New Age Islam
Fri Dec 13 2024, 08:19 AM

Urdu Section ( 22 Jun 2018, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Exigency of Muslim Reform مسلم اصلاحات کی شدید حاجت

سید این اسد، نیو ایج اسلام

17 جون 2018

اکثر مسلم برادریوں میں ہمیشہ اسی سوال کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے کہ اسلام کی روایات و معمولات کے تئیں ایک منطقی اور عملی نقطہ نظر اختیار کرنے کی ضرورت ہے یا یہ ممکن ہے بھی یا کہ نہیں۔ اس سوال پر ہمارے سامنے مختلف قسم کے ردعمل آتے ہیں۔ مثال کے طور پر روایتی شرعی قوانین پر عمل کرنے والے زیادہ تر مسلمان اس بات کے قائل ہیں کہ کبھی بھی اس میں اصلاحات نہیں کی جا سکتی کیونکہ وہ اسلام کو ایک کامل اور مکمل نظام حیات مانتے ہیں جس میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ہو سکتا ہے کہ شریعت پر سختی کے ساتھ عمل نہ کرتے ہوں لیکن اس کے باوجود اصلاحات کے خلاف ہیں کیوں کہ ان کا ماننا ہے کہ اصلاح کی کوئی بھی کوشش مغرب کے مطالبات کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے مترادف ہے۔ ان کے لئے یہ مسلم تمدن کے لئے ایک سماجی شکست ہے۔

ان کے علاوہ ایسے بھی کچھ لوگ ہیں جو لفظ اصلاح کو ہی ایک مسئلہ تصور کرتے ہیں کیونکہ ان کے لئے اس کا مطلب عیسائیت اور یہودیت کی اصلاح پسند تحریکوں کی تقلید کرنا ہے۔ اس قسم کے مسلمانوں کا خیال یہ ہے کہ مسلم اصلاحات کی تحریک انسانی مداخلت سے پاک اسلام کی ایک واحد قدرتی اور خالص مذہبی حیثیت کو ختم کر دیگی۔

تاہم، تاریخی حالات و واقعات کی روشنی میں اس کا سوال کا جواب پہلے ہی دیا جا چکا ہے کہ مسلم معاشرے کی اصلاح کی جا سکتی ہے یا نہیں۔ انفارمیشن اور وسائل تک رسائی رکھنے والے اور ترقی یافتہ ملکوں میں یا مسلم ممالک کے بڑے شہری مراکز میں رہنے والے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد پہلے ہی اپنے مذہبی معمولات کو تبدیل کر چکی ہے۔ اس صورت حال میں زیادہ تر مسلمان احساس جرم کے بغیر ایک دن میں پانچ مرتبہ نماز ادا نہیں کرتے۔ زیادہ تر مسلم خواتین "حجاب" کا اہتمام نہیں کرتی ہیں، اور اگر انہیں اختیار دیا جائے تو وہ  رباء (قرض پر سود) سے بھی باز نہیں آتے۔ وہاں مسلم عورتوں کے لئے گھر سے باہر کام پر نکلنا ایک عام بات ہے۔

مسلم اصلاحات صرف ناگزیر ہی نہیں ہیں بلکہ یہ قدرتی طور پر رونما ہونا شروع بھی ہو چکی ہے۔ یہ تسلیم کرنا اور یہ ماننا اب ہمارے اوپر ہے کہ زیادہ تر تبدیلیاں معاشرے کی بہتری کے لئے ہیں۔ مسلم کمیونٹی میں یہ جو اصلاحات ہوئی ہیں وہ جزوی طور پر مغربی تہذیب و ثقافت کے اثر و رسوخ کی وجہ سے ہیں۔ معاصر تعلیم اور معیشت میں بہتری کی مسلمانوں کی ضرورت کا دوسرے معاشرے کے معیارات اپنانے میں زیادہ دخل ہے۔ اس میں سماجی اصلاحات (مثلا تعدد ازدواج یا بچوں کی شادی کی حوصلہ شکنی کرنا)، تعلیمی اصلاحات (مثلا جدید مضامین کا مطالعہ، خواتین کی تعلیم) یا قانونی اصلاحات (مثلا چوری یا زنا کی سزا می شریعت کے قوانین پر پابندی) بھی شامل ہیں۔ تاہم، مسلمانوں کے درمیان کچھ عدم اطمینان کے ساتھ ان اصلاحات کے مخلوط نتائج برآمد ہوئے ہیں کیونکہ یہ تبدیلیاں شریعت پر مبنی نہیں ہیں۔

سعودی عرب میں وہابی ، جنوبی ایشیاء میں جماعت اسلامی اور مصر میں اخوان المسلمین جیسی جدید بنیاد پرست تحریکیں شرعی اصولوں سے انحراف کی وجہ سے بڑے پیمانے پر پیدا ہونے والے عدم اطمینان کی وجہ سے وجود میں آئی ہیں۔

جو مسلمان خود کو "ترقی پسند" تصور کرتے ہیں وہ پہلے سے ہی پیدا ہو چکی تبدیلیوں کو اپناتے ہیں لیکن ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ اس سے آگے تجاوز کرنا خطرناک ہے۔ وہ صرف خود کو ان قدامت پرست مسلمانوں سے الگ کرنے پر زور دیتے ہیں جو پیدا شدہ تبدیلیوں کی مذمت کرتے ہیں۔ "ترقی پسند" مسلمان شریعت کے قوانین کو نئے معانی دے کر ان تبدیلیوں کی توجیہ پیش کرتے ہیں جنہیں وہ قبول کر چکے ہیں ۔ مثلا وہ کہیں گے کہ مسلمان عورتیں گھر سے باہر کام کر سکتی ہیں کیونکہ انہیں اسلام میں برابر حقوق حاصل  ہیں۔

دنیا بھر میں اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے  شریعت کو انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ جو تعلیمات جو ذاتی ترقی، وسائل کی حصولیابی ، آزادی اور مختلف گروہوں کے ساتھ ہم آہنگی اور خوشیوں کی حتمی حصولیابی میں معاون ہیں صرف وہی اسلام کے حقیقی مقصد اور اس کی روح کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اس کے برعکس جو  اسلامی تعلیمات انسانی صلاحیتوں کو کم کرنے، عدم اطمینان ، ناخوشگواری اور بارآوری کی صلاحیتوں میں کمی پیدا کرنے والی ہیں وہ جھوٹ ہیں ، اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کتنا مشہور عالم اس کی اشاعت کر رہا ہے۔

اگر خود ہمارے مذہبی رہنماؤں کی زندگی بنجر ، غیر مطمئن اور بے وقعت ہے تو ہمیں ان کی صداقت پر سوال کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام کے ایک ایماندار رہنما کو ایک مشیر ہونا چاہئے ، جسے بامعنی انداز میں اپنی زندگی مسائل حل کرنے کا ہنر آتا ہو اور جو اپنے پیروکاروں کے ساتھ اپنے تجربات کا اشتراک کر سکتا ہو۔

اس کے علاوہ، اسلامی تاریخ کی ایک معروضی انداز میں از سر نو پیمائش کی جانی چاہئے ، تاکہ قدیم شخصیات کی جھوٹی تعریف سے لوگ گمراہ نہ ہوں۔ بنیادی نظریہ کہ جس سے مسلمانوں کو مدد ملے گی یہ ہے کہ تبدیلی زندگی کا ایک ناگزیر حصہ ہے۔ اسلام ایک عالمی مذہب بن چکا ہے کیونکہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصولوں کی تعلیم فرمائی اس نے آپ کے معاصر لوگوں کو روشن خیال اور بااختیار بنا دیا تھا۔ اس لئے کہ انہوں نے دوسروں کے ساتھ اپنے معاملات میں انصاف کا راستہ اپنایا ، تعلیم و تربیت کو قدر کی نگاہوں سے دیکھا ، اجنبیوں کا خیر مقدم کیا،  توہم پرستی کو مسترد کیا ، رنگ و نسل کی رکاوٹوں کو دور کیا  اور خواتین اور غلاموں جیسے مظلوم طبقوں کو زیادہ حقوق عطا کئے ، ان کی عبادت براہ راست اور کرشمائی تھی، اور ان کی اس فعالیت کا نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا بھر میں ان کا اثر و رسوخ پھیل گیا۔ اصلاحات کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کی بااختیار بنانے والی عالمگیر تعلیمات کو کامیابی کے ساتھ ہر زمانے کے مطابق بیان پیش کیا جا سکتا ہے۔

فعال اصلاحات سے کئی فوائد سامنے آئیں گے۔ مسلمان قرآن اور حدیث کی تعلیمات کی دوبارہ تشریح اس انداز میں کر سکتے ہیں کہ جس سے اس دور جدید میں وہ خود بااختیار اور روشن خیال بنیں گے اور دوسروں کو بھی بنائیں گے۔ اگر اس قسم کے اصلاحات کو حقیقت کا روپ دے دیا جائے تو  مسلمان اپنے بنیادی اقدار سے الگ ہوئے بغیر خود کو ترقی کے راستے پر لانے کے قابل ہو جائیں گے۔

URL for English article: http://www.newageislam.com/ijtihad,-rethinking-islam/syed-n-asad,-new-age-islam/the-exigency-of-muslim-reform/d/115561

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/the-exigency-muslim-reform-/d/115604


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


 

Loading..

Loading..