New Age Islam
Thu Jun 19 2025, 06:28 PM

Urdu Section ( 3 Jun 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Tensions Rise in the Middle East: Is the Final Chapter Unfolding? شاید انجام قریب ہے

ودود ساجد

1 جون،2025

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان جس ’سفارتی چشمک‘ کی خبر آئی ہے اسے اس کے سوا کوئی اور تعبیر دینے کو جی نہیں چاہتا کہ مجنوں اور لیلیٰ کے درمیان سخت ناچاقی ہوگئی ہے۔ ان دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی استواری اور رشتوں کی مضبوطی کی شدت بیان کرنے کیلئے اس سے اچھی کوئی اصطلاح مجھے نہیں ملی۔خود اسرائیل کے تجزیہ نگاروں کوبھی سخت حیرت ہورہی ہے کہ ابوظہبی میں متحدہ عرب امارات کی وزرارت خارجہ نے اسرائیل کے سفیر کو بلاکر یروشلم میں شرپسند یہودیوں کے ’فلیگ مارچ‘ کے خلاف اتنا سخت انتباہ کیوں جاری کیاہے۔ صحافی جیکب مجید نے اسرائیل کے روزنامہ’ٹائمزآف اسرائیل‘ میں لکھا ہے کہ متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ کے ایک افسر نے ٹائمز آف اسرائیل سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ’یہ بالکل ناقابل فہم ہے کہ اسرائیل نے غزہ کے قتل عام کے دوران غیر منظم تشدد کے اس سالار تماشے کو اپنے ایک وزیر کی موجودگی اور نگرانی میں بلا روک ٹوک آگے بڑھنے دیا‘ ابوظہبی کو توقع ہے کہ اسے ختم کرنے کے لیے اسرائیل فیصلہ کن اقدامات کرے گا‘۔

غزہ میں ناقابل بیان قتل عام کے درمیان ہمیں اورآپ کو ان دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والی یہ پیش رفت بظاہر کوئی ’خاص‘ نہ لگ رہی ہو لیکن ’سفارتی لغت‘ میں دو رفیق ملکوں کے د رمیان اس قسم کی پیش رفت کو بہت سخت سمجھا جاتاہے۔ جیکب مجید نے بتایا ہے کہ غزہ کے خلاف اسرائیل کی جنگ شروع ہونے کے بعد یہ پہلی بار ہے جب یو اے ای نے اسرائیل کے سفیر کو انتباہ دینے کی غر ض سے وزارت خارجہ کے دفتر میں طلب کیا۔ اس پیش رفت سے واقف ایک دوسرے ذریعہ نے ٹائمز آف اسرائیل کو بتایا کہ اماراتی وزارت خارجہ میں متحدہ عرب امارات کے افسروں اور اسرائیلی سفیر کے درمیان ہونے والی میٹنگ میں ابوظہبی کی جانب سے کسی اسرائیلی اہلکار کی یہ اب تک کی سب سے سخت سرزنش تھی۔وزارت خارجہ نے اس ضمن میں باقاعدہ ایک بیان بھی جاری کیا ہے۔ یہ واقعہ اس لئے عجیب وغریب ہے کہ متحدہ عرب امارات مدت سے اسرائیل کے عشق میں گرفتار ہے۔ یو اے ای کے حکمرانوں نے پچھلے دوبرس میں ’جھوٹ‘ کو بھی غزہ پراسرائیل کی درندگی کے خلاف ایک لفظ تک نہیں کہا۔یہی نہیں ایک طرف جہاں بعض عرب ملکوں نے غزہ قتل عام کے تناظر میں اسرائیل سے اپنے تجارتی مراسم میں کمی کرلی وہیں متحدہ عرب امارات نے تجارتی اور سفارتی رشتوں میں مزید اضافہ کردیا۔ ایسے میں جب کئی ملکوں نے اپنے سفیر وں کو واپس بلا لیا اور اسرائیل کو جانے والی اپنی پروازیں معطل کردیں تل ابیب میں ابوظہبی کا سفیر بدستور موجود رہا اوراسرائیل کو جانے والی پروازیں مسلسل جاری ہیں۔ یہاں تک کہ اقتصادی تعاون میں اور زیادہ اضافہ کردیا گیا۔ دونوں ملکوں میں باقاعدہ سفارتی رشتے 2020 میں قائم ہوئے تھے جب دونوں ملکوں نے ’معاہدہ ابراہمی‘ پردستخط کئے تھے۔

گزشتہ 26مئی کو اسرائیل کے انتہائی شرپسند قسم کے یہودی طبقات نے بڑ ے بڑے بینر کے ساتھ یروشلم میں پرانے فصیل بند شہر کو ’باب دمشق‘ پر دھاوابولا او رانتہائی اشتعال انگیز نعرے لگائے۔ یہ طبقات ہر سال ایسا ہی کرتے ہیں۔ایک بینر پر لکھا تھا: 1967 یروشلم ہمارے ہاتھوں میں۔ 2025‘ غزہ ہمارے ہاتھوں میں۔ایک بینر پرلکھا تھا: نکبہ کے بغیر فتح نہیں۔ واضح رہے کہ یہودی اس موقع کو ’یوم یروشلم کے فلیگ مارچ‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ نکبہ کے معنی تباہی کے ہیں۔ یہاں اس سے مراد وہ موقع ہے جب 15 مئی 1948 کو اسرائیل کے ساتھ جنگ میں عربوں کو شکست ہوگئی تھی اور اس کے نتیجہ میں لاکھوں فلسطینیوں کو دربدر کرنے کے بعد اسرائیل نے فلسطین کو زیرنگیں کرلیا تھا۔ لہٰذا ہرسال 15مئی کو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے سوا کروڑ فلسطینی 1948 کی اس تباہی وبربادی اور نسلی تطہیر کو دیا کرتے ہیں۔ اس تباہی کو اب 77 سال ہوگئے ہیں۔ یہ کہا جاسکتاہے کہ پچھلے دوسال سے جاری بھیانک قتل عام اور اجتماعی بربادی کااصل سبب حماس کا سات اکتوبر 2023 کاحملہ ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھناضروری ہے کہ 1947 سے 1949 کے درمیان 19لاکھ فلسطینیوں میں سے ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو دوسرے ملکوں کو جبری نقل مکانی پر مجبور کیا گیا صہیونی فوسرز نے فلسطین کے 530 دیہات کو برباد کرکے 78 فیصد سے زیادہ علاقہ پر قبضہ کرلیا اور قتل عام کے 70 سے زیادہ واقعات میں 15ہزار فلسطینیوں کو قتل کردیا ۔الجزیرہ کے تجزیہ نگاروں کا کہناہے کہ صہیونی تحریک نے اس سے بھی بہت پہلے فلسطینیوں کا قتل عام شروع کردیا تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مشرقی یوروپ اور روس کے ہزاروں یہودی 1882 سے ہی فلسطین میں آکر بسنا شروع ہوگئے تھے۔

زیر نظر سطور میں مظلوم فلسطین او رظالم اسرائیل کی تاریخ بیان کرنے کا موقع نہیں ہے۔لہٰذا واپس اصل موضوع پر آتے ہیں۔ٹائمز آف اسرائیل نے لکھا ہے کہ 26مئی 2025 کو یروشلم کے مسلم غلبہ والے قدیم شہر کو گزرتے ہوئے سینکڑوں قوم پرست مذہبی یہودیوں نے ’عرب مردہ باد‘ عربوں پر خدا کی لعنت اور خدا کرے تمہارے شہر اور گاؤں بھی آگ میں بھسم ہوجائیں‘ جیسے نعرے لگائے۔انہوں نے سامنے پڑنے والے فلسطینیوں کو گالیاں بھی دیں اور ان پرحملے بھی کئے۔مگر اس علاقہ میں نصب اے ٹی ایم کی مشینوں کو یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ یہ یہودیوں کی ملکیت ہیں۔ ان مشینوں پر نشانات بھی لگادئے گئے تاکہ انہیں حملوں سے محفوظ رکھا جاسکے۔ یہی نہیں کئی انتہاپسند وزیروں اور خود نتن یاہو نے بھی اس طرح کے مظاہروں میں شرکت کی اور 1967 کی چھ روزہ جنگ میں عربوں کی شکست کو یاد کرکے اظہار مسرت کیا۔ ان شرپسندوں اور کچھ وزیروں نے مسجد اقصیٰ کے احاطہ میں بھی دھاوا بولا اور وہاں اشتعال انگیز نعرے لگائے۔ اس پر امارات کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہاہے کہ ”یہ مسلمانوں کے خلاف خطرناک اشتعال انگیزی کے نمائندہ واقعات ہیں اور مقدس شہر کے تقدس کی کھلی خلاف ورزی کے مترادف ہیں۔ یہ واقعات نہ صرف فلسطینیوں کو بلکہ عالمی برادری کو بھی نشانہ بناتے ہیں، ایسے وقت میں جب غزہ میں جاری سانحہ کو جلد ختم کرنے پرتوجہ مرکوز ہونی چاہئے اس طرح کے واقعات سے کشیدگی اوربڑھتی ہے“۔ابوظہبی نے حکومت اسرائیل سے مطالبہ کیاہے کہ وہ اشتعال انگیز ی کرنے والے وزیروں سمیت دوسرے سخت گیر عناصر کے خلاف بھی کارروائی کرے۔

ہمارے نزدیک کوئی بھی واقعہ اس وقت تک غیر اہم ہے جب تک غزہ کے پیاسے بے قصوروں، نہتوں او ر بھوکے پیاسے فلسطینیوں کا قتل عام نہیں تھم جاتا۔لیکن اگر اسرائیل او راس کا جابر وزیراعظم دنیا جہان کی چیخ وپکار کے باوجود ابھی تک غزہ میں قتل عام مچارہاہے تو وہ انہی ملکوں کی بدولت مچارہا ہے جو آج اس سے نالاں او رکشاں کشاں ہیں۔ اسے ہلاکت خیز ہتھیار یوروپ، مغرب اور خاص طور پر امریکہ‘ اٹلی‘ برطانیہ او رفرانس نے ہی دیئے ہیں۔ آج ان ملکوں اور اسرائیل کے درمیان اختلاف رونما ہوجانے کاترجمہ یہی ہے کہ غزہ میں بھیانک قتل عام نے دنیا بھر کی معلوم تاریخ کے تمام تر قتل عام او رتباہی وبربادی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔لہٰذا اسرائیل اور فرانس کے درمیان بھی اب اختلافات رونما ہوگئے ہیں۔ نتن یاہو او رمیکرون کے درمیان لفظی جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ فرانس کے صدر نے گزشتہ 30 مئی کو سنگا پور میں ڈیفنس فورم میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”دہشت گردی کی مذمت کرنے کے ساتھ اگر ہم غزہ کوتنہا چھوڑ دیں اور اسرائیل کو کھلی چھوٹ دیدیں تو ہم اپنی معتبریت کھوبیٹھیں گے“۔انہوں نے یوروپی ممالک سے کہا کہ اگر اسرائیل غزہ میں انسانی امداد رسانی کے تعلق سے اپنا رویہ نہیں بدلتا تو اس کے خلاف انتہائی سخت اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس پر اسرائیل نے فرانس کے صدر پریہودیوں کی ریاست کے خلاف’کروسیڈ‘ (صلیبی جنگ) شروع کرنے کا الزام عاید کردیا۔کروسیڈ ایک خاص اصطلاح ہے اور اس کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ اس اعتبار سے میکرون پر اسرائیل کا یہ بہت سخت الزام ہے۔ اسرائیل وزارت خارجہ کے بیان میں مزید کہا گیاہے کہ ”جہادی دہشت گردوں پر دباؤ بنانے کی بجائے میکرون انہیں فلسطینی ریاست کا انعام دینا چاہتے ہیں ’ایسی ریاست جس کا قومی دن بلاشبہ سات اکتوبر ہوگا“۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے میکرون نے کہا کہ ”کچھ شرائط کے ساتھ آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا نہ صرف اخلاقی فریضہ ہے بلکہ ایک سیاسی ضرورت بھی ہے“۔

یہ بھی ایک اہم واقعہ ہے کہ آئندہ 17سے 20جون کے درمیان آزاد فلسطینی ریاست کے خدوخال طے کرنے کے لئے سعودی عرب اور فرانس کے اشتراک سے اقوام متحدہ کی کانفرنس منعقد ہورہی ہے جس میں فرانس‘آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر غور کررہاہے۔ حماس نے فرانس کے صدر کی ستائش کی ہے۔ ایک واقعہ یہ ہوا ہے کہ ترکی کے علاوہ پانچ عرب ملکوں، مصراردن‘ قطر‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خزانہ نے 31 مئی کو مغربی کنارہ (رام اللہ) کا دورہ کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن اسرائیل نے اس پر پابندی عائد کردی۔ اب ان ملکوں نے مشترکہ بیان جاری کرکے کہا ہے کہ اسرائیل کا یہ انتہائی متکبر انہ فیصلہ عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ٹرمپ اورنتن یاہو کے درمیان (نوراکشتی ہی سہی) چشمک کی خبریں مسلسل آرہی ہیں۔ 28مئی کو وہائٹ ہاؤس میں ایک صحافی کو جواب دیتے ہوئے ٹرمپ نے بتایا کہ میں نے نتن یاہو سے کہہ دیا ہے کہ ایسے وقت میں ایران پر حملہ کرنا انتہائی نامناسب ہوگا جب نیوکلیر معاہدہ ہونے کے بہت قریب ہے۔ ادھر معلوم ہوا ہے کہ سعودی عرب نے بھی ایران سے کہا ہے کہ معاہدہ نہ ہو ا تو اسرائیل کی طرف سے حملہ کا خطرہ ہے اور اس صورت میں ایران الگ تھلگ پڑجائے گا۔ 29 مئی کو اسرائیل اورامریکہ کے میڈیا نے رپورٹ دی ہے کہ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے دورہ کے دوران سعودی عرب، قطر او ر متحدہ عرب امارات کے قائدین نے ٹرمپ سے صاف کہہ دیا تھا کہ وہ ایران ہونے والے کسی بھی ممکنہ کی شدت سے مخالفت کرتے ہیں۔ ادھراسرائیل کے سابق وزیراعظم ایہودالمرٹ نے کہا ہے کہ ”اسرائیل کی تاریخ میں امریکہ کے ساتھ تعلقات اس نہج کو کبھی نہیں پہنچے تھے امریکہ نے حوثیوں کے ساتھ سمجھوتہ کرلیا اوریاہوکو پتہ تک نہیں چلا“۔

ہر چند کہ غزہ میں قتل عام جاری ہے لیکن یہ تمام پیش رفتیں بہت اہم ہیں۔ جس وقت آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے ممکن ہے کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان امریکہ کے پیش کردہ ’جنگ بندی‘ فارمولہ پر اتفاق ہونے کی خبر بھی آجائے۔ یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ امریکہ کے پیش کردہ فارمولہ کو اسرائیل کے ذریعہ قبول کئے جانے کے باوجود حماس نے کئی بار واپس کیاہے اور اس میں ترمیم وتبدیلی کے کئی دور واقع ہوئے ہیں۔ اس کا یہی مطلب ہے کہ امریکہ، اسرائیل، یوروپ اور وہ تمام ممالک جو حماس کا مکمل خاتمہ چاہتے تھے اپنے مقصد میں بری طرح ناکام ہیں۔ اس منظر نامہ کو قائم رکھنے کے لئے بلا شبہ غزہ کے ایک لاکھ شہیدوں نے اپنا خون دیا ہے او رلاکھوں دربدری اوربھکمری کی زندگی گزاررہے ہیں۔شاید حماس کو بھی او رنہتے فلسطینیوں کوبھی یہ احساس ہوگیا ہے کہ اگر آج مصائب سے گھبرا کر بھاگ کھڑے ہوئے تو پھر ارض فلسطین پر کبھی واپسی نہیں ہوسکے گی۔

-------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/tensions-rise-middle-east-chapter-unfolding/d/135762

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..