مشتاق الحق
احمد سکندر، نیو ایج اسلام
17 جولائی 2023
نام کتاب:
Frontier of Fear: Confronting the Taliban
on Pakistan’s Border
مصنف: ڈیوڈ
ایل گوسلنگ
لندن، یونائیٹڈ
کنگڈم: ریڈکلف پریس
ص274۔ آئی
ایس بی این: 978178454684
------
تشدد کے ماحول میں تعلیم چیلنجوں
سے بھری پڑی ہے۔ جب چاروں طرف تشدد کا دور دورہ ہو تو سب سے پہلا نقصان تعلیم کا ہوتا
ہے۔ جب تشدد نظریاتی طور پر کارفرما ہو تو تعلیم کا خسارہ کثیر جہتی ہوتا ہے۔ تعلیمی
ادارے ان لوگوں کا نشانہ بن چکے ہیں جو نظریاتی طور پر اس نظریہ کے خلاف ہیں جسے مرکزی
دھارے کی تعلیم فروغ اور تقویت دیتی ہے۔ مرکزی دھارے کے تعلیمی اداروں کو اس کے دشمن
ہر برائی کی جڑ قرار دیتے ہیں جو مختلف نقطہ نظر کی حمایت کرتے ہیں۔ اس دشمنی کی جڑیں
نوآبادیاتی نظام میں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ مسلمانوں کی سرزمین پر استعماری قوتوں کے
حملوں نے مسلمانوں میں تعلیمی بے حسی کو تقویت دی۔ نوآبادیاتی طاقتیں اپنے ساتھ تعلیم
کا نیا ماڈل لے کر آئیں جنہوں نے پرانے کو مکمل طور پر بدل دیا۔ یہ نیا ماڈل ماورائی
اور دنیاوی کے درمیان تقسیم کے سیکولر اصولوں پر مبنی تھا۔ اس کے نتیجے میں مسلمانوں
میں ایک نیا بحران پیدا ہوا۔ مسلمانوں نے کبھی بھی سیکولر اور مذہبی کے درمیان تقسیم
کا تجربہ نہیں کیا تھا، اس لیے اس تبدیلی نے انہیں انتہائی پستی میں ڈال دیا۔ اس بحران
نے نوآبادیاتی مسلم سرزمینوں میں دو طرح کے ردعمل کو جنم دیا۔ ایک مکتبہ فکر نوآبادیاتی
آقاؤں کے تعلیمی ماڈل کو اپنانے والا تھا جبکہ دوسرا اس ماڈل کے خلاف مکمل بائیکاٹ
اور مزاحمت کا مطالبہ کر رہا تھا۔ مسلم دنیا کے بیشتر حصوں میں یہ کشمکش جاری تھی اور
اب بھی جاری ہے۔
مسلمانوں نے بھی سیکولر اور مذہبی
تعلیم کی نوآبادیاتی تقسیم کے ماڈل کو اپنا لیا۔ روایتی مدرسے دینی تعلیم کے گڑھ بن
گئے جبکہ اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں دنیاوی تعلیم کے لیے مختص کر دی گئیں۔ ان دونوں
اداروں نے تقسیم اور پولرائزیشن کو تقویت دے کر ایک دوسرے کے اثر و رسوخ کو اپنے اوپر
اثر انداز ہونے نہیں دیا جس سے کسی بھی قسم کا باہمی انحصار ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس
طرح مسلم معاشرہ غیر متواتر نظام تعلیم کی وجہ سے دو حصوں میں بٹ گیا ہے۔ ہر دو نظام
تعلیم کے حامیوں کے درمیان کا فاصلہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ختم کرنا مشکل ہوتا جا رہا
ہے۔ بعض انتہا پسندوں کی طرف سے جدید تعلیمی اداروں کے خلاف دشمنی بربریت کی نئی بلندیوں
کو چھو رہی ہے۔ ایسے مخاصمانہ ماحول میں ایک تعلیمی ادارے کو کامیابی سے چلانا واقعی
ایک عظیم کارنامہ ہے۔ زیر نظر موجودہ کتاب ڈیوڈ ایل گوسلنگ کی طرف کے ایک مرکزی دھارے
کے تعلیمی ادارے کو کامیابی کے ساتھ چلاتے ہوئے، ایسے ہی ایک جرات مندانہ سفر کا مظہر
ہے۔
ڈیوڈ ایل گوسلنگ نے 2006-2010 تک
پاکستان کے خیبر پختونخواہ (سابقہ شمال مغربی سرحدی صوبہ) کے صوبائی دارالحکومت پشاور
میں ایک اعلیٰ تعلیمی کالج ایڈورڈز کالج کے پرنسپل کے طور پر خدمات انجام دیں۔ یہ دور
انتہائی ہنگامہ خیز دوروں میں سے ایک تھا جب تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) خطے میں
اپنے قدم جما رہی تھی۔ اس کے بعد سے اس نے پاکستان کے اندر متعدد دہشت گردانہ کارروائیاں
کی ہیں جن میں تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانا اور اسکول کے معصوم بچوں کا قتل عام بھی
شامل ہے۔ کتاب Frontier of Fear: Confronting the
Taliban on Pakistan’s Border
ایک سرگزشت کے طور پر لکھی گئی جیسا کہ اس کے
نام سے ظاہر ہوتا ہے۔ یہ کتاب ایک
کالج کے پرنسپل کے سفر اور متعدد مسائل اور خطرات کے باوجود ادارے کو چلانے میں درپیش
چیلنجوں کی عکاسی کرتی ہے۔
کتاب کا آغاز پشاور کے ایڈورڈز
کالج کی تاریخ اور اس کے آس پاس کے واقعات سے ہوتا ہے۔ یہ اس باوقار ادارے میں داخلے
کے عمل کو بھی بیان کرتا ہے، اور مقامی اثر و رسوخ کو بھی جو داخلوں کو محفوظ بنانے
کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، اور کالج انتظامیہ جو مقامی لوگوں پر مشتمل ہے۔ اس میں
کالج کی زندگی، اس کی سرگرمیوں کو بھی بیان کیا گیا ہے جن میں تدریسی اور غیر نصابی
سرگرمیاں بھی شامل ہیں۔ ڈیوڈ ایک بیرونی شخص کے طور پر مقامی اخلاقیات اور سماجی ماحول
کے بارے میں ایک معروضی نظریہ پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جب وہ کالج کے بارے میں
لکھتے ہیں تو ان کی ہر بات کو من و عن تسلیم کرنا ضروری نہیں ہے۔
2010-2006 کے ہنگامہ خیز دور
میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی نمو دیکھی گئی، اس کے کمانڈر اور علاقے میں
اس کا اثر عروج پر تھا۔ دوسری طرف ڈرون کی دہشت، ان کے حملے اور عام شہریوں کی ہلاکتیں
ٹی ٹی پی کے خلاف لڑائی میں الٹا نتیجہ پیش کر رہی تھیں۔ ان برے حالات میں پھنسے ڈیوڈ
کو ادارے کو محفوظ رکھنے اور کام کرنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑی۔ پشاور کے پدرسرانہ معاشرے
میں کو-ایجوکیشن کا متنازعہ مسئلہ ایک اور چیلنج تھا، حالانکہ ایڈورڈز کی مشترکہ تعلیم
کی تاریخ رہی ہے۔ لیکن اب ٹی ٹی پی کے زیادہ اثر و رسوخ حاصل کرنے کے بعد، لڑکوں کو
جمعہ کی نماز پڑھنے کی اجازت نہ دینے اور طالبات کو مختلف سرگرمیوں میں حصہ لینے پر
ڈیوڈ کے خلاف جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ مقامی علماء کو-ایجوکیشن اور اسلام
کے مسئلے پر خاموش تھے۔ کو-ایجوکیشن پر پابندی کی یہ دھمکیاں اگرچہ کامیاب نہیں ہوئیں
لیکن یقینی طور پر وہ لڑکیوں کے ہاسٹل کے قیام کا خیال ترک کرنے کا باعث بنیں، کیونکہ
یہ دہشت گردوں کے لیے ایک آسان ہدف ہو گا۔
ڈیوڈ اسلام اور مسلم جدیدیت پسندوں
مثلاً سر سید احمد خان اور سر محمد اقبال اور تعلیم کے بارے میں ان کے خیالات پر بھی
گہری بصیرت رکھتے ہیں۔ ان کی تعلیمی پالیسی یقیناً اجتہاد پر مبنی تھی۔ جب مسلمانوں
نے اجتہاد کے دروازے بند کر اس جذبے کو بھلا دیا اور اس سے نفرت کی تو نتیجہ علم کے
جمود کی صورت میں نکلا۔ تعلیم کا جوہر نئی چیزیں سیکھنا اور نئے شعبوں کو دریافت کرنا
ہے جو علم کی تخلیق اور تعمیر کی طرف مزید راہ ہموار کرتا ہے۔ جب مسلمانوں نے تحقیق،
غور و فکر اور سب سے بڑھ کر اجتہاد کا جذبہ ترک کر دیا تو دوسرے لوگوں نے ان شعبوں
میں قدم رکھا جس سے مسلمانوں کے علمی ورثہ کو جمود کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ابھی تک جمود
کا شکار ہے حالانکہ کچھ لہریں پیدا ہو چکی ہیں اور اجتہاد کے دروازے پر دراڑیں بھی
واضح ہیں۔ مسلم جدیدیت پسندوں کے خیالات رجعت پسند مسلم علماء کے لیے اتنے انقلابی
تھے کہ انہوں نے اسے درخور اعتنا بھی نہیں سمجھا۔ ڈیوڈ کے اس طرح کے مسلم ہمدردوں کی
حمایت کرنے کے باوجود اس کا مقامی رہنماؤں یا فیصلہ سازوں پر بہت کم اثر پڑا، جبکہ
یہ ان کے دل کی تبدیلی کا باعث بن سکتا تھا۔
ڈیوڈ نے پاکستان کی مسیحی اقلیت
اور خاص طور پر پاکستانی معاشرے کو تعلیمی طور پر بااختیار بنانے میں ان کی خدمات اور
کارناموں کا بھی ذکر کیا۔ کالج کے فنڈز کی چوری جس نے ایک بڑے اسکینڈل کو جنم دیا،
کالج انتظامیہ کو کنٹرول کرنے کے بارے میں چرچ کے حکام کے درمیان جھگڑے وغیرہ کو بھی
کتاب میں جگہ مل گئی ہے۔ آخر میں ڈیوڈ صوبہ خیبرپختونخوا میں بحران اور تشدد کا یہ
کہہ کر حل بھی پیش کرتے ہیں کہ تعلیم اور صوبے سے فوج کو ہٹانے سے دیرپا امن قائم ہوگا۔
مجموعی طور پر یہ کتاب علاقے کے مطالعے اور خاص طور پر دہشت گردی سے نمٹنے میں تعلیم
کی ضرورت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔ تشدد سے تعلیمی اداروں کے چیلنج اور دھمکیوں کے
درمیان ان کے اندر کام کرنے کی ہمت اس کتاب کو ایک سنجیدہ سرگزشت بناتی ہے۔
English Article: Taliban in Hinterland of Pakistan and Future of
Education
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism