شکیل شمسی
5 جولائی، 2016
کراچی کی ایک ویب سائٹ ‘تیسرا پہلو’ کی جانب سے ہم کو روزانہ چار چھ خبریں ہمارے پرسنل ای میل پر بھیجی جاتی ہیں، ویسے ان میں خبر ی عنصر کم اور ہندوستان کے خلاف پروپیگنڈہ زیادہ ہوتاہے اس لئے اس ویب سائٹ کی خبر کو اخبار میں جگہ دینا ممکن نہیں ہوتا، ہم کو لگتا ہے کہ یہ ویب سائٹ پاکستان کی کوئی خفیہ ایجنسی فیک نام سے چلا رہی ہے ۔ بہر کیف ، کل اس ویب سائٹ سےجومیل ہم کو موصول ہوا اس کو پڑھ کر بنگلہ دیش میں ہورہے دہشت گردانہ حملوں کے بارے میں ہمار ا نظریہ تھوڑا تبدیل ہوگیاہے۔ پہلے ہم لگ رہا تھا کہ یہ کام داعش یا اس کی ہی جیسی کسی دہشت گرد جماعت نے کیا ہے، پھر محسوس ہوا کہ بنگلہ دیش کے مقامی دہشت گردوں کا کام ہے لیکن اچانک معاملے کا تیسرا پہلو سامنے آگیا ۔ پاکستانی ویب سائٹ کی خبر پڑھنے کے بعد ہم یہ سوچنے لگےکہ اس کے پیچھے پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ ضرور ہے۔ ہم کو جو خبر موصول ہوئی پہلے آپ اس کی سرخیوں کو پڑھ لیجئے ‘‘بنگلہ دیش کو دنیا میں تنہا کررہی ہے جب کہ بھارت کبھی کسی کاسچا رفیق ثابت نہیں ہوا۔ حسینہ واجد کی بھارت نوازی بنگلہ دیش کے لئے شدید مشکلات اور خطرات پیدا کررہی ہے ’ امیر پٹی’’۔اور اب خبر ملا حظہ ہو ‘‘کراچی (اسٹاف رپورٹر) ڈھاکہ کے ڈپلومیٹک زون میں داعش کے دہشت گردانہ حملہ پر اظہار تاسف و مذمت کرتے ہوئے محب وطن روشن پاکستانی پارٹی کے قائد و چیئر مین امیر پٹی، مرکزی صدر سلیمان راجپوت اور انفارمیشن سیکریٹری عمران چنگیزی نےکہا ہے کہ بنگلہ دیش میں مبینہ طور پر یہ داعش دہشت گردی کی پہلی واردات نہیں بلکہ رواں سال میں متعدد آزاد خیال بلاگرز ایک ناشر اور دو غیر ملکی شہریوں کے قتل کے علاوہ دہشت گردی اور قتل و غارت کی متعدد وارداتوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے جب کہ گزشتہ سال اکتوبر میں شیعہ برادری کے اجتماعی پر بم حملہ اور گزشتہ ماہ ایک مسجد کےمولوی کو گولیاں مار کر ہلاک کرنے کے علاوہ حالیہ ہفتوں میں 30کے لگ بھگ مسیحی مبلغوں اور ان کے کارکنوں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی موصول ہوچکی ہیں اور ان واقعات کی ذمہ داری داعش، مقامی انتہا پسند گروپ انصار الا سلام اور جماعت المجاہدین بنگلہ دیش نے قبول کی ہے جو اس بات کا مظہر ہے کہ حسینہ واجد کی بھارت نوازی بنگلہ دیش کے لئے شدید مشکلات اور خطرات پیداکررہی ہے۔ اس لئے حسینہ واجد کو داعش اور دوسرے انتہا ء پسند گروپوں کے قلع قمع کیلئے بھارت پر تکیہ کرنے کے بجاے پاکستان اور دوسرے مسلم ممالک کےساتھ مل کر دہشت گردی کے ناسور سے اس خطہ کونجات دلانے کا سوچنا چاہئے ۔’’
اس خبرسے یہ پہلو سامنے آیا ہے کہ بنگلہ دیش کو ہندوستان کے ساتھ دوستی کرنے کی سزا دینے کے لئے دہشت گرد گرہوں کا استعمال کیا جارہا ہے ۔ بنگلہ دیش جس کو 1971 تک مشرقی پاکستان کے نام سے جانا اور پہچانا جاتاہے۔ 1947 میں اس کو اسلام کے نام پر ہندوستان سے الگ کیا گیا تھا، مگر پاکستانیوں نے 24 سال تک بنگالی مسلمانوں کے ساتھ نسلی تعصب ، لسانی تفریق اور سیاسی منافرت کامظاہرہ کیا اس سے پریشان ہوکر بنگالی پاکستان سے الگ ہوگئے ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہندوستانی افواج نے بنگلہ دیش کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کرکے ان کو ایک با عزت زندگی سے ہمکنار کیا ۔ جب پاکستانی سیاستداں ، وہاں کے مذہبی رہنما اورملی تنظیمیں بنگالی مسلمانوں کے ساتھ تفریق کررہی تھیں تو اس وقت کسی پاکستانی کو نہ تو اسلام یاد آیا او رنہ بنگالیوں کے مسلمان ہونے کاکوئی خیال انہوں نے کیا، مگر اب پاکستانیو ں کو اسلام یاد آرہاہے اور بنگلہ دیش کو قریب لانے کےلئے وہ دہشت گرد گروہوں سے دباؤ ڈلوا رہے ہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے دہشت گرد گروہوں سے بہت گہرے مراسم ہیں اور وہ بنگلہ دیش کو دہشت گردی میں الجھا کر پاکستان نواز گروپ میں شامل کروانے کی کوشش کرسکتی ہے، مگر ہمارے خیال میں آئی ایس آئی کا یہ پانسہ بھی الٹا پڑنے والا ہے اور اس طرح کے حملے بنگلہ دیش کو ہندوستان کے مزید قریب لائیں گے۔ میری بات کا ثبوت یہ ہے کہ ڈھاکہ پر دہشت گردانہ حملہ ہوا تو دونوں کے درمیان اتنی قربت بڑھی کہ ایک ہندوستانی لڑکی تاروشی کو بچانے کے لئے دو بنگالی مسلمانوں (فراز اور ابنتا کبیر) نے اپنی جان قربان کردی۔
5 جولائی ، 2016 ابشکریہ : انقلاب، نئی دہلی
URL: