عزیز علی داد
12مارچ،2024
پاکستان میں اپنے زمانہ
طالب علمی کے دوران یوں سمجھتا تھا کہ ساری دنیا کے مسلمان پاکستانی مسلمانوں جیسے
ہی ہیں۔ مگر جوں جوں دیگر غیر مسلم اور مسلم معاشروں کو دیکھنے کا موقعہ ملا
اندازہ ہوا کہ میرا تصور بالکل غلط ہے۔ اس لیے اس تصور کو میں نے مسترد کر دیا۔ اب
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پہلا والا تصور مسلمان غلط تھا تو اس کی جگہ کس تصور
نے جگہ پائی ہے؟ میرے اندر پاکستانی مسلمان کا جو تصور اب تشکیل پا رہا ہے وہ مجھے
یہ کہنے پہ مجبور کر رہا ہے کہ پاکستانی مسلمان جیسا پاگل مسلمان دنیا میں کہیں
اور نہیں ملے گا۔ اب یہ خیال سیاحتی دوروں اور سیر و تفریح کی وجہ سے پیدا نہیں
ہوا بلکہ لبنان و شام میں کچھ عرصے سکونت اور دیگر مسلم معاشروں کی ایکسپوژر کے
نتیجے کی پیداوار ہے۔
میرے شام و لبنان میں
اقامت کے دوران عام شہریوں کی عادات کو دیکھنے اور سوچنے والوں سے بات چیت کرنے کا
موقعہ ملتا ہے۔ اس بات چیت کے دوران مجھے سب سے زیادہ مشکل یہاں کے لوگوں کو
پاکستانی اسلام اور مسلمان سمجھانے میں پیش آتی ہے کیونکہ جو چیزیں اور معاملات
ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہیں وہ یہاں کے لوگوں کے نہ وہم و گمان میں ہیں
نہ ہی ان کے نزدیک ایشو ہیں۔ اس کو چند مثالوں سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔
کچھ ہفتے پہلے ایک
پروپوزل لکھنے سے پہلے ذہنی طوفان پیدا کرنے کی کوشش میں نے کچھ نئے خیالات پیش کر
کے اپنے شامی ساتھی کو سمجھانے کی کوشش کی۔ ایک خیال یہ تھا کہ والدین کو اپنے
بچوں خاص کر بچیوں کی تعلیم دلوانے پر راغب کرنے کے لیے ایک سرگرمی رکھتے ہیں۔ میں
نے پاکستان سے مثال دے کر کہا کہ ہم پاکستان میں اچھا خاصا پیسہ اور وقت والدین کو
راغب کرنے پر صرف کرتے ہیں۔ میرا شامی ساتھی بولا کہ پاکستان میں والدین کو راغب
کرنے کی نوبت کیوں آتی ہے؟ یہاں شام میں تو والدین تعلیم کے خلاف نہیں ہیں۔ میں نے
جواب دیا کہ میرے اہل وطن تعلیم کے خلاف ہیں۔ سوال کیا کیوں مخالف ہیں؟ عرض کیا ان
کا کہنا ہے کہ اسلام میں عورتوں کی تعلیم ممنوع ہے خاص کر مخلوط تعلیم۔ اس لیے لوگ
سکولوں کو آگ بھی لگاتے ہیں۔ وہ حیران ہوکے کہنے لگا یہ کون سا اسلام ہے۔ مجھے
اپنے تناظر میں اسے سمجھانے میں مشکل پیش آئی، اس لیے میں نے کہا کہ میں نہیں
سمجھا سکتا۔ وہ حیران ہوکے بولا کہ کمال ہے اپنے ملک کے متعلق لکھ سکتے ہو مگر اسے
سمجھا نہیں سکتے۔ ویسے جنگ سے پہلے شام میں تعلیم کی شرح تقریباً 90 فیصد تھی جس
میں مردوں اور عورتوں میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ یہاں مخلوط تعلیم عام ہے۔
ہفتے کے ایک دن دمشق کے
ایک بہت بڑے اور معروف کیفے جس کو دانشوروں کا مسکن کہا جاتا ہے میں ایک دوست سے
گپ شپ کے دوران توہین مذہب کی بات آئی تو میں نے توہین کے متعلق ہمارے ملک میں
رائج قوانین اور اس کی آڑ میں مسلموں اور غیر مسلموں کے قتل اور تشدد پر بات کی تو
وہ گنگ رہ گیا اور کہنے لگا کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ گلی میں بیٹھے لوگ ریاست کی
موجودگی میں دن دیہاڑے مذہب کے نام پر قتل کریں۔ یہاں شام میں دیگر مذاہب کے
پیروکار اور مسلمان ہیں مگر ایسی اسلامی قوانین نہیں۔ ہاں کسی دوسرے مذہب کی ہتک
کرنا جرم ہے اور مذہب پر مبنی سیاسی جماعت بنانے پر پابندی ہے۔ میں نے جواباً کہا
کہ ”میں نہیں سمجھا سکتا۔“ اسے بڑی مایوسی ہوئی کہ پاکستان سے تعلق رکھنے کہ
باوجود میں اسے سمجھانے سے قاصر ہوں۔ یہاں کسی بھی مسجد کے امام کو فتوے کا حق
نہیں ہے۔ امام مسجد حکومت کے محکمہ اوقاف کا ملازم ہوتا ہے۔
اسی طرح ایک دفعہ ایک
خاتون سے غیرت کے نام پر قتل کی بات ہوئی تو وہ سمجھنے سے قاصر رہی۔ یہاں آ کر
مسلمانوں کو عید میلاد المجید (کرسمس) اور عید الفصح (ایسٹر) مناتے دیکھ کر حیران
ہو گیا ہوں۔ سچ کہوں تو ابتدا میں مجھے ان کے مسلمان ہونے پہ بھی شک ہونے لگا تھا
کیونکہ یہاں لوگ جمعہ کی نماز کی وجہ سے سڑکیں اور گلیاں بند نہیں کرتے ہیں۔ کون
نماز کے لیے جا رہا ہے یا کون نہیں پتہ ہی نہیں چلتا۔ ہمارے ہاں تو جمعے کے دن صبح
سے ہی آفس میں چیخ چیخ کر بتایا جاتا ہے کہ آج نماز پڑھنی ہے۔ نماز پڑھ کر احسان
کرنا الگ ہے۔ اسی طرح یہاں کے لوگوں کو سمجھ نہیں آتا کہ پولیو کے قطرے نا پلانے
کا اسلام کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ مختصراً عرض ہے کہ پاکستان کے مسلمانوں کی پہیلیاں
بجھانے اور ان کی بوالعجبیاں اہل شام و لبنان کو سمجھانے سے میں قاصر رہا ہوں۔
اسی طرح دسمبر میں کرسمس
کے موقع پر لبنانی چرچ میں عربی زبان میں گایا ہوا ایک لڑکی کا حمد بہت وائرل ہوا۔
اس پر عربوں کے ہزاروں کمنٹس لحن اور گائیکی کی تعریف میں تھے۔ مگر وہاں جو نفرت
سے بھرپور اور جہالت پہ مبنی کمنٹس دے رہے تھے وہ پاکستانی مسلمان ہی تھے۔ میری
توجہ ان کمنٹس کی طرف میرے ایک لبنانی واقف کار نے دلائی۔ ان کمنٹس میں پاکستانی
مسلمان کی جہالت کے ساتھ ساتھ ہٹ دھرمی اور پاگل پن بالکل عیاں ہے۔ ان کمنٹس میں
پاکستانی مسلمان عربوں کو بتا رہے ہیں اور عربی گلوکارہ پر الزام لگا رہے ہیں کہ
وہ قرآن کی تلاوت کی نقل یا انداز چوری کر رہی ہے۔ کچھ تو اس طرح کے عیسائی تہوار
میں عربی لہجے اور ترنم میں عربی الفاظ کی ادائیگی کو توہین قرآن قرار دیتے ہیں۔
حیران ہو کر عرب لوگ ان کو وضاحت کرتے ہیں کہ عربی ایک زبان ہے مذہب نہیں اور یہاں
کے عیسائی بھی عربی زبان بولتے ہیں۔ عرب ثقافت ان کی مشترکہ میراث ہے۔
مگر پاکستانی مسلمانوں کو
کون سمجھائے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی جائے پیدائش، بیت اللحم کے گرجا گھر میں
اب بھی عربی میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعریف کی جاتی ہے۔ اس گانے کی صنف کو
عربی میں تراتیل کہتے ہیں۔ لبنان کی مشہور و معروف حلویاتی گلوکارہ فیروز کے
تراتیل بہت مشہور ہیں۔ ان سب حقائق کے باوجود پاکستان کا مسلمان کس کی سنتا ہے۔ وہ
الٹا عربوں کو ان کی ”بدعات“ پر کوسنے لگتا ہے۔
ان سب حرکات کو دیکھ کر
میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں پاکستانی اسلام اور مسلمان دنیا کے کسی دوسرے مسلمان
کو سمجھا نہیں سکتا چہ جائیکہ ایک غیر مسلم کو۔ بلکہ اب تو پاکستانی مسلمان کہتے
ہوئے شرمندگی ہوتی ہے۔ آپ خود ہمارے پاگل پنے کا اندازہ لگا لیں کہ عربی بولنے والوں
کو ان کی اپنی زبان کے غلط استعمال کے متعلق فتوے اس دنیا میں صرف پاکستانی ہی
جاری کر رہے ہوتے ہیں۔
اس پاگل ذہنیت کے تباہ کن
نتائج ہمارے معاشرے میں ہر دن نظر آرہے ہیں۔ اس سے پہلے ہم حلوائی کے دکان پر
مولویوں کا رش دیکھتے آ رہے ہیں۔ اب حلوہ کے لفظ پہ پاگلوں کو جمع ہوتے دیکھ رہے
ہیں۔ پچھلے دنوں لاہور میں نئے دور جاہلیہ کے مناظر دیکھنے کو ملے جہاں مذہبی
بلوائیوں کا ایک ہجوم ایک معصوم عورت پر پل پڑا کیونکہ اس کے لباس پر حلوہ کا لفظ
لکھا ہوا تھا۔ کسی نے پڑھنے کی زحمت نہیں کی اور قرآن کی توہین کا فتوی جاری کر دیا۔
وہ تو شکر کہ ایک دلیر
پولیس افسر خاتون نے اسے بچا لیا۔ پاکستانی مسلمانوں کی جہالت کو دیکھ کر ابوجہل
بھی دنگ رہ جائے گا۔ عربی زبان میں حلوہ کے معنی میٹھے اور عام بول چال میں دلنشین
اور خوبصورت کے ہوتے ہیں۔ عرب معاشرے میٹھے کے دلدادہ ہیں۔ اس لئے دمشق میں ہر جگہ
حلویات کی دکانیں بھری ہوئی ہیں۔ پہلے پاکستانی کلمہ پڑھ کر پاگل ہوتے تھے، اب
حلوہ پڑھ کر پاگل ہو جاتے ہیں۔
اس ویڈیو جس میں پولیس
اسٹیشن میں پریس کانفرنس ہو رہی ہے میں صاف نظر آ رہا ہے مولویوں کے درمیان گھری
خاتون خوف سے کانپ رہی ہے اور معافی مانگ رہی ہے اور ان مولویوں کے چہرے پر ندامت
نہیں فتح کی طمانیت نظر آ رہی ہے۔ اوپر سے ایک مولوی اس عورت سے کہتا ہے کہ وہ
اپنے فرقے کا نام بتائے۔ مجھے تو وہاں اسلام نہیں پندرہویں صدی کا یورپ نظر آیا
جہاں پادری عورتوں کا اس طرح مواخذہ کرتے تھے اور زندہ جلا دیتے تھے۔
اگر اسی طرح کا اسلام
پاکستان میں جاری رہا تو خطرہ ہے کہ پاکستان سے مسلمان ختم ہوکے صرف ملا رہ جائے
گا۔ آج کے اسلام میں بقول ابن انشا لوگوں کو داخل نہیں خارج کیا جاتا ہے۔ جو
”اسلام“ پاکستانی مسلمان دکھا رہے ہیں وہ بہت ہی ڈراؤنا ہے جس میں جمالیات کے
کوئی آثار نہیں ہے۔ جس میں جمال نہ ہو وہ اسلام نہیں ہے۔ یاد رکھیے حدیث مبارکہ
ہے، ”بلاشبہ اللہ تعالی خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے”۔
لاہور کے وقوعے میں اس
عورت کا حلوہ کے نام سے لباس زیب تن کرنا خوبصورتی پھیلانے کا ایک عمل تھا۔ مگر
جہالت کے اندھیروں میں گھرے ذہن کو ہر اس چیز سے نفرت ہے جو خوبصورت ہو۔ انھیں
محبت زندگی اور خوبصورتی سے نہیں وحشت اور موت سے ہے۔ جس معاشرے میں خواہش مرگ
غالب ہو سماج وہ اپنے شہریوں کو کھا جاتا ہے۔ اسی کو آدم خوری کہا جاتا ہے۔
اوپر بیان کی گئی
پاکستانی ذہنیت معاشرے سے عقل و خرد اور منطقی سوچ کی آخری روشنی بھی بجھا کر
معاشرے کو عہد جہالت کے اندھیروں میں دھکیل دے گی۔ یہ تاریخ کی ستم ظریفی نہیں تو
اور کیا ہے کہ وہ مذہب جو جہالت کے اندھیروں سے نکلنے کا ذریعہ تھا وہ ایک نئے عہد
جہالت کی تشکیل کر رہا ہے۔ دسویں صدی عیسوی کا اندھا مگر بصیرت سے بھرپور شاعر ابو
العلا المعری ایک شعر میں کہتے ہیں :
”اثنان اہل الارض :
ذو عق۔ لٍ بلا دی۔ ن وآخر
دینٌ لا عقل لھ ”
”دنیا کے مکین دو قسم کے لوگوں میں تقسیم ہیں،
ایک وہ جن کے پاس ذہن ہے
دین نہیں،
ایک وہ جن کے پاس دین ہے
مگر ذہن نہیں۔ ”
آپ خود فیصلہ کر لیں کہ
پاکستانی مسلمان کس قسم کا ہے۔
12مارچ،2024، بشکریہ: روزنامہ چٹان سری نگر
--------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism