امام سید شمشاد احمد ناصر، نیو ایج اسلام
29 جولائی، 2015
اللہ تعالیٰ کے فضل سے رمضان المبارک اپنی برکتوں اور رحمتوں کے جلومیں آیا اور گزر گیا۔ ہر ایک مسلمان اور مومن نے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق روزے رکھے ۔اللہ تعالیٰ کی عبادت کی اور اس کا قرب حاصل کیا۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش میں لگا رہا۔ تلاوتِ قرآنِ کریم میں مشغول رہا۔ نماز با جماعت کی ادائیگی ہمت اور ایک عزم کے ساتھ کرتا رہا۔ حتیّٰ الوسع تہجد پڑھنے کی کوشش بھی کی، خدا سے مناجات کیں،دعائیں کیں، اور ذکرِ الٰہی کثرت کے ساتھ کرنے کی کوشش کی۔ غریبوں اور ناداروں بیواؤں ،یتیم اور بے سہارا لوگوں کی مدد کی، ان کے دکھ سکھ کو بانٹا،ان کی حاجات کو پوری کرنے کی کوشش میں لگا رہا۔ گالی گلوچ سے پرہیز کیا، فضول اور لغو باتوں سے کنارہ کیا، اور شیطان کو جکڑ کر رکھا اور تقویٰ جو کہ عین رمضان کا مقصد تھا کو حاصل کرنے کی بھر پور جدو جہد اور کوشش کی۔
اللہ تعالیٰ ہر ایک کا رمضان المبارک میں کیا ہوامجاہدہ قبول فرمائے۔ اور اس کے لئے دین و دنیا میں بھلائیوں کے سامان پیدا فرمائے، آمین
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ ایک مرتبہ ممبر پر کھڑے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کی پھر فرمایا الاعمال بخوا تیمھا۔ الاعمال بخوا تیمہا ثلاثاً یعنی اعمال کا دارومدار ان کے انجام پر ہے اور اس بات کو آپ نے تین مرتبہ دہرایا۔
رمضان المبارک کا پیغام اور اثرات
اب جب کہ رمضان المبارک اپنے اختتام کو پہنچ گیاہے اس کے مبارک اثرات ختم نہیں ہونے چاہیں۔ آیئے ایک بار پھر دیکھیں کہ رمضان کے آنے کی غرض وغائیت کیاتھی اور اس کے آنے کا کیامقصد اور فائدہ تھا۔ اور ہمیں رمضان کیا پیغام دے کر گیا ہے؟
رمضان کا پہلا پیغام : اس ضمن میں جب ہم قرآنِ کریم پڑھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک کی افادیت میں اللہ تعالیٰ نے ’’لعلکم تتقون‘‘ (سورۃ البقرہ) کے الفاظ فرمائے ہیں۔ یعنی روزوں سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے۔ تقویٰ کہتے ہیں شیلڈ کو جو کہ حفاظت کے کام آتی ہے۔ گویا کہ روزے ڈھال بن جاتے ہیں۔ اس سے خدا کی محبت نصیب ہوتی ہے۔تو کیا رمضان کے بعد ہم تقویٰ کی شیلڈ اتار کر پھینک دینگے؟ نہیں بلکہ ہرگز نہیں۔ اگر رمضان کو ایک درخت سے تشبیہ دیں تو اب اس کو تقویٰ کے پھل لگنے چاہیں۔ رمضان میں تو انسان تقویٰ اختیار کرتا ہی ہے یعنی برائیوں سے بچتا اور خدا کے نزدیک ہوتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ رمضان کے بعد اس کا کتنا اثر ہم پر باقی رہتا ہے۔ کیا ہم میں تقویٰ موجود ہے اور پہلے سے بڑھ کر ہے۔ رمضان نے ہمیں مزید کتنا تقویٰ عطا کیا ہے۔ اس تقویٰ کی جھلک ہمارے اعمال میں اب زیادہ نظر آنی چاہئے۔حضرت مسیحِ موعود ؑ فرماتے ہیں:
’’پس ہمیشہ دیکھنا چاہئے کہ ہم نے تقویٰ و طہارت میں کہاں تک ترقی کی ہے ؟ اس کا معیار قرآن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے متقی کے نشانوں میں سے ایک یہ بھی نشان رکھا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ متقی کو مکروہاتِ دنیا سے آزاد کر کے اس کے کاموں کا خود متکفل ہو جا تا ہے جیسے کہ فرمایا۔ ’’ وَمَن یَتَّقِ اللَّہَ یَجْعَل لَّہُ مَخْرَجاًOوَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْْثُ لَا یَحْتَسِبُ ۔۔۔(الطلاق 3-4)
جو شخص خد ا تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ ہر ایک مصیبت میں اس کے لئے راستہ مخلصی کانکال دیتا ہے اور اس کے لئے ایسی روزی کے سامان پیدا کر دیتا ہے کہ اس کے علم و گمان میں نہ ہوں۔ یعنی یہ بھی ایک علامت متقی کی ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو نابکار ضرورتوں کا محتاج نہیں کرتا۔ مثلاً ایک دوکا ندار یہ خیال کرتا ہے کہ دروغگوئی کے سوا اس کا کام ہی نہیں چل سکتا۔ اس لئے وہ دروغگوئی سے باز نہیں آتا اور جھوٹ بولنے کے لئے وہ مجبوری ظاہر کرتاہے۔ لیکن یہ امر ہر گز سچ نہیں خدا تعالیٰ متقی کا خود محافظ ہو جاتا اور اسے ایسے موقع سے بچا لیتا ہے جو خلافِ حق پر مجبور کرنے والے ہوں ۔ یاد رکھو جب اللہ تعالیٰ کو کسی نے چھوڑا تو خدا نے اسے چھوڑ دیا اورجب رحمان نے چھوڑ دیا تو ضرور شیطان اپنا رشتہ جوڑے گا۔ ۔۔۔۔خدا کے کلام سے پایا جاتا ہے کہ متقی وہ ہوتے ہیں جو حلیمی اور مسکینی سے چلتے ہیں وہ مغرورانہ گفتگو نہیں کرتے، ان کی گفتگو ایسی ہوتی ہے جیسے چھوٹا بڑے سے گفتگو کرے، ہم کو ہر حال میں وہ کرنا چاہئے جس سے ہماری فلاح ہو۔ اللہ تعالیٰ کسی کا اجارہ دار نہیں۔ وہ خاص تقویٰ کو چاہتا ہے جو تقویٰ کرے گا وہ مقام اعلیٰ کو پہنچے گا۔۔۔۔۔ اس لئے ضرور ہے کہ سب سے پہلے اپنے دل اور دماغ سے کام لیں اور نفوس کا تزکیہ کریں، راستبازی اور تقویٰ سے خدا تعالیٰ سے امداد اور فتح چاہیں۔ یہ خدا تعالیٰ کا ایک اٹل قانون اور مستحکم اصول ہے اور اگر مسلمان صرف قیل و قال اور باتوں سے مقابلہ میں کامیابی اور فتح پانا چاہیں تو یہ ممکن نہیں اللہ تعالیٰ لاف و گزاف اور لفظوں کو نہیں چاہتا وہ تو حقیقی تقویٰ کو چاہتا اورسچی طہارت کو پسند فرماتا ہے جیسا کہ فرمایا : ان اللہ مع الذین اتقواوالذین ہم محسنون ۔۔۔‘‘ (ملفوظات، جلدنمبر 1، صفحہ نمبر12، صفحہ نمبر37)
رمضان کا دوسرا پیغام : رمضان المبارک کے ضمن میں ہی اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے ’’انی قریب ‘‘ میں اپنے مومن بندے کے بالکل قریب ہو جاتا ہوں۔ اس کی دعائیں سنتا ہوں۔ اس کی دعائیں قبول کرتا ہوں۔ اس کی دعاؤں اور مناجات کا جواب دیتا ہوں۔ اور یہی اس کے قرب کی ایک علامت اور نشانی ہے۔
جس شخص کو رمضان میں 29 یا 30دن مسلسل اور متواتر دعائیں کرنے کی عادت پڑ جائے۔ تو رمضان کے بعد دعا کی عادت ختم نہیں ہو جانی چاہئے۔ بلکہ اس کو مستقل عادت بنا لیناچاہئے۔
’’انسان کی فطرت ایسی ہے کہ اگر کوئی سائل یا حاجت مند بار بار اس کے پاس آتا رہے تو وہ بیزار ہو جاتا ہے حتیٰ کہ تنگ ہو کر یہاں تک کہہ دیتا ہے کہ بھائی تو نے تو میرا ناک میں دم کر دیا ہے اور مانگنے چلے آئے ۔۔۔لیکن خدا تعالیٰ کی یہ ایک عجیب صفت ہے کہ ساری عمر دن رات اس سے مانگے جاؤ مگر وہ مانگنے سے ناراض نہیں ہوتا۔ایک فقیر نہیں لاکھوں کروڑوں فقیر دن رات کے ہر وقت اور ہر لحظہ میں اس کے پیچھے پڑے رہتے ہیں ۔ مگر اس کی آنکھ پر میل نہیں آتا نہ وہ اکتاتا ہے نہ تنگ ہوتا ہے نہ بیزار۔یہ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ’’ ا لصبور‘‘ ہے۔ یعنی سائلوں سے تنگ نہ آنے والا اور نہ ان سے اکتانے والا بلکہ ہر پیچھے پڑنے والے کی بار بار کی پکار کو سہنے والا عالی حوصلہ خدا وند۔ یہ اس کا حوصلہ اور صبر ہے کہ نہ آزردہ ہوتا ہے نہ برا کہتا ہے نہ جھڑکتا ہے نہ ان کو کسی قسم کی تکلیف پہنچاتا ہے اور سوال کرنے میں بندہ جو بے احتیاطیاں اور زیادتیاں کرتا ہے اسے برداشت کرتا چلا جاتا ہے اور ان پر صبر کرتا ہے بلکہ جتنا کوئی مانگے اتنا ہی اس سے خوش ہوتا ہے۔ پس یہ بھی صبور کے ایک معانی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا کون ہے جو یہ نمونہ صبر اور عالی حوصلگی کا دکھا سکے۔ سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم۔‘‘ (مضامین حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ ، جلد اوّل صفحہ نمبر 254)
پس رمضان کے گزرنے کے ساتھ دعاؤں میں مزید اضافہ کریں۔ مانگیں، اورمانگیں، خوب مانگیں وہ خدابہت دے گا۔
احباب کے فائدہ کے لئے حضرت مسیحِ موعود ؑ کی ایک دعا لکھتا ہوں۔
’’اے رب العالمین ! ترے احسانوں کا میں شکر نہیں کر سکتا۔ تو نہائیت ہی رحیم و کریم ہے اور ترے بے غائیت مجھ پر احسان ہیں ۔ مرے گناہ بخش تا میں ہلاک نہ ہو جاؤں ۔ مرے دل میں خالص اپنی محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما، اور مجھ سے ایسے عمل کرا جس سے تو راضی ہو جائے میں ترے وجہ کریم کے ساتھ اس بات سے بھی پناہ مانگتا ہوں کہ ترا غضب مجھ پر وارد ہو، رحم فرما،رحم فرما، رحم فرما اور دنیا و آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کہ ہر ایک فضل و کرم ترے ہی ہاتھ میں ہے۔ آمین ثمّ آمین۔‘‘ (ملفوظات)
رمضان کا تیسرا پیغام : رمضان المبارک میں عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے کہ مساجد نمازیوں سے بھرنے لگتی ہیں۔ وہ اپنے ہر قسم کے کا موں کا حرج کر کے بھی مسجد میں نماز باجماعت کی ادائیگی کے لئے پہنچتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر نماز با جماعت ہی فرض قراردی ہے اور احادیث نبویہ میں نماز با جماعت کا ثواب 27 گنا سے بھی زیادہ بیان ہوا ہے۔ اس لئے ایک مومن کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ رمضان المبارک میں نماز با جماعت ادا کرے اور بہت حد تک اس میں اسے کامیابی بھی ہوتی ہے۔
آنحضرت ﷺ کی ایک حدیث ہے۔ آپ نے فرمایا : ’’احب البلاد الی اللہ مساجد ہا وابغض البلاد الی اللہ اسواقھا ‘‘
کہ شہروں میں سب سے محبوب جگہ اللہ تعالیٰ کو اس کی مساجد ہیں اور شہروں میں سب سے ناپسندیدہ جگہیں خدا تعالیٰ کے حضور میں اس کے بازار ہیں۔
پس خدا تعالیٰ نے جو نماز با جماعت کی مساجد میں ادائیگی کی توفیق ارزاں دی وہ جاری رہنی چاہئے اور کوشش کرکے مساجد کو آباد رکھنا چاہئے، مغربی معاشرے میں خصوصاً امریکہ جیسے ماحول میں جہاں انسان ہر وقت مشین کی طرح کام کر رہا ہے۔ اسے خدا تعالیٰ کے لئے ضرور وقت نکالنا چاہئے۔ کیونکہ نماز با جماعت انسان کے اعمال اور اخلاق پر گہرا اثر ڈالتی ہے ۔ اور بچوں کے اندر اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے کے لئے انہیں مساجد میں لے کر جانے کی ضرورت ہے تا کہ انہیں خدا کی محبت نصیب ہو۔ اور معاشرہ میں دوسرے لوگوں سے مل کر ان کی تربیت ہو۔
ہفتہ اور اتوار کو بچوں کو اسکولوں سے چھٹی ہوتی ہے والدین کو چاہئے کہ انہیں نمازِ فجر کے لئے جگائیں اور مسجد لے کر جائیں۔ اسی طرح شام کی نمازوں کا اہتمام بھی کرنا چاہئے۔ اور اگر واقعتا آپ مسجد سے بہت دور ہیں اور آنا ممکن نہیں تو گھر ہی میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ نماز با جماعت کا اہتمام کریں۔اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضمانت ہے کہ جو خدا کے گھروں کو آباد کرے گا خدا اس کے گھر کو آباد رکھے گا۔
رمضان المبارک کا چوتھا پیغام ۔ تِلاوت
رمضان المبارک کا قرآنِ کریم کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے۔ اس مبارک مہینہ میں قرآ نِ کریم کا نزول شروع ہوا تھا۔ چنانچہ مسلمان اس مبارک مہینہ میں کثرت کے ساتھ تلاوت کرتے اور خدا تعالیٰ کے احکامات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہی مقصد تلاوت کا ہے۔اس لئے رمضان المبارک کے بعد بھی دوستوں ، احباب اور مردو خواتین کو قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے رہنا چاہئے، کیونکہ ’ ’جو لوگ قرآنِ کریم کو عزت دینگے وہ آسمان پر عزت پائیں گے۔‘‘ اور عزت دینے کے معانی یہی ہیں کہ قرآنِ کریم کو سوچ سمجھ کر پڑھا جائے اور اس کے احکامات کو عملی طور پر اپنی زندگی کا حصہ بنایا جائے۔
قرآنِ کریم کو چھوڑ کر کوئی کامیابی نہیں :
’’کس قدر ظلم ہے کہ اسلام کے اصولوں کو چھوڑ کر قرآن کو چھوڑ کر جس نے ایک وحشی دنیا کو انسان اور انسان سے با خدا انسان بنایا ۔ ایک دنیا پرست قوم کی پیروی کی جائے جو لوگ اسلام کی بہتری اور زندگی مغربی دنیا کو قبلہ بنا کر چاہتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہو سکتے کامیاب وہی لوگ ہونگے جو قرآن کریم کے ماتحت چلتے ہیں۔ قرآنِ کریم کو چھوڑ کر کامیابی ایک ناممکن اور محال امر ہے۔ اور ایسی کامیابی ایک خیالی امر ہے جس کی تلاش میں لوگ لگے ہوئے ہیں۔صحابہ کا نمونہ اپنے سامنے رکھو، دیکھو انہوں نے جب پیغمبرِ خدا ﷺ کی پیروی کی اور دین کو دنیا پر مقدم کیا تو وہ سب وعدے جو اللہ تعالیٰ نے ان سے کئے تھے پورے ہوگئے۔ ۔۔ رسول کریم ﷺ کی اطاعت میں گم ہو کر وہ پایا جو صدیوں سے ان کے حصے میں نہ آیا تھا۔وہ قرآنِ کریم اور رسول کریم ﷺ سے محبت کرتے تھے اور ان ہی کی اطاعت اور پیروی میں دن رات کوشاں تھے۔‘‘ (ملفوظات)
پس قرآن کو حرزِ جان بناؤ۔ قرآن کا حربہ ہو تو انشأاللہ فتح ہو گی۔
رمضان کا پانچواں پیغام ۔ ذکرِ الٰہی :
حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے رمضان المبارک کے بارے میں فرمایا ’’رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کاذکر کرنے والا بخشا جاتا ہے اور اس ماہ اللہ سے مانگنے والا کبھی نادار نہیں رہتا۔ ‘‘ اس مبارک مہینہ میں لوگوں نے کثرت سے ذکرِ الٰہی کیا اور ذکرِ الٰہی کی ایک عادت پڑ گئی تھی اس عادت کو جاری رکھنا چاہئے۔ کیونکہ احادیث میں بھی ذکرِ الٰہی کی بڑی اہمیت بیان ہوئی ہے۔
آنحضرت ﷺ نے فرمایا وہ گھر جن میں خدا تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہے اور وہ گھر جن میں خدا تعالیٰ کا ذکر نہیں ہوتا ان کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے۔ (مسلم)
بخاری کتاب الدعوات میں یہ روایت بھی آتی ہے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ۔ ’’ذکرِ الٰہی کرنے والے اور ذکرِ الٰہی نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے ۔ یعنی جو ذکرِ الٰہی کرتا ہے وہ زندہ ہے اور جو نہیں کرتا وہ مردہ ہے۔‘‘
ایک بزرگ کا قصہ :
کتابوں میں باقاعدگی اورالتزام سے ذکر کرنے والے ایک بزرگ کا قصہ لکھا ہے کہ انہیں اپنے زمانہ کے ایک بہت بڑے بزرگ سے ملا قات کرنے کا اشتیاق پیدا ہوا اور وہ اس بزرگ شخصیت کے شہر کی طرف روانہ ہوئے۔ سفر کر کے وہ رات کے وقت ایسی جگہ پہنچے جہاں سے اس ربانی بزر گ کی جائے رہائش زیادہ دور نہیں تھی۔ ان صاحب نے سوچا کہ رات کو مزید سفر کرنا اور دیر سے جا کر اس بزرگ کے معمولات میں مخل ہونا مناسب نہیں لہٰذا انہوں نے ایک مسجد میں ہی رات گزاری۔ رات انہوں نے خواب میں دیکھا کہ وہ ممتاز شخصیت جس کی ملاقات کی خاطر انہوں نے اتنا لمبا اور کٹھن سفر کیا تھا اس رات وفات پا گئے ہیں۔ صبح بیدار ہونے پر انہیں بے حد قلق ہوا کہ منزل کے عین قریب پہنچ کر وہ ملاقات کی سعادت سے محروم رہ گئے۔ انہیں اس اضطراب میں دیکھ کر ایک نمازی نے وجہ دریافت کی تو انہوں نے بڑے دکھ سے بیان کیا کہ اس ربانی شخصیت کی ملاقات کی نیت سے سفر پر نکلے تھے لیکن انہیں ان کی وفات کی خبر بذریعہ خواب ملی ہے ۔ وہ نمازی انہیں تسلّی دیتے ہوئے بولا کہ وہ ہر گز ملال نہ کریں وہ اس بزرگ شخصیت سے تھوڑی دیر پہلے مل کر آیا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے زندہ سلامت ہیں۔ یہ صاحب عجیب کشمکش کی حالت میں فوراً ان کے پاس حاضر ہوگئے اور ان سے اپنی خواب کا ذکر کیا خواب سن کر اس بزرگ شخصیت نے کہا کہ ایک لحاظ سے تو آپ کا خواب درست ہے۔ میں ہر روز رات کو سونے سے پہلے مقررہ ذکرِ الٰہی کیا کرتا ہوں لیکن گزشتہ رات میں دوسری مصروفیات کی وجہ سے معمول کا ذکر کئے بغیرہی سو گیا ۔ توگویا میں اس رات کو روحانی طور پرمر گیا تھا کیونکہ ذکر سے محروم شخص کی مثال مردہ کی سی ہے۔
پس رمضان میں جو ذکر الٰہی کی عادت پڑی ،اسے قائم رکھنا چاہئے۔ کچھ اذکار احباب کے فائدہ کے لئے لکھ دیتا ہوں۔
(1سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم
(2استغفر اللہ ربی من کلِ ذنبٍ و اتوب الیہ
(3 ربّ کلّ شیءٍ خادمک رب فاحفظنی وانصرنی وارحمنی
(4لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ۔ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شیءٍ قدیر
(5سبحان اللہ والحمدللہ ولاالہ الا اللہ و لاحول ولا قوۃ الا باللہ
(6درود شریف کا کثرت سے ورد کرنا چاہئے۔ یہ تمام سعادتوں کی کنجی ہے
یہ چند دعائیں اور اذکار لکھے ہیں انہیں انسان پڑھتا رہے تو اس کے لئے مفید ہیں۔ احادیث نبویہ میں اور اذکار بھی ہیں۔ روایات میں ایک اور اہم بات ذکرِ الٰہی کے متعلق ملتی ہے اور وہ یہ ہے کہ :
حضرت ابو ھریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے کچھ بزرگ فرشتے گھومتے رہتے ہیں اور انہیں ذکر کی مجالس کی تلاش رہتی ہے ۔جب وہ کوئی ایسی مجلس پاتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہو رہا ہو تو وہا ں بیٹھ جاتے ہیں اور پروں سے اس کو ڈھانپ لیتے ہیں۔ ساری فضا ان کے سائیہ برکت سے مخمور ہو جاتی ہے۔ جب لوگ اس مجلس سے اٹھ جاتے ہیں تو وہ بھی آسمان کی طرف چڑھ جاتے ہیں۔ وہاں اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے ۔ حالانکہ وہ سب کچھ جانتا ہے۔ کہاں سے آئے ہو؟ وہ جواب دیتے ہیں۔ ہم تیرے بندوں کے پاس سے آئے ہیں جو تیری تسبیح کر رہے تھے، تیری بڑائی بیان کر رہے تھے، تیری عبادت میں مصروف تھے اور تیری حمد میں رطب اللسان تھے اور تجھ سے دعائیں مانگ رہے تھے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ مجھ سے کیا مانگتے ہیں اس پر فرشتے عرض کرتے ہیں کہ وہ تجھ سے تیری جنت مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس پر کہتا ہے۔ کیا انہوں نے میری جنت دیکھی ہے؟ فرشتے کہتے ہیں۔ اے میرے رب انہوں نے تیری جنت دیکھی تو نہیں۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے ۔ان کی کیا کیفیت ہو گی اگر وہ میری جنت کو دیکھ لیں۔ پھر فرشتے کہتے ہیں وہ
تیری پناہ چاہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اس پر کہتا ہے وہ کس چیز سے میری پناہ چاہتے ہیں؟ فرشتے اس پر کہتے ہیں تیری آگ سے وہ پناہ چاہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کیا انہوں نے میری آگ دیکھی ہے؟ فرشتے کہتے ہیں دیکھی تو نہیں۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ ان کا کیا حال ہوتا اگر وہ میری آگ کو دیکھ لیں؟۔ پھر فرشتے کہتے ہیں وہ تیری بخشش طلب کرتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کہتا ہے میں نے انہیں بخش دیا اور انہیں وہ سب کچھ دیا جو انہوں نے مجھ سے مانگا اور میں نے ان کو پناہ دی جس سے انہوں نے میری پناہ طلب کی اس پر فرشتے کہتے ہیں اے ہمارے رب ان میں فلاں غلط کار شخص بھی تھا وہ وہاں سے گزر ا اور ان کو ذکر کرتے ہوئے دیکھ کر تماش بین کے طور پر ان میں بیٹھ گیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اس کو بھی بخش دیا۔ کیونکہہم القوم لا یشقیٰ بہم جلیسھم یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے پاس بیٹھنے والا بھی محروم اور بد بخت نہیں رہتا۔
پس ہمیں ایسا بننا چاہئے کہ دوسروں کے فیض کا ذریعہ بنیں کیونکہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کس کے پاس بیٹھنا (دینی لحاظ سے) بہتر ہے آپ ﷺ نے فرمایا ایسے شحص کے پاس بیٹھنا مفید ہے جس کو دیکھنے کی وجہ سے ہمیں خدا یاد آوے۔ جس کی باتوں سے تمہارے علم میں اضافہ ہو اور جس کے عمل کودیکھ کر تمہیں آخرت کا خیال آئے(اور اپنے انجام کو بہتر بنانے کے لئے تم کوشش کرنے لگو)
رمضان المبارک کا چھٹا پیغام ۔ غربأ سے محبت و ہمدردی
اس مبارک مہینہ میں احباب نے حتیٰ الوسع کوشش کی کہ وہ غریب لوگوں کے دکھ بانٹیں ، ان کی دلجوئی کریں، ان کے کام آئیں، ان کا خیال رکھیں، ان کی ضرورتوں کو پورا کریں، اور ان سے مواسات کریں۔
غربأ کی ہمدردی اور اُن کا خیال رکھنا بہت بڑی نیکی اور عبادت بھی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دِن اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا کہ اے بنی آدم میں بھوکا تھا تو نے مجھے کھانا نہ کھلایا۔ وہ کہے گا اے رب العالمین سب کچھ تیرا ہے اور کھانے پینے کی احتیاج سے تو بے نیاز ہے۔ میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ مرا فلاں بندہ بھوکا تھا اس نے تجھ سے کھانا مانگا اگر تو نے اسے کھلایا ہوتا توگویا تو نے مجھے کھلایاہوتا۔ اسی طرح پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گاکہ مجھے فلا ں ضرورت تھی تو نے میری ضرورت پوری نہ کی۔ تو وہ جواب دے گا ۔ رب العالمین تجھے تو اس کی ضرورت نہ تھی اللہ تعالیٰ فرمائے گا ۔ میرے فلاں بندے کو اس کی ضرورت تھی اور تجھ سے اس نے مانگی مگر تو نے نہ دی اگر تو نے دی ہوتی تو گویا مجھے دی ہوتی۔
اس حدیث میں غربأ پروری اور غریبوں کا خیال رکھنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ آنحضرت ﷺ کی رمضان میں سخاوت تیز آندھی کی طرح ہوتی تھی۔ لیکن رمضان کے علاوہ بھی آنحضرت ﷺ غربأ کا بہت خیال رکھتے تھے۔اس لئے رمضان گزرنے کے بعد بھی یہ عادت قائم رکھنی چاہئے۔ ہمارے معاشرہ میں بیوگان ہیں ،یتیم بچے ہیں، بعض کو کھانااور کپڑے بھی میسر نہیں ہیں ان کی ضرورتوں کو پورا کرنا ہمارا فرض ہے۔ بعض ایسے ہیں کہ مالی مشکلات کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر سکتے ان کی مدد کرنا بھی ہمارا فرض ہے۔
ترمذی میں یہ حدیث درج ہے۔ حضرت ابو دردأ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا، کمزوروں میں مجھے تلاش کرو۔ یعنی میں ان کے ساتھ ہوں اور ان کی مدد کر کے تم میری رضا حاصل کر سکتے ہو ۔یہ حقیقت ہے کہ کمزوروں اور غریبوں کی مدد کی وجہ سے تم خدا کی مدد پاتے ہو اور اس کے حضور سے رزق کے مستحق بنتے ہو۔
حضرت سہل بن سعدؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں اور یتیم کی دیکھ بھال میں لگا رہنے والا شخص جنت میں اس طرح ساتھ ہو نگے۔ آپ ﷺ نے وضاحت کی غرض سے انگشتِ شہادت اور درمیانی انگلی کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھ کر دکھایا کہ اس طرح۔
حضرت ابو ھریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا مسلمانوں کے گھروں میں سب سے بہترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے اور مسلمانوں کے گھروں میں سے بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ برا سلوک ہوتا ہو۔
مسلم کتاب الجنائز باب الصلوٰۃ علی القبرمیں ایک واقعہ درج ہے۔جسے حضرت ابو ھریرہؓ نے بیان کیا ہے۔ اور یہ واقعہ بیسیوں مرتبہ ہم نے پڑھا ہے۔ لیکن کیا غور کر کے اس کے مطابق اس کو اپنے عمل میں بھی ڈھالا ہے یا نہیں۔وہ واقعہ یہ ہے ۔
کہ ایک سیاہ فام عورت مسجد میں صفائی اور اس کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ آنحضرت ﷺ نے کئی دن تک اس کو نہ دیکھا تو آپ ﷺ نے اس کے متعلق دریافت فرمایا۔ صحابہؓ نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ اس کی تو وفات ہو گئی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا مجھے کیوں نہ اس کی اطلاع دی ۔ دراصل صحابہؓ نے اس کو معمولی انسان سمجھ کر یہ خیال کیاتھا کہ اس کے متعلق حضور ﷺ کو کیا تکلیف دینی ہے۔ چنانچہ حضور ﷺ نے فرمایا مجھے اس کی قبر دکھاؤ۔ لوگوں نے قبر بتائی تو آپ ﷺ نے وہاں جا کر اس کی نمازِ جنازہ پڑھی۔
کیا ہم بھی غربأ کے جنازوں میں شریک ہوتے اور قبرستان جا کر ان کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ اصل انسانیت یہی ہے ورنہ کسی نے کیا خوب کہا ہے۔
اب تو فاتحہ کے لئے بھی لحد پہ کوئی نہیں آتا
جیتے جی سب سے ملاقات ہوا کرتی ہے
آنحضرت ﷺ نے فرمایا رحم کرنے والوں پر رحمان خدا رحم کرے گا۔ تم اہل زمین پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔
حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تین باتیں جس میں ہوں اللہ تعالیٰ اسے اپنی حفاظت اور رحمت میں رکھے گا اور اسے جنت میں داخل کرے گا ۔ پہلی یہ کہ وہ کمزوروں پر رحم کرے ، دوسری یہ کہ وہ ماں باپ سے محبت کرے، تیسری یہ کہ خادموں اور نوکروں سے اچھا سلوک کرے۔
ہمارے معاشرہ میں ان تینوں باتوں کی طرف بہت کم دھیان دیا جاتا ہے ۔بالخصوص نوکروں، خادموں، ماتحتوں اور کمزوروں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوتا۔ بلکہ گھر کے بچے بھی نوکروں اور خادموں کے ساتھ بد خلقی سے پیش آتے اور ان کو کم تر انسان جانتے ہیں۔ دراصل ان کا قصور بھی نہیں۔ وہ ماں باپ اور ارد گرد کے ماحول سے یہی سیکھتے ہیں۔اگر اولاد کی اچھی تربیت ہو ، اور اخلاقِ حسنہ سکھائے جائیں تو ایسا نہ ہو ۔ لیکن ہمارے معاشرہ میں احساسِ کمتری اور احساسِ برتری پایا جاتا ہے۔ جس سے چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے۔یہ انسانیت کے آداب کے خلاف ہے کہ کسی انسان کی تحقیر کی جائے اور اسے کم تر خیال کیا جائے۔ انسانیت سے محبت ہی اسلام ہے بلکہ عین اسلام ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک عالم دِن دھاڑے ہاتھ میں لالٹین لئے کچھ تلاش کر رہا تھا۔ کسی نے پوچھا بزرگ میاں! یہ کیا ؟ جب دن نکلا ہوا اور خوب روشن ہے اس لالٹین کے ذریعہ آپ کیا تلاش کر رہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ میرا مسئلہ ہی یہ ہے کہ میں ہمیشہ عنقأ کی تلاش میں رہتا ہوں۔ اس وقت میں انسانیت کی تلاش میں ہوں۔ انسان تو ہر طرف نظر آتے ہیں لیکن انسانیت نہیں! یہ ہمارے معاشرے کا بڑا المیہ ہے!
غریب لوگوں کو گھروں میں نوکر چاکر کے طور پر رکھا جاتا ہے۔ یا اپنے روزمرہ کے چھوٹے موٹے کاموں کے لئے غربأ سے کام لیتے ہیں۔ عموماًمزدور ہر جگہ مل جاتے ہیں ۔لیکن اُن کو مزدوری دیتے وقت بہت تکلیف محسوس کی جاتی ہے۔ کام پورا کروا لیتے ہیں لیکن مزدوری دیتے وقت تاخیر سے کام لیتے ہیں یاکم ادا کرتے ہیں۔ جو کہ ایک ظلم ہے اور اللہ تعالیٰ کو ہر گز یہ باتیں پسند نہیں ہیں۔ہمارے معاشے میں یہ بداخلاقی بھی عام ہے کہ کام زیادہ لو اور پیسے کم دو !
آنحضرت ﷺ نے تو فرمایا مزدور کو اس کی مزدوری اس کے پسینہ خشک ہونے سے پہلے دو۔ اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ شخص جس نے کسی مزدور کو رکھا او پھر اس سے پورا پورا کام لیا لیکن اس کو طے شدہ مزدوری نہ دی ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کے دن میں اس سے سخت باز پرس کروں گا۔
پس رمضان سے ایک سبق ہمیں یہ لینا چاہئے کہ ہم نے جو ان گنتی کے ایام میں غربأ کا خیال رکھا، اُن سے ہمدردی کی، اُن کو کھانوں میں شریک کیا یا ان کا کوئی دکھ تکلیف دور کیا۔ تو اب یہ سلسلہ رمضان کے جانے سے ختم نہ ہو جائے بلکہ پہلے سے بڑھ کر اس پر عمل کریں۔
رمضان کا ساتواں پیغام ۔ زبان کی حفاظت
آنحضرت ﷺ نے روزہ دار کے لئے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے روزہ ڈھال ہے۔پس تم میں سے جب کسی کا روزہ ہو تو نہ وہ بے ہودہ باتیں کرے نہ شورو شر کرے ۔ اگر اس سے کوئی گالی گلوچ یا لڑائی جھگڑا کرے تو وہ جواب میں کہے کہ میں نے تو روزہ رکھا ہوا ہے۔ اسی طرح ایک اور روایت ہے۔ حضرت ابو ھریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص جھوٹ بولنے اور جھوٹ پر عمل کرنے سے اجتناب نہیں کرتا اللہ تعالیٰ کو اس کا بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
گویا رمضان میں ہم نے یہ سبق سیکھا ہے کہ نہ ہی گالی گلوچ کرنی ہے نہ ہی بے ہودہ باتیں۔ نہ کسی کا دل دکھانا ہے نہ ہی غیبت کرنی ہے وغیرہ۔
دنیا میں اس وقت جس قدر مسائل ہیں ان میں سے زیادہ تر زبان ہی کے پیدا کردہ ہیں ۔اسی وجہ سے ہمارے پیارے آقاحضرتِ اقدس محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص تین باتوں کی ضمانت دے دے میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ اور ان تین میں سے ایک ’’زبان‘‘ ہے۔
بخاری اور مشکوٰۃ میں یہ روایت بھی درج ہے اور حضرت ابو ھریرہؓ اس کے راوی ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ بلاشبہ بندہ کھبی اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کا کوئی ایسا کلمہ منہ سے کہہ دیتا ہے کہ جس کی طرف اسے دھیا ن بھی نہیں ہوتا اور اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے درجات بلند کر دیتا ہے( جنت میں)۔ اور بلا شبہ کھبی اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی کا کوئی ایسا کلمہ کہہ گزرتا ہے کہ اس کی طرف اس کا دھیان بھی نہیں ہوتا اور اس کی وجہ سے پھر وہ دوزخ میں گرتا چلا جاتا ہے۔
اس حدیث میں زبان کی خوبی اور خرابی دونوں بتائی گئی ہیں کہ ایک ایک لفظ کتنا قیمتی یا ضرر رساں ہو سکتا ہے۔
انسانی جسم میں زبان کا عضو اگرچہ دیکھنے میں بہت چھوٹا ہے لیکن اس کے کرشمے بہت بہت زیادہ ہیں اس کی خوبیاں اور خرابیاں دونوں بہت زیادہ ہیں۔
یہی زبان ہے جس سے انسان دوسروں کو نیکیوں کی طرف بلاتا ہے۔ دعوتِ الی اللہ کرتا ہے۔ خدا کا پیغام پہنچاتا ہے۔ لیکن دوسری طرف دیکھو تو کفرو شرک کی باتیں بھی اسی زبان سے ہوتی ہیں۔جھوٹی قسم، جھوٹی گواہی بھی اسی سے ادا ہوتی ہے۔ غیبت، بہتان، چغلی اور اسی طرح دوسرے گناہ بھی اس سے سر زد ہوتے ہیں۔
ایک حکائیت
حضرت لقمان حکیم سے اُن کے آقا نے کہا کہ ایک بکرا ذبح کرواور اس کے گوشت کا وہ حصہ جو سب سے زیادہ اچھا ہوپکا کر لاؤ۔ لقمان حکیم نے دل اور زبان لیا اور پکا کر اپنے آقا کے حضور حاضر کر دیا۔ کچھ دنوں کے بعد پھر آقا نے کہا کہ بکرا ذبح کرو اور اس کے جو ناپسندیدہ اعضأ ہیں پکا کر لاؤ۔ لقمان حکیم نے دوبارہ زبان اور دل پکا کر پیش کر دیئے۔
آقا نے دریافت کیا ۔ لقمان یہ کیا؟ اچھے اعضأمیں بھی تم نے دل اور زبان اور خراب اعضأمیں بھی تم نے دل اور زبان پیش کئے اس کی کیا وجہ ہے؟
لقمان نے عرض کی آقا زبان اور دل اچھے ہو جائیں تو سب کچھ اچھا ہو جاتا ہے۔ اور اگر یہ دونوں گندے ہو جائیں تو سب کچھ گندا ہو جاتا ہے۔
ایک صحابی کو آنحضرت ﷺ نے نصیحت فرمائی امسک علیک لسانک کہ اپنی زبان کو کنٹرول میں رکھو تو تم عافیت میں رہو گے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں ارشاد فرمایا ہے وہم عن اللغو معرضون یعنی حقیقی مومن لغو کاموں سے اور لغو باتوں سے پرہیز کرتاہے۔ ہمارے معاشرہ میں گالی گلوچ کرنا بڑی عام بات ہے۔ بلکہ بعض لوگ اسے برا نہیں سمجھتے۔ حالانکہ یہ اخلاق اورتہذیب کے خلاف ہے کہ زبان کو گندا کیا جائے،گالی دی جائے ، کسی کو برا بھلا کہا جائے۔ خاص طور پر گلی کوچوں میں بچے گندی زبان استعمال کرتے پھرتے ہیں۔ اس سے پرہیز کرنا چاہئے۔ ہم مسلمانوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ گالی گلوچ کریں ۔ا ور کسی کو تحقیر کی نگاہ سے دیکھیں۔
پس رمضان میں جو روزہ سے یہ سبق لیا ہے کہ روزہ رکھ کر انسان اپنی زبان کو گالی گلوچ سے گندہ نہ کرے، زبان درازی نہ کرے، بک بک نہ کرے تو رمضان کے بعد اس کا اثر قائم رہنا چاہئے۔
مسلم میں یہ حدیث درج ہے۔ حضرت ابو ھریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ایک مرتبہ اصحابؓ سے دریافت فرمایا کہ تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صحابہؓ نے عرض کی کہ ہم تو اسے مفلس سمجھتے ہیں کہ جس کے پاس درہم یا مال اور سامان وغیرہ نہ ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا میری امت میں بلا شبہ مفلس وہ ہے جوقیامت کے دن اپنے اعمال نامہ میں نماز روزے اور زکوٰۃ لے کر آئے گا لیکن ساتھ ہی اس حالت میں آئے گا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پر تہمت لگائی ہو گی، کسی کا مال کھایا ہو گا یا کسی کا خون بہایا ہو گا، کسی کو مارا ہو گا۔ لہٰذا اس کی نیکیاں ان میں تقسیم کر دی جائیں گی ۔ کچھ اِس کو دے دی جائیں گی تو کچھ اُس کو۔ اگر اس کی نیکیاں لوگوں کے حقوق ادا کرنے سے پہلے ختم ہو جائیگی تو پھر اُن لوگوں کے گناہ اِس کے سر ڈال دئیے جائیں گے اور پھر اسے درزخ میں ڈال دیا جائے گا۔
حضرت ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ، طعنہ زنی کرنے والا، دوسرے پر لعنت کرنے والا، فحش کلامی کرنے والا ،یاوا گواور زبان دراز مومن نہیں ہو سکتا ۔
ایک ضروری بات
امتِ مسلمہ میں ایک اور بات جس کا دکھ اور تکلیف سے ذکر کرتا ہوں۔ وہ زبان کا غلط استعمال ہے ۔ جس کی وجہ سے آپس میں جھگڑے اور خون خرابہ ہو رہا ہے۔ایک دوسرے پر کفر کے فتویٰ ہیں جس کی وجہ سے فرقہ واریت نے امتِ مسلمہ کو پارہ پارہ کر کے رکھا ہوا ہے۔اللہ تعالیٰ امتِ مسلمہ پررحم کرے ۔حالانکہ حدیثِ نبوی ﷺ میں ہے۔
حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا من قال لا خیہ المسلم یا کافر جب کوئی شخص اپنے بھائی کو کافر کہتا ہے یہ کفر ان میں سے کسی ایک پر ضرور آ پڑتا ہے۔ اگر تو وہ شخص جسے کافر کہا گیا ہے واقعہ میں کافر ہے تو خیر ورنہ کفر اس پر لوٹ آئے گا جس نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا ۔(مسلم کتاب الایمان باب حال ایمان)
علمأنے کسی کے ایمان کا ٹھیکہ تو نہیں لیا ہوا۔ کون ایمان کا ٹھیکیدارہے؟ ایمان تو انسان اور خدا کے درمیان ہے۔ جسے چاہے قبول کرے، جسے چاہے رد کرے۔ خدا کا کام اپنے ہاتھوں میں لینے کی کس نے اجازت دی ہے۔ خدارا اس کے بارے میں سوچیں اور فکر کریں۔ ہم نے امت کو کہا ں سے کہا ں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔
علمأ سے معذرت کے ساتھ ! کہ ہم نے اپنی کون سی ذمہ داری ادا کی ہے؟ لوگوں کے اخلاق اور روحانیت کو کہا ں تک ٹھیک کیا ہے؟ معلمِ اخلاق اور معلمِ روحانیت آنحضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی سنت سے کس قدر لوگوں کو آگاہ اور واقف کیا ہے؟ اسی پر حالی نے مرثیہ کہا تھا۔
رہا دین باقی نہ اسلام باقی
فقط رہ گیا اسلام کا نام باقی
ایک دوسرے پر کفر کے فتاویٰ نے آج امتِ مسلمہ کا خون کر دیا ہے ۔ خون کی نہریں بہہ رہی ہیں اور کسی کو دکھ نہیں ہے۔ کسی کی آنکھ سے آنسو نہیں ٹپکتا۔ اور اسی وجہ سے اسلام غیروں میں بھی بد نام ہورہا ہے ۔ اب نہ رمضان کا تقدس باقی، نہ اسلام کا تقدس باقی اور نہ دلوں میں خوفِ خداباقی، نہ جانے کس اسلام کی تعلیم پر عمل ہو رہا ہے۔خدا تعالیٰ اس غم سے قوم کو جلد نجات دے۔ آمین
رمضان المبارک کا آٹھواں پیغام
اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کے مہینہ میں ہمیں ایک اور عظیم الشان نعمت سے نوازا اور وہ یہ کہ اس بابرکت مہینہ میں ہمارے لئے اپنی رحمت اور مغفرت اور جنت کے سب دروازے کھول دیئے۔بلکہ اس کے علاوہ روزہ دار کے لئے ایک اضافی دروازہ ’’باب الریاں‘‘ بھی کھول دیا۔جس سے صرف روزہ دار ہی گزرے گا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ جہنم کے سب دروازے بند کر دیئے۔ اور شیطان کو بھی زنجیروں میں جکڑ دیا۔
بظاہر دیکھنے سے یہ بات اس طرح لگتی ہے کہ صرف رمضان میں ہی ایسا ہو گا کہ جنت کے دروازے کھل جائیں گے اور دوزخ کے دروازے بند ہو جائیں گے ۔لیکن رمضان گزرنے کے ساتھ کیا جنت کے دروازے اللہ تعالیٰ بند کر دیتا ہے اور جہنم کے پھر کھول دیتا ہے؟ یہ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے خلاف ہے۔ گویا صرف ایک مہینہ میں جنت کے دروازے کھولے اور بقیہ سال کے گیارہ مہینوں میں جنت کے دوازے بند۔ اور گیارہ مہینے جنہم کے دروازے کھول دیئے گئے اور شیطان بھی آزاد ہو گیا۔
اس حدیث کا ایک مطلب یہ ہے کہ رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کی رحمت خاص جوش میں ہوتی ہے اور ہر ایک خدا تعالیٰ کو خوش کرنے اور اس کے احکامات کی بجا آوری میں مصروف نظر آتا ہے اور یہی بات جنت کے دروازوں کو کھولنے کا باعث بنتی ہے۔ ورنہ دیکھنے میںآتا ہے کہ کئی لوگ ان جنت کے دروازوں کے کھلنے کے باوجود اپنے لئے جہنم کے دروازے ہی کھول رہے ہوتے ہیں۔ اُسی طرح بے حیائیوں ، بے ایمانیوں اور قتل و غارت میں ملوث رہتے ہیں جیسا کہ سارا سال ملوث رہتے ہیں۔ ایسوں کے لئے تو جنت کے دروازے نہیں کھل رہے ہوتے!
پس رمضان کے بعد جس نے رمضان سے پورا پورا فائدہ اٹھاناہووہ کوشش کرے کہ جہنم کے دروازے ہمیشہ ہمیش کے لئے بند ہو جائیں اور جنت کے دروازے کھلے رہیں اور شیطان اگر جکڑ دیا ہے تو اس کو دوبارہ نہ کھولیں۔گویا ان تمام نیکیوں کو جن کی رمضان میں کرنے کی توفیق ملی جاری رکھیں۔ اور ان تمام برائیوں کو جن سے رکنے کی توفیق ملی رکے رہیں تا شیطان کے ساتھ بالکل دوستی نہ ہو۔
رمضان المبارک کا نواں پیغام
قرآنِ کریم نے ’’صبغۃ اللہ‘‘ کا فرمان جاری کیا ہے۔ جس کے معانی ہیں خدا کا رنگ اختیار کرو۔ خدا جیسا بننا تو ممکن ہی نہیں لیکن رمضان میں انسان کسی حد تک خدا تعالیٰ کی مماثلت اختیار کر لیتا ہے۔ مثلاً خدا تعالیٰ کھانے اور پینے کا محتاج نہیں انسان کھانے پینے سے بالکل پرہیز تو نہیں کر سکتا مگر رمضان میں کافی حد تک کھانے پینے سے الگ رہ کر اور اپنے مخصوص تعلقات سے پرہیز کر کے خدا کا رنگ اپنا تا ہے۔ اسی طرح خد ا سوتا نہیں ۔ رمضان میں اس کا مومن بندہ اپنی نیند کم کر لیتا ہے، رات عبادت میں گزارتا ہے ۔ عورتیں ،بچے ،بڑے بوڑھے سب سحری کے لئے جاگتے ہیں اس طرح وہ اپنی نیند کم کرتے ہیں اور جاگنے کی عادت ڈالتے ہیں۔ رمضان میں انسان ہر قسم کی برائی سے بچ کر اپنے حقوق چھوڑ کر سراسر خیر بن جاتا ہے اور اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی ایک حد تک مشابہت اختیار کر لیتا ہے۔
پس یہ ’’صبغۃ اللہ ‘‘ جو قرآن کا فرمان ہے۔ رمضان میں انسان کو خدا کا رنگ چڑھا نے کی ترغیب دیتا ہے جسے سال کے بقیہ دنوں میں بھی جاری وساری رکھنا چاہئے۔
رمضان کا دسواں پیغام ۔ مایوسی اور احساسِ کمتری سے نجات
دنیا کی اکثریت غربأ پر مشتمل ہے اور اسلام میں ایمان لانے والے ابتدائی لوگوں کی اکثریت بھی غربأہی کی تھی۔غربأ بے چارے سارا سال تنگی اور فاقوں سے گزراوقات کرتے ہیں۔ ایسی حالت توثواب کا موجب نہیں ہوتی بلکہ ہمارے پیارے آقا سرورِ کائنات آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے۔
کادالفقران یکون کفراً یعنی بعض دفعہ فقر اور محتاجی کفر پیدا کر دیتی ہے اور وہ ناشکری کے کلمات منہ پر لانا شروع کر دیتے ہیں ۔کہ خدا نے ہمیں کیا دیا کہ ہم نمازیں پڑھیں اور روزے رکھیں۔ پس اگر ایسے لوگ بے صبرے نہ بنیں۔ اور انہی تنگیوں اور تنگدستیوں میں نمازیں پڑھیں دعائیں کریں اور اپنے فاقوں کو روزوں میں بدل دیں تو فاقے ان کے لئے نیکیاں بن جائیں گے اور الصوم لی و انا اجزی بہ کے مطابق ان کا عظیم الشان بدلہ خدا ئے بزرگ و برتر دے گا۔آنحضرت ﷺ سے بڑھ کر کس پر فاقے اور تنگیاں آئی ہو نگی۔ احادیث میں آتا ہے کہ جب گھر میں کچھ نہ ہو تا توآپ ﷺ نفلی روزہ رکھ لیا کرتے تھے۔ اور صحابہؓ کا بھی یہی حال تھا۔ کبھی بھی حرفِ شکایت منہ پر نہ لاتے جس کی وجہ سے انہوں نے وہ رتبہ اور مقام پایا کہ خود خدا آپ کے پاس آ گیا۔ اور جسے خدا مل جائے اُسے اور کیا چاہئے۔
ایک حکائیت مشہور ہے کہ ایک بادشاہ نے کسی جگہ ایک نمائش کا اہتمام کیا جس میں ہر قسم کی قیمتی اشیأ کو طریقے کے ساتھ سجا کر رکھ دیا گیا۔ چنانچہ بادشاہ نے اس کے بعد اعلان کیا کہ جو بھی نمائش دیکھنے آئے اوریہاں رکھی ہوئی چیزوں میں سے جس چیز کو بھی ہاتھ لگائے گا وہ اس کی ملکیت ہو جائے گی۔ بادشاہ کا اعلان سنتے ہی بہت سے لوگ نمائش دیکھنے پہنچ گئے اور ہر شخص اپنی اپنی پسند کی چیزوں کو ہاتھ لگاتا اور لے جاتا ۔ اس دوران ایک نہائیت غریب اور سادہ مگر عقلمند انسان بھی آیا اور اس نے وہاں رکھی ہوئی چیزوں کی بجائے بادشاہ کو ہاتھ لگا دیا۔ لوگوں نے پوچھا یہ کیا؟ اس نے جواب دیا کہ تم نے اُن چیزوں کو ہاتھ لگایا ہے جن کو بادشاہ نے یہاں رکھا ہے لیکن میں نے بادشاہ کو ہاتھ لگا دیا ہے جو ان سب اشیأ کو یہاں جمع کرنے والا ہے۔ پس میں نے یہ بات خوب سوچ سمجھ کر کی ہے۔ جب بادشاہ میرا ہو گیا تو پھر مجھے ان چیزوں کی ضرورت نہیں۔
دنیوی بادشاہ تو نہ ہر چیز پر قدرت رکھتے ہیں اورنہ ہر شخص کی تمام خواہشات پوری کر سکتے ہیں مگر وہ خدا جو زمین و آسمان کا مالک خدا ہے۔ جس کے قبضۂ قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں جب وہ کسی کا ہو جائے تو اس کو اور کیا چاہئے۔ اس کو تو ساری کائنات مل گئی۔
یہ صرف ایک کہانی نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔ جسے دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جب آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہؓ خد اکے ہو گئے اور خدا آپ کا ہو گیا تو پھر انہی فاقہ کرنے والوں کے قدموں میں تمام دنیا کی نعمتیں لا کر ڈھیر کر دی گئیں۔ یہاں تک کہ اس زمانے کی طاقتور ترین حکومتوں قیصر و کسریٰ کے محلات ان کے گھوڑوں کی ٹاپو ں سے لرزنے لگے۔ اللھم صل علی محمد و بارک وسلم انک حمید مجیداہل علم حضرات رمضان سے اور بھی بہت سے لطیف پیغامات لے سکتے ہیں۔لیکن اس وقت اتنا ہی لکھنا کافی ہے۔ اس دعا کے ساتھ میں اپنی گزارشات کو آخری شکل دیتا ہوں۔
’’اے قادرخدا! اے اپنے بندوں کے راہنما ! جیسا تو نے اس زمانہ کو صنائع جدیدہ کے ظہور و بروز کا زمانہ ٹھہرایا ہے، ایسا ہی قرآنِ کریم کے حقائق معارف ان غافل قوموں پر ظاہر کر اور اب اس زمانہ کو اپنی طرف اور اپنی کتاب کی طرف اور اپنی توحید کی طرف کھینچ لے۔ کفر و شرک بہت بڑھ گیا ہے اور اسلام کم ہو گیا اب اے کریم ! مشرق و مغرب میں توحید کی ایک ہوا چلا اور آسمان پر جذب کاایک نشان ظاہر کر ۔ اے رحیم! ترے رحم کے ہم سخت محتاج ہیں۔اے ہادی! تیری ہدائیتوں کی ہمیں شدید حاجت ہے، مبارک وہ دن جس میں ترے انوار ظاہر ہوں۔ کیا نیک ہے وہ گھڑی جس میں تیری فتح کا نقارہ بجے تو کلنا علیک ولا حول ولا قوۃ الا بک و انت العلی العظیم‘‘ آمین یا رب العالمین (آئینہ کمالاتِ اسلام)
URL: https://newageislam.com/urdu-section/continued-blessings-ramadan-/d/104064