نیو ایج اسلام اسٹاف
رائٹر
4 جنوری 2023
گزشتہ سال اگست میں
طالبان کے اقتدار میں آتے ہی افغانستان کی عوام خصوصاً عورتوں میں خوف و دہشت کا
ماحول چھا گیا حالانکہ طالبان خود کو اسلام اور شریعت کا علمبردار بتاتے ہیں۔ عوام
کے سامنے 1996 سے 2001 کے دوران ان کی حکومت کے ذریعہ عورتوں پر مظالم اورمردوں پر
قانونی سختیوں کی داستانیں تھیں۔ انہوں نے شریعت کے نفاذ کے نامپر عورتوں کی ناک
کاٹی انہیں سنگسار کیا، انہیں پردے کے نامپر سماج سے بالکل کاٹ کر انہیں گھروں میں
قید کردیا اور مردوں پر بہت سی پابندیاں عائد کردیں۔ عورتوں کی تعلیم پر پابندی
عائد کردی اور انہیں سیاسی اور سماجی حقوق سے محروم کردیا۔
لہذا جب طالبان دوسری بار
2021 میں امریکہ کی مدد سے اقتدار میں آئے تو انہوں نے شروع میں تو اپنی اعتدال
پسند شبیہ پیش کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ وہ عورتوں کو وہ تمام حقوق دیں گے جن کی
شریعت میں ضمانت دی گئی ہے لیکن بہت جلد بلی تھیلے سے باہر آگئی۔ انہوں نے عورتوں
کے لئے برقع لازمی کردیا اور ان پر نوکری، اور دیگر پیشوں سے رفتہ رفتہ دستبردار
ہونے پر مجبور کیا ۔ خواتین کو ٹی وی پر نیوز پڑھنے اور اینکرنگ کرنے سے روک دیا
گیا، انہیں تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا گیا ۔ ان پر ثانوی درجہ تک تعلیم پر پابندی
لگائی گئی اس کے بعد یونیورسٹی میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔
گزشتہ 20 برسوں میں امریکہ
کی حمایت والی حکومت کے دوران عورتوں نے تعلیم اور دیگر شعبوں میں جو ترقی کی تھی
وہ اچانک سے رک گئی۔ طالبان کے آنے سے قبل ملک میں 40 فی صد ڈاکٹر 70 فی صد ٹیچر
خواتین تھیں۔ ان کو سیاست میں بھی شراکت کی آزادی تھی ۔ لڑکیاں اسکولوں، کالجوں
اور یونیورسٹی میں اعلی تعلیم حاصل کر سکتی تھیں مگر یک بیک ان پر تعلیم حاصل کرنے
پر پابندی لگا دی گئی۔ ایک طالبان لیڈر نے کہا کہ تعلیم کے پردے میں جسمفروشی ہوتی
ہے اور لڑکیاں طوائف بن جاتی ہیں۔
اب عورتوں کو ڈاکٹری اور
انجینئرنگ پڑھنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔
دراصل یہ سب اسلامی طرز
فکروعمل کا مظاہرہ نہیں ہے بلکہ قبائلی طرزفکروعمل کا مظاہرہ ہے جس کو طالبان نے اسلامی
شریعت کا نام دیا ہے اور اس طرح اسلامکو بدنام کررہے ہیں۔ افغانستان میں ہمیشہ سے قبائلی
طرز زندگی رہا ہے اور پورا افغان معاشرہ قبائلی معاشرہ ہے۔ یہاں چھوٹے چھوٹے قبائل
ہیں جن پر قبائلی سرداروں کا حکم چلتا ہے۔ افغانستان کے چندشہروں جیسے کابل وغیرہ
میں شہری تمدن کا اثر ہے لیکن دیہی اور قصباتی علاقوں میں اب بھی قدیم قبائلی طور
طریقے ہی رائج ہیں۔اس معاشرے میں عورتوں کو بدی کا محور تصور کیا جاتا ہے اور
لڑکیوں پر بارہ برس کی عمر کے بعد گھروں سے نکلنے پر پابندی عائد کردی جاتی
ہے۔کیونک لڑکیاں عموماً بارہ برس کی عمر میں بلوغت کو پہنچ جاتی ہیں اور وضع حمل
کے قابل ہو جاتی ہیں۔ طالبان بھی چونکہ اسی قبائلی سماج کے پروردہ ہیں اس لئے
انہوں نے قبائلی سرداروں کو خوش رکھنے کے لئے اسی قبائلی اصول کو منظوری دی جبکہ
اسلامی شریعت عورت کو بارہ برس کے بعد گھروں میں قید کرنے کا حکم نہیں دیتا۔
طالبان کے لئے قبائلی سرداروں کو خوش رکھنا بہت ضروری ہے کیونکہ ان کی خوشنودی
طالبان کے اقتدار کے استحکام کے لئے لازمی ہے۔ وہ افغانستان کی تاریخ سے واقف ہیں
۔قبائلی سرداروں نے ہر اس بادشاہ کے خلاف بغاوت کردی جس نے عورتوں کوآزادی دینے
اور انہیں تعلیم دلوانے کی کوشش کی ۔ کنگ عبدالحمان کنگ حبیب اللہ اور کنگ امان
اللہ روشن مثالیں ہیں۔ کنگ عبد الرحمان نے عورتوں کی تعلیم کو عام کرنے کی کوشش کی
اور ان پر سے کئی طرح کی پابندیاں ہٹائیں۔ اس نے لڑکیوں کی شادی کی عمر بڑھا کر 18
برس کردی۔
کنگ عبدالحمان کی ملکہ
بوبو جان ایک روشن خیال تعلیم یافتہ خاتون تھی۔ اس نے عورتوں کی آزادی کی حمایت
اور پردے کی مخالفت کی وہ خود بغیر پردے کے عوامی تقریبات میں شرکت کرتی تھی۔ لیکن
قبائلی سرداروں نے اس کے ان اقدامات کی شدید مخالفت کی ۔
کنگ عبدالرحمان کے بعد ان
کے بیٹے کنگ حبیب اللہ نے بھی تعلیم نسواں کی حمایت کی اور لڑکیوں کے لئے انگلش
میڈیماسکول کھولے۔
کنگ حبیب اللہ کے بعد ان
کے بیٹے کنگ امان اللہ نے بھی تعلیم نسواں کی تحریک کو جاری رکھا۔ اس نے پردے کی
پابندی ہٹادی تعدد ازواج پر پابندی لگائی۔ کنگ امان اللہ کی بیوی ثریا طرزی دمشق
میں پیدا ہوئی تھیں اور تعلیم یافتہ خاتون تھی۔ دونوں نے ملکر افغانستان میں عورتوں
کی تعلیم کو فروغ دینے کی تحریک چلائی۔ امان اللہ نے ایک جرگہ میں کہا کہ اسلام
عورتوں کو پردے کے لئے کوئی خاص لباس پہننے کا،حکم نہیں دیتا۔ اس کی بیوی ثریا نے
جرگہ میں قبائل سرداروں کے سامنے برقع کو پھاڑ دیااور اس کے ساتھ اس کے خاندان کی
دیگر عورتوں نے بھی اپنے برقعے پھاڑ دیے ۔ثریا طرزی کو کنگ امان اللہ نے اپنا وزیر
تعلیم بنایا تھا۔ ثریا نے ملک میں لڑکیوں کے لئے اسکول اور عورتوں کے لئے ہسپتال
قائم کئے ۔ اس نے افغانستان کے معاشرے کو ایک جدید معاشرے میں بدلنے کی کوشش کی۔
اس نے 1921 میں ارشادالنسواں نام کا رسالہ جاری کیا۔ اور انجمن حمایت بسواں نام
کاادارہ قائم کیا جہاں عورتیں شوہر، والد اور بھائی کے ظلمکی شکایت کرسکتی تھیں۔
اس نے افغانستان کے شہر پغمان میں عورتوں کے لئے تھئیٹر بھی قائم کیا۔ا س نے
عورتوں کے لئے الگ سے ہسپتال بھی قائم کیا۔ اور 15 افغان لڑکیوں کواعلی تعلیم کے
لئے ترکی بھیجا۔
لیکن ان سب اقدامات سے
قبائلی سرداروں میں ان دونوں کے خلاف غصہ بڑھتا گیا ۔ آخرکار قبائلی سرداروں نے
کنگ امان اللہ کے خلاف بغاوت کر دی ۔ بچہ سقا نام کےایک قبائلی سردار کی قیادت میں
ان کے خلاف صف آرا ہوگئے۔ کنگ امان اللہ نے موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے حکومت کو
خیر آباد کہہ دیا ۔ اور افغانستان چھوڑدیا اور اس طرح افغانستان میں تعلیمی اور
سماجی ترقی کی تحریک ختم ہوگئی۔
آج بھی طالبان کی نام نہاد
مجلس شوری میں افغانستان کے قبائلی لیڈران کاغلبہ ہے۔ طالبان کا ہیڈکوارٹر قندھار
میں ہے جو عورتوں اور ی ان کی تعلیم پر قبائلی سوچ رکھتا ہے۔ طالبان کے وزرا اور
سیاسی لیڈران ان کی مرضی کے خلاف کوئی اصلاحی قدم نہیں اٹھا سکتے۔ گزشتہ ایک سال
سے قندھار کے سخت گیر نظریہ سازوں اور کابل کے سیاسی لیڈروں کے درمیان نظریاتی رسی
کشی چل رہی تھی جس میں آخر میں قندھار کے قدامت پسند قبائلی سوچ کی جیت ہوئی اور
طالبان نے قبائلی سوچ کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے عورتوں کو زندگی کے تمام شعبوں سے
ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ جو لوگ طالبان کو اسلامی شریعت کا علمبردار سمجھتے ہیں وہ
دراصل اسلامی شریعت کا علمنہیں رکھتے بلکہ طالبان کی ہی طرح قبائلی سوچ رکھتے ہیں۔
عورتوں کی تعلیم اور پردہ پر ان کے خیالات قرآن اور حدیث کے احکام کے منافی ہیں۔
--------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism