New Age Islam
Sun Jan 26 2025, 05:13 PM

Urdu Section ( 2 May 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Takfir and Its Implications تکفیر مسلم کا مظہر اس کے مضمرات

وارث مظہری

07 فروری 2012 

دین میں غلو اور تشدد ، جن کی قرآن وحدیث میں شدید ممانعت آئی ہے کا، ایک اہم مظہرتکفیرمسلم کا مظہر ہے۔ مسلم سماج میں داخلی سطح پر انتشار و افتراق، دوسرے مسالک و مذاہب کے تئیں عدام رواداری اور تشدد پسندی کے فروغ میں اس مظہر کا اہم کرداررہا ہے۔اس مقصد کے لئے اسے ایک بڑے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ شخصی اور جماعتی اختلافات نے علم و اخلاص کے دائرے سے باہرنکل کر جب بھی شدت اختیار کی، اس کا نقطہ عروج دوسرے افراد یا جماعت کی تکفیر اور نتیجہ باہمی جنگ و جدال کی شکل میں سامنے آیا۔ تکفیر ایک دین دارانہ سادیت پسندی کی بھی صورت ہے۔ ایک دین دار شخص (عام حالات میں ایک مذہبی عالم اور رہنما) اپنے مزعومہ بددین ’حریف‘ سے اس کے ذریعے انتقام لیتا اور تسکین حاصل کرتا ہے۔

اس مسئلے میں پائے جانے والے نظری و فکری دھندلکوں کو دور کرنا ضروری ہے۔ علمائے متقدمین اور فقہائے سابقین نے اصولی انداز میں اس پر روشنی ڈالی ہے۔ اس موضوع پر ابوحامد غزالی (111) کی ”فیصل التفرقة بین الاسلام والزندقة“ اہم ہے۔ تکفیرِ مسلم کے مسئلے پر متوازن نقطہ نظر کی تشکیل میں اس کتاب سے استفادہ ناگزیر ہے۔

تاریخی تناظر:

بدقسمتی سے صحابہ کرام کے بعد کی پہلی ہی نسل اس فتنہ کبریٰ سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ حضرت عثمانؓ کے عہدِ حکومت کے اواخر میں یہ فتنہ شروع ہوا۔ باغی جماعت نے پہلے آپ کی تکفیر کی پھر آپ کا خون بہایا۔ خوارج کی جماعت اپنے علاوہ تمام مسلمانوں کے کفر کی قائل تھی۔ ان مسلمانوں میں صحابہ و تابعین کی عظیم جماعت بھی شامل تھی۔ وہ اپنے مخالفین سے قتال واجب سمجھتے تھے اور ان کی جان و مال اور ان کی عورتوں کو مالِ غنیمت کے طور پر اپنے لئے حلال تصور کرتے تھے۔ وہ مشرکین کو تو کلام اللہ کے سننے کی بنیاد پر پناہ دینے کو تیار تھے، لیکن اپنے مخالف مسلمانوں کے لئے ان کے دل میں کوئی جگہ نہ تھی۔ حضرت علیؓ کی ایما پر حضرت عبداللہ ابنِ عباس کی ان کے ساتھ گفت و شنید کے بعد ان کے بعض افراد کے نظریے میں کچھ لچک پیدا ہوئی، لیکن من حیث المجموع وہ اپنے تکفیری وقتال نظریے پر مصر رہے۔

خوارج کے بعد تکفیر کے مظہر کا باضابطہ پھیلائو متکلمین کے ذریعہ ہوا۔ معتزلہ، جہمیہ اور قدریہ وغیرہ نے کفر و ایمان اور اسلام کے بنیادی اعتقادات کی تعریف و تشریح میں نئے نئے عقلی نکتے پیدا کئے۔ ان پر اصرار کیا اور اپنے مخالفین کی تکفیر کی۔ اعتزال کے ردعمل میں اشاعرہ سامنے آئے، انھوں نے معتزلہ کی اور معتزلہ نے ان کی تکفیر کی۔

فقہا کی جماعت میں اس تعلق سے احتیاط کی روش پائی جاتی تھی۔ وہ دین میں مسلکی موشگافیوں کو سب سے بڑا فتنہ تصور کرتے تھے۔ حکمِ شرعی کا اطلاق فرد کی ظاہری حالت پر کرتے ہوئے باطن کی کیفیت کو خدا پر چھوڑنے کے قائل تھے۔ اس لئے جو لوگ دین کے اساسی اعتقادات پر ایمان لاتے ہوئے خود کو مسلمان کہتے تھے وہ انھیں مسلمان سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ خوارج، معتزلہ،جمہیہ، یا قدریہ جیسی جماعتوں کے ضلال وانحراف کے اظہر من الشمس ہوجانے اور ان سے ہر طرح اختلاف کے باوجود وہ ان کی تکفیر نہیں کرتے تھے۔ تاہم فقہی اور گروہی چپقلشوں کی گرم بازاری جب عروج پر پہنچی تو حضرت امام شافعیؒ تک کو تکفیر کا نشانہ بنایا گیا۔ لیکن یہ مظہر محدود رہا۔

البتہ متاخرین فقہا میںجب تقلیدی جمود پیدا ہوا، ان کے ایک طبقے میں دنیا داری سرایت کرگئی اور اس نے بڑے بڑے سرکاری مناصب کے حصول کے لئے فقہ کو پڑھنا شروع کردیا، جس پر امام غزالیؒ جیسے لوگوں نے شدید تنقید کی ہے، تو اس سے علما کے درمیان حلقہ بندی میں شدت پیدا ہوئی۔ فقہ میں انتشار کی کیفیت جو چوتھی صدی کے بعد ہی شروع ہوگئی تھی اس میں سنگین اضافہ ہوگیا اور یہ شعبہ زوال کا شکار ہوتا چلا گیا۔ باہمی کشمکش کے اس ماحول میں تکفیر بازی کو ایک اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔

عصری تناظر:

موجودہ دور میں اس نے دوبارہ ابتدائی قالب کو اختیار کرکے خود کو نئی شکل میں ظاہر کیا۔ جماعة التکفیر والہجرة۔ جس کی نظر میں چوتھی صدی ہجری کے بعد پوری اسلامی دنیا عملاً کفر کی راہوں پر گامزن ہے۔ کا فکری منہج خوارجی منہج فکر کا چربہ ہے۔ خوارجی منہج فکر نے اس کے علاوہ دوسری مذہبی سیاسی جماعتوں پر اپنے اثرات ڈالے جن میں مصر اور پاکستان کی متعدد عسکریت پسند جماعتیں شامل ہیں۔ پاکستان کی وہ جماعتیں جو خود اپنے دعوے کے مطابق پاکستانی حکومت کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہیں، حکومتی مشنریز، عملے اور اثاثوں کو عام اور خود کش حملوں کا نشانہ بنارہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی نظر میں حکومتی عملہ اور اس کے معاونین کا فر اور مباح الدم ہوچکے ہیں۔ پاکستان کے علما اور اصحاب فکر انتہائی تشویش کے ساتھ اس حقیقت کا اعادہ کررہے ہیں۔ یہ اب قطعاً کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ مسئلہ کس حد تک سنگین ہے؟ تکفیر کا جوہری بم کتنے لوگوں کو ہلاک و تباہ کررہا ہے۔ جماعۃ التکفیر و الہجرة جماعتی اور تنظیمی سطح پرباقی نہیں رہی البتہ عرب ممالک میں افراد کی سطح پر اس فکر کی باقیات موجود ہیں۔ پاکستان کی قتالی تحریک نے پاکستان کی سرزمین پر اس مردہ یا معطل تحریک میں جان لینے کی کوشش کی ہے۔

دورِ جدید میں اس مظہرکی توسیع کے اہم محرکات:

دورِ جدید میں خاص طور پر بیسویں صدی میں مسلم معاشروں کے اندر اس ظاہرے کی توسیع کے مختلف اور متعدد محرکات رہے ہیں، جن میں سے دو اہم محرکات یہ ہیں:

٭ طبقہ علما کے درمیان مسلکی و جماعتی سیاست پر مبنی چپقلشوں میں اضافہ

٭ مسلم عوام اور حکومت کے درمیان بے اعتمادی اور کشمکش کی سنگین صورتِ حال

علما کے مختلف گروہوں اور حلقوں کے درمیان چپقلش مسلم تاریخ کے ہر دور میں پائی جاتی رہی ہے اور یہ عین فطرت کا اقتضا ہے۔ لیکن بیسویں صدی میں اس نے نہایت بھیانک شکل اختیار کرلی۔ سنجیدہ علمی دائرے سے نکل کر اس نے فرقہ بندی اور جماعتی سیاست کا قالب اختیار کرلیا۔ اس کی وجہ نئے بدلتے سیاسی و سماجی نظریات اور ان کی بنیاد پر پیدا ہونے والی انقلابی تبدیلیاں تھیں۔ مسلم روایتی سماج اپنی زوال زدہ تہذیب کے ساتھ اپنے اندر ایسی بڑی تبدیلیوں کے تحمل کی قدرت نہیں رکھتا تھا۔ چناںچہ اس کے اندر بکھرائو کی کیفیت پیدا ہوئی اور اس بکھرائو کے بطن سے مختلف فکری حلقے اور طبقات وجود میں آئے۔ ان حلقوں کو کسی درجے میں باہم مربوط رکھنے والا عامل مغربی استعمار کے خلاف مشترکہ مسلم جذبہ اور ردِ عمل تھا۔ لیکن جیسے جیسے مسلم دنیا پر سے مغربی استعمار کے بند ڈھیلے ہوتے گئے، یہ جذبہ ماند پڑتا چلا گیا۔ مقابلہ آرائی او رکشمکش کی صورتِ حال نئے اسلوب اور انداز میں شدت اختیار کرتی چلی گئی۔ حریف کو ذہنی طور پر شکست دینے اور فکر کے میدانِ جنگ میں غنیم کو تڑپتا ہوا دیکھنے کی آرزومیں ہر فریق نے تیغِ تکفیر کا استعمال کیا۔

(2) مسلم دنیا سے استعمار کے خاتمے کے بعد جس مسلم دانش ور طبقے نے سیاست کی باگ ڈور سنبھالی اس کا فکر مغرب کے خمیر سے تیار ہوا تھا، اس لئے وہ اسلام اور مسلمانوں سے زیادہ مغرب کا وفادار تھا۔ اس لئے مسلم عوام نے ذہنی طور پر اس طبقے کو مسترد کردیا۔ اس طرح عوام اور ریاست کے درمیان بے اعتمادی اور کشمکش کی افسوس ناک صورتِ حال پیدا ہوگئی۔ مسلمانوں کی عظمت گزشتہ کو بحال کرنے کی رومان پرور خواہشوں کی بنا پر اس معاملے میں عوام کے جس طبقے نے حکمراں طبقے کے خلاف تکفیر کے شمشیرِ براں کا استعمال کیا، وہ نوجوان اسلام پسندوں کا تعلیم جدید کا حامل وہ طبقہ تھا، جس کی فکری تربیت میں دورِ استعمار میں استعمار مخالف اسلامی تحریکات نے اہم رول ادا کیا تھا۔

دوسرے درجے کے محرکات میں مسلم سماج میں ان عناصر کا زور پکڑنا ہے، جو دین سے بے بہرہ اور لاپروا ہی نہیں تھا، بلکہ وہ دینی اقدار و احکام کی پامالی اور استہزا کو جدید تہذیب اور روشن خیالی کا مقتضا تصور کرتا تھا۔ وہ قومیت کی سطح پر مسلمان کہلاناتو پسند کرتا تھا ،لیکن اسے یہ پسند نہیں تھا کہ وہ بنیادی امور میں بھی اسلامی شریعت کا قلادہ اپنی گردن میں ڈالے۔ عوام کے مطالبے پر علما اور دین پسندوں نے ان کے خلاف مورچہ سنبھالا اور اس مورچہ بندی میں انھوں نے تکفیر کا بھی عصا استعمال کیا۔

اسی طرح ایک اہم عامل یہ بھی ہے کہ حدیث میں کی گئی پیش گوئی کے مطابق ”راسخین فی العلم“ علما کی تعداد کم ہوتی چلی گئی۔ خطبا کی تعداد بڑھ گئی اور فقہا کی تعداد گھٹ گئی۔ حلقہ واریت کے شکار تنگ نظر اصحابِ علم نے احتیاط واعتدال کی روش میں اسلام کا نقصان سمجھا اور اس طرح اسلام کے نادان دوست کا کردار ادا کیا۔

تکفیر بازی کے عواقب اور نقصانات:

گزشتہ سطور میں تکفیر بازی کے پس منظر اور صورتحال کے بیان میں ضمناً اور بالواسطہ اس کے نقصانات کا پہلو بھی سامنے آیا ہے، تاہم علاحدہ اور با ضابطہ طور پر اس کی مزید تشریح و وضاحت کی ضرورت ہے۔

مختلف مسلم جماعتوں میں تکفیر کی روش کا نقصان امت کی فکری اور اجتماعی پراگندگی کی شکل میں سامنے آیا۔ جہاں اس صورتحال میں زیادہ شدت پیدا ہوئی وہاں مسلم معاشرہ دولخت ہوکر رہ گیا۔ لوگوں کے دل بٹ گئے اور لوگ آپس میں دست وگریباں ہوکر رہ گئے۔ ہندوپاک میں دیوبندی و بریلوی اور پاکستان کے خاص تناظر میں شیعہ، سنّی اختلاف و تصادم کی صورتِ حال اور اس کے نتائج سامنے ہیں۔ پاکستان میں شیعہ و سنّی مذہبی رہنما اور عوام اس کے شکار ہوئے۔ محرم کے جلوسوں پر خود کش حملہ کیا گیا، اسی طرح سنّی مساجد، اجتماعات بھی اس طرح کے حملوں کی زد میں آئے۔ ہندوستان میں شیعہ سنّی کشمکش میں کافی کمی آئی ہے۔ اس میں یہاں ان دونوں جماعتوں کے بعض قائدین نے اہم رول ادا کیا ہے۔ تاہم دیوبندی، بریلوی کشمکش کی صورتحال میں کوئی نمایاں کمی نظر نہیں آتی۔ بعض جگہوں پر دیوبندیوں کے بریلوی مسجدوں میں داخلے پر مسجدوں کے دھلوالینے یا انھیں مسجد سے باہر کردینے کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل مرادآباد میں ایک دیوبندی کے پیچھے نماز جنازہ پڑھنے کی بنا پر شرکا نے نماز سے نکاح کے فاسد ہونے کا بریلوی مفتی کی طرف سے فتویٰ دے دیا گیا۔ کیوں کہ جماعتی نظریے کے مطابق، یہ ایک کافر کی اقتدا میں نماز پڑھنا تھی، میڈیا میں اس واقعے کے غلغلے نے اسلامی شریعت اور طبقہ علما کا مذاق اڑانے والوں کی راہ ہموار کردی۔ دوسری طرف اس سے اسلامی اجتماعیت پر جو شدید ضرب پڑی اس کا اندمال آسان نہیں۔

تاہم نظریہ تکفیر میں افراط و تفریط کا سب سے بڑا نقصان اس شکل میں سامنے آیا کہ بعض مسلم ممالک میں حکومت کے خلاف سرگرم شدد پسند جماعتوں نے اسے حکومت کے ساتھ خفیہ جنگ کی سب سے اہم بنیاد اور سب سے موئثر ہتھیار بنالیا۔ جیسا کہ اوپر تذکرہ کیا گیا، ایسی جماعتوں نے ”مغرب دوست اور مغرب کی آلہ کار“ ان مسلم حکومتوں کو اس بنا پر کافر قرار دے کر ان کے خلاف جنگ چھیڑدی۔ بظاہر یہ غیر مختتم جنگ ہر طرح سے متعلقہ ممالک، مسلمان اور اسلام کی کمزوری اور ہوا خیزی پر منتج ہورہی ہے۔ اس طرح خود اپنوں کے ہاتھوں خونِ مسلم کی ارزانی کے ساتھ اجتماعیت کے دھاگے کو بکھیرنے میں تکفیرِ مسلم کے مظہر نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

شریعت کا موقف:

ان تفصیلات کے بعد یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ تکفیر مسلم کے تعلق سے اصل شرعی موقف کیا ہے؟ اس کے لئے سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی ان احادیث کو سامنے رکھنا چاہیے:

٭ جس کسی نے کسی مومن کی تکفیر کی تو یہ ایسا ہے جیسے اس نے اس کا قتل کردیا۔ ( بخاری،احمد)

٭ اگر کوئی اپنے بھائی (مسلمان) کو کافر کہے تو ان میں سے کوئی ایک کفر کی زد میں آجائے گا۔

امام غزالیؒ نے” فیصل التفرقہ بین الاسلام والزندقہ“ میں لکھا ہے کہ:

”اصل ایمان تین ہیں: اللہ پر ایمان، رسول پر ایمان اور آخرت پر ایمان۔ اس کے علاوہ فروع ہیں۔ جاننا چاہیے کہ فروع میں اصلاً کسی کی تکفیر نہیں کی جاسکتی، سوائے ایک مسئلے کے اور وہ یہ کہ کوئی شخص اصولِ دین میں سے کسی چیز کا جو رسول اللہ ﷺ سے تواتر کے ساتھ ثابت ہو، انکار کرے۔“

اپنی ایک دوسری کتاب ”الاقتصاد فی الاعتقاد“ میں غزالی نے لکھا ہے کہ: ”غلطی سے ایک ہزار کفار کو چھوڑدینا یہ اس کے مقابلے میں ہلکا ہے کہ غلطی سے ایک مسلمان کا خون بہا یا جائے“فیصل التفرقۃ میں انہوں نے یہ بامعنی بات لکھی ہے کہ تکفیر میں تو خطرہ ہے لیکن سکوت میں کوئی خطرہ نہیں ہے۔

شرح عقائدنسفی (ص 121)میں اہلِ سنت والجماعت کا یہ اصول بیان کیا گیا ہے کہ کسی اہل قبلہ کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ شرح مواقف میں ابوحنیفہؒ کا موقف لکھا گیا ہے کہ وہ اہل قبلہ میں سے کسی کی تکفیر نہیں کرتے تھے۔

علامہ سبکی کا قول خاص طور پرتوجہ کے قابل ہے، فرماتے ہیں:

”جب تک ایک شخص لا الہ الا اللہ و محمد رسول اللہ میں یقین رکھتا ہو، اس کی تکفیر کرنا مشکل ہے۔“

امام ابوحنیفہ سے یہ بات مروی ہے اور ملاَّ علی قادریؒ نے شرح فقہ اکبر میں لکھا ہے کہ اگر کسی میں ۹۹ وجوہ کفر کی پائی جائیں لیکن صرف ایک وجہ اس کے خلاف پائی جائے تو ایسے شخص کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ (ص:146(

اس مسئلے کے ذیل میں مولانا حسین احمد مدنی نے نقوش حیات (۱/۶۲۱)میں مولانا رشید احمد گنگوہی کے حوالے سے لکھا ہے کہ انہوں نے انوار القلوب میں لکھا کہ:اگر۹۹۹ وجوہ بھی کفر کی ہوں تب بھی کسی اہل قبلہ کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔اس موقف کے باوجود بعض اہم دیوبندی علماء نے اس سلسلے میں شدیدغلطیاں کیں جس کے نتیجے میں مولانا حمید الدین فراہی اور مولانا شبلی نعمانی جیسے اہم علماء بھی تکفیر کے فتوے سے نہیں بچ سکے اور جہاں بریلوی مکتبہ فکر کا معاملہ ہے وہ پوری دیوبندی اور اہل حدیث برادری کی کھل کر تکفیر کرتے ہیں ۔فتویٰ رضویہ میں یہ فتویٰ منقول ہے کہ دیوبندیوں کے کفر میں جو شک کرے وہ بھی کافر ہے۔امام احمد رضا کے نزدیک تمام دیوبندیوں (جس میں اہل ندوہ بھی شامل ہیں)کا کفر بالکل اپنے حقیقی مفہوم میں ہے۔چناں چہ ان کا فتویٰ یہ بھی ہے کہ دیوبندیوں سے مسلمانوں جیسا معاملہ کرنا ،ان کو اجرت پر رکھنا حتی کہ انھیں قربانی کا گوشت دینا تک حرام ہے۔

بہر حال تکفیر بازی ایک بڑے مرض کی طرح امت مسلمہ سے چمٹی ہوئی ہے۔پورے مسلم معاشرے کو اس نے ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دیا ہے۔ مسلمانوں کے مذہبی و سیاسی حلقوں میں نظریاتی انتہا پسندی میں اس سے شدید اضافہ ہوا ۔ضرورت ہے کہ اس مسئلے پر سنجیدگی کے ساتھ غور وفکر کر کے ،متحدہ طور پر اس صورت حال کے علاج کی تدبیر ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے۔فکری اور سماجی دونوں طرح کے امن کے لئے یہ انتہائی ضروری ہے۔

بشکریہ  اردو تہزیب ڈاٹ نییٹ

URL: https://newageislam.com/urdu-section/takfir-its-implications-/d/7208

Loading..

Loading..