سید منظور عالم، نیو ایج اسلام
23 اگست، 2013
(انگریزی سے ترجمہ ،نیو ایج اسلام)
سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ہمارے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے خلاف سخت حملوں کی صورت میں کیا کرتے ہیں ؟ ہمیں اس معاملے میں انتہائی جذباتی نہیں ہونا چاہئے۔ انتہائی جذباتی ردعمل نہ صرف یہ کہ غیر اسلامی ہے بلکہ نقصاندہ بھی ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی سمجھدار مسلمان ڈنمارک کے کارٹون یا ‘Innocence of Muslims’ نامی فلم کی روشنی میں جو پاکستان، بنگلہ دیش ، لبنان، ہندوستان کے کچھ حصوں اور مصر وغیرہ میں ہو رہا ہے اس کا جواز پیش کرے گا ۔
ڈنمارک کے سفارت خانے کو جلانا غلط ہے؛ میکڈونلڈ کی دکان پر حملہ مکمل طور پر ناقابل قبول ہے۔ اس طرح کے کارنامے سخت گیر مضحکہ خیز، اسلام مخالف اور یہاں تک کہ نقصاندہ ہیں۔ در اصل جلانا اور ان پر بمباری کرنا ا ن کے نقطہ نظر کو ثابت کرتا ہے اور انہیں انتہائی حقارت اور بلند آواز میں یہ کہنے کا موقع فراہم کرتا ہے کہ اسلام اصل میں ایسا ہی ہے ، یہ تنقید برداشت نہیں کر سکتا وغیرہ ، ایسا ہونا خلاف توقع نہیں ہے۔
اس طرح کے حملوں کے لئے اسلام کے خلاف کثیر جہتی ردعمل ہیں: میڈیامیں اقتصادی، سیاسی ردعمل وغیرہ لیکن میں اس مضمون میں عالمانہ ردعمل کو پیش کرنا چاہوں گا ۔ میں اس طرح کے حملوں کو اسلامی طور پر سیاق و سباق میں رکھ کر شروع کرتا ہوں۔ ان حملوں کو ذاتی کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ پیغام کے بجائے پیغامبر پر حملہ کررہے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے آپ کسی کی بات کے بجائے اس کی شخصیت پر حملے کر رہے ہیں ۔
ہمیں یہ احساس کرنا ہوگا کہ اس طرح کےحملے نئی بات نہیں ہیں ، تمام انبیاء کو یہاں تک کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) سے پہلے کے تمام انبیاء کو تضحیک، تنقید، جسمانی حملےاور نفسیاتی توہین کا سامنا کرنا پڑا۔ سورت ‘ یٰسین ’ اور دوسری جگہوں پر اللہ نے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو تسکین پہنچایا ہے :
" تو ان کی باتیں تمہیں غمناک نہ کردیں۔ یہ جو کچھ چھپاتے اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں ہمیں سب معلوم ہے (36:76) "
دیگر آیات میں بھی اللہ نبی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو یہ کہ کر تسکین پہنچاتا ہے کہ آپ سے پہلے بہت سے انبیاء آئے تھے اور ان کا بھی مذاق بنا یا گیا تھا ۔ سورت انعام میں ایک بار پھر اللہ نے ہمارے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو کہتے ہو ئے تسکین پہنچایا کہ :
"اور تم سے پہلے بھی پیغمبروں کے ساتھ تمسخر ہوتے رہے ہیں سو جو لوگ ان میں سے تمسخر کیا کرتے تھے ان کو تمسخر کی سزا نے آگھیرا" (6:10) (تقریبا یہی پیغام 41 :21۔ اور دیگر آیات میں بار بار بیان کیا گیا ہے)
ہمیں یہ ذہن میں رکھنا اور ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ کوئی نیا رجحان نہیں ہےبلکہ اس کا تعلق اوائل دور سے ہے ۔ اللہ کے پہلے نبی نوح کا ان کی قوم کے ذریعہ بری طرح مذاق اڑایا گیا تھا۔ وہ کچھ ایسی چیز تعمیر کر رہے تھے جسے اس دور کے لوگوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا، وہ ایک صحرا کے بیچ میں ایک کشتی کی تعمیر کر رہے تھے ۔ وہ ایک ایسے ڈھانچے کی تعمیر کر رہے تھے جس کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ وہ پانی پر تیرے گا ، لہٰذا اللہ ہمیں یہ بتا تا ہے کہ ہر وقت ان کے پاس ایک لڑکا جاتا اور نوح (علیہ السلام ) کا مذاق بناتا، اسی طرح شعیب (علیہ السلام) کو ان کی قوم نےپاگل اور مجنوں کہا ۔
اللہ پر زور انداز میں یہ فرماتا ہے :
"ہم تمہیں ان لوگوں (کے شر) سے بچانے کے لیے جو تم سے استہزاء کرتے ہیں کافی ہیں۔" (15:95)
بہت سی جگہوں پر قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اس زمانے کے لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف الزامات اتہامات کا انبار لگا دیا تھا : وہ جھوٹے تھے ، وہ ایک شاعر تھے، وہ ایک پاگل انسان تھے اور انہیں دوسروں کے ذریعہ سکھایا گیا تھا۔ یہ چاروں الزامات ابھی تک ان کے خلاف اہم الزامات ہیں ۔ اللہ تعالی ہمیں یہ بتا تا ہے کہ ایسا ماضی میں ہوا ہے اور اللہ نے ہمیں خبردار کیاہے کہ ایسا مستقبل میں بھی ہو گا ۔میں اللہ تعالی ہمیں بتاتا ہے کہ
"اور تم اہل کتاب سے اور ان لوگوں سے جو مشرک ہیں بہت سی ایذا کی باتیں سنو گے۔ اور تو اگر صبر اور پرہیزگاری کرتے رہو گے تو یہ بڑی ہمت کے کام ہیں"۔
اللہ ہمیں یہ فرما رہا ہے کہ یہ ہو ۔ تو ہم ایسے مسائل کے ساتھ کیسے نمٹتے ہیں ؟ جواب اسی آیت میں دیا گیا ہے، جس کا کہنا ہے کہ:
" اگر صبر اور پرہیزگاری کرتے رہو گے تو یہ بڑی ہمت کے کام ہیں "۔
ان حملوں کو سیاق و سباق میں رکھنے کے علاوہ دوسری بات یہ ہے کہ ہم ان حملوں کی درجہ بندی کر سکتے ہیں۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) پر حملہ کے بہت سے مواقع کے تذکرے موجود ہیں۔ اس مضمون (اور اس کے بعد کے مضامین ) میں میں ان کے کردار اور شخصیت (ذات ) کئے اوپر گئے حملوں پر توجہ مرکوز کروں گا ۔ اسلام، قرآن اور فقہ وغیرہ پر حملہ کرنے کے دیگر طریقے بھی ہیں اور ان سب کے دفاع کے طریقے مختلف ہیں ، لیکن میں یہاں اس شخص کی شخصیت پر حملوں پر توجہ مرکوز کر رہا ہوں۔
اس طرح کے حملوں کو عام طور پر تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: پہلا مکمل جھوٹ خالص من گڑھت ہے جس کی کوئی تاریخی بنیادنہیں ہے۔ اور اس کی کئی مثالیں موجود ہیں، اس الزام کا کہ نبی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو صبیان تھا اس لئے کہ جب ان پر وحی کا نزول ہوتا تو وہ ان پر غشی چھا جا تی اور لرزہ طاری ہو جاتا ۔ یہ مکمل طور پر دروغ گوئی اور کذب بیانی پر مبنی ہے جو کہ ہسپانوی عیسائیوں کے ذریعہ قرون وسطی میں بیان کیا گیا ۔
مکمل جھوٹ کی ایک اور مثال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال سال 666 میں عیسوی ہوا ہے۔ یہ خاص طور پیٹر آدرنیی کے ذریعہ پیش کیا گیا تھا۔ وہ ایسا پہلا شخص تھا جس نے دوسری زبانوں میں قرآن مجید کا ترجمہ کرنے کے لئے افراد کو تلاش کیا جس کا مقصد تنقید کرنا تھا نہ کہ علم پھیلانا ۔ 666 یہ نمبر حیوان کی تعداد کی نمائندگی کرتا ہے یہ سال وفات پیش کر کے وہ یہ دیکھانا چاہتا ہے کہ ہمارے نبی مسیح مخالف اور ایک شیطان دونوں ہی تھی ۔
قرون وسطی میں ہمارے نبی کے خلاف پھیلائی گئی ایک مکمل جھوٹ یہ تھی کہ مسلمانوں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی عبادت کی ہے ۔ اور انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ ان کا نام 'محمد' نہیں بلکہ ‘ماہوند ’ تھا در اصل 13ویں اور 14ویں صدی میں مشہور برطانوی مصنفین کے ذریعہ لکھی گئی کتابوں میں ہم یہ پاتے ہیں کہ ان کی کتابوں میں ہمارے نبی کا حوالہ ‘ماہوند ’ کے طور پر مذکور ہے ۔ ماہوند شیطان کا نام ہے۔ لہٰذا انہوں نے تنقید کے لئے ان کا نام بگاڑ دیا ۔
ایک اور جھوٹ جو انگریزی زبان میں مشہور ہوئی ہے وہ یہ کہاوت ہے کہ ' اگر پہاڑ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں آتاہے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پہاڑ کے پاس جائیں گے' ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر صورتحال ایسی نہیں ہوتی ہے جیسا کہ میں چاہتا ہوں تو میں اس صورت حال کو اپنا لوں گا ۔ یہ ایک جھوٹ ہے جو کہ ایک مشہور برطانوی مصنف فرانسس بیکن کے ذریعہ گڑھی گئی تھی ۔ بنیادی طور پر اس نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ نے قریش کو چیلنج کیا کہ پہاڑ ان کے پاس آئے گا اور انہوں نے چیلنج پیش کر دیاہے لیکن پہاڑ نہیں آیا تو قریش نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا مذاق بنانا شروع کر دیا، بیکن لکھتا ہے ، ' اگرپہاڑ پر میرے پاس نہیں آئے گا تو میں پہاڑ کے پاس جاؤں گا '۔ یہ ایک مکمل طور پر منگڑھت ہے۔ ایسا واقعہ کبھی پیش نہیں آیا۔
اگر آپ کسی جھوٹ کو سو بار دہرائیں گے تو ہو سکتا ہے کہ وہ جھوٹ جھوٹ ہی رہے لیکن اس کی سچائی ثابت ہو جائے گی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ ایک ہی بات کوبار بار دہرائیں گے تو وہ چیز مضبوط ہو جائے گی اور جس چیز کو دہرایا نہیں جائے گا وہ کمزور ہو جائے گی ۔ بالکل اسی طرح کہ 'اس کا استعمال کرو یا اسے کھو دو ' ۔
مکمل طور پر اس قسم کی جھوٹ قرون وسطی میں 17ویں اور 18ویں صدی تک بہت عام تھی، لیکن جدید یونیورسٹیوں کی آمد کے ساتھ اور مسلمانوں کے ساتھ مزید بات چیت سے اس قسم کی جھوٹ کم سے کم ہو تےی جا رہی ہے ۔
(اگلے حصہ میں میں دوسری قسم کی جھوٹ پر گفتگو کروں گا ۔ جو لوگ اس میدان میں مزید تحقیق کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں،مینو ریو ‘Minou Reeves’نے ‘Muhammad in Europe- A 1000 years of Western Myth Making’ نا می ایک انتہائی دلچسپ کتاب لکھی ہے جو کہ جھوٹ کا انبار فراہم کرتی ہے۔)
URL of Part 1:
URL for English article:
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/(defending-prophet-muhammad-introduction-(part-2/d/13226