تمنا شاہین
15 جون، 2014
بنار س کا شمار ہندوستان کے ان شہروں میں ہوتا ہے جو اپنی انفرادی خصوصیات کی بنا پر دنیا بھر میں مشہور و معروف ہیں ۔ یہ ایک تاریخی ، مذہبی، اور ثقافتی شہر ہونے کے ساتھ ادبی شہر کی حیثیت بھی رکھتا ہے ۔ یوں تو یہ ہندوستان کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے ، لیکن اس کی گونا گو ں تہذیبی دلکشی اور قدیم مذہبی ماحول سے تمام ملکی و غیر ملکی سیاح متاثر ہوتےہیں ۔ اس کی آبادی بہت قدیم ہے، کتب تواریخ شاہد ہیں کہ یہ شہر اس وقت بھی قائم تھا جب آریوں نے پنجاب سے نکل کر دریائے گنگا کے کنارے آباد ہوناشروع کیا تھا ۔ اس زمانے میں یہاں پر جنگلی قومیں آباد تھیں ۔ بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ یہاں ایسے ایسے واقعات رونما ہوئے جو ہندوستانی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں اور جنہیں فراموش کرنا نا ممکن ہے ۔ یہاں مختلف مذاہب کے لو گ ایک ساتھ ایک ہی بازار میں دیکھے جاسکتے ہیں ۔ ایسے بہت سے مواقع آئے جب کچھ شرپسند عناصر نے آپسی بھائی چارے اور خلوص و محبت کی جگہ نفرت کا بیج بونے کی کوشش کی لیکن انہیں خاطر خواہ کا میابی نہ ملی ۔
بنارس ہندوؤں کا مقدس مقام ہے ۔ زمانہ قدیم سے ہی دنیا کے کونے کونے سے لوگ یہا ں زیارت کے لئے آتے رہے ہیں اور آج بھی یہ سلسلہ بر قرار ہے ۔ بعض عقیدت مند ہندوؤں کا کہنا ہے کہ بنارس ایسی جگہ ہے ، جہاں بھگوان بھی للچائی نظروں سے دیکھتا ہے، ۔ یہ صرف ہندوؤں کے لئے ہی نہیں بلکہ بودھوں ( بدھوں) کے لئے بھی مقدس مقام کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس مذہب کے بانی گوتم بدھ نے اپنا پہلا درس اسی شہر میں دیا تھا ۔ جینوں کے چار تیر تھنکر بھی یہیں پیدا ہوئے ۔ یہاں سکھوں اور عیسائیوں کے مذہبی مقامات بھی موجود ہیں جو ملک گیر شہرت رکھتے ہیں ۔ مندرو مسجد اور گھاٹ یہاں کثرت سے پائے جاتےہیں جس کی وجہ سے یہ کھاٹوں کے شہر کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔
دریائے گنگا کے کنارے ہلالی شکل میں آباد یہ شہر آج بھی اپنی دلکشی و رعنائی کے سبب ہر کس و ناکس کو متوجہ کرتا ہے شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو بنارس کی دلفریبی کا اسیر نہ ہوا ہو ۔ یہاں کے لوگ مختلف قسم کے کاروبار کرتےہیں لیکن بنارسی ساڑیاں پوری دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں ۔ آم، پان پیتل کے برتنوں اور ریشمی ساڑیوں کے معاملے میں دنیا کاکوئی شہر اس کی ہمسر نہیں کرسکتا ۔
بنارس عہد قدیم سے ہی علم و ادب کا مرکز رہا ہے، اس کی یہ صفت تمام انقلابات کے باوجود بھی محفوظ ہے ۔ اس کے ادبی افق پر ایسے بہت سے روشن ستارے طلوع ہوئے جن کی ضیا پاشیوں سے آج بھی مختلف ادبیات کی فضا منور ہے۔ سنسکرت کے مشہور و معروف عالم فیضی اور داراشکوہ نے اسی شہر میں اپنی تعلیم مکمل کی ۔ کبیر، تلسی اور سنت روی داس نے یہیں بھکتی کے گیت کے گائے ۔ بھارتیندو جیسے ادیب نے یہیں اپنے فن کی آبیاری کی ۔ پریم چند جیسا قلم کا سپاہی بھی یہیں کی فضاؤں میں پروان چڑھا ۔ انگریزی ادب کا مورخ Diana L.Eck اپنے تعلیمی سلسلے میں بنار س آیا اور واپس جاکر “Banaras:The City Of Light’’ کے نام سے بنارس کی تاریخ رقم کی ۔ حسنیٰ بائی او رملکہ جان جیسی شاعرات کے چرچے آج بھی لوگوں کی زبان پر ہیں ۔ آغا حشر جیسا ڈرامہ نگار بھی اسی خاک کا پروردہ ہے ۔ علیم مسرور جنہوں نے محض ایک ناول لکھ کر تاریخ میں اپنا نام درج کرادیا، اسی شہر کے ہیں ۔ مولانا عزیز الحق کوثر ندوی ، جیسے ماہر زبان و ادب بھی یہیں پیدا ہوئے ، انہوں نے عروض جیسے خشک موضوع پر کتاب لکھ کر یہ ثابت کردیا کہ بنارس کے دامن میں ہر طرح کے پھول کھل سکتے ہیں مشہور مورخ ‘ مولانا عبدالسلام نعمانی’ نے بھی اسی زمین پر آنکھیں کھولیں اور اپنے نادر تاریخی آثار کے نقوش سے اردو ادب کے دامن کو وسعت بخشتے ہوئے یہیں کی مٹی میں سما گئے ۔ ‘ ابو محمد امام الدین رام نگری ’ نے پہلی ہندی اردو لغت ترتیب دے کر لوگوں سے دادو تحسین حاصل کی ۔ مشہور و معروف شہنائی نواز ‘ استاد بسم اللہ خاں’ بھی اسی خاک سےاٹھے اور پوری دنیا میں اپنی صلاحیت کا لوہا منوا کر یہیں پیوخاک ہوئے ۔
یہ حقیقت ہے کہ بنارس میں فن شاعری کو عروج حاصل ہوا ۔ زمانہ قدیم سے یہاں شاعروں کی کثیر تعداد رہی ہے۔ فائز بنارسی، غنی بنارسی، محشر بنارسی، آفاق بنارسی، مسلم الحریری، نذیر بنارسی ، حفیظ بنارسی ، ڈاکٹر ظفر الاسلام ظفر، منشی انور ، شوکت مجید ، ہاشم بنارسی اور جوہر صدیقی وغیرہ استاد شاعر گزرے ہیں جن کے شاگردان ہندوستان کے کونے کونے میں موجود ہیں ۔ متذکرہ شعرا میں سے کچھ عالم گیر شہرت اختیار کر چکے ہیں لیکن چند نام ایسے بھی ہیں جو شہرت کی ان بلندیوں تک پہنچے جس کے حق دار تھے ۔متذکرہ تمام فن کار ہمارے درمیان نہیں لیکن ان کے کمالات و کارنامے ایسے ہیں جو صرف انہیں ہی نہیں بلکہ شہر بنارس کی شہرت کو بھی بام عروج تک پہنچا تے ہیں ۔
جب ملک میں سیاسی بحران پیدا ہوا تو مشرق و مغرب کے بڑے بڑے شاعروں اور ادیبوں نے بنارس میں سکونت اختیار کی، جس کے سبب یہ ایک ادبی مرکز بن گیا ۔ فارسی کے مشہور معروف ‘ شاعر شیخ علی حزیں ’ 53 سال کےعمر میں بنارس آئے اور یہیں کی خاک میں محوِ آرام ہیں ۔ بنارس کے لوگوں کی خوش اخلاقی اور تہذیبی روایت سےمتاثر ہوکر ان کی زبان سے بے ساختہ نکا تھا :
از بنارس نہ روم معبد عام است ایں جا
ہر برہمن پسرے لچھمن ورام است ایں جا
ہدایت اللہ خاں ہدایت دہلوی ، سعادت یار خاں رنگیں ، مرزا قادر بخش دہلوی ، کے علاوہ نواب ابراہیم خاں خلیل وغیرہ بھی بنارس میں مقیم ہوئے ۔ اس وقت مہاراجہ بنارس کے دربار میں بھی کئی ادب نواز شخصیات موجود تھیں بلکہ کچھ افسانہ نویس اور شعرائے کرام کو انہوں نے خصوصی طور پر بلایا تھا جن میں ‘رجب علی بیگ سرور’ کا نام سرِ فہرست ہے ۔ ‘ میر انیس ’ جیسے مرثیہ نگار بھی یہاں بار ہا تشریف لائے اور اپنی زبان دانی کے جوہر دکھاتے ہوئے انہوں نے بنارس کے شعراء و ادبا پر خوش گوار اثر ڈالا ۔ اردو ادب کا کوہِ نور ہیرا‘ مرزا غالب بھی بنارس آیا اور ایک مہینے تک یہاں مقیم رہا ، اس شہر کی دلفریبیوں نے اسے کچھ اس قدر متاثر کیا کہ وہ ‘‘ مثنوی چراغِ دیر ’’ لکھنے پر مجبور ہوگیا ۔ ‘ سرسید احمد خاں’ نے اپنی ملازمت کا بیشتر حصہ اسی شہر میں گزارا اور بہت سے فلاحی کام کئے ۔ اردو تحقیق کی معتبر شخصیت ‘ حنیف نقوی’ نے اپنی زندگی کا قابلِ قدر حصہ اسی سرزمین پر گزارا ، اور اردو ادب کے خزانے میں اپنی تحقیقات عالیہ کے ذریعہ بیش قیمتی اضافہ کیا ۔ اردو کے مشہور افسانہ نگار ‘ سعید فریدی’ نے بھی لمبے عرصے تک یہاں کی فضاؤں میں سانس لیتے ہوئے زبان اردو سے اپنی بے پایاں محبت کا ثبوت دیا ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ زبان اردو کی نشو و نما سے متعلق بے شمار کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں لیکن ان میں بنارس کا تذکرہ نہ ہونے کے برابر ہے کسی علاقے کی ادبی خدمات اور کارناموں چشم پوشی کر کے اردو کی معتبر و مستند تاریخ لکھنا ممکن نہیں، اس لئے میں نے ایسا موضوع منتخب کیا کہ اردو ادب کی ترقی کے حوالے سے وہ ساری باتیں سامنے آسکیں جن سے اب تک لوگ نا آشنا ہیں ۔ یوں تو میرا موضوع آزادی کے بعد کا ہے لیکن اس میں جزوی سہی، اس سے پہلے کے فن کاروں کی خدمات بھی شامل کرنے کی کوشش کی گئی ہے کیونکہ سرزمین بنارس سے بعض ایسی شخصیات پیدا ہوئیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔
آزادی کے بعد شاعروں کا ایک کارواں نظر آتا ہے جنہوں نے اپنے اشعار کے ذریعہ ملک کے حالات رقم کرنے کی کوششیں کیں اور بڑی حد تک اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوئے ۔ آزادی کے بعد تقسیمِ ہند کا سانحہ وجود میں آیا ۔ بہت سے لوگ تقسیم کے دوران فرقہ وارانہ فسادات میں مارے گئے ، لیکن اس انتشار و انقلاب نے اردو ادب کو فائدہ بھی پہنچا یا، اس نے حساس طبیعت رکھنے والے فن کاروں میں لرزہ طاری کردیا ۔ ان کے احساسات اور مشاہدے کی آمیز ش سے سچا ادب ظہور پذیر ہوا ۔
عصر حاضر میں بھی یہاں ایسے ادباء و شعرا ء موجود ہیں جو اردو ادب کی آبیاری میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں ۔ ان میں اس خاک سے اٹھنے والے بھی ہیں او رباہر سے آکر بسنے والے بھی ۔ شاعروں کا ایک جمِ غفیر یہا ں آج بھی موجود ہے لیکن نثر کا میدان کچھ تنگ نظر آتا ہے ۔ شاید اسی لئے بنارس اور اردو ادب کے حوالے سے کوئی مکمل کتاب نہیں ملتی، ایسے حالات میں موضوع کی اہمیت خود بخود بڑھ جاتی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ ادب سماج کا آئینہ ہے کیونکہ سچا فن کار فطرت اور سماج دونوں سے متاثر ہوتاہے اور دونوں کو اپنی تخلیقات میں شامل کرنے کی کوشش کرتاہے وہ جو دیکھتا اور محسوس کرتاہے اسے لفظوں کے سانچے میں اس طرح ڈھالتا ہے کہ اس میں ایک نیا حسن پیدا ہوجاتا ہے اور ایسا ادب کسی نہ کسی بہانے قاری کو اپنا اسیر بنا لیتا ہے ۔
بنار س میں آزادی کے قبل جن شاعروں اور ادیبوں نےاپنی تخلیقات کے ذریعہ اردو ادب کے دامن میں وسعت بخشی ان کا ذکر تو مختلف کتابوں کی ورق گردانی کرنے پر کہیں نہ کہیں ضرور مل جاتا ہے لیکن آزادی کے بعد جو شاعر و ادیب ابھرے ان میں بیشتر اب بھی تاریکی کے پردے میں ہیں ۔ ان شہر میں بعض ایسے ادب نواز بھی ہیں جو زبان اردو سے گہرا لگا ؤ اور انسیت رکھتے ہیں اور مختلف طریقے سے اس کی خدمت کررہے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی خدمات کا اعتراف کیا جائے ۔ ان کے جذبۂ محبت کو عوام تک پہنچا یا جائے تاکہ دوسروں کے اندر بھی یہ جذبہ بیدار ہو اور زبان کو عروج حاصل ہو ۔ میرا مقصد بنارس کی تعریف و توصیف نہیں بلکہ ان فن کاروں کی خدمات کو عیاں کرنا ہے جنہوں نے زبان اردو کا سچا شیدائی ہونے کا ثبوت دیا ہے ۔ اس مختصر مضمون میں ان تمام شاعروں اور ادیبوں کو سمیٹنا مشکل ہے لیکن میں نے اپنی بساط بھر کوشش ضرور کی ہے۔
بنارس کے بزرگ شاعروں میں تاج الدین اشعر رام نگری ، سلیمان آصف راشد بنارسی ، ڈاکٹر ناظم جعفری، شاد عباسی، ضیا بنارسی ، طرب صدیقی، معیار سنیہبی ، راشد بنارسی، موج صہبائی ، رئیس پٹھاری وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں ۔ متذکرہ شعراء نے زندگی کی مختلف بہاریں دیکھی ہیں ، ان کے اشعار ان کے تجربات و مشاہدات کی بھٹی میں تپ کر تیار ہوئے ہیں ، ان کے یہاں ہمیں زندگی کی مختلف روپ دکھائی دیتے ہیں ۔ ان میں کچھ شاعر ایسے بھی ہیں جو گوشہ نشیبی اختیار کرکے زبان و ادب کی خدمت کررہے ہیں ۔
نوجوان شاعروں میں روشن لال روشن، کبیر اجمل ، مائل انصاری ، شمیم طارق ، غفران امجد ، ڈاکٹر بختیار نواز، نصیر سراجی، ڈاکٹر نسیم اختر، عالم بنارسی ، زم زم رام نگری، ضیا احسنی ، احمد اعظمی ، ثمر غازی پوری، ریحان عباس، مجیب خان، گوہر شیخ پوروی، سلام بنارسی ، ڈاکٹر سعید ظفر ، نعیم اختر جرأت ، الکیر اور اسجد بنارسی وغیرہ کے نام لئے جاسکتے ہیں ۔
عصر حاضر کے موجودہ نثر نگاروں میں پروفیسر یعقوب یاور، نسیم بن آسی، ظفر احمد صدیقی ، شاہینہ رضوی، آفتاب احمد آفاقی، شمیم طارق، پروفیسر نسیم احمد صدیقی، وسیم حیدر ہاشمی، سید حسن عباس ، پروفیسر قمر جہاں، پروفیسر رفعت جمال، ڈاکٹر نفیس بانو، پروفیسر شمیم اختر ، ڈاکٹر مشرف علی ، علام الہند ی ، ڈاکٹر عبدالسلام اور طارق فریدی وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں ۔ متذکرہ نثر نگاروں میں ناول نگار، افسانہ نگار، ناقد و محقق اور صحافی بھی ہیں ۔
شہر بنارس میں ادب کی تمام اصناف کو فروغ حاصل ہوا ہے ۔ ماضی میں بھی اس کے دامن میں شاعر و ادیب موجود تھے آج بھی یہ سلسلہ برقرار ہے اور مستقبل میں بھی اس کے روشن امکانات نظر آتے ہیں کیونکہ نسل اس طرف متوجہ ہورہی ہے ۔ ایسی صورت حال میں یہ لازمی ہے کہ ان کے سامنے کوئی ایسی کتاب ہو جس کے ذریعہ وہ اپنے بزرگوں کے کار ناموں سے فیض یاب ہوسکیں اور مجھے یقین ہے کہ میری کوشش بڑی حد تک اس کمی کو پورا کر پائے گی ، کیونکہ بنارس کے مجموعی ادب پر ایک مکمل کتاب سامنے آئے گی جو شاید بنارس کے لئے ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے مختلف علاقے کے لوگوں کو کسی نہ کسی طرح فائدہ پہنچائے گی ۔ اس میں آزادی کے بعد سے اب تک کے ان تمام تخلیق کاروں کی ادبی خدمات کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے جنہوں نے زبان و ادب کی ترقی کی ادنیٰ سی کوشش بھی کی ہے ان میں معروف وغیر معروف تخلیق کار بھی شامل کئے گئے ہیں تاکہ بنارس کے ادب کی ایک مکمل تاریخ سامنے آسکے ۔
15 جون، 2014 بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/urdu-literature-benaras-after-independence/d/87632