طارق المعینا
23 نومبر 2013
اس مضمون کی سرخی لاس اینجلس کیلی فورنیا میں واقع دی اسلامک سینٹر آف ساؤتھرن کیلی فورنیا میں 2 نومبر کو منعقد کئے گئے ایک کانفرنس کا عنوان تھا ۔ اس سینٹر کا مقصد ‘ مسلمانوں اور غیر مسلموں کو سماجی ، تعلیمی ، اور مذہبی سرمیاں فراہم کر کے امریکہ میں اسلام کو عملی طور پر پیش کرنا اور ایک سماجی طور پر ذمہ دار امریکی مسلم کی شناخت کو فروغ دینا اور اس کی اشاعت بھی کرنا ہے ۔اور ایک تکثیریت پسند امریکی معاشرہ کی تعمیر کے لئے امریکی مسلمانوں کو متحد کرنا بھی اس کے عزائم میں سے ایک ہے ۔
11 ستمبر 2001 کے واقعہ کے بعد اسلامو فوبیا بڑی ہی تیزی کے ساتھ فروغ پا رہا ہے ۔اور پوری دنیا میں دہشت گرد جماعتوں کے بزدل کارکنوں نے اسے مزید ہوا دی ہے ، جو کہ تمام کے تمام خود کے اسلامی ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں اور مجرمانہ سرگرمیوں کے ذریعہ اپنی خواہشات کی تکمیل کر رہے ہیں ۔ شعلوں کو بھڑکانے کے لئے اسلامی مبلغین کی ایک ایسی جماعت موجود ہے جو انتہاءپسندی کی حمایت کرتی ہے اور ودسرے تمام ادیان و مذاہب کو مسترد کرتی ہے ۔ ایسے مبلغین کو اپنے انتہائی عدم روادری کے پیغام پرعمل کرتا ہوا کہیں بھی پایا جا سکتا ہے۔ انہیں ان کے عدم روادری کے پیغام کی تبلیغ کرتےہوئے سعودی عرب ، دوسرے خلیجی ممالک یا اس روئے زمین کے کسی بھی خطے میں پا یا جا سکتا ہے ۔
ان کے انتہا پسندانہ افکار و نظریات ان کی اس سخت تشریح سے ماخوذ ہیں کہ تمام چیزیں اسلامی ہیں ، اور جب وہ مسلم ملک میں اقلیت میں ہوتے ہیں تو سب سے زیادہ شور مچاتے ہیں ۔ وہ اور ان کے پیروکار اس دینا کی توجہ اپنے اقوال و کردار کی بنیاد پر حاصل کرتے ہیں ۔ جن میں سے اکثر کی وجہ سے پوری دنیا میں بے گناہ لوگوں کی جانیں گئی ہیں ۔ اس نے خطرے کی ایک ایسی علامت کو جنم دیا ہے جو مرکزی دھارے میں شامل مسلمانوں کے ذہن و دماغ میں اس وقت ایک سنگین شکل اختیار کرتا ہے جب اسلام کے نام پر دہشت گرانہ سرگرمیاں انجام دی جاتی ہیں۔ اس کی وجہ سے مسلمانوں نے اپنا نام اور وضع قطع ان لوگوں کے ذریعہ انتقام کے خوف سے تبدیل کر لیا ہے جنہوں نے اسلام کو ایک ایسی طاقت سمجھا ہے جودہشت کی بیج بوتا ہے، ان افراد کا شکریہ ۔
انصاف مقدس و معظم ہے
جبکہ بین المذاہب مکالمہ کا انعقاد کر کے اسلامو فوبیا کے عروج سے مقابلہ کرنے کے لئے چند تنظیمیں اور حکومتیں انفرادی طور پرکوششیں کر رہی ہیں ، لیکن ان رائے عامہ پر انحصار کرتے ہوئے اس قسم کے اقدامات کافی نہیں ہیں جو اسلامی نظریات کو مسلسل مشکوک کو مشتبہ نگاہوں سے دیکھتی ہیں ۔ امریکہ میں دی مسلم پبلک افیئرس کونسل حال ہی میں لاس اینجلس میں کانفرس منعقد کر کے ایسی ہی ایک کوشش کر رہی ہے ۔اس کانفرنس کا اہم نتیجہ ‘Declaration against Extremism’ کے عنوان سے ایک دستاویز ہے ۔
یہ اسلام کی تعریف خدا کا عطا کردہ ایک ایسے مذہب کے طور پر کرتا ہے جو کہ تمام انسانوں کے لئے محبت کا ایک اظہار ہے ۔ اسلام میں تمام انسانوں کو ان کے تشخص اور معتقدات سے قطع نظر عزت و احترام سے نوازا گیا ہے ۔ اسلام اس بات کا حکم دیتا ہے کہ انصاف مقدس و معظم ہے اور اسے تعصب ،قبائیلی جانبداری یا ذاتی خواہشات کا نشانہ نہیں بنایا جا نا چاہئے ۔ اسلام میں صحیح ایمان اور جبر و اکراہ کے درمیان کوئی مماثلت نہیں ہے ، اس میں خدا اور انسانیت کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہے ، لہٰذا اسلام میں کسی بھی مبلغ یا کسی پیشوا کو خدا کے بدلے کچھ بھی کرنے کا کوئی اختیار نہیں حاصل ہے ۔ اسلام ابراہیم ، موسیٰ ، عیسیٰ (علیہم السلام)، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے تمام ابراہیمی نبیوں کی تعلیمات کو تسلیم کرتا ہے اور انہیں برقرار رکھتا ہے ۔اسلام میں کسی کو بھی یہ دعویٰ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے کہ وہ خدا کی نمائندگی کرتا ہے یا اس کے پاس اس کے کلام اور اس کی منشا ء کی مکمل تعبیر و تشریح ہے ۔
اس دستاویز میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ اسلام کی اصل تعلیمات کا اکثر انتہاءپسندوں کی انتہائی عام سرگرمیوں نے غلط استعمال کیا ہے ۔‘‘ اس دستاویز کے ساتھ ہم اجتماعی طور پر ہر قسم کی انتہاءپسندی کی مذمت کرتے ہیں ، خاص طور پر ان تمام مسلم انتہاءپسندوں کی جو اسلام کے صحیح پیغام کا غلط استعمال کرتے ہیں ۔ مزید یہ کہ ہم اجتماعی طور پر اس کی مذمت کرنے اور ہر قسم کی انتہاءپسندی کو روکنے کے لئے اقدام کرنے کا عہد کرتے ہیں ۔’’ اب یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ اپنی سرگرمیوں پر اسلام کا پردہ ڈالنے والے انتہاءپسندوں کی مذموم سرگرمیوں کا اسلام کے ان بد خواہوں نے استحصال کیا ہے جو مذہب کو ایک منفی روشنی میں پیش کرنے کا ایک اور موقع حاصل ہونے پر خوشی اور مسرت محسوس کرتے ہیں ۔
اس دستاویز میں تمام مسلمانوں سے ہر جگہ مثبت اقدامات ، دینیات کی تعمیری گفتگواور ایسے مبلغین کا سامنا اور ان کی تردید کرنے کی آمادگی کے ذریعہ ہر قسم کے انتہاء پسندوں سے مقابلہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے ‘جو اپنے سیاسی اور سماجی ایجنڈوں میں پیش رفت کرنے کے لئے مذہب کی شبیہ خراب کرتے ہیں ’۔ اس دستاویز کا بیان ہے کہ ‘‘انتہاء پسند اسلام کی خارجی شبیہ کا تعین کر رہے ہیں ، اور مرکزی دھارے میں شامل ان لوگوں کو دفاعی صورت حال میں ڈال رہے ہیں جو اسلام کے حقیقی پیغام کا شدت کے ساتھ اشتراک چاہتے ہیں۔ انتہاء پسندوں کی آواز بہت بلند ہے ؛ ان کی آواز کو جھوٹے ہی سہی لیکن فوری طور پر اختیارات حاصل ہوتے ہیں ، اس لئے کہ وہ مذہب کے لبادے میں ملبوس ہیں ۔ اس آواز کی خطرناک توانائی یہ ہے کہ یہ لوگوں کو مذہبی برتری اور اختیار کے جھوٹے دعوے کے ساتھ گمراہ کرتی ہے ۔’’
اس دستاویز کے دوسرے نکات میں ‘‘ عورتوں کو خدا کی عطاکردہ یکساں مواقع کو معاشرے میں برقرار رکھنے ، کسی بھی صورت حال میں عورتوں کی محکومی کو مسترد کرنے اور اس تصور کو تسلیم نہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ عورتیں حکمت و دانائی اور قائدانہ صلاحیتوں میں مردوں سے کمتر ہیں ۔’’ اور اس میں ‘‘ تمام تہذیبوں اور ثقافتوں کے مثبت تعاون کو تسلیم کرنے اور ان کے ثقافتی ماخذ کا احترام کرنے کا ’’ مطالبہ بھی کیا گیا ہے ۔
اسلامو فوبیا کی وجہ سے بڑھتی ہوئی ناانصافی کے تعلق سے اس دستاویز پر مسلمانوں کو سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہئے ۔ اس دستاویز کو انتہاءپسندوں کے ذریعہ پھیلائے گئے نفرت انگیزپیغامات کو روکنے کے لئے ایک ہتھیار بھی سمجھا جا سکتا ہے ۔انتہاءپسند قوتوں کے ذریعہ اسلام کا اغوا نہیں ہونا چاہئے ۔
(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام)
طارق المعیناسعودی عرب کے ایک سماجی و سیاسی تبصرہ نگا ر ہیں وہ جدہ، سعودی عرب میں قیام کرتے ہیں ۔
ماخذ: http://gulfnews.com/opinions/columnists/islamic-perspectives-on-extremism-and-moderation-1.1258835
URL for English article:
https://newageislam.com/islamic-ideology/islamic-perspectives-extremism-moderation/d/34701
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/islamic-perspectives-extremism-moderation-/d/34759