سید رضوی ، نیو ایج اسلام
29نومبر، 2012
‘‘تم ابھی شکم سیر ہوئے ہو ،اورمذبح چاہے جتنی بھی ہوشیاری سے میلوں دور میں چھپا یا گیا ہو، اس جرم میں تم بھی شریک ہو ۔ ’’
مندرجہ بالا سطور رالف والڈو ایمرسن (1803-1882) نے لکھی تھیں ۔
اور آج، ہم یہ کہتے ہیں:
آپ نے اپنا حج اداکر لیا اور اپنے مستقر سے دور نہیں ہیں۔ اور آپکی نظروں سے پوشیدہ ایک مقتل ہے جہاں لاکھوں بھیڑوں کو ذبح کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک پر آپکا نام ہے ،اگرچہ آپ دونوں کبھی نہیں ملے ہیں ۔آخری لفظ جو بھیڑ نے چاقو بدست قصاب سے سنا ہے وہ اللہ کا ہے اور اس سے آپ کو تھوڑی تسلی ہونی چاہئے ۔
جب ابراہیم نے اپنے بیٹے اسماعیل پر چاقو رکھی جن سے ابراہیم کو گہرا لگاؤ تھا ،تو ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کی ممکنہ موت کے درد اور غم کو جھیلا ۔
جب آپ کی بھیڑ کو ذبح کیا گیا تھا توآپ نے اس درد کو محسوس نہیں کیا ، اور کرتے بھی کیوں؟ وہ ایک ایسی بھیڑ ہے کہ جس سے آپ کبھی نہیں ملے،جسےاس قصا ئی نے ذبح کیا جسے آپ کبھی جانتے ہی نہیں تھے ،اور اسے ایک ایسے مذبح میں ذبح کیا گیا جہاں آپ کبھی نہیں گئے اور سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ جب آپ کی بھیڑ نے اپنی آخری سانس لی اس وقت آپ اس سے لا تعلق رہے ۔ آپ کی بھیڑ کا کوئی نام نہیں تھا، صرف ایک شناختی ٹیگ کے سوا ۔
اور اب اپنی حالت کے تناظر میں ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ کا جائزہ لیجئے ۔ ایک طرح سے یہ اپنے خدا کے لئے ابراہیم علیہ السلام کی محبت کا اعلان تھاجو انکے بیتے کی محبت سے سوا تھا ۔
آپ کے معاملے میں ، اس بھیڑ کی کوئی اہمیت نہیں تھی ۔ آپ کی بھیڑ جس کی پرورش کسی دوردراز جزیرے کے سیہ فام جادوگر قبیلے کے باشندے نے کی ہوگی کئی میلوں کا دشوار گذار سفر کرکے کسی اسلامی جزیرہ نما میں پہنچی ہوگی۔ اس بھیڑ کا کوئی نام نہیں ہوتا جب تک کہ وہ آپ کی بھیڑ کی حیثیت سے خدا کے رجسٹر میں درج نہ ہو جائے۔
اگرچہ یہ پورا ڈرامہ حضرت ابراہیم کے ذریعہ دئے گئے اپنے بیٹے اسماعیل کی قربانی کے نہج پر دہرایا جاتا ہے ، لیکن کسی وحشی کافر کے ذریعہ پالی گئی بھیڑ کو حضرت اسماعیل کے نام سے منسوب کرنے کو بلا شبہ توہین آمیز قرار دیا جائیگا۔ تاہم، یہ بعینہ وہی رسم ہے جو کہ ابراہیم کی کہانی کی یاد میں ادا کی جاتی ہے ، اور اس بات کا مشاہدہ کرنے کے لئے دو سے زیادہ آنکھوں کی ضرورت نہیں ہوتی کہ کس اداکار کو اسماعیل کا کردار ادا کرنے پر مجبور کیا گیا ہے ۔
چنانچہ ، ہم اسے تسلیم کریں یا نہ کریں ، ہمارا یہ عمل جسے ہم اتنی عقیدت سے انجام دیتے ہیں حضرت ابراہیم کے واقعے کی سستی نقالی میں تبدیل ہو جاتاہے اگرچہ اس میں بھیڑ کی خوبصورتی ، جسمانی ساخت اور خاص کر اس کی قیمت خرید کی نمائش کی ایک زیریں لہر بھی ہوتی ہے۔ ۔ لہذا ، ہم مردانگی کی نمائش کے لئے ذبح کرتے ہیں ۔
لیکن آپ کی بھیڑ کی کہانی انوکھی نہیں ہے
ہر سال کی طرح امسال بھی ، پوری دنیا سے مسلمان حج کی ادائیگی کے لئے مکہ میں جمع ہوئے ، جس میں بہت سارے دوسرے مناسک کے ساتھ ، اپنے خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر لاکھوں بھولے بھالے جانوروں کی قربانی بھی شامل ہے ۔اور اس کے لئے حجاج آخرت میں انعام کی امید رکھتے ہیں ۔
اتنے بڑے پیمانے پر جانوروں کے ذبیحے کا مقابلہ نہ تو جاپان میں مچھلیوں کا ہارپون کے ذریعہ ذبح کئے جانے سے کیا جا سکتا ہے اور نہ کینیڈا میں سیل کے شکار سے ۔ اس کی کوئی مثال نہیں ہےصرف اس لئے نہیں کہ جانوروں کی ایک بڑی تعدادکو ایک بہت مختصر وقت میں قتل کر دیا جاتا ہےبلکہ اس لئے بھی کہ یہ پورا کارعظیم ایک ایسے علاقے میں انجام دیا جاتا ہے جو تقریباً دس بیس مربع میل سے زیادہ نہیں ہے اور جہاں دہشت زدہ جانور اپنے ہی ہم نفسوں کی چیخ و پکار سن سکتے ہیں اوراس انجان علاقے میں عجیب و غریب آوازوں کے شور میں ان کے خون کی بدبوکو محسوس کر سکتے ہیں ۔اس بات کا تصور محال ہے کہ جب وہ خود کو ایک ایسی اذیت گاہ میں پاتے ہوں گے جہاں سے وہ بچ کر نہیں نکل سکتے تو ان پر کیا بیتتی ہوگی۔
جب ہم ان جانوروں کی زندگی پر غور کرتے ہیں تو ان کا موازنہ وہیل اور سیل ، کے اجتماعی قتل سے بمشکل کیا جاسکتا ہے کیونکہ وہ انسانی مداخلت اور ہراسانی سے آزاد ہو کر اپنے قدرتی ماحول میں اپنی پوری زندگی گزارتے ہیں ۔
یہ بھیڑیں اکثر آسٹریلیا سے لائی جاتی ہیں، اور انہیں ایک طویل ترین فاصلے کا سفر طے کرنا پڑتا ہے ۔ ہر مہینے لاکھوں کی تعداد میں یہ بھیڑیں بڑے بڑے سمندری جہازوں میں ٹھونس دی جاتی ہیں ، اور کئی دنوں تک اس سمندری سفر کے دوران اذیتوں سے دوچار ہوتی ہیں جگہ کی تنگی کے باعث وہ حرکت کرنے کے قابل بھی نہیں ہو تیں اور ان میں بہت سی تو بیماری یا بھوک سے مر جاتی ہیں۔ عام طور پر بیمار اور زخمی جانور وں کی دیکھ بھال اور علاج نہیں کیا جا تا ہے۔ جو اس صبر آزما بحری سفر میں بچ بھی جاتی ہیں ان میں سے اکثر جہاز سے زندہ نہیں اتر سکتیں کیونکہ جب جہاز بندر گاہ پر پہونچتی ہے تو اس وقت اسکا ونٹیلیشن نطام بند ہو چکا ہوتا ہے۔
حال ہی میں ، ایک وبا کی وجہ سے، مشرق وسطی کو ارسال کی گئی 70،000 بھیڑوں کو پاکستان کے بندرگاہ شہر کراچی میں اتار لیا گیا جہاں انکی ایک بڑی تعداد کو ہلاک کرکے انہیں عجلت مین دفن کردیا گیا حالانکہ ان میں سے کچھ اب بھی ہوش میں تھیں اور پوری طرح سے ہلاک نہیں ہوئی تھیں کیونکہ یہ بات قابل فہم ہے کہ ایک ایک کر کے لاکھوں جانوروں کی تیز رفتار گردن زدنی مذہبی یا انسانی اصولوں کی پابندی کی متحمل نہیں وہ سکتی۔
اسلامی قانون واضح ہے: گوشت کی حلت کے لئے یہ لازمی ہے کہ ذبیحہ سے پہلے انہیں کسی طرح کی زحمت یا تکلیف نہ پہونچائی گئی ہو ۔ذبیحہ کے وقت ان میں کوئی جسمانی عیب یا نقص نہ ہو ۔ہر وہ گوشت جوان احکام سے انحراف کے نتیجے میں حاصل ہوا ہو اسے حلال قرار نہیں دیا جا سکتا ۔
وہ بھیڑیں جو تکلیف دہ حالات میں ہزاروں میل بھیجی جا تی ہیں ، جو بھوک اور پیاس میں مبتلا ہیں اور جو عام طور پر بیماری کی وجہ سے مر رہی ہوں انہیں کبھی بھی حلال نہیں سمجھا جا سکتا ۔ اسلام کے اصولوں میں سے ہے کہ جانوروں کو ذبح کے وقت زندہ اور صحت مند ہونا چاہئے ۔ جانوروں کی تجارت میں استعمال کی جانے والی بھیڑیں جو ناقابل بیان حد تک دشوار حالات میں لمبا سفر طئے کرتی ہیں صحت مند نہیں ہوتیں ۔
مطالعوں سے پتہ چلتا ہےکہ سمندری راستوں سے مشرق وسطی بھیجی جانے والی بھیڑوں مییں سے نصف کی موت بھوک سے ہو جا تی ہے ۔ وہ جانورجو گھاس کھانے کے عادی ہیں ان سفوف کو نہیں جا نتے جو انہیں جہازمیں فراہم کرائے جاتے ہیں ۔ وہ کھانا بند کردیتے ہیں چاہے اس کی وجہ سے وہ لاغر ہو جائیں ۔ اور جو جانور بے بسی کی حالت میں ان ٹکیوں کوآ زمانے پر مجبور بھی ہوتے ہیں تو جگہ کی انتہائی تنگی کی وجہ سے کھانے کے برتن تک نہیں پہنچ پاتے اور اگر پہنچ بھی گئے تو زندہ رہنے بھر کھا نہیں سکتے ۔
تھکے اور فاقہ زدہ زندہ بچ جانے والے جانوروں کی آزمائش جہاز سے اتار لئے جانے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتی. انہیں فیڈلوٹس میں منتقل کیا جا تا ہے جہاں تحقیقات درج کی جاتی ہے کہ کس بیمار اور کمزور جانور کی دیکھ ریکھ نہیں کی گئی ۔آخر میں انہیں مارکیٹ میں منتقل کردیا جا تا ہے،جہاں ور کر انہیں بیدردی سے ادھر سے ادھر کھینچتے ہیں ۔
اگر ان جانوروں کی نقل و حمل کم تکلیف دہ نہیں ہے تو یہاں مزید تفصیلات پیش ہیں ۔ ان میں سے بہت سی بھیڑیں جو بھیجی جا تی ہیں وہ آسٹریلیا کی اون کی صنعت سے ردشدہ ہیں ۔ ان بھیڑوں کی پہلے ہی دردناک آختہ کاری کی گئی ہوتی ہے ، اور ان کی دموں کو درد کش دوا دئیے بغیر کا ٹا جا تا ہے ۔جن بھیڑ وں کو اون پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے وہ بھی ظالمانہ قطع عضو کا شکار ہو تے ہیں جسے "mulesing" کہا جاتا ہے ۔ انہیں پیٹھ کے بل لٹا دیا جا تا ہے اور انکے پچھلے حصے سے جلد کی بڑی مقدار کوتراش لیا جا تا ہے وہ بھی اکثر درد کش دوا کے بغیر ۔ اس عمل کو"fly strike" روکنے کے لئے کیاجا تا ہے ۔ جہاں مکھیاں ان کی جلد کے جھریوں والے فولڈ میں انڈے دیتی ہیں اور کیڑے پرورش پاتے ہیں ۔ لیکن"fly strike" کی روک تھام کے لئے دیگر انسانی متبادل آسانی سے دستیاب ہیں۔
اور یہ ان جانوروں کی داستان ہے جو اپنی پشت پر ان قاتل حاجیوں کو لیکر قوس و قزح کے پل سے گزرکر جنت کی طرف جائیں گے ، جہاں وہ سب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خوشی خوشی رہیں گے ۔
یہ مضمون جانوروں کی قربانی پر سلسلے وار مضامین کی تیسری کڑی ہے جسے مصنف نے نیو ایج اسلام کے لئے خصوصی طور پر لکھا ہے ۔
گزشتہ دو مضامین تک مندرجہ ذیل لنکس کے ذریعے رسائی حاصل کی جا سکتی ہے
جانوروں کی قربانی بمقابلہ مہربان عید: ہمارے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو ایک کھلا خط (11/07/11)
Animal Sacrifice or Blood Orgy? (11/20/10)
https://www.newageislam.com/debating-islam/animal-sacrifice-or-blood-orgy?/d/3706
سید رضوی پیشے کے اعتبار سے ایک ماہر طبیعیات ہیں اور Engineers and Scientists for Animal Rights کے بانی اور صدر ہیں. سید سلیکن ویلی، کیلیفورنیا میں رہتے ہیں ۔
URL for English article:
https://www.newageislam.com/ijtihad,-rethinking-islam/hajj----some-afterthoughts/d/9483
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/hajj-some-afterthoughts-/d/10427