اسد مفتی
15 نومبر، 2012
برطانیہ کے سابق وزیراعظم
ٹونی بلئیر کاکہنا ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا خطرہ ریڈیکل (انتہا پسند) اسلام ہے ۔ دوبرس
قبل ٹونی بلئیر کی خود نوشت شائع ہوئی ہے ۔ جس میں انہوں نے اس تاثر کو مسترد کردیا
ہے کہ مغربی ملک کی غیر متوازن پالیسیاں انتہا پسندی کو فروغ دے رہی ہیں ۔ اپنی خود
نوشت کی اشاعت کے موقع پر بی بی سی کو انٹر ویو دیتے ہوئے سابق برطانوی وزیراعظم جنہوں
نے صدام حسین کے پاس نیو کلیئر ہتھیاروں کی بھاری کھیپ ہے کہہ کر عراق پر چڑھائی کی
تھی۔بی بی سی کو بتایا ہے کہ انتہا پسند اپنے اسلام کو کمیونزم سے جوڑتے ہیں وہ اپنے نظریات کو بنیاد بنا کر اپنا ہر فعل درست
سمجھتے ہیں ۔ ان کے بقول ان کیلئے تبدیلی کا لمحہ امریکہ میں 11 ستمبر 2001 کا حملہ
تھا ۔ ٹونی بلئیر نے لکھا ہے کہ ‘‘ میرے لئے اس کا جواب بہت سادہ تھا ، مذہبی نظریہ
کی بنیاد پر نیو یارک کی گلیوں میں ایک دن میں تین ہزار لوگ مار دیئے گئے میرے لئے
اہم بات یہ تھی کہ اگر انہیں تیس ہزار یا تین لاکھ لوگ بھی مارنے پڑتے تو وہ مار دیتے
اسی لئے مجھے محسوس ہوا کہ خارجہ پالیسی میں مکمل طو رپر نظر ثانی کا وقت آگیا ہے
کہ ہمیں ایک نئے اورمختلف قسم کے خطرے کا سامنا تھا۔ اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش
نہیں کہ برطانیہ کا اندرون ملک انتہائی پر جوش انتہا پسندوں یا شدت پسند وں کی طرف
سے حملوں کا خطرہ ہے جو نہ صرف القاعدہ کے طریق کا رمیں تبدیلی اور جیلوں میں قید مسلمانوں
میں بڑھتے ہوئے انتہا پسند انہ نظریات کا نتیجہ ہے بلکہ بے گانگی اور برشتگی پر توجہ
مرکوز کرنے والی خارجہ پالیسی کا شاخسانہ ہے ۔
ٹونی بلئیر اس کے بارے میں کہتے
ہیں کہ ‘‘ مجھے غلط کہیں یا صحیح لیکن مجھے یہی لگا کہ 11 ستمبر کے بعد ‘‘خطرے کے پیمانے
’’ میں تبدیلی آگئی ہے اور آج بھی یہی صورت حال ہے میرا اب بھی یہی خیال ہے کہ انتہا
پسند اور ان کی شدت پسند تحریکیں اور ان کی طرف سے جوہری ، کیمیائی اور حیاتیائی ہتھیار
وں سے حملوں کا عزم، ہمارے لئے سب سے بڑے خطرات ہیں ۔ ٹونی نے لکھا ہے کہ انتہا پسند
اپنے عزائم کو پورا کرنے کےلئے کوئی بھی قدم اٹھانے سے گریز نہیں کریں گے۔ انہوں نے
عراق اور افغانستان میں برطانوی افواج کی موجودگی
کا جواز اور اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ فلسطین ، چیچنیا
، کشمیر ، عراق اور افغانستان میں انتہا پسند ی ناقابل برداشت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر
یہ لوگ دہشت گرد ی کی مہم نہ چلاتے تو غیر ملکی افواج کب کی عراق اور افغانستان چھوڑ
چکی ہوتیں۔ اس لئے دہشت گرد وں کا یہ جواز کہ وہ غیر ملکی قبضے کے خلاف نبرد آزما
ہیں بالکل فضول اور کچرہ ہے ۔ انہوں نے مزید کہاکہ ‘‘امریکی فوجی عراق چھوڑ چکے ہیں
لیکن انتہا پسند ابھی تک بغداد میں کار دھماکے کررہے ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کا
مقصد عراق سے امریکی فوجیوں کو نکالنا نہیں بلکہ وہاں کی حکومت کو گرانا ہے جسے عوام نے منتخب کیا ہے۔
سابق وزیر اعظم ٹونی بلئیر نے اعتراف کیا ہے کہ وہ تا حال یہ نہیں سمجھ سکے کہ انتہا
پسند انہ اسلامی نظریات سے مکمل طور پر چھٹکارا کیسے پایا جائے لیکن انہوں نے اس سلسلے
میں ایک بات واضح طور پر کہی ہے کہ ایران انتہا پسند اسلام کی سرپرستی کرنے والا سب
سے بڑا ملک ہے اور اس لئے ضروری ہے کہ کسی بھی طریقے سے اسے جوہری ہتھیار بنانے سے
روکا جائے ۔
ٹونی بلئیر کے خیالات کی تائید
میں رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ نےاپنی ایک رپورٹ میں بھی یہی کہا ہے کہ حالات
بتاتے ہیں کہ حملوں کا ایک سلسلہ کسی وقت بھی شروع ہوسکتا ہے ۔ جس میں القاعدہ کے کئی
حملوں میں انفرادی کردار سامنے آئیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ برطانوی تجزیہ نگار برطانیہ
پر حملوں سے متفکر ہیں ان کے تجزیہ کے مطابق جہاں تک اندرون ملک پھیلتی ہوئی دہشت گردی
کا تعلق ہے برطانیہ کو کسی بھی دوسرے مغربی ملک سے زیادہ خطرہ لاحق ہے۔ اب نہ صرف خطرات
کی نوعیت بدلی ہوئی ہے بلکہ اس کا اصل بھی تبدیل ہوگیا ہے۔ پہلے جہاں پاک افغان سرحد
سے برطانیہ میں لگ بھگ سبھی حملوں کی پلاننگ ہوتی تھی اور تحریک ملتی تھی وہیں اب عرب
جزیرہ نما میں القاعدہ انتہا ئی سرگرم ہوچکا ہے ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ہالینڈ میں کرسمس
کے موقع پر ایک امریکی طیارہ کو دھماکے سے اڑانے کی ناکام سازش میں اس بدلے ہوئے منظر
نامے کا دخل تھا ۔
2009 سے اب تک برطانیہ کے خلاف دہشت گردی کی 20 سازشیں کی گئیں جن میں
سے صرف ایک کامیاب رہی اور وہ تھی جولائی کے
مہینے میں لندن میں چار پاکستانی نژاد برطانویوں نے دھماکے کر کے 52 افراد کو ہلاک
کردیا تھا ۔ان حملوں کے سازش کے الزام میں
230 سے زیادہ افراد کو جیلوں میں ڈالا گیا لیکن جیل میں قید مسلمانوں میں انتہا پسندی
اور کٹر پن کے نظریات پھیلنے سے حکومت کی تشویش میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ کہا جاتا
ہے کہ آئندہ پانچ سال میں لگ بھگ 800 امکانی انتہا پسند عناصر جیل سے رہائی کے بعد
سامنے آسکتے ہیں ان میں ایک بڑا نام عالم
انور اولا کے ‘‘شاگردوں ’’ کا ہے یہ ایک نمایاں متحرک امریکی ہے جس کا تعلق امریکہ
کی سائیکیٹرٹ برادری سے ہے اس نے 2003 میں 13 فوجیوں کو گولی مار کر ہلاک کردیا تھا
۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اولا کے شاگرد دوسرے نئے انتہا پسند لیڈر اب انفرادی طور پر
لوگوں کو دہشت گردی کے لئے تیار کررہے ہیں تاکہ وہ کھیلوں کے بڑے بڑے ٹورنا منٹس ،
ہوٹلوں او ر عوامی اجتماعوں کو نشانہ بنا سکیں ۔ علاوہ ازیں دہشت گرد انفرادی طور پر
اہم ، مقبول ، مشہور اور معروف شخصیات کو بھی
نشانے پر رکھ سکتے ہیں اور یہ کہنے میں کوئی شے مانع نہیں کہ ایسی کوششوں میں کوئی
ایک کوشش بڑے پیمانے پر کامیاب ہوسکتی ہے۔ وہ چاہے مسلمان انتہا پسندوں کے ہاتھوں ہو
یا کسی اور کے ہمیں محتاط اور چوکنا رہنا ہوگا کہ مسلمانوں کی کمزوریاں غلطیاں اور
بد نصیبیاں امریکہ ایجاد کردہ نہیں وہ صرف اسے استعمال کرنے اور فائدہ اٹھانے کا قصوروار
ہے۔ ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ ہمارا دشمن کون ہے اور یہ جاننا بھی اتنا ہی ضروری ہے
کہ کون دشمن نہیں ہے ۔ امریکہ کو بھی یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ جب تک پاکستان
میں جاگیر داری ختم نہیں ہوتی وہ پاکستان میں بھی جاپان یا کوریا جیسا معاشرہ نہیں دیکھ سکتا ۔
دوسری طرف امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ
نے اپنے شہریوں کو ایک بار پھر خبر دار کیا ہے کہ وہ یورپ کے دورہ سے گریز کریں کہ
یورپی ممالک میں دہشت گردوں کے حملوں کا خطرہ ہے ۔ انہی خطرات کو برطانوی حکومت نے
ملک میں القاعدہ سےلاحق خطرہ کی شدت کو جو عمومی نوعیت کی تھی بڑھا کر سنگین قرار دے
ڈالا ہے۔ امریکہ کی انٹلی جنس نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان اور شمالی افریقہ کے
بعض دہشت گردوں کی جانب سے یورپ پر حملہ کیا جاسکتا ہے ۔ برطانیہ ، فرانس ، جرمنی اور
اٹلی ان کے خاص نشانوں پرہوں گے۔ یورپ کے اخبارات کی رپورٹوں میں تجزیہ نگاروں نے لکھا
ہے کہ یورپی شہروں میں ممبئی طرز کے حملوں کی سازش تیار کرنے والےپاکستانی و عرب دہشت
گردوں کی نظر میں ایفل ٹاور ، نوٹرڈیم کا کیتھر لیل ، برلن کا سینٹرل اسٹیشن نمایاں
مقامات رکھتے ہیں۔ یہ وہ مقامات ہیں جہاں ہر سال لاکھوں افراد ان کی سیاحت اور مشاہد
ے کیلئے آتے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دہشت گرد وں کو پاکستان کے قبائلی علاقوں
میں القاعدہ کے کیمپوں میں تربیت دی جارہی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا ایک پاکستانی نژاد جرمن
شہری کو حراست میں لیا گیا تھا جس نے نشانوں کی فہرست فراہم کی اس سے افغانستان کے
بگرام ہوائی اڈے پر گرفتاری کے بعد مزید پوچھ گوچھ کی گئی تھی۔ ادھر جاپان کی وزارت
خارجہ نے بھی یورپ کا سفر کرنے والے یا وہاں مقیم جاپانی شہریوں کو چوکس رہنے کی ہدایت
کی ہے اور انہیں متنبہ کیا ہے کہ القاعدہ اور اس سے منسلک تنظیموں کی جاب سے یورپ میں
انتہائی شدید حملوں کا امکان موجود ہے۔ میرے حساب سے دہشت گردی کی کالی بلی کی تاریک
کمرے میں تلاش ہورہی ہے جو وہاں نہیں ہے۔
15 نومبر، 2012 بشکریہ : روز
نامہ جدید میل ، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/terrorism,-abuse-any-religion-/d/9337