امام سید شمشاد احمدناصر، نیو ایج اسلام
قرآنی نصیحت:
سورۃ التحریم کی آیات 7تا9کا ترجمہ پیش ہے۔
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔ اس پر بہت سخت گیر قوی فرشتے (مسلط) ہیں۔ وہ اللہ کی اس بارہ میں جو وہ انہیں حکم دے، نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو وہ حکم دیئے جاتے ہیں۔
اے وہ لوگو جنہوں نے کفر کیا! آج عذر پیش نہ کرو یقیناًتمہیں صرف اُسی کی جزا دی جائے گی جو تم کیا کرتے تھے۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی طرف خالص توبہ کرتے ہوئے جھکو۔ بعید نہیں کہ تمہارا رب تم سے برائیاں دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں، جس دن اللہ نبی کو اور ان کو رسوا نہیں کرے گا جو اس کے ساتھ ایمان لائے ان کا نور ان کے آگے بھی تیزی سے چلے گا اور ان کے دائیں بھی۔ وہ کہیں گے اے ہمارے رب! ہمارے لئے ہمارے نور کو مکمل کر دے اور ہمیں بخش دے، یقیناًتو ہر چیز پر جسے تو چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے۔‘‘ (التحریم 7-9: 66)
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہ نصیحت فرمائی ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اپنے آپ کو اور اپنے بیوی بچوں کو آگ کے عذاب سے بچاؤ۔ گویا صرف یہ کہہ دینا کہ میں مسلمان بن گیا ہوں اسے خدا کے عذاب سے نہ بچا سکے گا۔ جب تک انسان ایسے عمل صالح نہ کرے جن سے خدا راضی ہوتا ہو۔
بالفاظ دیگر یہ بات اور نصیحت بیان کی گئی ہے کہ صرف منہ سے کہہ دینا کہ ہم ایمان لے آئے ہیں انسان کو نہ صرف مومن بنائے گا اور نہ ہی مسلمان یہ جو تصور پایا جاتا ہے مسلمانوں ،میں کہ ہم صرف آنحضرت ﷺ پر ایمان لے آئے ہیں ہم نے منہ سے کہہ دیا ہے اور اقرار کر لیا ہے کہ ’’ہم مسلمان ہیں‘‘ اور اس کے بعد چوری، ڈکیتی، بے ایمانی، قتل و غارت، فساد ظلم، دوسروں کے حقق غصب کرتے رہنا، خواہ جو کچھ بھی کر لیں، چونکہ ہم مسلمان ہیں قیامت کے دن ہماری شفاعت ہو جائے گی۔ ہم چونکہ یا رسول اللہ کا ورد کر لیتے ہیں اس لئے قیامت کے دن آنحضرت ﷺ ہماری شفاعت کر دیں گے یہ تصور غلط ہے۔ شفاعت کس کی ہو گی؟ یعنی جو انسان خدا تعالیٰ پر ایمان لائے۔ اس کے رسول پر ایمان لائے اور ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ خدا کو وحدہ لا شریک سمجھے، قرآن کریم میں بیان کردہ احکامات پر پورا پورا عمل کرنے کی کوشش کرے۔ اور پھر آنحضرت ﷺ کا اسوہ حسنہ پر کاربند ہو۔ یعنی جو حقوق اللہ اور حقوق العباد آپؐ بجا لائے ان کی پوری پوری پیروی کرے، اتباع کرے، پھر چونکہ انسان کمزور ہے، لیکن کوشش اور نیت ٹھیک ہے تو پھر ایسے لوگوں کی آنحضرت ﷺ شفاعت فرمائیں گے۔
پس صرف منہ سے کہہ دینا کافی نہ ہو گا بلکہ اعمال صالحہ بجا لانے ہوں گے اور اعمال صالحہ کا مطلب ہے ایسے اعمال جن میں فساد کا ذرہ بھر نہ ہو۔ جن اعمال میں فساد ہو گا وہ قبول نہ کئے جائیں گے بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو یہاں تک فرما دیا ہے کہ ایسی نمازیں بھی جو محض دکھاوے کی ہوں گی وہ بھی قیامت کے دن ایسے نمازیوں کے منہ پر واپس مار دی جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ معاف فرمائے۔
دوسری نصیحت یہ ہے کہ صرف خود ہی نیک اعمال بجا نہیں لانے بلکہ اپنے اہل و عیال کو بھی اس کی تلقین کرتے رہنا ہے۔ مثلاً نماز ہی ہے۔ بچہ کی پیدائش سے ہی اذان اور اقامت کا درس شروع ہو جاتا ہے۔ پھر چھوٹا بچہ جب ماں باپ کو نمازیں پڑھتے دیکھے گا، گھر میں والدین کا آپس میں حسن سلوک ہو گا، نرم مزاجی ہو گی، خوش خلقی ہو گی، ایک دوسرے کا ادب و احترام ہو گا تو بچہ وہی باتیں اپنائے گا۔ تو جہاں خود عمل کرتا ہے اسلامی تعلیم پر وہاں اپنے بچوں کو بھی اسلامی تعلیم سے آگاہ کرنا اور ان کو اس سانچے میں ڈھالنا مسلمان والدین کا پہلا فرض ہے اور اس کے گھروں کو جنت بنانا ہو گا۔ جب یہاں دنیا میں گھر جنت بن جائیں گے تو آخرت میں جنت مل جائے گی۔
اگر نفس کی کمزوری حائل ہو رہی ہے اور انسان گرتے پڑتے درِ مولیٰ پر پہنچ رہا ہے تو وہ بھی خدا کی بارگاہ میں شرفِ قبولیت پائے گا۔ اس کے لئے بھی ’’توبہ‘‘ ہے۔ یہی بات اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں بیان فرمائی ہے کہ خدا کی طرف توبہ کرتے ہوئے جھکو جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خدا تمام برائیوں کو دور کر دے گا اور تمہیں اپنی رضا کی جنت میں داخل کر دے گا۔ اور توبہ کے ساتھ ساتھ خداتعالیٰ کے حضور دعا کرتا ہے اور یہ دعا ہمیشہ کرتے رہنا چاہئے کہ اے ہمارے رب! ہمارے لئے ہمارے نور کو مکمل کر دے اور ہمیں بخش دے۔
’’نور‘‘ کی ضد اندھیرا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ جاہلیت کے اندھیرے ہم سے دور کر دے۔
اس سے بڑھ کرجاہلیت کیا ہو گی کہ مسلمان مسلمان کو قتل کرتا پھرے اور اپنے عقائد کو دوسروں پر زبردستی ٹھونسنے کی کوشش کرے اور دوسرے لوگوں کا جینا حرام کر دے۔ نہ صرف زندوں کا بلکہ اب تو پاکستان میں اقلیتوں کے قبرستان کے مردے بھی کھاڑے جا رہے ہیں ان کی بھی بے حرمتی کی جاتی ہے۔ ان کے کتبے بھی خراب کر دیئے جاتے ہیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ کیا یہ مسلمانی ہے؟ کیا نعوذباللہ نعوذ باللہ آنحضرت اس قسم کا اسلام لے کر آئے تھے؟ ایسا خبث تو کفار بھی نہیں کرتے جیسا مسلمان کہلانے والے کر رہے ہیں۔ خدا معاف کرے اور بچائے!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل صالح
یہ آج کے زمانہ میں جو نام نہاد مسلمان کہلا کر ایک دوسرے کو قتل کرتے پھرتے، مردوں کوقبروں سے نکال کر بے حرمتی کرتے پھرتے اور ناموس رسالت کے جھوٹے مقدمات بنا کر مساجد میں ایک دوسرے پر کفر بازی اور قتل و غارت پر اکساتے ہیں انہیں ابوداؤد کی اس حدیث اور اس حکم کو بھی سامنے رکھنا چاہئے آپ نے صحابہ کو جنگ کے بارے میں مستقل ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ:
’’جنگ کے دوران کس عمر رسیدہ بوڑھے کو، کم سن بچے کو اور عورت کو قتل نہ کرو۔ خیانت کرتے ہوئے مال غنیمت پر قبضہ نہ کرو۔ حتی الوسع اصلاح اور احسان کا معاملہ کرو۔ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘
(اسوہ انسان کامل صفحہ403)
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی آنحضرت کی پیروی میں جنگ کے ضابطہ اخلاق کے بارے میں یوں بیان فرمایا:
’’جن لوگوں نے اپنی خدمات کسی بھی مذہب کے لئے وقف کی ہوں، ان سے میدان جنگ میں تعرض نہ کیا جائے، ان کے مذہب کی مقدس چیزوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ کوئی پھل دار درخت نہ کاٹا جائے۔ نہ ہی کسی آبادی کو ویران کیا جائے اور کسی جانور کو بھی ذبح نہ کریں سوائے اس کے جسے کھانا مقصود ہو کسی کو آگ سے نہ جلائیں۔‘‘
(موطا کتاب الجہاد (اسوہ انسان کامل صفحہ403)
آنحضرت نے مسلمانوں کو کتنی واضح ہدایات اور طریقہ کار وضع کرکے احکامات دیئے۔ کاش اس پر عمل کیا جائے تو دنیا میں اور خصوصاً پاکستان میں امن قائم ہو سکتا ہے۔ وطن عزیز میں تو نہ ہی دوسرے مذاہب کے لوگوں کو جینے کا حق ہے بلکہ ان کے قتل کے فتوے دیئے جارہے ہیں۔ اگر ان کے ساتھ کسی کی ہوئی زیادتی پر جا کر مل بھی لیا جائے تو اسے بھی گولیوں کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے۔ سلمان تاثیر گورنر پنجاب کے قتل کی بہت واضح مثال موجود ہے۔ پھر فرمایا کہ ان کی مقدس چیزوں کو بھی نقصان نہ پہنچایا جائے اس پر بھی کوئی عمل نہیں ہے خاص طور پر اقلیتوں کے حقوق نہ صرف مارے جاتے ہیں بلکہ ان کی مقدس کتابوں کو ان کے بزرگوں کو بہت برا بھلا کہا جاتا ہے اور ان کے جذبات سے آئے دن کھیلا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ مقدس چیز تو ان کی عبادت گاہیں ہیں۔ جن پر حملہ کرنا، بموں سے اڑا دینا، آگ لگا دینا، ان کی املاک لوٹ لینا تو آئے دن کا کھیل ہے۔ اور وہ ریاستی مشینری اس سلسلہ میں خود بے بس ہے۔ ملک میں قانون کا کچھ بھی تو احترام نہیں۔ ہر شخص نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا ہوا ہے۔
پس قرآنی نصیحت پر بھی غور کریں اور آنحضرت ﷺ کی نصائح پر بھی غور کریں اور ان کے عمل صالح کو دیکھیں۔ تب ہی جنت مل سکتی ہے صرف منہ سے مسلمان مسلمان کہنے سے کچھ نہ ہو گا۔
قرآنی دعا:
یہ دعا بھی پڑھتے رہنا چاہئے جو کہ نماز کا بھی حصہ ہے۔ نماز کے علاوہ بھی جس قدر بھی ممکن ہو اس کا عجز و نیاز سے ورد کرتے رہیں۔
رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔
اے ہمارے رب ہمیں اس دنیا کی بھلائی بھی اور آخرت کی بھلائی بھی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ آمین
ایک اور قیمتی نصیحت:
’’خدا کی عظمت اپنے دلوں میں بٹھاؤ اور اس کی توحید کا اقرار نہ صرف زبان سے بلکہ عملی طور پر کرو تا خدا بھی عملی طور پر اپنا لطف و احسان تم پر ظاہر کرے۔ کینہ وری سے پرہیز کرو اور بنی نوع سے سچی ہمدردی کے ساتھ پیش آؤ ہر ایک راہ نیکی کی اختیار کرو نہ معلوم کس راہ سے تم قبول کئے جاؤ۔‘‘ (رسالہ الوصیت صفحہ10)
تقویٰ
عجب گوہر ہے جس کا نام تقویٰ
مبارک وہ ہے جس کا کام تقویٰ
سنو! ہے حاصلِ اسلام تقویٰ
خدا کا عشق مَے اور جام تقویٰ
مسلمانو! بناؤ تام تقویٰ
کہاں ایمان اگر ہے خام تقویٰ
یہ دولت تو نے مجھ کو اے خدا دی
فسبحان الذی اخزی الاعادی
(درثمین )
URL: https://newageislam.com/urdu-section/violation-minority-rights-pakistan-brazenly/d/102060