New Age Islam
Sat Apr 01 2023, 03:04 PM

Urdu Section ( 2 Jun 2016, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Ramadan Etiquette: Days of Seeking Blessings and Mercy of God قرب الٰہی، برکتوں اور رحمتوں کے حصول کے دن۔ آداب رمضان المبارک

امام سید شمشاد احمدناصر، نیو ایج اسلام

3 جون ، 2016

اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلمانان عالم کو ایک مرتبہ پھر خداتعالیٰ نے رمضان المبارک کے بابرکت ایام نصیب کئے ہیں، اور خوش قسمت ہوں گے وہ لوگ جو ان دنوں سے بھرپور فائدہ اٹھا کر اپنے رب کا قرب، اس کی خوشنودی، اس کا رحم اور فضل اور برکتیں تلاش کریں گے جو ان بابرکت ایام میں اللہ تعالیٰ نے مقدر کر رکھی ہیں۔

خود رسول اللہ ﷺ نے رمضان المبارک کے ایام اور اس بابرکت مہینہ کی عظمت اور شان اس طرح بیان فرمائی ہے۔

عظمت رمضان:

حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شعبان کی آخری تاریخ کو ہم سے خطاب فرمایا:

اے لوگو! تم پر ایک بڑی عظمت اور شان والا مہینہ سایہ کرنے والا ہے۔ ہاں! ایک برکتوں والا مہینہ جس میں ایک ایسی رات ہے جو ثواب و فضیلت کے لحاظ سے ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے فرض کئے ہیں اور اس کی رات کی عبادت کو نفل ٹھہرایا ہے۔۔۔ یہ مہینہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے۔ اور یہ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے اور ایسا مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق بڑھایا جاتا ہے۔۔۔

آنحضرت ﷺ نے اس بابرکت مہینہ کے بارے میں یہ بھی فرمایا کہ یہ ایسا مہینہ ہے جس کی ابتداء نزولِ رحمت ہے اور جس کا وسط مغفرت کا وقت ہے اور جس کا آخر کامل اجر پانے یعنی آگ سے نجات پانے کا زمانہ ہے۔   (بیہقی بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح۔ تحفۃ الصیام صفحہ28 )

اس بابرکت مہینہ کی عظمت کے بارے میں ایک اور حدیث جو مسلم کتاب الصیام میں درج ہے ۔ اس کے راوی حضرت ابوہریرہؓ ہیں۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے خوب کھول دیئے جاتے ہیں اور آگ کے دروازے اچھی طرح بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیطان جکڑ دیئے جاتے ہیں۔

حضرت ابوہریرہؓ سے ہی ایک اور روایت مسلم کتاب الصیام میں یوں آتی ہے۔

فرمایا: جب رمضان آتا ہے تو رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیطانوں کو زنجیریں ڈال دی جاتی ہیں۔

ایک حدیث میں ’’دَخَلَ رَمَضَانَ‘‘ کے الفاظ ہیں یعنی جب کوئی شخص رمضان کو اپنے اندر داخل کرلے تو پھر رحمت کے دروازے اس پر کھل جاتے ہیں اور وہ نیک اعمال بجا لا کر جہنم کے دروازوں کو بند کر لیتا ہے اورپھر ایسے شخص کی کوششوں اور خدا کے فضل سے اس کا شیطان بھی زنجیروں میں جکڑ دیا جائے گا۔ وباللہ التوفیق۔

اگر آپ اپنے ماحول کا غور سے جائزہ لیں تو یہ بات سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے گی کہ کئی لوگوں کے شیطان کھلے رہتے ہیں باوجود اس کے کہ وہ رمضان کے مہینہ میں ہی ہوتے ہیں۔ رشوت ستانی، جھوٹ، غیبت، تہمت، چوری ، ڈکیتی، مہنگائی، لوگوں کے حقوق غصب کر کے، تو ایسے لوگوں کا شیطان کھلا ہی رہتا ہے۔ شیطان کو انسان خود ہی زنجیر ڈالتا ہے اور وہ اس کے اعمال صالحہ ہیں۔

ترمذی میں ایک روایت اس مضمون کو خوب کھول کر بیان کرتی ہے کہ جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو ایک اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے

کہ اے بھلائی کے چاہنے والے! آ اور آگے بڑھ اور اے برائی کے چاہنے والے! رک جا۔ اور اللہ کے لئے بہت سے لوگ آگ سے آزاد کئے جاتے ہیں اور رمضان کی ہر ایک رات کو ایسا ہی ہوتا ہے۔‘‘ (تحفۃ الصیام صفحہ33)

روزہ کی فرضیت کے احکام

قرآن کریم کی سورۃ البقرۃ کی آیات 184تا 188 میں رمضان کے روزوں کی فرضیت اور احکامات و آداب اور مسائل بیان کئے گئے ہیں۔ جن کو خلاصۃً حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنی معرکۃ الآراء تصنیف سیرت خاتم النبیین میں صیام رمضان کے عنوان میں یوں بیان فرمایا ہے۔

اب ہجرت کے دوسرے سال رمضان کی آمد، روزوں کا بھی آغاز ہوا۔ یعنی یہ حکم نازل ہوا کہ رمضان کے مہینہ میں تمام بالغ مسلمان مرد و عورت باستثناء بیماروں اور ناتوانوں کے اور باستثناء مسافروں کے صبح صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک ہر قسم کے کھانے پینے سے پرہیز کریں اور ان اوقات میں خاوند بیوی کے مخصوص تعلقات سے بھی پرہیز کیا جاوے اور روزوں کے ایام کو خصوصیت کے ساتھ ذکرِ الٰہی اور قرآن خوانی اور صدقہ و خیرات میں گزارا جاوے اور روزوں کی راتوں میں مخصوص طور پر نماز تہجد کا التزام کیا جاوے وغیرذالک۔‘‘ (صفحہ336-37) (طبری ص 1)

روزہ کی اصل غرض:

اسلام میں مختلف قسم کی عبادات کا مقصد تزکیہ نفس ہی ہے نماز سے بھی یہی غرض ہے، زکوٰۃ سے بھی یہی غرض ہے روزہ سے بھی یہی غرض مقصود ہے وعلیٰ ہذا القیاس یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ :

’’روزے ڈھال ہیں پس روزہ کی حالت میں نہ کوئی شہوانی بات کرے نہ جہالت اور نادانی کرے اور اگر کوئی اس سے لڑائی یا گالی گلوچ کرے تو وہ کہے میں روزہ دار ہوں میں روز ہ دار ہوں۔‘‘    (بخاری کتاب الصوم)

حضرت ابوعبیدہؓ بن الجراح کی روایت ہے کہ روزہ اس وقت تک ڈھال کا کام دیتا ہے جب تک روزہ دار خود اس ڈھال کو گزند نہ پہنچائے اور اس میں کوئی ٹوٹ پھوٹ اور رخنہ نہ ہونے دے آپ نے یہ بھی فرمایا کہ روزہ ڈھال ہے اور آگ سے بچانے کے لئے حصن حصین ہے۔ اور خدا کے عذاب سے بچانے کا ذریعہ۔ (تحفۃ الصیام صفحہ39)

حضرت ابوہریرہؓ سے ہی روایت ہے آپ ﷺ نے فرمایا۔ جو روزہ دار جھوٹی بات اور غلط کام نہیں چھوڑتا اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانا پینا چھوڑنے کی بھی ضرورت نہیں۔ (بخاری کتاب الصوم)

پس اگر کوئی شخص روزہ کے آداب کا لحاظ اور خیال نہیں رکھتا تو اس کا محض بھوکا پیاسا رہنا اسے کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔ روزہ صرف بھوکا پیاسا رہنے کا نام نہیں بلکہ ایک عبادت ہے جو مقررہ شرائط کے ساتھ فرض ہے لیکن کئی بدقسمت ایسے بھی ہوتے ہیں جو بادی النظر میں تو روزہ رکھتے ہیں مگر اس کے اعلیٰ ثواب سے غلط کام اور لغو کام سرانجام دے کر ثواب سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ابن ماجہ کی ایک روایت اس مضمون کو مزید یوں کھولتی ہے آپ ﷺ نے فرمایا:

’’کئی روزہ دار ایسے ہیں جن کو ان کے روزہ سے سوائے بھوک پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی رات کو اٹھ کر عبادت کرنے والے ہیں مگر ان کو سوائے بیداری اور بے خوابی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘

پس اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر روزے تقویٰ کا حصول، تزکیہ نفس، قرب خداوندی اور مخلوق خدا کی ہمدردی کے لئے فرض کئے ہیں۔ جس کے لئے خود خدائے رب ذوالجلال نے اور اس کے پیارے حبیب محمد مصطفی ﷺ نے آداب بیان فرمائے ہیں اگر ان آداب کو ملحوظ رکھ کر روزہ نہ رکھا جائے تو وہ یقیناًبے فائدہ ہے۔

اب میں چند مزید گزارشات اس سلسلہ میں کروں گا جن کے بجا لانے سے ہمارے روزے ہمیں مزید برکتوں کے حاصل کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوں گے۔

سب سے اول نماز باجماعت کا قیام ہے

1۔ نماز مسلمانوں پر باجماعت ہی فرض قرار دی گئی ہے۔ سب سے اول بات جاننے کی یہی ہے کہ نماز کو باجماعت ہی ادا کی جائے۔ اس کے لئے پوری کوشش کی جائے۔

اس وقت مساجد میں نمازیوں کی کمی محسوس ہو رہی ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ مصروفیت بہت زیادہ ہے، مساجد دور دور ہیں، کام اور جاب سے فراغت نہیں ملتی، وغیرہ وغیرہ۔ ہمیں یہ اختیار تو نہیں کہ کسی کے جج مقرر ہو جائیں ہر شخص اپنی مصروفیت کو خوب جانتا ہے مگر چند چیزیں اور امور ایسے ہیں کہ اگر ہم وہ کر لیں تو ہمیں ثواب ملے گا۔ ان میں اول یہ ہے کہ ہم نماز باجماعت کی اور مسجد جانے کی نیت کریں۔ اور پکی نیت کریں کہ ہر حال میں ہم نے جانا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس کے سامان مہیا کر دیتا ہے۔ کہتے ہیں کہ When there is will there is a way۔ اگر دل میں پختہ عزم ہو تو وہ کام ہو جاتا ہے۔ نیت کے بعد اگر کوئی موانع ہو جائیں تو اس کو نماز باجماعت کا ثواب مل جائے گا۔

دوسرے اگر واقعۃً گھر مسجد سے دور بہت دور ہے تو پھر گھر میں فیملی کو اکٹھا کر کے سب کے ساتھ نماز باجماعت پڑھ لی جائے۔

آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن سات ایسے اشخاص ہوں گے جن پر خدا کے سایہ کے علاوہ اور کسی کا سایہ رحمت نہ ہو گا اور ان میں ایک وہ شخص ہے ’’وَ رَجُلٌ قَلْبُہٗ مُعَلَّقٌ بِالْمَسْجِدِ‘‘ کہ جس کا دل مسجد میں لٹکا رہے۔ (صحیح مسلم کتاب الزکٰوۃ باب فضل اخفاء الصدقۃ)

فجر اور عشاء کی نماز پر آنے والوں کے لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ ان کی مہمانی کرتا ہے۔

پس رمضان میں نماز باجماعت کا خاص اہتمام فرمائیں کہ یہ قرب خداوندی کا ذریعہ ہے۔ برائیوں سے روکنے کا ذریعہ اور مومن کی معراج ہے۔

2۔ نماز تہجد کا قیام

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ بنی اسرائیل میں نماز تہجد کے بارے میں یوں بیان فرمایا ہے:

اور رات کو بھی تو اس قرآن کے ذریعہ سے کچھ سو لینے کے بعد شب بیداری کیا کر جو تجھ پر ایک زائد انعام ہے۔ (17:80)

سورۃ مزمل میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو یوں مخاطب فرمایا ہے:

’’رات کا اٹھنا نفس کو پیروں کے نیچے مسلنے میں سب سے کامیاب نسخہ ہے اور رات کے جاگنے والوں کو سچ کی عادت پڑ جاتی ہے۔‘‘

’’تجھے دن کے وقت بہت سا کام ہوتا ہے۔‘‘ (73:7-8)

ان آیات میں نماز تہجد کی فضیلت بیان ہوئی ہے نیز یہ کہ دن کے وقت آنحضرت ﷺ کے کاموں کی ایک لمبی فہرست ہے مگر پھر بھی نماز تہجد کا اس قدر التزام تھا کہ خدا کے حضور کھڑے کھڑے آپ کے پاؤں متورم ہو جاتے تھے اس لئے ضروری ہے کہ رمضان کی راتوں میں سحری کے کے وقت نوافل ادا کرنے کی ضرور کوشش کرنی چاہئے۔ خواہ دو یا چار نوافل ہی کیوں نہ پڑھیں۔ اگر آپ نے نماز تراویح بھی پڑھی ہے پھر بھی اصل قیام اللیل یعنی نماز تہجد کی سنت کا ضرور التزام کریں کہ یہ قبولیت دعا کا خاص وقت بھی ہے۔ آنحضرت ﷺ رمضان کی راتوں میں عبادت کرنے کے لئے خاص تحریک و ترغیب فرمایا کرتے تھے۔

بخاری کتاب الصوم میں یہ حدیث بھی آتی ہے آپؐ نے فرمایا:

جو شخص ایمان کے تقاضے اور ثواب کی نیت سے رمضان کی راتوں میں اٹھ کر نماز پڑھتا ہے اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔

ترمذی کتاب الدعوات میں یہ حدیث بھی آتی ہے جو حضرت ابوہریرہؓ سے ہی مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہمارا رب ہر رات قریبی آسمان تک نزول فرماتا ہے جب رات کا تیسرا حصہ باقی رہ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کون ہے جو مجھے پکارے تو میں اس کا جواب دوں! کون ہے جو مجھ سے مانگے تو میں اس کو دوں! کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے تو میں اس کو بخش دوں!

3۔ نماز تراویح

رمضان المبارک میں نماز تراویح بھی ادا کی جاتی ہے۔ اصل تو نماز تہجد ہی ہے۔ لیکن نماز تراویح بھی ادا کرنی چاہئے۔ حصول ثواب کا ایک موقع ہے جس میں قرآن سنا جاتا ہے اور قرآن سننے کا الگ ثواب ہے۔ جو دوست نماز تراویح پڑھتے ہیں انہیں نماز تہجد کی بھی ادائیگی کرنی چاہئے۔ اگر نماز تراویح ادا نہ ہو سکی ہو تو روزہ پھر بھی رکھا جانا چاہئے۔ اس ضمن میں ایک اور بات نوجوان طبقہ کے لئے عرض کروں گا کہ بعض اوقات نوجوان طبقہ نماز تراویح نہیں پڑھتا۔ حالانکہ جب آپ مسجد کے احاطہ میں ہیں تو آپ کو اس میں ضرور شامل ہونا چاہئے ورنہ گھر جا کر جلدی سوئیں تاکہ صبح نماز تہجد کے لئے بیداری ہو سکے۔ اس وقت کو باتوں یا کھیل کود میں ضائع نہ کرنا چاہئے۔ بعض اوقات بچے نماز تراویح میں بھی شامل نہیں ہوتے اور والدین کے انتظار میں مسجد کے احاطہ یا ماحول میں باتیں کرتے رہتے یا شور ڈالتے پھرتے ہیں۔ اس سے اجتناب ضروری ہے۔ اول تو یہی ہے کہ رمضان میں جتنی بھی نیکیوں کی توفیق ملے کر لینی چاہئیں۔ اگر نماز تراویح نہیں پڑھنی اور آپ کی کوشش یہ ہو کہ نماز تہجد ادا کرنی ہے تو وہ تو بہت بہتر ہے لیکن ماحول میں شور نہ ہو جس سے نماز پڑھنے والوں کی نماز میں خلل واقع ہو جائے۔

4۔ ذکر الٰہی

رمضان المبارک میں خصوصاً لیکن عام دنوں میں بھی انسان اپنے آپ کو فضول باتوں سے بچائے اور اپنی زبان کو ذکر الٰہی سے تر رکھے۔ احادیث میں ذکر الٰہی کی بھی بہت فضیلت آتی ہے۔

حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا اے لوگو! ’’جنت کے باغوں میں چرنے کی کوشش کرو۔‘‘ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! جنت کے باغ سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: ذکر کی مجالس جنت کے باغ ہیں۔ (حدیقۃ الصالحین صفحہ127)

آنحضرت ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ’’ذکر الٰہی کرنے والے اور ذکر الٰہی نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے۔‘‘ (بخاری کتاب الدعوات)

ایک اور روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ جب میرا بندہ مجھے یاد کرتا ہے اور اس کے ہونٹ میری یاد میں ہلتے رہتے ہیں تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔‘‘ (ابن ماجہ باب فضل الذکر )

اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو جماعت اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہو، فرشتے اس جماعت کو گھیر لیتے ہیں، اللہ کی رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے۔ اللہ کی سکینت ان پر نازل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کا تذکرہ فرشتوں کی مجلس میں فرماتے ہیں۔‘‘  (مسلم باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن)

حضرت ابوسعید خدریؓ ہی کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ آج قیامت کے میدان میں جمع ہونے والوں کو معلوم ہو جائے گاکہ عزت و احترام والے کون لوگ ہیں۔ عرض کیا گیا: یہ عزت و احترام والے کون لوگ ہیں؟ ارشاد فرمایا: ’’مجالس الذکر فی المساجد‘‘ مساجد میں ذکر کی مجالس والے۔     (مسند احمد، مجمع الزوائد)

یہاں پر یہ بات لکھنی فائدہ مند ہو گی کہ ذکر الٰہی میں جہاں انسان درود شریف ، تسبیح و تہلیل، حمد و ثناء اللہ تعالیٰ کی بیان کرتا ہے، وہاں نماز بھی ذکر الٰہی میں آتی ہے۔ تلاوت قرآن کریم بھی ذکر الٰہی میں شامل ہے۔ اور نوافل کی کثرت بھی ذکرِ الٰہی میں شامل ہے۔ اس لئے زیادہ سے زیادہ وقت خصوصاً رمضان المبارک میں انسان ذکر الٰہی کرتا رہے۔

رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے اور اللہ کے خوف سے اس کی آنکھوں میں آنسو آجائیں تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے عذاب نہ دیں گے۔ (مستدرک حاکم)

5۔ تلاوت قرآن کریم

قرآن کریم کا رمضان المبارک سے گہرا تعلق ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:

’’رمضان کا مہینہ ان مقدس ایام کی یاد دلاتا ہے جن میں قرآن کریم جیسی کامل کتاب کا دنیا میں نزول ہوا۔‘‘  (تفسیر کبیر سورۃ بقرۃ آیت 186)

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہَا الْقُرْآنُ۔ (البقرۃ)

کہ یہ رمضان کا مہینہ ہی تھا جس میں قرآن کریم نازل کیا گیا پس اس کے ایک معنی تو یہ ہوئے کہ رمضان ہی میں قرآن کریم کے نزول کا آغاز ہوا۔ پھر حدیث میں بھی آتا ہے کہ رمضان میں جبرائیل علیہ السلام حضور کے ساتھ مل کر قرآن کریم جتنا نازل ہو چکا تھا اس کا دور مکمل کرتے بلکہ آپ کی وفات کے سال ایک مرتبہ نہیں دو مرتبہ قرآن کریم کا دور مکمل کیا گیا۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’رمضان کلام الٰہی کو یاد کرانے کا مہینہ ہے اس لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اس مہینہ میں قرآن کریم کی تلاوت زیادہ کرنی چاہئے۔‘‘ (تفسیر سورۃ بقرۃ)

پس اس سے رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ رمضان کا مہینہ قرآن کریم کی سالگرہ کا مہینہ ہے اور اس کی سالگرہ یہی ہے کہ اسے بار بار پڑھا جائے اس کے معانی کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق حاصل کی جائے۔

حضرت عبداللہ بن عمروؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن روزے اور قرآن بندے کے لئے شفاعت کریں گے روزہ کہے گا اے میرے رب میں نے اس شخص کو دن کے وقت کھانے پینے سے روکا (اور یہ رک گیا) پس میری سفارش اس کے بارے میں قبول فرما اور قرآن کہے گا۔ اے میرے رب! میں نے اس شخص کو رات سونے سے روک دیا تھا ( یہ راتوں کواٹھ اٹھ کر قرآن پڑھتا تھا) پس اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ پس ان دونوں کی یہ شفاعت اور سفارش قبول کی جائے گی۔ (یعنی اسے بخش دیا جائے گا) (بیہقی شعب الایمان)

حضرت امام الزمان علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’تم قرآن کو تدبر سے پڑھو۔ اور اس سے بہت ہی پیار کرو ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا۔‘‘ (کشی نوح)

پھر فرماتے ہیں:

’’سب کتابیں چھوڑ دو اور رات دن کتاب الٰہی کو پڑھو، بڑا بے ایمان ہے وہ شخص جو قرآن کریم کی طرف التفات نہ کرے اور دوسری کتابوں پر ہی رات دن جھکا رہے۔ ہماری جماعت کو چاہئے کہ قرآن کریم کے شغل اور تدبر میں جان و دل سے مصروف ہو جائیں۔ اس وقت قرآن کریم کا حربہ ہاتھ میں لو تو تمہاری فتح ہے اس نور کے آگے کوئی ظلمت ٹھہر نہ سکے گی۔ ‘‘              (الحکم 17اکتوبر 1900)

قرآن کریم کی تلاوت۔ سوچ سمجھ کر پڑھنا پھر اس پر عمل کرنے کی توفیق خداتعالیٰ سے چاہنا اور اس کے لئے دعائیں کرنا بھی بہت ضروری ہے۔

6۔ درس القرآن

رمضان المبارک کے بابرکت ایام میں خصوصیت کے ساتھ مساجد میں کہیں 4گھنٹے، کہیں 3گھنٹے، کہیں ایک گھنٹہ روزانہ درس القرآن بھی ہوتا ہے اور احباب اس میں شامل ہوتے ہیں۔ شامل ہونے والوں کو کئی لحاظ سے اجر ملتا ہے۔ مثلاً یہی کہ قران کریم سنا جاتا ہے اور قرآن سننے پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ایسے شخص پر رحم ہوتا ہے۔ پھر یہی قرآن سننا اور درس القرآن، ذکر الٰہی کی بھی مجلس بن جاتی ہے جس کی فضیلت پہلے گزر چکی ہے کہ ایسی مجلس پر فرشتے آتے ہیں اور اپنے پروں سے انہیں گھیر لیتے ہیں ان پر رحمت و سکینت نازل ہوتی اور پھر ان کی مغفرت کا اعلان ہو جاتا ہے۔

پس ایسے دوست و احباب جو درس القرآن میں شامل نہیں ہوتے وہ کوشش کریں اور اس طرح بھی نیکیاں کمانے کی طرف توجہ کریں اور اس ثواب سے محروم نہ ہوں جو مغفرت کا ذریعہ ہے۔ یہی تو رمضان کا مقصد ہے۔

7۔ رمضان اور دعائیں

حضرت عمرؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا:

’’رمضان میں اللہ کا ذکر کرنے والا بخشا جاتا ہے اور اس ماہ اللہ سے مانگنے والا کبھی نامراد نہیں رہتا۔‘‘ (جامع الصغیر)

دعاؤں سے انسان اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہو جاتا ہے۔ اس کی روحانیت بڑھتی ہے اسے توکل کا مقام حاصل ہوتا ہے۔ جتنی زیادہ دعائیں ہوں گی اتنی زیادہ ہی روحانی ترقی ہو گی یعنی خداتعالیٰ سے رشتہ مضبوط ہو گا۔ حضرت امام الزمان علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’رمضان کا مہینہ مبارک مہینہ ہے، دعاؤں کا مہینہ ہے۔‘‘ (الحکم 24جنوری 1901ء)

رمضان دعاؤں کے لئے بہت ہی سازگار اور موزوں ترین ہے کنز العمال میں ایک روایت یوں آتی ہے کہ رمضان کی ہر رات اللہ تعالیٰ ایک منادی کرنے والے فرشتہ کو بھیجتا ہے جو یہ اعلان کرتا ہے:

’’اے خیر کے طالب آگے بڑھ اور آگے بڑھ کیا کوئی ہے جو دعا کرے تو اس کی دعا قبول کی جائے کیا کوئی ہے جو استغفار کرے کہ اسے بخش دیا جائے کیا کوئی ہے جو توبہ کرے تاکہ اس کی توبہ قبول کی جائے۔‘‘

پس اس سے زیادہ دعاؤں کے لئے اور کون سا موسم زیادہ موزوں، مناسب اور سازگار ہو گا۔

قبولیتِ دعا

خداتعالیٰ دینے والا ہے، مستجاب الدعوات ہے، جب بھی اس کے بندے اس کے آگے عاجزی انکساری فروتنی تضرع و ابتہال سے جھکیں گے وہ پا لیں گے۔

ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضرت سلمان فارسیؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ بڑا حیا والا، بڑا کریم اور سخی ہے جب بندہ اس کے حضور اپنے دونوں ہاتھ بلند کرتا ہے تو وہ ان کو خالی ہاتھ اور ناکام واپس کرنے سے شرماتا ہے۔‘‘ (یعنی صدق دل سے مانگی ہوئی دعا کو وہ رد نہیں کرتا بلکہ قبول فرماتا ہے)  (ترمذی کتاب الدعوات )

ایک اور حدیث میں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’انسان اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہو اس لئے سجدہ میں بہت دعا کیا کرو۔‘‘ (مسلم کتاب الصلوٰۃ باب ما یقول فی الرکوع والسجود)

ایک حدیث یوں بھی ہے: آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے: جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تکالیف کے وقت اس کی دعاؤں کو قبول کرے تو اسے چاہئے کہ وہ فراخی اور آرام کے وقت بکثرت دعا کرے۔‘‘ (ترمذی ابواب الدعوات)

ان احادیث کے درج کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں دعا کی اہمیت اور قبولیت دعا پر ایمان نصیب ہو۔ دعا ہی ایسا ہتھیار ہے کہ جس کے ذریعہ ہم خدا تعالیٰ سے ہر خیر طلب کر سکتے ہیں اور ہر شر سے پناہ مانگ سکتے ہیں۔

اس لئے نمازوں میں، پھر سجدوں اور رکوعوں میں بکثرت دعا کرنی چاہئے۔ اپنی زبان میں بھی دعائیں مانگیں اور خوب مانگیں۔ اللہ تعالیٰ دینے والا ہے اور وہ ضرور سنے گا اسی یقین کے ساتھ اس کے در پر جھکے رہیں۔

قبولیت دعا کے لئے ایک یہ گر بھی یاد رہے کہ کوئی بھی دعا مانگنے سے قبل اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور آنحضرت ﷺ پر درود شریف پڑھنا نہ بھولیں۔ پھر دعا مانگیں اور آخر میں بھی اپنی دعاؤں کو درود شریف سے مزین کریں اور پھر درود شریف کی تو ویسے ہی بہت برکتیں ہیں۔ اس سے انشاء اللہ دعائیں قبولیت کا درجہ پا ئینگی۔

8۔ ہماری دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں؟

اس بارہ میں ہر شخص خود سوچ سکتا ہے ،خداتعالیٰ کے فضل سے ہم میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو دعائیں کرتے ہیں اور ان کی دعائیں عنداللہ مقبول بھی ہوتی ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:

’’میں اپنے بندہ سے اس کے حسن ظن کے مطابق سلوک کرتا ہوں جو وہ میرے متعلق رکھتا ہے۔‘‘ (مسلم کتاب التوبہ)

آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق اپنا آپ اس پر ظاہر کرتا ہوں پس جیسا وہ میرے متعلق گمان کرے ایسا ہی میرا اس سے سلوک ہوتا ہے ۔ (بخاری کتاب التوحید)

ہر انسان کا اللہ تعالیٰ سے ایک تعلق ہے۔ پس اسی تعلق کے مطابق اس سے سلوک کیا جاتا ہے تذکرۃ الاولیاء میں خاکسار نے ایک واقعہ پڑھا جو حضرت ابراہیم بن ادھم کا ہے کہ

جب لوگوں نے آپ سے دعاؤں کی عدم قبولیت کی شکایت کی تو فرمایا ’’کہ تم خدا کو پہچانتے ہوئے بھی اس کی اطاعت سے گریزاں ہو اور اس کے قرآن و رسول ﷺ سے واقف ہوتے ہوئے بھی ان کے احکام پر عمل پیرا نہیں ہوتے اور اس کا رزق کھا کر بھی اس کا شکر نہیں کرتے، جنت میں جانے اور جہنم سے نجات پانے کا انتظام نہیں کرتے۔ ماں باپ کو دفن کر کے بھی عبرت حاصل نہیں کرتے ابلیس کو غنیم جانتے ہوئے بھی اس سے معاندت نہیں کرتے، موت کی آمد کا یقین رکھتے ہوئے اس سے بے خبر ہو اور اپنے عیوب سے واقف ہوتے ہوئے بھی دوسرے کی عیب جوئی کرتے رہو۔ پھر بھلا خود سوچو کہ ایسے لوگوں کی دعائیں کیسے قبولیت حاصل کر سکتی ہیں۔ ‘‘

قبولیت دعا کے اوقات

احادیث میں بہت سے مواقع ایسے بیان ہوئے ہیں جنہیں قبولیت دعا کے اوقات کہا گیا ہے مثلاً

ایک حدیث میں یوں آتا ہے

اِنَّ لِلصَّاءِمِ عِنْدَ فِطْرِہ لَدَعْوَۃٌ مَا تُرَدُّ (ابن ماجہ)

کہ روزہ دار کے لئے اس کی افطاری کے وقت کی دعا ایسی ہے جو رد نہیں کی جاتی۔ افطاری کے وقت انسان کے قلب پر ایک سوز و گداز اور رقت کی کیفیت ہوتی ہے اور اس کی ساری توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہو جاتی ہے اس لئے فرمایا کہ ایسے وقت کی دعا قبول ہو جاتی ہے۔

پس اس وقت کو جو افطاری سے قبل 10۔15منٹ کا وقت ذکر الٰہی، تلاوت اور دعا ؤں میں گزارنا چاہئے۔ فضول باتوں اور خوش گپیوں اور کھانے پینے کے سامان کی طرف زیادہ توجہ نہ ہونی چاہئے۔ جو خواتین گھروں میں افطاری بنانے میں مصروف رہتی ہیں وہ افطاری بھی بناتی جائیں اور خود کو ذکر الٰہی میں بھی مشغول رکھیں۔ اپنے بچوں اور بڑوں کو بھی یہ بات بار بار ذہن نشین کرائی جائیں۔ تاکہ اس وقت سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔

حضرت سید میر داؤد احمد صاحب مرحوم پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوہ جامعہ کے طلباء کو بار بار اس ضروری امر کی طرف توجہ دلاتے تھے تا کہ طلباء اسوقت سے خصوصی طور پر فائدہ اٹھا سکیں اور اپنے آپ کو دعاؤں میں مصروف رکھ سیکں۔

قبولیت دعا کا ایک اور وقت تہجد کی نماز کا وقت ہے ۔ ایک وقت سجدہ کی حالت ہے جب انسان فروتنی اور عاجزی سے اپنے آپ کو خدا کے حضور گرا دیتا ہے تو خدا کا رحم جوش میں آجاتا اور اس کی دعاؤں کو شرفِ قبولیت بخشتا ہے۔

پھر قبولیت دعا کا ایک اور وقت جمعہ کا وقت ہے۔ اس بارے میں بھی رسول اللہ ﷺ کی حدیث ہے کہ جمعہ کے دن ایک گھڑی ایسی آتی ہے کہ جب مومن بندہ دعا کر رہا ہو تو اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے اور آپ نے ہاتھ کے اشارے سے فرمایا کہ وہ گھڑی بڑی مختصر ہوتی ہے ۔

(مسند احمد بن حنبل جلد سوم مسند ابی ھریرۃ حدیث نمبر 7151 جدید ایڈیشن 1998ء مطبوعہ بیروت )

ایک اور وقت قبولیت دعا کا لیلۃ القدر کی رات ہے جو رمضان المبارک کے آخری عشرے میں آتی ہے۔ ان طاق راتوں میں بھی بکثرت عبادت کرنی چاہئے اور قبولیتِ دعا کے نظارے دیکھنے چاہئیں۔

امام الزماںؑ فرماتے ہیں: ’’انسان کی دعا اس وقت قبول ہوتی ہے جب کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لئے غفلت کو چھوڑ دے جس قدر قرب الٰہی انسان حاصل کرے گا اسی قدر قبولیت دعا کے ثمرات سے حصہ لے گا۔‘‘ (ملفوظات جلد 1صفحہ436)

پھر فرمایا:

’’جب تک سینہ صاف نہ ہو دعا قبول نہیں ہوتی۔ اگر کسی دنیوی معاملہ میں ایک شخص کے ساتھ بھی تیرے سینہ میں بغض ہے تو تیری دعا قبول نہیں ہو سکتی۔ ‘‘

فرمایا: ’’جو مخلوق کا حق دباتا ہے اس کی دعا قبول نہیں ہوتی کیونکہ وہ ظالم ہے ۔‘‘ (ملفوظا ت جلد 2صفحہ195)

فرمایا: ’’یاد رکھو کہ دعائیں منظور نہ ہوں گی جب تک تم متقی نہ ہو۔‘‘   (ملفوظات جلد 5صفحہ130)

فرمایا: ’’ظالم فاسق کی دعا قبول نہیں ہوا کرتی‘‘ (ملفوظات جلد 2صفحہ682)

فرمایا: دعا کا سلسلہ ہر وقت جاری رکھو اپنی نماز میں جہاں جہاں رکوع و سجود میں دعا کا موقع ہے دعا کرو اور غفلت کی نماز کو ترک کر دو، رسمی نماز کچھ ثمرات مترتب نہیں لاتی۔‘‘ (ملفوظات جلد 3صفحہ 176)

رمضان المبارک۔ مالی قربانی اور صدقۃ الفطر

مالی قربانی تزکیہ نفس کرتی ہے اور رمضان کا بھی یہی ایک مقصد ہے کہ جب انسان اس بابرکت مہینہ میں مختلف قسم کی عبادات بجا لاتا ہے تو اس سے اس کا تزکیہ نفس ہوتا ہے۔ بعض لوگ اس مبارک مہینہ میں زکوٰۃ کی طرف بھی خصوصیت سے توجہ دلاتے ہیں، بعض مالی قربانی کی طرف، بعض غرباء کی مالی امداد کی طرف، بعض صدقات کی طرف، وغیرہ ذالک۔ ہر ایک مالی قربانی کسی رنگ کی بھی ہو اگر اس میں دکھاوا اور ریاکاری نہیں تو وہ انسان کے لئے تزکیہ نفس کا کام دیتی ہے۔ رمضان ویسے ہی یہ سبق بھی دیتا ہے کہ غرباء کا خیال رکھا جائے اس سے انسان کو غریبوں کی بھوک کا بھی پتہ لگ جاتا ہے جن کے مالی وسائل کم ہیں اور کھانے کو بھی کم ملتا ہے، تو روزہ ہر قسم کے سبق دیتا ہے اور ایک مالی قربانی کا بھی ہے۔

بخاری کتاب بدء الوحی میں روایت آتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ تمام لوگوں سے بڑھ کر سخی تھے اور آپ کی سخاوت رمضان میں تیز آندھی سے بھی زیادہ ہوتی تھی۔

پس ہمیں بھی مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے خصوصاً اس وقت اسلام کے غلبہ کے لئے مالی قربانی کی بہت ضرورت ہے اور رمضان کے حوالہ سے غرباء کی خدمت کی ضرورت ہے۔ اگر آپ پر زکوٰۃ فرض ہے تو زکوٰۃ کی ادائیگی کریں۔ صدقۃ الفطرت ادا کریں جس کے بارے میں اسلامی تعلیم یہ ہے کہ عید سے قبل یہ ادا ہو جانا چاہئے اپنے گھر کے تمام افراد کی طرف سے!

صدقۃ الفطر کی اہمیت اور بروقت ادائیگی کے بارہ میں ایک روایت یہ آتی ہے

ان شہر رمضان معلق بین السماء والارض لا یرفع الا بزکوٰۃ الفطر۔ یعنی رمضان کے مہینے کی نیکیاں اور عبادات آسمان اور زمین کے درمیان معلق ہو جاتی ہیں انہیں فطرانہ ہی آسمان پر لے جاتا ہے یعنی رمضان کی نیکیوں اور عبادات کی قبولیت کا باعث بنتا ہے۔

(بحوالہ احادیث آنحضرت ﷺ منتخب موضوعات صفحہ 135)

آج کل فطرانہ کی رقم 5ڈالر فی کس ہے۔ شروع رمضان ہی میں ادائیگی کر دینی چاہئے۔ آخری دن کا انتظار نہیں کرنا چاہئے۔

پس رمضان ہمیں درج ذیل سبق دینے کے لئے آتاہے کہ ہم 1۔ تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ سے حصہ لیں۔یعنی خدا کا رنگ اختیار کریں۔ 2۔ ہر قسم کے گناہوں سے بچیں جو کہ تقویٰ کا خاصہ ہے۔ 3۔ ثابت قدمی دکھائیں۔ یعنی رمضان میں جو تقویٰ حاصل کیا ہے اس پرثبات قدم حاصل ہو جائے۔ آئندہ بھی روزے رکھے، نمازوں کو باجماعت ادا کرنے کی توفیق ملی اسے جاری رکھیں، تہجد بھی رمضان کے بعد پڑھیں، ذکر الٰہی اور دعاؤں میں بعد میں بھی اپنا وقت گزاریں، نیکی صدقہ و خیرات کرنے میں دریغ نہ کریں۔

4۔ قوت برداشت پیدا کریں۔ 5۔ جسمانی صحت کا بھی خیال رکھیں۔ 6۔ غرباء پروری کریں۔ 7۔ مایوسی اور احساس کمتری کو پاس تک نہ آنے دیں۔ 8۔ انسانوں کا احترام کرنا سیکھیں۔

حضرت امام الزمان فرماتے ہیں:

’’دنیا میں لاکھوں بکریاں بھیڑیں ذبح ہوتی ہیں لیکن کوئی ان کے سرہانے بیٹھ کر نہیں روتا اس کا کیا باعث ہے؟ یہی کہ ان کا خداتعالیٰ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اسی طرح ایسے انسان کی ہلاکت کی بھی آسمان پر کوئی پرواہ نہیں ہوتی جو اس سے تعلق نہیں رکھتا۔ انسان اگر خداتعالیٰ سے سچا تعلق رکھتا ہے تو اشرف المخلوقات ہے ورنہ کیڑوں سے بھی بدتر۔‘‘(ملفوظات جلد 4صفحہ460)

پس رمضان میں خداتعالیٰ سے سچا، پکا اور زندہ تعلق قائم ہو اور اس کی مخلوق کے ساتھ سچی، پکی اور خالص ہمدردی محض للہ ہو۔ یہی ہمیں انسان بنائے گی اور یہی ہمیں رمضان سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔ وباللہ التوفیق

URL: https://newageislam.com/urdu-section/ramadan-etiquette-days-seeking-blessings/d/107509

New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Womens in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Womens In Arab, Islamphobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism,

 

Loading..

Loading..