف تیار کیا
تھا اب وہی تنظیمیں پاکستان کے خلاف نبردآزما ہیں۔ اور پاکستان کو اپنے ہی بچھائے ہوئے
جال سے نکلنا مشکل معلوم ہورہا ہے۔
سابق وزیر اعظم پاکستان عمران
خان نے 2019ء میں امریکہ کے یونیائیٹیڈ اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں تقریر کرتے ہوئے
کہا تھا کہ پاکستان۔میں اس وقت 30 سے 40 ہزار جنگجو اور دہشت گرد اور 40 دہشت گرد تنظیمیں
ہیں جنہیں افغانستان اور کشمیر میں لڑنے کے لئے تربیت دی گئی ہے۔ 2023ء میں بھی انہوں
نے خیبر پختونخوا میں ایک سیمینار میں بھی یہی باتیں دہرائی تھیں۔ اور اس خدشے کا اظہار
کیا تھا کہ اگر ان دہشت گرد تنظیموں کو ختم نہیں کیا گیا تو آنے والے وقت میں پاکستان
کو اس کی بھاری قیمت چکانی ہڑے گی۔ آج جبکہ پاکستان میں دیشت گردی بہت زیادہ بڑھ چکی
ہے ایسا لگتا ہے کہ اب دہشت گردی کا جن پاکستانی حکومت کے قابو سے باہر ہو چکا ہے اور
اپنے آقا کو ہی نقصان پینچانے کے درپے ہے جبکہ ہندوستان کا وہ کچھ نہیں بگاڑ سکا ہے۔
کشمیر میں اب دہشت گردی تقریباً ختم ہوچکی ہے۔علیحدگی پسند لیڈران اپنے خوابوں کو اپنے
ساتھ لئے رخصت ہوگئے۔ یہ لیڈران کشمیری بچوں کو سنگبازی سکھاتے تھے اور اپنے بچوں کو
پاکستان میں تعلیم دلواتے تھے اور پاکستانی سرٹیفیکیٹ پر کشمیر میں سرکاری نوکریاں
دلواتے تھے۔ آج پاکستانی عوام مقبوضہ کشمیر کا ہندوستان سے الحاق چاہتے ہیں ۔ اور ہندوستان
کے شہری بننا چاہتے ہیں کیونکہ وہ پاکستانی لیڈران اور پاکستانی فوج کے ظلم وستم سے
تنگ آچکے ہیں ۔ان کے کرپشن اور لوٹ مار کی وجہ سے آج پاکستانی عوام بے روزگاری اور
مہنگائی سے ٹوٹ گئے ہیں۔لاکھوں روپئے کے بجلی کے بلوں کی وجہ سے وہ خود کشی کررہے ہیں۔
پاکستان کو ہندوستان کی طرف
سے ایک اور جھٹکا ہندوستانی حکومت کی طرف سے کشمیر سے افسپا ہٹانے اور کشمیر کے لا
اینڈ آرڈر کو کشمیر پولیس کے سپرد کردینے کے ارادے کا اظہار ہے۔ یہ ہندوستان کی حکومت
کا ایک دانشمندانہ اقدام ہے جو قابل ستائش ہے۔ اگر ایسا ہوگیا تو پاکستان کا کشمیر
بیانیہ اپنی موت مر جائے گا ۔
-----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism