سید نیاز احمد راجہ
25اکتوبر ،2012
مشہور مقالہ ہے کہ انگریز
سو سال پہلے کی سوچتا ہے۔ تاریخ پر طائرانہ نظر ڈالیں تو آپ کو شک نہیں گزرے گا ۔ برصغیر
ہند و پاک پر برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے رو پ میں انگریزوں نے قدم جمانے شروع کیے تو
ان کے پیش نظر تین بڑے مقاصد تھے۔ بر صغیر کے وسائل پر قبضہ کر کے یہاں کی دولت حاصل
کرنا ۔ یہاں پر رہنے والی قوموں کو غلامی کی زنجیر یں پہنا کر ان پر حکومت کرنا، اپنی
تعلیم کے ذریعے ایسے لوگ پیدا کرنا جو مسلمان یا ہندو ہونے کے باوجود بھی ذہنی طور
پر انگریز ہوں۔ انگریزوں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جس قوم سے سب سے زیادہ مزاحمت
کا سامنا کرنا پڑا وہ مسلمان تھے۔ مسلمانوں نے ٹیپو سلطان اور حیدر علی کے دست و بازو
بن کر انگریز وں کے بڑھتے ہوئے شیطانی سیلاب کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی اور انگریزوں
کے خلاف آواز حق بلند کی جبکہ بر صغیر کی دوسری قوموں نے مسلمانوں کے خلاف ہر مرحلے
میں ہی انگریزوں کا ساتھ دیا۔ یہی وہ حقائق ہیں جن کی بنا پر انگریزوں نے آغاز ہی میں
یہ بات محسوس کرلی تھی کہ بر صغیر کے مسلمان اپنے عقائد ، جاندار روایات اور اسلامی
تعلیمات کی بنا پر غلام نہیں بنائے جاسکتے اور اگرو ہ عارضی طو رپر چالاکی و عیاری
کے ذریعے غلامی کی زنجیر میں جکڑ بھی دیئے گئے تب بھی ان میں خوئے غلامی پیدا نہیں
کی جاسکتی کیونکہ ایک مسلمان مفتوح بنتا اپنی مومنانہ غیرت و حمیت کے منافی سمجھتا
ہے ۔ یوں ان حالات کے پیش نظر انگریزوں نے بر صغیر ہندو پاک میں اپنے اقتدار کو دوام
بخشنے کے لئے برسوں کے مسلسل غور وفکر اور سو چ وچار کے بعد برصغیر میں ایسا نظام تعلیم
رائج کیا جو لوگوں کے لئے انگریزوں کی غلامی کا ذریعہ بن گیا اور جو اسلام اور مسلمانوں
کے لئے زہر قاتل کا سبب بھی بن گیا۔ یہی نہیں بلکہ عیسائیت کے پرچارکے لیے بھی بیحد
موزوں ثابت ہوا ۔ چونکہ اس خطے میں انگریزوں کے عزائم کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ اسلام
اور مسلمان تھے اس لیے ان کا زیادہ تر ہدف بھی مسلمان ہی بنے ، اور اسی ہدف کے لیے
کالجوں اور یونیوسیٹوں کا قیام لازمی قرار دیا تاکہ اس طرح مسلمانوں کا نسل نو کو غلامی
کا پٹہ پہنا کر اسلام کے بجائے عیسائیت کے پلیٹ فارم پر لایا جاسکے ۔
مدراس انگریزوں کا اصل ہدف:
اپنے قائم کردہ اداروں کے
تحت ایسٹ انڈیا کمپنی نے جدید تعلیم کا اجراء کیا اور ہندوستان بھر میں تعلیمی ادارے
قائم کیے اور برصغیر میں قائم ان مدارس کے مقابلے میں لارڈ میکالے کے نصاب تعلیم کا
آغاز کردیا، چونکہ ہر دور میں مدارس ہی مسلمانوں کی تعلیم وثقافت کی نمائندگی کرتے
رہے ہیں لہٰذا انگریزوں کا سب سے بڑا ٹارگٹ یہی تعلیمی درس گاہیں ہی بنیں ۔ اور گزرتے
دنوں گرچہ لارڈ میکالے کے نظام تعلیم نے اپنا کام بھی خوب دکھایا، جس کے نتیجے میں
واقعی مسلمانوں میں ایسے ایسے انسان بھی پیدا کیے جو مسلمان ہوتے ہوئے انگریزوں کی
فکر وسوچ کے حامل تھے مگر اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سخت سے سخت حالات ہونے
کے باوجود مدارس اور ان کا نظام تعلیم جو ں کا توں ہی رہا، بلکہ آہستہ آہستہ مدارس
کا جال پھیلتا ہی گیا۔ ایسے نازک حالات میں ہمارے اسلاف نے جس تدبر اور دور اندیشی
سے کام لیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اگر ان لوگوں نے اس طرف خصوصی توجہ نہ دی ہوتی تو انگریزوں
کی سرکش لہریں اسلام کے سفینوں کو بحر ظلمات میں غرق کردیتیں ، اور جس کا پھر اُبھرنا
ممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور ہوجاتا ۔
انگریزوں کے نظام تعلیم کے
مسلمانوں پر اثرات:
دشمنان دین و ملت یہ بات اچھی
طر ح جانتے اور سمجھتے ہیں کہ مدارس اسلامیہ اسلام کیاصل محافظ ، قلعے ہیں وہ یہ بھی
جانتے سمجھتے ہیں کہ جب تک ان مدارس میں قال اللہ وقال الرسول کی صدائیں گونجتی رہیں
گی وہ منہ کی ہی کھاتے رہیں گے ، یہی وجہ ہے کہ وہ ہمہ وقت ان قلعوں کو مسمار کردینے
کی سازشیں رچتے رہتے ہیں اور ان قلعوں میں روشن چراغوں کو بجھادینے کی نئی نئی آندھیاں
چلاتے رہتے ہیں ۔ غور کیجئے اگر ہمارے اسلاف ، بزرگان دین اور اکابرین نے بروقت تدبر
سے کام نہ لیا ہوتا تو آج ہمارے درمیان پورے ملک میں پھیلی اسلامی دانش گاہیں جو ہم
سب کے لیے علم و آگہی کا چشمہ فیض بنی ہوئی ہیں ان کا وجود ہی نہ ہوتا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے
ان اکابرین اور علمائے کرام کو جنت الفردوس میں بلند درجات عطا فرمائے جنہوں نے انگریزوں
کے پیدا کردہ ہندوستانی النسل انگریزوں کے مقاصد کو سمجھا اور ان کے عزائم کو ناکام
بنادیا ۔ مگر آج افسوس صد افسوس کہ ہمارے ہی چشم و چراغ گھر پھونک تماشہ دیکھنے جیسے
فعل پر آمادہ و برسر پیکار نظر آرہے ہیں۔ غور کیجئے یہ کتنی شرمناک صورت حال بنتی جارہی
ہے کہ کل تک جو لوگ کااللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات کو عام کرنے میں پیش پیش تھے،
جو دشمنوں کے عزائم سے واقف تھے اور عوام کو ان دشمنوں کے عزائم سے آگاہ رکھتے تھے
اب وہی وہ تمام کا م بڑے ہی دلفریب انداز میں کرنے لگے ہیں جو دشمنان اسلام ازل سے
ہی کرتے آرہے ہیں ۔ ایسے مدارس جو روٹی رومی کی غرض سے قائم کیے گئے ہیں وہ اب پوری
طرح سے لارڈ میکالے کی پالیسیوں اور منصوبوں کی زد میں آچکے ہیں، ان کے ذمہ داروں کو
طرح طرح کی لالچ دی جارہی ہے، مالی امداد کے علاوہ جدید ٹکنا لوجی کے ذریعے ان مدارس
پر قبضے کے نئے نئے ہتھکنڈے بھی اپنائے جارہے ہیں جس کے نتیجے میں ہمارے وہ مدارس بھی
متاثر ہوتے جارہے ہیں جن کی بنیاد یں اسلام کے قلعے کے طور پر قائم تھیں ، دراصل یہی
وہ وجہ ہے جو ہمارے روحانی مراکز دن بدن اپنے مقصد سے دور روح سے بے روح ہوتے جارہے
ہیں اور ہمارے دشمن اب بلا کسی خوف و خطر ہی ہمارے قلعوں میں داخل ہوتے جارہے ہیں او
رہم ہیں کہ اپنی تباہی کے خود ہی تماشہ بنتے جارہے ہیں۔
علم نبیوں کی میراث ہے:
علم نیبوں اور رسولوں کی میراث
ہے ، علماء اس کے وارث ہیں اگر وارثین ہی اپنی وراثت کو تباہ کرنے پر آمادہ ہوجائیں
تو وہ کسی بھی صورت میں نائب رسول کہلانے کے حقدار نہیں ہوسکتے ۔ انبیاء کا ورثہ نہ
دینا ر ہوتا ہے نہ درہم اور نہ ہی دنیاوی دیگر سازو سامان ، ہمارے اسلاف اور صلحائے
اُمت کی زندگیاں زہد و تقویٰ پر مبنی ہوتی تھیں اس کے لیے انہیں چاہے فاقہ کرنا پڑے
یا صعوبتوں و اذیتوں سے ہی کیو نہ گزرنا پڑے، وہ ہر کربلا سے گزر کر دین و ملت کی آبیاری
کرتے رہے ہیں ۔ یہ کتنی شرمناک بات ہے کہ آج کے ہمارے نام نہاد علماء نے اسلام دشمنوں
کو اپنے کرتوتوں کی بناء پر اپنی عبادت گاہوں ، درس گاہوں اور خانقاہوں میں تخریب کاری
کی پوری پوری چھوٹ دے دی ہے جس کے نتائج ہمارے سامنے زہریلے ناگ کی طرح پھن پھاڑے کھڑے
نظر آرہے ہیں ایسے ہی بے عمل علماء کے بارے میں بہت پہلے علامہ اقبال رحمۃ علیہ نے
فرمایا تھا کہ :
نہ مومن ہے نہ مومن کی امیری
رہا صوفی گئی روشن ضمیری
علم و عمل لازم و ملزو:
اسلامی نقطہ ٔنظر سے علم کا
اصل مقصد یہ ہے کہ بندہ اپنی حقیقت اور حیثیت کو اچھی طرح سمجھے اور اپنے رب کو پہچانے
، اپنے معاملات و مسائل خواہ وہ معاشرتی ہوں، معاشی ہو ںیا سیاسی، ان کا تعلق عمر انیات
سے ہویا صنعت و حرف سے وہی انسان فی الواقع کا میاب ہے جو اپنے رب کی اطاعت کا قلاوہ
اپنی گردن میں ڈال کر دنیا کی زندگی کی تکمیل کرے اور آخر ت کی آنے والی ابدی و دائمی
زندگی میں فلاح و کامرانی حاصل کرنے کا سامان مہیا کرے۔ علم انسان کے درجات بلند کرتا
ہے جو اس کے لیے یقیناًبڑی نعمت ہے۔
’’تم میں سے جو ایمان رکھنے والے ہیں اور جن کا علم بخشا گیا اللہ ان
کو بلند درجے عطا فرمائے گا (المجادلہ)’’
جسے حکمت عطا کی گئی اسے حقیقت
میں بڑی دولت عطا کی گئی، (البقرہ) پس جو شخص اس دولت سے محروم رہتا ہے وہ فی الواقع
اللہ کی ایک بڑی نعمت سے محروم ہوجاتا ہے اور پھر وہ شیطانی اور نفسانی خواہشات کا
غلام بن جاتا ہے ۔ جیسا کہ آپ ہمارے نام نہاد علماء کو دیکھ رہے ہیں جن کے پاس علم
تو ہے مگر عمل نہیں ہے۔
پس ثابت ہوا کہ اسلام کی نگاہ
میں علم فی الواقع اللہ کی معرفت کا نام ہے وہ علم ناقص ہے جو انسانوں کو اللہ تک نہ
پہنچا سکے ، اور تصور توحید سے دور رکھے ۔ اس بنیادی تصور کو سامنے رکھ کر اسلام نے
علوم وفنون کی آبیاری کی ہے او راپنے ماننے والوں میں خود شناسی اور خدا شناسی کے داعیات
پیدا کیے ہیں ، اسلام علم کے ساتھ عمل کو بھی لازم قرار دیتا ہے وہ علم مکمل نہیں ہوسکتا
جو عمل سے خالی ہو، علم کا حصول صرف ذہنی تعیش کے لئے یا دماغ کے اسٹو ر میں اضافے
کے لیے صحیح نہیں، علم عمل کو چاہتا ہے اگر عمل نہ ہو تو علم رخصت ہوجاتا ہے اور اپنی
قدر وقیمت کھودیتا ہے،وہی علم کار گر ہے جو عمل پر ابھارے اور صاحب علم کو فائدہ پہنچائے
اور اس کے ذریعے سے پورا معاشرہ فیضیاب ہو ، اسلام کے اس بنیادی تصور کو سامنے رکھ
کر جب ہم غور کرتے ہیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ فرد کا ارتقاء معاشرے کی تعمیر
اور ریاست کی تشکیل میں علم کا یہ تصور ہمیشہ ہی نمایا ں رہا ہے ۔ انسان کی معاشرت
، معیشت ، سیاست، تہذیب و تمدن ،ثقافت و صنعت و حرفت غرض زندگی کے ہر شعبہ میں علوم
و فنون کی ترقی دینے کیلئے علم کی غیر معمولی اہمیت رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تخلیق آدم
کے وقت ہی انسان کا رشتہ علم سے جوڑ دیا اور جس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو
فریضۂ نبوت سے سر فراز کیا گیا تو آغاز میں ہی علم ، تعلیم او ر تعلم کی تلقین و ہدایت
کی گئی ، اور وہ اس طرح کہ ’’ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھو ، اپنے رب کے نام کے
ساتھ جس نے پیدا کیا جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی، پڑھو اور تمہارا
رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا ، انسان کو وہ علم دیا جسے وہ جانتا
نہ تھا (سورۃ علق(
اسلام میں علم کی اہمیت:
مذکورہ بالا آیات میں پہلی
ہی وحی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر علم کی اہمیت اس کا مقام ، تعلیم ، تعلم
کی ضرورت ذریعہ تعلیم اور لکھنے پڑھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔انسان با لکل بے علم تھا،
یہ علم جو آج دنیا میں پھیلا ہوا ہے یہ اللہ ہی کی دین اور اس کی نعمت ہے، آیات مبارکہ
میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا کے انسانوں کو بتلایا گیا ہے کہ وہ علم کے
حصول میں کن باتوں کو ملحوظ رکھیں گے ، ان آیات کی روشنی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم
نے جس معاشرے کی تشکیل فرمائی اس میں ایک معمولی مدت کے اندر علم و فن کا چرچا عام
ہوگیا۔ یہ بات واضح رہے کہ جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی تعلیم کا آغاز
کیا تو مکہ میں گنتی کے چند لوگ ہی تعلیم یافتہ تھے اور مدینہ کا بھی تقریباً یہی حال
تھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا طریقہ اختیار فرمایا کہ چند برسوں کی مدّت
میں ہی علم و فضل کے دروازے کھل گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نگرانی میں ایک
عظیم درسگاہ کی بنیاد رکھی ، اصحاب صفہ کی تعلیم و تدریس کا نظم مسجد نبوی میں آپ نے
فرمایا ، 70سے 80طلبہ ا س درسگاہ میں زیر تعلیم رہے۔ حضرت معاذبن جیل رضی اللہ عنہ
درسگاہ کی مالیات کے ناظم مقرر ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگرانی میں یہ عظیم
درس گاہ قائم ہوئی۔ علم کے فروغ کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ طریقہ بھی اختیار
فرمایا کہ جنگ بدر کے گرفتار شدگان میں جو قیدی لکھنا پڑھنا جانتے تھے ان کے لئے یہ
فد یہ مقرر فرمایا کہ وہ چند افراد کو لکھنا پڑھنا سکھادیں۔ تعلیم و تعلم کی اس تحریک
نے اس سماج کو تھوڑی ہی مدت میں ایسے مقام پر پہنچا دیا کہ اس کے تعلیم یافتہ لوگوں
نے دنیا کی رہنمائی کی ، قیادت و امامت کی باگ ڈور ان کے ہاتھ تھی اور دنیا ان کے پیچھے
رہی تھی۔
دینی و عصری علوم کی تقسیم
:
مذکورہ بالا باتوں سے یہ بات
واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام نے علم کی تصور کو کبھی محدود نہیں رکھا، مسلمانوں کی تاریخ
یہ بتاتی ہے کہ انہوں نے علم وفن کے میدان میں جو ترقی کی وہ اسی اسلامی تصور کا نتیجہ
تھی۔علم ریاضی ، علم طب، علم تعمیر اور دیگر علوم میں اس طرح ترقی ہوئی کہ آج تک ماہرین
ان ابتدائی حاملین علوم و فنون کے نقش قدم پر ہی چلنے کے لیے خود کو مجبور پار ہے ہیں
۔ ہمارے علماء صلحائے سلف و صالحین کے علوم و فنون کی کتابیں آج بھی دنیا والوں کے
لیے گائڈ بک بنی ہوئی ہیں۔ لیکن افسوس کہ جب سے ہم نے اپنے اسلاف کے طرز تعلیم اور
طریقہ عمل و معرفت الی اللہ کی تلقین کو نظر انداز کیا ہے ہمارے اور ہمارے گھروں میں
لارڈ میکالے کی فکر گھر کر گئی ہے اور ہم اس کے پھیلائے جال میں پھنس کردینی عصری تعلیم
کی تقسیم کے آلۂ کار بن کر نہ گھر کے ہی ہورہے ہیں نہ گھاٹ کے ۔ دینی تعلیم کے ساتھ
ساتھ عصری علوم یقیناًضروری ہیں لیکن عصری تعلیم عصری ضروریات تک ہی محدود رہنی چاہئے
اگر دینی تعلیم اور اس کے اغراض متاثر ہوتے ہیں تو ہمارے مدارس کے قیام کے مقاصد ہی
فوت ہوجاتے ہیں اس لیے اس کے سانچے میں ڈھلنے والے کم از کم دو چار تو ایسے ہوں جو
ابو ہریرہ اور ابوذر رضی اللہ عنہ کے وارث کہلا سکیں اور جو قرآن و حدیث کو اپنے سینے
سے لگائے رکھ سکیں اور جن کا رشتۂ حیات بھی بارگاہ رسالت کے تربیت یافتہ اصحاب صفہ
تک پہنچ سکے۔ تعلیم و تربیت کے اس مرحلہ میں جس نکتہ پر سب سے زیادہ توجہ مطلوب ہے
وہ ایمان باللہ ہے اور اس کے تقاضے ہیں جب تک اللہ تعالیٰ سے صحیح تعلق قائم نہیں ہوگا
اور اس کی سچی معرفت حاصل نہ ہوگی اس وقت تک ہمارے مدارس کے اندر و ہ اوصاف و کمالات
پیدا نہیں ہوسکتے۔جو ایک سچے مسلمان کو مطلوب ہیں۔ اس لیے یہ بات صد فی صد سچ ثابت
ہوتی ہے کہ ہمارے اداروں میں اب ایسے بے کردار اور نا اہل افرادکی بہتات ہے جو اقتدار
اور تو درکنار معمولی ادارے بھی صحیح طور پر نہیں چلا سکتے ۔ علاوہ ازیں ہمارے اداروں
میں زوال کا ایک بڑا سبب اخلاقی قوت کاضعف بھی ہے، جب کسی قوم میں عقلی انحطاط کے ساتھ
اخلاقی ضعف بھی آجاتا ہے تو اس کے اصحاب اقتدار و ارباب میں بہت سے اخلاقی معائب رونما
ہوجاتے ہیں ۔ مثلاً وہ سخت کوشی اور جاں فروشی کے مقابلے تعیش کی زندگی کو ترجیح دینے
لگے ہیں اور اسراف، نمود ونمائش اور بے جا فخر و غرور کا مظاہرہ ان کی زندگی کے معمولات
میں داخل ہوجاتا ہے ۔ حب جاہ مال میں ان کا ہر فرد ایک دوسرے سے بڑھ کر ہوجاتا ہے
۔ اور ایک وقت ایسا بھی آجاتا ہے جب پوری قوم ہی اخلاقی اعتبار سے مکمل طور پر مفلوج
ہوجاتی ہے۔ (جاری(
25اکتوبر ،2012 بشکریہ : روز نامہ ہندوستان ایکسپریس ، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/islamic-madrasas,-house-knowledge-wisdom/d/9162