حضرت نظام الدین میں واقع ہیڈ کوارٹر میں تبلیغی جماعت کے امیر مولانا محمد سعد کاندھلوی کی کورونا وائرس اور وباؤں پر تقریر۔۔۔۔۔۔(۱)
ٹرانسکرپٹ نیو ایج اسلام ایڈٹ ڈیسک
20 مارچ 2020
کسی بھی طرح کے عذاب سے نپٹنے کے لئے تدابیر اختیار
کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تدبیر اختیار کرو اور تقدیر پر امید کرو۔تدبیر اختیار
کرکے تقدیر پر امید کرنے کا کیا جواز اور کیا تعلق ہے۔ تقدیر سے امید تو وہ کرے گا
جو تدبیر پر اللہ تعالی کی اطاعت کو اور
عبادت اور دعوت کوتمام تدابیر پر مقدم کرے گا۔ اگر خدا نہ کرے مسلمان نے تدبیر کو
مقدم کیا اعمال پر تو میں قسم کھاکر کہہ سکتاہوں
کہ یہ تمہاری تدبیریں تمہیں مساجد سے
محروم کردینگی۔ تم عذاب کو بڑھانے کی طرف چلوگے عذاب کو ختم کرنے کی طرف نہیں
چلوگے۔ تمہیں تمہارے اسباب دھکیلیں
گے تدابیر سے اللہ کے نظام کا مخالف بنانے کی طرف حالانکہ
اللہ تعالی کا دستور ہے اور نبی کی سنت ہے اور صحابہ کرام کا معمول ہے اور خلفاء راشدین
کا طریقہ ہے کہ جس طرح کا بھی عذاب آئے تمہیں دوڑنا چاہئے مسجدوں کی طرف۔۔ اس لئے
میں کہتاہوں کہ اگر تمہارے تجربے میں یہ نظر بھی آجائیکہ مسجد میں آنے سے آدمی مر جائے گا تواس سے بہتر
مرنے کی جگہ کہیں ہو ہی نہیں سکتی۔ ہائے
ہائے، صحابہ تمنا کرتے تھے کہ دعوت دیتے
ہوئے موت آجائے، نماز میں موت آجائے۔ انہیں نماز میں خطرات نظر آرہے ہیں۔ یہ نماز
چھوڑ کر بھاگیں گے تاکہ عذاب سے بچ جاویں۔
اللہ عذاب لایا نماز چھوڑنے کی وجہ
سے یہ عذاب ہٹاویں گے نماز چھوڑنے کے ذریعے سے۔سوچو تو سہی، کتنی الٹی سوچ ہے۔
اللہ عذاب لارہاہے مسجدوں کو چھوڑنے کی وجہ سے یہ
عذاب ہٹائیں گے مسجدوں کو چھوڑنے کے ذریعے سے۔ سوچو تو سہی کتنی الٹی سوچ
ہے۔ شیطان کا وسوسہ ہے کہ اور جتنے اہل
باطل ہیں وہ ایسے موقعے سے فائدہ اٹھاکر کہتے ہیں کہ ہم اہل دنیا ہم جانتے ہیں تم مولوی
علماء تم کیاجانو بیماریوں سے دفاع کیسے
ہوتاہے۔ ڈاکٹر جانتے ہیں۔ نہیں صرف اس ڈاکٹر کی رائے قابل قبول ہوسکتی ہے
جو ڈاکٹر خود متقی دیندار اللہ سے ڈرنے والا اور عمل کا شوقین اور پابند ہو۔ وہ بھی
اگر وہ ایسا مشورہ دیتاہے جس سے عمل ضائع
ہو تو اس پر بھی اس کی بات نہیں مانی جائے گی۔ چہ جائیکہ کوئی عالم فاضل شخص یہ
کہے کہ مسجدوں کو بند کردینا چاہئے اور مسجدوں
کو تالا لگادینا چاہئے۔ اس سے بیماری بھاگے گی۔ یہ خیال دل سے نکال دو۔
ہاں، ہاں احتیاطی تدابیر اپنی جگہ ہیں۔ لیکن اس خیال سے مسجدوں کو چھوڑ دینا اس سے
عذاب بڑھے گا۔ یہ اللہ کے دستور، خلفائے راشدین کے معمول اور صحابہ کرام کے طریقے کے بالکل خلاف ہے۔
وہاں تو ہر عذاب ہر وبا کے آنے پر مسجدوں کی طرف بالارادہ آیا جاتاتھا اور اس زمانے
میں عذاب اور وبا کو ہٹانے کے لئے
بالارادہ مسجدوں کو چھوڑا جائے، کتنا غلط جذبہ ہے۔اللہ جزائے خیر دے علمائے حق کو
کہ اس بات پر جمے ہوئے ہیں کہ مسجدوں کو کسی حال میں بند کرنے کا کوئی سوال اور اس
کا کوئی جواز ہے ہی نہیں۔ شیطان نے اس موقعے سے فائد ہ اٹھاکر تدبیر اور علاج اور احتیاط کے نام سے انہیں عمل سے ہٹانے کا کہ
ہمیشہ سے یہ معمول ہے شیطان کا کہ جب کوئی
حادثہ پیش آتاہے تو شیاطین ایسے حادثے
کے موقع پر حادثے کے شکار لوگوں سے ایسے کام کرادیتے ہیں جس سے اجر ضائع
ہوجائے اور مصیبت بڑھ جائے ۔یہ وقت مسجدوں کو آباد کرنے اور امت کو توبہ کی طرف
لانے کا ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اپنی دعاؤں میں قبولیت پیدا کرنے کا وقت ہے۔ یوں باطل تدابیر پر کان
دھرنے کا موقع نہیں ہے۔بڑا وہم دے دیاہے، بڑا خوف شیطان نے دل میں بٹھادیاہے کہ یہ
کروگے تو یہ ہوگا، یہ کروگے تو یہ ہوگا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کوئی
شخص اگر اپنی زبان سے صرف یہ کہہ
دے کہ اگر یوں کرتے تو یوں ہوجاتا اس کو چاہئے کہ آگ کا ایک دہکتاہوا انگار ہ اپنی زبان پر رکھے
جو زبان کو جلا کر ختم کردے۔ یہ زیادہ
بہتر ہے یہ کہنے سے کہ یوں کرتے تو ہوں
ہوجاتا۔ نہیں ہرحال میں غور کرو کہ اللہ ہم سے کیا چاہتے ہیں اور صحابہ کرام کا کیا معمول ہے۔ تمہیں وہم دے دیا ہے دل میں بیماری
کا، دے دیا نہیں بٹھایاگیاہے۔ اموات کہاں نہیں ہوتیں؟ اور کتنے اموات امراض سے؟ہمیشہ
یہ یاد رکھنا کہ مومن کا ایمان ہے کہ کبھی
بھی موت سبب کی وجہ سے نہیں آتی ہاں اللہ
تعالی جب موت لاتے ہیں تو کبھی کبھی سبب
بھی لے آتے ہیں۔ میری بات توجہ چاہتی ہے۔ سبب سے موت نہیں آتی بلکہ موت کے کبھی اسباب آجاتے ہیں۔ کیوں آتے ہیں؟ اللہ موت کے اسباب ا سلئے
نہیں لاتے کہ اللہ اس کو اس سبب سے
مارنا چاہتے ہیں۔ نہیں، نہ اللہ کو
سبب کی ضرورت ہے موت کے لئے اور نہ ملک الموت کو سبب کی ضرورت ہے روح
نکالنے کے لئے۔ اللہ موت کے مقدر
ہوجانے اور اس موت کے آجانے کے وقت سبب صرف اس لئے لاتے ہیں تاکہ وہ یہ دیکھیں کہ مرنے والا یا اس کے متعلقین موت کو سبب
کی طرف منسوب کرتے ہیں یا میر ے عمل کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اتنی سی بات
ہے۔ آپ دیکھیں گے ساری دنیا میں کہ مرنے
والوں کو اللہ کا حکم اور وقت آجاتاہے مگر
وہ یہ نہیں کہتے کہ وقت آگیا۔ لوگ پوچھتے ہیں، کیا ہواتھا، کیا ہواتھا، بیمار
تھے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی کا انتقال ہوگیا۔ ہائے ایسے کوئی
مرتاہوگا۔مجھے تو اس بات کا شک ہے کہ مرے بھائی عبدالرحمن کو یوں ہی دفن کردیا گیا۔
اس کی وفات نہیں ہوئی۔ نہ بیمار ہوا نہ کوئی تکلیف ہوئی۔ یعنی کہ ہمیشہ
میرے دل میں وسوسہ رہا۔ ایک دن میں نے دیکھا اپنے حجرے سے ایک آدمی آیا، اچھا خاصہ ٹھیک ٹھاک۔ وہ سواری سے اترا۔ باہر سے آیا اور
اس نے اپنی چادر اپنے سر کے نیچے رکھی اور لیٹا۔ تھوڑی دیر میں نماز کا وقت ہوگیا۔
پھر اسے ہلایا، اٹھایا نماز کے لئے تو وہ مراہواتھا۔ کہنے لگیں کہ اس کے بعد میرے دل سے ہمیشہ کے لئے
خلجان ختم ہوگیا۔میں سوچتی تھی ایسے
بھی کوئی مرتاہوگا؟ میں نے عرض کیا کہ موت سبب سے نہیں آتی۔ اگر واقعی
موت اسباب سے آتی تو تو دنیا میں موت کے
اسباب حیات کے اسباب سے کہں زیادہ ہیں ۔اور جتنی
دنیا ترقی کررہی ہے اس میں بظاہر موت کے اسباب زیادہ نظر آتے ہیں۔ اس لیے ہم نے عرض کیا کہ اس
وہم میں خوف میں شیطان نے ڈال دیا ہے ا ور
بس۔ یہ سوچ کر بچارے کہ قانون یہ ہے، اور احتیاط یہ ہے عمل اور عمل کی جگہ کو چھوڑنے کی کوئی گنجائش
نہیں ہے۔ ہاں، احتیاطی تدابیر اختیار
کرنا ایک سنت ہے اور سنت سے انکار
کرنا اس کو توکل کے خلاف سمجھنا اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ ایسا کرینگے تو ایسا ہوگا یہ عقیدے کی بھی خرابی ہے اوریقین کی بھی خرابی ہے۔ یہ وقت
ہے امت کو توبہ کی طرف اللہ کی
طرف اللہ کے گھر کی طرف لانے کا۔ بجائے اس کے کہ اس بات
کی کوشش کریں جو احتیاطی تدابیر ہیں وہ اختیار
کی جائیں۔ اور اللہ پر بھروسہ
کرنا؟ ہائے قرآن تو پڑھتے نہیں جو
اللہ پر بھروسہ کریں۔ اخبار پڑھتے ہیں بیچارے۔
ایک خبر سنتے ہیں مایوس ہوجاتے ہیں،
ایک یہ خبر سنتے ہیں عمل سے بھاگنے لگتے ہیں کہیں یہ خبر سنتے ہیں تو پوری طرح اللہ کی رحمت سے مایوس ہوجاتے ہیں۔اللہ
رب العزت کوئی بھی وبا یا کوئی بھی مرض یا
کوئی بھی مصیبت صرف اس لئے لاتے ہیں کہ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ میرا بندہ اس
حال میں کیا کرتاہے۔اگر محض تدابیر میں لگ گئے تو پھر قدرت سے فائدہ نہیں
اٹھاسکتے۔اور اگر عمل میں لگے رہے تو اللہ تعالی تمہیں ایسی تدبیریں الہام کریں گے
کہ بلکہ آپ نے تو یہ سوچا بھی نہہیں ہوگا
کہ اللہ تعالی اس زمانے میں بھی کسی بھی آنے والی وبا یا کسی آنے والے دشمن کے خلاف مسلمانوں کی اس طرح مدد کرینگے جس طرح اللہ نے صحابہ کی مدد ظاہر کے خلاف کی۔ تلوار ٹوٹ گئی۔ اب کیا کریں؟
دشمن سامنے مقابلے پر۔تازہ
درخت کی ٹہنی ہاتھ میں آتے ہی تلوار بن گئی۔ اللہ تعالی یہی چاہتے ہیں۔
جو میں کہہ رہاہوں وہ تم کروجو حال تم پر آوے گا
اس حال سے میں نپٹوں گا۔ میں کیابتاؤں
اس زمانے کے مسلمانوں کی۔ اللہ کے
عذاب سے خود نپٹنا چاہتے ہیں اور اس کے عذاب
کا مقابلہ اپنے اسبا ب سے کرنا چاہتے ہیں۔ جب اللہ کے غیبی خزانوں سے، ملائکہ اور اللہ تعالی کے لشکروں کا یقین دل سے نکل جاتاہے تب ان کو فوج اور ہتھیار اور مادی شکلیں نظر آتی
ہیں۔ اپنے دفاع کے لئے۔ تو میری بات یادرکھنا
ان شکلوں کے ضابطے طریقے
ایسے ہیں کہ انکے لئے مسلمانوں کو
عمل چھوڑنا ہی پڑے گا۔غیروں کے ضابطے اور انکی
مادی شکلوں کے طریقے ایسے ہیں کہ اس کے لئے مسلمان کو عمل چھوڑنا ہی پڑے گا۔ وہ یہ کہیں گے
کہ آپ ہماری اسکیم پر چلیں ہماری اسکیم یہ ہے کہ علم کے حلقے ختم کرو مسجدوں میں نمازیں ختم کرو۔ آپ نظام
ہمارے ہاتھ میں دیتے ہیں تو آپ کے مرض کا
ہم علاج کریں گے۔ ہرگز ایسا نہیں۔ ہرگز ایسا
نہیں۔ مسلمان اصل کائنات ہے، کفار اصل
کائنات نہیں ہیں۔ جتنا بھی نظام کائنات کا چلے گا مسلمان کے عمل پر چلے گا۔ اس سے سارے اشیاء، سارے انعام اور ساری
مخلوق فائدہ اٹھائے گی اور ساری مخلوق کو مسلمان کے عمل سے راحت ملیگی اور ساری مخلوق
کو مسلمانوں کے گناہ سے تکلیف پہنچے گی۔ اصل کائنات خود مسلمان ہی ہیں۔ مسلمان کے لئے تو یہ سوچنے کی گنجائش بھی نہیں
ہے کہ بھئی ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ یہ تو بیچارے
جو اللہ کو نہیں جانتے وہ سوچتے ہیں کہ بھئی
اس بلا کا اس مصیبت بیماری کا دفاع کس طرح کریں۔ محض
مادی اسباب تو کفار
سوچتے ہیں۔ اور اعمال کو اور
عبادات کو مسلمان سوچتاہے۔ اس وقت کا کیا عمل ہے۔ اگر مسلمان بھی غیروں کی طرح اس
طرح سے بیٹھ جاوے گا تو پھر وہ بھی کہے گا
کہ ہاں اس وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ اس عمل
کو فی الحال چھوڑدیا جائے۔ اس حال کے لئے
عمل کو چھوڑدو گے تو وہ زیادہ برا ہوجائے
گا۔ حضور اکرم ﷺ نے ہر امتی کو مسائل کے حل
کے لئے ایسا مسجد سے جوڑا تھا کہ انہیں
مسجد سے باہر کسی مسئلے کا حل نظر
آتا نہیں تھا۔ اللہ کی طرف آنا مسجد کی
طرف آنے کو ہی کہتے ہیں۔ وکیل کی طرف جانا
اس کے دفتر کی طرف اور وزیر کی طرف جانا اس کی وزارت کی طرف جانے کو کہتے ہیں۔اسی
طرح اللہ کی طرف آنا، اللہ کے گھر میں اللہ کے گھر کی طرف آنے کو کہتے ہیں۔ اگر
کوئی غیر مسلم کہتاہے کہ مسجدیں چھوڑدو انہیں کیا پتہ کہ مسجد کیاہے۔ تو
جہان فرشتوں کے نزول سے صحت اور اطمینان آتاہے وہاں انکو بیماری نظر آرہی ہے۔ یہ ہمارا اندھاپن ہے۔ یہ
ہمارا اندھا پن ہے۔
ٹرانسکرپٹ نیو ایج اسلام ایڈٹ ڈیسک
20 مارچ 2020
میرے دوستو اور عزیزو روزوں کا اہتمام کرو، روزے رکھو اور اوراد کی کثرت کرو۔ بس یہی یک راستہ ہے اس سے نجات کا۔ رہا احتیا اور ط ڈاکٹروں کی ہدایات پر عمل کرنا یقین کے توکل شریعت کے خلاف نہیں۔ بلکہ احتیاط نہ کرنا اور پھر اگر کوئی نقصان ہو تو اپنے آپ کو ہی ملامت کرنا چاہئے۔اس لئے چاہئے کہ ہم قوانین کا اور ٖڈاکٹروں کی ہدایات کا صرف اس درجے تک اہتمام کریں جہان تک کوئی عمل ضائع نہ ہو۔ جہاں عمل ضائع ہوجائے گا تو اللہ تمہیں ڈاکٹروں کے حوالے کردینگے اور اللہ مدد کا ہاتھ کھینچ لینگے۔ میں پھر سے کہہ رہاہوں قوانین کا، ڈاکٹرو ں کی ہدایات کا ہم سب اہتمام کریں یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے اور سارے عالم کو کرنا چاہئے۔ قانون کی رعایت کرنا اور ڈاکٹروں کی ہدایات کی رعایت کرنا ہمارا بنیادی اصول ہے۔ یہ دعوت اور تبلیغ کا بنیادی اصول ہے۔ دنیا کے کسی قانون کا یا پولیس کی کسی ہدایت کے خلاف کرنا دعوت و تبلیغ کے مزاج اور اصول کے بالکل خلاف ہے۔ اس لئے میں عرض کیا ہے کہ اس پر عمل کرنا احتیاط کرنا توکل یقین اور شریعت کے خلاف نہیں، بالکل عین مطابق ہے۔ اگر آپ احتیاط کو توکل کے خلاف کہیں گے تو انبیاء اور صحابہ کے توکل کو اختیار کرنا پڑے گا۔ صاف بات۔ یہ ذرا خطرناک بات ہے۔ اگر ہم اس کو اس طرح ہلکے میں لیں۔ میں نے عرض کیا کہ انبیاء نے بھی صحابہ کرام نے بھی اپنے تحفظ کے لئے حضور اکرم ﷺ کا باوجود اللہ کی طرف سے مدد کا وعدہ ہونے کے آپکا جنگوں میں خود، پہننا، ذرہ پہننا، صحابہ کا ذرہ پہننا یہ سب کے سب احتیاط کے اور حفاظت کے اسباب اور اس کی تدابیر ہیں۔ اس کا انکار کرنا بے احتیاطی برتنا خود کوئی عقل مندی کی بات نہیں۔ اس لئے میں نے عرض کیا ہے کہ اس وقت جواحتیاط بتائی جائے اس پر عمل کرنا مگر پھر عرض کرتاہوں دوبارہ کہ اس حد تک احتیاط کریں کہ کوئی عمل ضائع نہ ہو۔ ورنہ اگر خدا نہ کرے کوئی عمل ضائع کردیا احتیاط کے چکر میں تو اللہ تعالی ہاتھ کھینچ لیں گے۔ پھر تو اس کا وعدہ کسی سبب پر نہیں ہے۔ تدابیر بطور احتیاط کے ہیں اعمال بطور یقین کے ہیں۔ تدابیر یقینی نہیں ہیں اعمال یقینی ہیں۔ تدابیر بطور احتیاط کے ہیں اور اعمال بطور یقین کے ہیں۔ بس اس کا سب خیال رکھیں اور راتوں کو تہجد میں اٹھ کر اللہ تعالی سے دعائیں مانگو اور بجائے بیماری کے تذکرے کرنے کے اللہ کا ذکر بڑھاؤ۔ اور اتنا عرض کروں گا کہ جماعتیں واپس علاقوں کی طرف جارہی ہیں اور جانا چاہئے اور ہر جگہ رہ کر نفل روزوں کا اور نفل نمازوں کا اور تہجد اور رات کو قیام اور دعاؤں کا اہتمام کریں اور کسی عمل کو ضائع نہ ہونے دیں۔ یہ وقت ضائع کرنے کا نہیں ہے۔ اور یہ بھی یاد رکھو بعض مرتبہ شیطان زبان سے ایسے جملے باضابطہ نکلودیتاہے جس سے اللہ تعالی کی طرف سے آنے والے عذاب کا تمسخر اور اس کا مذاق ہو جاتاہے۔ اس ہپر اللہ تعالی عذاب کو بڑھا دیتے ہیں غصے میں آکر۔ اگر عذاب کا مذاق اڑایا جاے تو اللہ تعالی اعذاب کو بڑھادیتے ہیں۔ یہ پچھلی قوم کے ساتھ ہو چکاہے۔ جب بھی کسی قوم نے اللہ کے عذاب کے آنے پر تضرع اور توبہ استغفار اور اپنے گناہوں کا اعتراف نہیں کیا اور اللہ کے عذاب کا مذاق اڑایا اللہ تعالی نے ان کو ہلاک کردیا۔ اس لئے میں کہتارہا ہوں کہ یہ موقع ا س قسم کا نہیں ہے کہ ہم مختلف قسم کی بیماریوں پر تبصرے کریں ہنسیں یا اسکا مذاق بنائیں۔ نہیں بے شک اللہ اس سے ؔآزاد ہے اور عذاب ہی کی شکل میں ہے۔ یہ وقت توبہ استغفار دعوت اور دعاؤں کی مقدار بٖڑھانے کا وقت ہے۔
۔۔۔۔
حضرت نظام الدین میں واقع ہیڈ کوارٹر میں تبلیغی جماعت کے امیر مولانا محمد سعد کاندھلوی کی کورونا وائرس اور وباؤں پر تقریر۔۔۔۔۔۔(3)
ٹرانسکرپٹ نیو ایج اسلام ایڈٹ ڈیسک
22 مارچ 2020
بات یہ ہے کہ ان حالات میں ہر شخص یہ سمجھے کہ اللہ رب العزت مجھ پر ہاتھ براہ راست لائے ہیں۔ اور یہ بھی سب کے ذہن میں رہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ عذاب تو آئے کفار پر اور مسلمان اس میں پھنس جائے۔ یہ لوگوں کا خیال غلط ہے۔ ’بھئی وبا تو آئی تھی غیروں پر مسلمان اس میں پھنس گئے۔‘ معاملہ اللہ کا ہر مومن کے ساتھ براہ راست ہے۔ یہ تو ہم کبھی بھی نہیں مان سکتے ایمان اور عقیدے کی روشنی میں کہ بھئی اللہ کی طرف سے عذاب تو زمانے والوں پر آیا تھا بیچارے مسلمان بھی اس میں پھنس گئے۔قرآن کہتاہے کہ ہم جانتے ہیں کہ کون ہیں جن پر عذاب آئے گا اور کن پر عذاب نہیں آئے گا۔ہم جانتے ہیں۔ عزاب آئے گا تو ہم جانتے ہیں کہ عذاب کن کو پہنچے گا۔کس کو نہیں پہنچے گا۔یہ تو نہیں کہ عذاب کے لپیٹے میں سب آجاوینگے۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ ہم کسی پر اس کے علاوہ اگر عذاب لاتے ہیں تو وہ دوسروں کو ڈرانے کے لئے اور ان کو عمل کی طرف متوجہ کرنے کے لئے۔اسلئے یہ حالات عبرت لینے کے ہیں۔یہ نہیں کہ تھوڑے دن نمازچھوڑدو، تھوڑے دن یہ عمل چھوڑدو، تب یہ عذاب ہٹ جاوے گا۔ ارے؟ (قرآن کی آیت پڑھتے ہیں) عجیب! قرآن کی آیت ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو وبائیں اور عذاب کیا نصیحت کرینگے اور کیا انکی آنکھیں کھولیں گے۔ یہ نہیں سوچتے کہ وقتی چیز ہے۔اپنی جگہ پہ چلی جائیگی۔چلو تو سہی۔ ان کو نصیحت کوئی فائدہ نہیں دیتی۔آ ج بھی مسلمانوں کا یہ خیال ہے کہ یہ جو بیماری سی پھیل گئی ہے تھوڑے دن کی بات ہے۔ ٹل جائیگی۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ہم ہلکا عذاب تھوڑے دن کے لئے ہٹاکر دیکھینگے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ تم گناہوں کی طرف واپس جاؤگے پلٹ کر۔تم کہوگے ہوگیا گزرگیا۔ پانی کا بہاؤ تھا گزرگیا۔اس لئے میرے دوستو عزیزو یہ وقت توبہ اور تلاوت کا اور اللہ کی طرف متوجہ ہونے کا ہے۔یہ موقع تو امت کو مسجد سے جوڑنے کا ہے۔مسجدوں کو چھوڑنے کا نہیں۔یہ جہالت اور انتہائی بد عقیدگی اللہ سے دوری کی علامت ہے۔میں شروع میں عرض کرچکاہوں کہ جانور ہیں وہ جو ڈنڈے دیکھ کر اپنے مالک سے ڈر کر بھاگے۔آپ تو جانتے ہیں نا کہ بھینس کا مالک بھینس کو ڈر دکھا تاہے اپنی طرف لانے کے لئے۔بھئی ایسا ہی ہے کیا۔کون ہے کہ کون ہوگا جو اپنی دودھ دینے والی بھینس کو بھگائے۔بعض مرتبہ تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہ ڈنڈے کو چھپاکر بھینس سے آگے نکل جانا چاہتاہے۔تاکہ گھر کی طرف اس کو ہنکا یا جائے۔ڈنڈے کو چھپاکر چاہتاہے کہ وہ بھینس سے آگے نکل جائے۔تاکہ وہ ہنکا ئے اس کو گھر کی طرف۔اور اس زمانے کی یہ جہالت مسلمانوں کی۔ہم سمجھتے تھے کہ تمہیں اعمال سے کافر نہیں روکینگے۔اگر اعمال سے کفار روکنے لگیں تو اللہ انہیں تباہ کردینگے۔ہم سمجھتے تھے کہ کسی زمانے میں اسلام کو نقصان مسلمان سے ہوگا کفار سے نہیں ہوگا۔یہ خیال باطل خیال ہے لوگوں کا کہ غیروں سے اسلام کو نقصان پہنچ رہاہے۔ہرگز نہیں۔جتنا اسلام کو نقصان ہوگامسلمان سے ہوگا۔غیر اسلام کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔اگر سارا باطل ایک وقت میں جمع ہوکر ایک استنجے کی سنت کے مقابلے میں آجائیں تو باطل کی تباہی کے لئے کافی ہے۔سیدھی بات ہے۔ بھئی اندازہ کرو کہ فرائض سے روکنے پر کیسی تباہی آئیگی۔لیکن مسلمان ہی فرائض سے روکیں گے بجائے اس کے کہ مسجدوں کو آباد کرتے۔ اللہ کے گھر میں آکر پڑھتے، اللہ سے کہتے۔یہ نہیں کہ مسجد چھوڑدو، مسجد چھوڑدو، کہ تمہارے جمع ہونے سے بیماری آئے گی۔ہائے تو جن گناہوں کی نسبت سے جمع ہورہے تھے جس سے یہ عذاب آیا تھا اس کے مقابلے میں اگر اللہ کی رضا والے کاموں پر جمع ہوتے تو عذاب کیوں نہ ہٹے گا۔عجیب احمق قسم کے لوگ۔جن گناہوں کے اڈوں پر جمع ہونے کی وجہ سے عذاب آیا۔مسجدوں کو خالی کرکے عذاب کا علاج کررہے ہیں۔اس سے عذاب بڑھے گا یا ختم ہوگا۔کتنی الٹی سوچ ہے کہ نماز نہ پڑھو۔ گھروں پر پڑھ لو۔حالانکہ جو عذاب اللہ کے یہاں سے آنا مقدر ہوچکاہوتاہے اللہ تعالی ا س عذاب کو صرف ان لوگوں کی وجہ سے ہٹادیتے ہیں جو مسجدوں کو اعمال سے آباد رکھتے ہیں۔
کیا آپ اس حدیث کا انکار کرینگے۔کہیں گے کہ یہ تو وقتی طور پر کررہے ہیں۔ وقتی طور پر؟ اللہ تعالی کا جو عذاب آتاہے وہ کسی اعمال کی طرف سے متوجہ کرنے کے لئے آتاہے۔وہ عذاب یونہی نہیں آگیا کہ ہم دو چار دن لے لئے لائے ہیں، ہٹادینگے۔وہ ہٹ جائیگا تو تم پھر آجانا اعمال کی طرف۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔عذا ب کو ہٹانے کے لئے اعمال ہے یہ نہیں کہ تم اعمال کو چھوڑدو عذاب کے ہٹنے تک۔اس لئے میرے دوستو عزیزو، یہ موقع ہے مسجدوں کا اعمال سے آباد کرنے کا۔یہ موقع ہے مسجدوں کا اعمال سے آباد کرنے کا۔
حضرت نظام الدین میں واقع ہیڈ کوارٹر میں تبلیغی جماعت کے امیر مولانا محمد سعد کاندھلوی کی کورونا وائرس اور وباؤں پر تقریر۔۔۔۔۔۔(۴)
ٹرانسکرپٹ نیو ایج اسلام ایڈٹ ڈیسک
25 مارچ 2020
(۴) اب ذرا اندازہ کریں جہاں مسجدیں بالکل آباد نہی اعمال سے وہاں باہر کے ماحول میں کتنی ظلمتیں ہونگی۔ان ظلمتوں میں کتنے گناہ ہونگے۔ان گناہوں سے کتنے عذاب آئینگے۔اس لئے میرے دوستو یہ موقع محنت کرنے کا ہے۔اور امت کو مساجد سے جوڑنے کا ہے نہ کہ مساجد سے روکنے کا ۔اس لئے اللہ رب العزت کوئی بھی عذاب کوئی بھی ؔآزمائش اس لئے نہیں لاتے کہ مسلمان تدابیر کرنے اور علاج معالجے میں مشغول ہوجائیں۔بلکہ ایسے موقعوں پر عذاب کے آنے کے اسباب دیکھے جاتے ہیں۔عذاب ٹالنے کے اسباب نہیں دیکھے جاتے۔عذاب کو ٹالنے کے مادی اسباب نہیں دیکھے جاتے۔اور ان کے ساتھ ساتھ یہ یکھا جاتاہے کہ وہ کون کون سے اعمال ہیں جن اعمال پر اللہ رب العزت راضی ہوکر عذاب ہٹادیں۔ کسی بھی علاقے والے جماعت کی نقل و حرکت میں کسی بھی حالات کی وجہ سے ہرگز کمی نہ کریں۔مولانا صاحب فرماتے تھے جنہوں نے حالات کی وجہ سے خروج میں تاخیر کی انہوں نے اس سے زیادہ برے حالات کو دعوت دی ہے۔حضرت فرماتے تھے کہ جماعتوں کی نقل وحرکت کو کم کرنے کی وجہ سے جو عذاب صدیوں میں آنا تھا وہ مہینوں میں آجائے گا۔حضرت کا مفہوم ہے کہ تم نے کسی بھی حالات کی وجہ سے جماعتوں کے خروج میں ذرا بھی کمی کردی تو گویا تم نے اس سے بڑے عذاب کو دعوت دے دی۔اس لئے کہ کسی بھی طرح کے فتنے میں پڑنے والے وہ نہیں ہیں جو راہ خدا میں نکل جاویں۔ فتنے میں پڑنے والے والے وہ لوگ ہیں جو فتنے کی وجہ سے خروج میں تاخیر کریں۔قرآن نے اسی طرح بیان کیاہے۔ایسے ہی لوگ ہیں جو کہیں گے کہ اجازت دیجئے کہ اجازت دیجئے ابھی حالات نکلنے کے نہیں ہیں۔آپ جس جگہ جارہے ہیں وہاں فتنہ ہے۔فتنہ کسی بھی شکل میں ہوسکتاہے۔ معاشرے کی خرابی کی شکل میں امراض کی شکل میں کسی بھی شکل ہوسکتاہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ ہمیں اجازت دیجئے کی ہم مدینے میں رہیں کہ یہ موقع نکلنے کا نہیں۔ اللہ پاک نے قرآن میں فرمایاکہ جو آپ سے مدینے میں رہنے کی اجازت مانگ رہے ہیں اور نکلنے سے انکار کررہے ہیں ان کا نکلنا فتنہ نہیں بلکہ ان کا رہ جانا فتنہ ہے۔مولانا صاحب کا معمول تھا کہ جہاں بھی کسی فساد کی یا کسی وبا کی خبر آتی بس و ہ فوراً وہاں جماعت روانہ کردیتے اگر جماعت باوجود کوشش کے وہاں داخل نہیں ہوسکتی تھی تو وہ پوچھتے کہ حضرت ہم کیا کریں۔ حضرت فرماتے تے کہ جس علاقے میں فساد ہے تم وہاں کے آس پاس کی مسجد میں جاکر وہاں کے لوگوں سے توبہ استغفار کراؤ اور وہاں کے لوگوں کو ان اعمال کی طرف ا س یقین کے ساتھ جوڑو کہ اللہ کے عذاب کے ہٹنے کا یہی وا؎حد سبب ہے۔اس لئے کہ صحیح حدیث میں ہے کہ جو عذاب اللہ کے یہاں سے آنا مقدر ہوچکاہوتاہے وہ صرف مسجد کے آباد کرنے والوں کی وجہ سے ہٹادیا جاتاہے۔ان حالات میں مسجدوں کوچھوڑدینا اس حدیث کی خلاف ورزی ہے۔اس روایت کا انکار اور حدیث کا انکار کردینا یہ کہکر کہ یہ وقت جمع ہونے کا نہیں ہے کیونکہ جمع ہونے سے بیماری آوے گی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ تم نے اللہ تعالی کی طرف سے عذاب کے ہٹنے اورمدد کے آنے کے اسباب کو خود بدل دیا۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا میوات میں کہ ادھر سے جماعت داخل ہوتی تھی ادھرسے وبا نکل جاتی تھی۔ ادھر جماعت داخل ہوتی تھی ادھر سے عزاب اور فتنہ ختم ہوجاتاتھا۔ ا س لئے میں عرض کر رہاتھا آپ سب سے کہ یہ موقع کام کے بڑھانے کا ہے یہ موقع کام میں کمی کرنے کا نہیں۔ یہ وقت ہے اس کا کہ گشت کرکے لوگوں کو مساجد کی طرف لے کر آئیں۔یہ اس کا وقت ہے۔اس لئے کہ جو عذاب گناہوں کی وجہ سے آرہے ہیں وہ عذاب عبادات کو چھوڑنے سے ختم نہیں ہونگے۔بلکہ عبادات کی مقدار بڑھانے سے ختم ہونگے۔
۔۔۔۔
تبلیغی جماعت کے امیر مولانا محمد سعد کاندھلوی کا جماعت کے ساتھیوں کے نام آڈیو پیغام
ٹرانسکرپٹ نیو ایج اسلام ایڈٹ ڈیسک
یکم اپریل 2020
اس میں کوئی شک نہیں ٰ کہ اس وقت پوری دنیا میں یہ وبا ہم انسانوں کے گناہوں کا نتیجہ ہے۔ اس وقت یقینی اسباب میں دعائیں، استغفار کی کثرت، اللہ کی طرف متوجہ ہونے اور انفرادی عبادات اور اپنے گھروں میں رہتے ہوئے دعوت و تعلیم کا اہتمام کرنا ہے۔ یہ اللہ رب العزت کے عذاب کے ہٹانے اور اس کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کا اصل ذریعہ ہے۔البتہ ظاہری اسباب میں احتیاط اور تدابیر اختیار کرنا اس میں خاص طور پر علمائے حق کی طرف سے جاری کردہ ہدایات کا اہتمام کرنا ہے۔ ڈاکٹروں کی ہدایات و علاج کا اہتمام، حکومت انتظامیہ کا پورا ساتھ دینا مثلاً مجمع جمع نہ کرنا اور ان حالات میں حکوت انتظامیہ کی پوری مدد کرنا ضروری ہے۔ بندہ از خود بھی دہلی میں ڈاکٹروں کی ہدایات کے مطابق اپنے آپ کو کوانٹائن کیے ہوئے ہے۔ یہ احتیاطی تدابیریقین، توکل، ایمان باللہ کے ہرگز خلاف نہیں۔ ام تدابیر کا اختیار کرنا ضروری ہے۔جہاں جہاں بھی ہماری جماعتیں ہیں وہ وہاں رہتے ہوئے حکومت کے قوانین کی پابندی ضرور کریں۔فقط والسلام محمد سعد۔
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/tablighi-jamaat-spread-more-than/d/121547
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism