ٹیسا سیٹالویڈ
6 فروری، 2018
انکت کو مغربی دہلی کے کھیالا علاقے میں جمعرات کی شب مبینہ طور پر ایک ایسے خاتون کے خاندان افراد نے قتل کر دیا جس کے ساتھ اس کے تعلقات تھے۔
اپنی نوعیت میں یکسر مختلف ہونے کے باوجود یہ تشدد اور دہشت گردی کا ایک عمل تھا۔ جب 23 سالہ انکت سکسینا کو چند روز قبل اس کے بچپن کے عزیز کے خاندان کے ارکان کے ساتھ ایک نزاع کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد بی جے پی ، منوج تیواری اور بجرنگ دل نے معمول کے مطابق نفرت اور عداوت پر مبنی شکوک و شبہات کے تیر چلالئے لیکن ، عوامی سطح پر میں "سیکولرزم" اور "مذہبی ترقی پسندی" کے پرستاروں کی ایک پریشان کن خاموشی پھیلی رہی۔
انکت
-----
انکت کے قتل کو انفرادی ظلم و ستم اور مذہب اور ذات پات کے نام پر منظم اور منصوبہ قتل سے ممیز و ممتاز قرار دیکر اس خاموشی کی وجہ سے پیدا ہونے والے احساس جرم کو کم کر نا آسان ہو گا۔ انکت کی موت کو " سیکولریزم اور آئین خطرے میں ہے " جیسے افسانوں سے بھی الگ رکھا جا سکتا ہے۔ انتباہ کی گھنٹیاں بجانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ "لَو جہاد" افسانے کے ہلاکت انگیز حامیوں کے لئے یہ معاملہ بالکل برعکس ہے، جس میں ایک ہندو نوجوان ملوث ہے جو مظلوم ہے۔ گہری فرقہ وارانہ تقسیم کے دونوں اطراف کے لئے اس کا رد عمل مشترک ہے: فرقہ وارانہ تفریق کی گہری خلیج، نوجوان ذہنوں کی کم جمہوریت سازی اور مکمل طور پر عدم اشتراک۔ کیا انکت اور اس کے کھوئے ہوئے پیار کے لئے ایک چراغ بھی روشن کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟
یہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ 20 سالہ مسلم خاتون کو ابھی تک کوئی دوست نہیں ملا ہے، کیونکہ وہ اپنے خاندان کے تشدد اور نفرت کا ایک اور شکار بن رہی ہے۔ اس نے پوری جوانمردی کے ساتھ اس جرم میں ممکنہ طور پر شامل اپنے تمام رشتہ داروں کو نامزد کر دیا ہے اور سخت صدمے کی حالت میں ہے۔ پولیس نے کہا ہے کہ اس کی زندگی خطرے میں ہے۔ کم از کم اب تک وہ تن تنہاء ہی اس لڑائی کو لڑ رہی ہے، اور واضح ہے کہ اگر اسے اس کے خاندان اور معاشرے پر ہی چھوڑ دیا گیا تو اسے خود مختاری، آزاد فیصلے اور محبت سے محروم ایک زندگی گزارنے پر مجبور کیا جائے گا۔ المیہ یہ ہے کہ 16 سالہ اس کے چھوٹے بھائی کو اس کی جاسوس پر مقرر کر دیا گیا تھا جو اس کے فون کال اور میسیج کی نگرانی کر رہا تھا ۔
جی ہاں، وہ ایک مسلمان ہے اور ہمیں بتایا گیا ہے کہ امکانات یہ ہیں اس کے مسلمان والد اور چچا نے مل کر انکت کا یہ حشر کیا تھا۔ یقینا وہ اگر چہ دہشت گردی کا ایک انفرادی عمل تھا، لیکن اس کی انجام دہی پر تشدد، فرقہ وارانہ اور اور ناقابل مصالحت ہے – اس لئے کہ ایک خاتون کی خودمختاری کی آزادی تمام حدود سے بالا ترہے۔ جب قانون اور آئین کے سامنے زندگی اور آزادی کے تحفظ کی بات آتی ہے تو ہم "سیکولرزم" کی بات کر سکتے ہیں، (اور خدا ہی جانتا ہے کہ آج کے ہندوستان میں ان کی کیسی تشویش ناک حالت ہے)۔
انکت اور اس کے بچپن کی پیار نے ایک دوسرے کے ساتھ کھیلے اور خواب دیکھے، کیونکہ وہ مغربی دہلی کے ایک مخلوط پڑوس رگھوبیر نگر کی سڑکوں اور گلیوں پر پلے اور بڑے ہوئے تھے۔ ان کی محبت اور الفت جو کہ مہلک ثابت ہوئی –اس وقت بھی قائم رہی جب اس لڑکی کا خاندان دوسری جگہ منتقل ہو گیا، جسمانی فاصلہ اس رشتے کو ختم نہیں کر سکا جسے ایک شہری، سیکولر ماحول نے پروان چڑھایا تھا۔ اخبار کے رپورٹ ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ وہ اگلے ماہ انکت کی سالگرہ پر عدالت میں شادی کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ اب اس طرح کا ایک سانحہ پیش آ جانے کے بعد بجرنگ دل جیسی شدت پسند جماعت نے لڑکی کے خاندان کو اقتصادی طور پر اور بھی کمزور کر دیا ہے: ہندو مسلم کی مخلوط آبادی والے پڑوس کے محلے میں چلنے والی ایک بیوٹی پارلر کو مبینہ طور پر اس کے مکان مالک ونود کمار کو مغربی دہلی میں بجرنگ دل کے سربراہ جگجیت سنگھ گولڈی کی جانب سے دھمکی دئے جانے کے بعد زبردستی بند کروا دیا گیا تھا جسے اس مسلم لڑکے کی خاتون رشتہ دار چلاتی تھی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ اس کے خاندان کے دیگر افراد "میڈیا میں بدنامی" سے بچنے کے لئے اپنے آبائی وطن اتر پردیش واپس ہونے پر مجبور ہیں۔
انکت کے والد یشپال سنگھ نے سیاستدانوں اور میڈیا کو اس معاملے پر سیاست نہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ کچھ الیکٹرانک میڈیا کے کوریج پر اعتراض کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ " ہم نے اپنا بیٹا کھویا ہے۔ ہم کسی بھی برادری کے خلاف نہیں ہیں"۔
ایک نقاد سیاسی فلسفی باباصاحب امبیڈکر نے ذات پات پر مبنی علیحدگی پسندی اور امتیازی سلوک کے خاتمے کو یقینی بنانے کے لئے بین مذاہب اور بین برادری شادیوں کے بارے میں لکھا اور انہیں فروغ دینے کی بات کی۔
سماجی اور مذہبی محذرات کے خلاف منعقد ہونے والی شادیا ہمیں ان نئے راستوں سے آشنا کرتے ہیں جن کا خاکہ انہوں نے پیش کیا تھا۔ انہوں نے اس سے چند قدم اور آگے بڑھ کر یہاں تک کہا کہ مساوات اور غیر امتیازی سلوک کے اصولوں پر گامزن ریاست کو اس قسم کے اتحاد، شراکت داری کو فروغ دینا ضروری ہے۔
لہٰذا ، اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ اس وقت مہاراشٹر جیسی کچھ ریاستوں میں حکومت اس طرح کے غیر روایتی اتحاد کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔
کیا بین مذاہب شادیوں اور شراکت داریوں میں بھی اسی اصول کو نافظ کیا جا سکتا ہے یا کیا جائے گا یا کیا جانا چاہئے؟ فرقہ واریت کے عفریت کو حقیقی معنوں میں شکست دینے کے لئے مختلف برادریوں کے نوجوانوں کے درمیان شادی اور شراکت داری کو ایک سبز، سیکولر اور ترقی پسند سگنل دینا لازمی ہے۔ لیکن ہم آج نہ صرف یہ کہ اس موضوع پر بحث و مباحثے کا کوئی حوالہ نہیں پاتے بلکہ ہم انکت کے قتل پر ایک سوچی سمجھی مجرمانہ خاموشی اور بے چینی کا مشاہدہ بھی کر رہے ہیں۔
آئینی اقدار اور سیکولرزم کے لئے جد و جہد اب صرف بھیڑ، جسمانی اور حقیقی کے درمیان حقوق تک محدود کر دی گئی ہے۔ اس بھیڑکی کئی بیج کئی دہائیوں کے درمیان بوئی گئی ہے جس کی وجہ اقلیتوں کے خلاف منصوبہ بند تشدد اور ظلم ہے۔ اس بھیڑ کے اندر ہم پلہ لوگوں کے درمیان تعامل محدود ہے اور یہاں تک کہ ان کو کنٹرول بھی کیا جاتا ہے۔ ایک زندہ سیکولرازم کے لئے ہماری جد و جہد تقریبا مکمل طور پر دم توڑ چکی ہے، عوامی مقامات پر آزادی کو بحال کرنے اور اور بھیڑ کو ختم کرنے کے لئے ایک دوہری قوت کے ساتھ جد و جہد شروع کرنا ضروری ہے جو کہ اکثر پر خطر ہے۔
دہلی کی ان سڑکوں ، گلیوں اور عوامی مقامات کا اشتراک کیا جانا چاہئے جہاں انکت اور اس کی کھوئی ہوئے محبت نے اپنا لڑکپن گزارا اور جہاں ان کے رشتے مضبوط ہوئے اور جن میں ایک مضبوط اور پھلتے پھولتے سیکولرزم کا ہمارا خواب پروان چڑھا ہے۔ جیسا کہ دیگر مقامی باشندے اب بھی متنوع اور مختلف ہندوستانی معاشرتی ماحول میں زندگی گزارتے ہیں۔ حقیقی سیکولرزم کو خود اس کی چنگاریوں سے دوبارہ روشن کرنے کے لئے جدوجہد کا یہ تصوراتی اور تخلیقی منصوبہ انتہائی ضروری ہے۔
ماخذ:
indianexpress.com/article/opinion/columns/ankit-saxena-murder-west-delhi-hindu-muslim-love-secularism-5052722/
URL for English article: http://www.newageislam.com/current-affairs/teesta-setalvad/a-candle-for-ankit/d/114174
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism