New Age Islam
Sun Oct 06 2024, 12:10 PM

Urdu Section ( 17 May 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Sun Of Damascus دمشق کا سورج

 

آیۃ اللہ سیّد حمید الحسن

9 مئی ، 2013

سیریا ( شام) اور اس کے چاروں طرف کی قریبی سر زمین انسانی ، مذہبی اور اسلامی تاریخ کے بے حد اہم نشانات ، واقعات اور قصوں سے بھری پڑی ہیں۔ جب یہ اہم واقعات عہد قدیم میں پیش آرہے تھے اس وقت یہ زمین اتنے ملکوں میں تقسیم نہ تھی نہ اس کے اتنے نام تھےجو آج نظر آتے ہیں ۔ عہد قدیم کی یہ زمینیں جن واقعات یا ناموں سے مشہور ہوتی گئیں وہ آج تک باقی ہیں۔ حضرت نوح اور طوفان نوح کے نشانات ( عراق) بابل ( بائبلون ) نمرود اور حضرت ابراہیم سے متعلق (عراق) لبنان حضرت ابراہیم اور حضرت اسحاق سے حضرت موسیٰ و حضرت عیسیٰ تک کی تاریخ (مشرق اردن ۔ جارڈن ، یروشلم، فلسطین ، اسرائیل) حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل سے حضرت عدنان ، بخت النصرہوتے ہوئے حضرت ہاشم ، حضرت عبد المطلب اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک مکہ و اطراف مکہ کی عظیم تاریخ حضرت ابراہیم اور حضرت اسحاق و حضرت یعقوب و یوسف سے ہوتے ہوئے حضرت موسیٰ اور ان کے بعد تک مصر و فراعنہ مصر کی تاریخ مصر سے شام، ایران تک ، سرزمین شام اس تمام تاریخ کا اہم ابتدائی نشان اس لئے کہلا سکتی ہے کہ وہاں حضرت بابیل کی قبر ہے۔ حضرت آدم کےبیٹے، ہماری انسانی تاریخ کے پہلے مقتول جن کا قاتل ان کا بھائی قابیل تھا اور جن پر ان کے پدر گرامی حضرت آدم نے چالیس دن گریہ کیا اور دونوں باتیں نسل آدم کے لئے روایت بن گئیں مظلوم اور مقتول سے ہمدردی گریہ، آنسو اور یہ غم چالیس دن۔

سر زمین  شام کے مشہور شہر دمشق                ، حلب ، رقہ، حمص وغیرہ ہیں ان میں سے ہےہر جگہ تاریخ عالم و آدم کے ایسے نشانات ہیں کہ جو آج بھی انسان کے لئے عموماً اور مسلمان کے لئے خصوصاً بے حد حساسیت رکھتے ہیں۔ مکہ میں پیغام قرآنی شروع ہونے سے صرف 353 سال پہلے اور ولادت حضرت عیسیٰ سے صرف 292 سال بعد انسانی تاریخ کا ایک انتہائی عجیب و غریب واقعہ اسی سرزمین شام کے شہر  دمشق کے سینے میں محفوظ ہے۔ یہ واقعہ ہے دقیانوس (دقلیا نوس بادشاہ) کا اور  اصحاب کہف کا ، کہف غار کو کہتے ہیں جہاں مطابق پیغام قرآنی اللہ کےچند مومن بندوں نے ظلم سے بچنے کےلئے پناہ لی۔

آرام کیا، سوئے اور ایسا کہ آج تک وہ وہاں زندگی کے ساتھ نیند میں ہیں۔ اس طرح آج جب ہم یہ تحریر لکھ رہے ہیں شام (دمشق ۔ اصحاب کہف) کی اس جگہ جہاں زیارت کرنے لاکھوں انسان جاتے رہے ہیں اُن سونےوالے 6 افراد صرف 6مومنوں کی زندگی 1774 سال ہوچکی ۔ قرآن مجید پر ہمارا ایمان ہے۔ اس نے شہید کو بھی زندہ بتایا ہے۔ جو قرآن ہمیں اصحاب کہف کی آج تک کی نیند اور زندگی بتاتاہے وہی شہید کےلئے ہمیں  حکم دیتا ہے انہیں مردہ نہ کہو۔ اسے صرف یاد ہانی کے لئے کہہ لیں کہ یقیناً 1774 سال کی مدت 1383 سے زیادہ ہے۔ دقیانوس کے خوف سے جو 6 افراد پہاڑ ویمن  چلےگئے دمشق گواہ ہے کہ وہ آج بھی زندہ ہیں۔ اسی دمشق  نے قرآن کریم کی اس دوسری بات کا ثبوت بھی دیا جب اسی دمشق میں اس کے محلّہ عذر ا میں چند افراد شہید کئے گئے حسن اتفاق کہیں کہ یہ بھی 6 تھے اور ان میں سے ایک کی قبر مطہر کی بے احترامی کے بعد ان کے جسد مبارک کو باہر نکال کر لیا گیا تو بتایا گیا کہ یہ جسد بھی 1400 برس بعد بھی صحیح سالم تھا۔ کوئی کیمیکل نہیں ۔ کوئی برفیلی زمین نہیں ۔ عام زمین عام مٹی اس کے اندر سے برآمد کئے جانے والے جسد کا لباس بھی صاف شفاف نظر آیا ۔ سر اور داڑھی کے بال بھی مرد نی نہیں زندگی کی علامت کے بطور تھے اور چہرے کے کیفیات بتارہے تھے یہ چہرہ ایک عابد، زاہد اور شریف النفس کا ہے، نورانی، بھول پن، عبادت و کیف روحانی سے بند نگاہیں اور اذیت  و قبل موت ظالموں کی اذیت رسانی سے کھلے ہوئے لب ہائے مبارک چہرے پر جیسے ضرب کے نشانات سےجھلکتا ہوا خونیں رنگ مگر اظہار اذیت سے مستغنیٰ کسی صابر و شجاع کا ایسا چہرہ جہاں کسی تشنج کی کوئی کیفیت نہیں ۔

انٹر نیٹ کے ذریعہ جو تصویر ہر طرف ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی عام ہوگئی ہے اگر خدانخواستہ یہ فرضی ہے تب بھی ہمارا امتحان ہے کہ ہم نے صرف صحابیت رسول سے منسوب چہرے کے لئے کیا محسوس کیا ۔ محبت؟ احترام؟ عقیدت؟ ہمیں تو ایسا لگا جیسے ہم 1400 برس پہلے کی دنیا میں ہیں اور ہم ان باتوں کو جاننا چاہتے ہیں جو اس نورانی چہرے والے سے وابستہ ہیں۔ یہ ہمارا اسلامی فریضہ بھی ہے اور انسانی جذبہ بھی کہ ہم معلوم کرلیں اور اگر یہ تصویر واقعی اسی شخصیت کی ہے جن کا نام حجر ابن عدی الکندی الکوفی الیمانی تھا تو یہ تاثرات بالکل  اپنی صحیح  راہ پر ہیں۔ ارے! یہ چہرہ؟ جس صحابیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کتابوں میں پڑھتے تھے ہماری قسمت کہ ہم ان میں سے کسی کو دیکھ سکیں؟ کیا ایسے  ہی ہوتے تھے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ؟ یہ معصومیت؟ یہ عبادت و زہدکی مکمل تصویر ۔ کیا یہی ہیں حضرت حجر؟ جو اُن بزموں سے گذرتے ہوں گے جہاں  کسی طرف حضرت سلمان ، حضرت ابوذر بھی نظر آتے ہوں گے۔ کیا وہ سب بھی ایسے ہی ہوئے ہوں گے؟حضرت ابوذر جب ربذہ میں تنہائی میں رہتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے تو لوگوں نے لکھا ان کی بیٹی راستے پر آکر بیٹھ گئیں گذرتے قافلے کو آواز دی۔ ‘‘اے گروہ مسلمین ! یہ ابوذر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ  عالم غربت میں ہے۔’’ اور جن لوگوں نےان کے آخری امور انجام دیئے ان میں مالک اشتر تھے ۔ ان ابوذر کی رفاقت میں یہی حجر کتنی دفعہ رہے ہوں گے اور تو اور حجر تو ایسے صحابی  حضور صلی اللہ علیہ وسلم تھے کہ انہیں امیر المومنین  علی علیہ السلام کے بڑے بڑے سرداروں میں اور دوستوں میں شمار کیا جاتا تھا اس طرح انہوں نے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے تمام اصحاب ان کے اہل بیت ان کے اعزاء ، اقراء  سب کا دوردیکھا تھا۔

بہتر ہوگا ہم یہاں ان کے بارے میں کچھ نقل کریں:

مشہور مؤرخ عالم اسلام ابن الوردی سے ہم بات شروع کرتے ہیں ۔ ‘‘ 45ہجری میں زیاد بصر ے آیا...... جب مغیرہ 50 ہجری میں مرے تو معاویہ نے کوفہ بھی زیاد کے حوالے کردیا۔..... وہ لکھتے ہیں زیاد علی علیہ السلام پر سب کیا ( برا بھلا کہا نازیبا کلمات کہے) جس کی اسے عادت تھی تو حجر اُٹھے اور انہوں نے علی علیہ السلام کی مدح و ثنا کی۔‘‘ ابن الوردی نے یہا ں حاشیہ پر ابن الجوزی کی روایت جو حسن بصری کے استاد سے نقل کی اس کا خلاصہ ’’ حجر اور ان کے ساتھ لوگ معاویہ سے تین باتوں میں اختلاف رکھتے تھے بغیر رائے خلافت لے لینا ۔ اپنے بعد یزید کی خلافت چاہنا ۔زیاد کو ساتھ لینا ۔ تو ان کو قتل کردیا گیا ۔ اور یہا ں ابن لوردی نے لکھا  ‘‘ و کان حجر من اعظم الناس دینا قتل بعذر ا ظاہر دمشق ’’۔وہ لوگوں میں دین کے اعتبار سے بہت عظیم تھے  اور دمشق کے باہر عذرا میں قتل کردیئے گئے ۔

ہم یہاں اور جن محققین کے حوالوں سےکچھ  لکھیں ان کے نام اس طرح ہیں ۔ عظیم محقق اور عالم شیخ عباس قمی نے مجالس ، استیاب، علامہ حلی، حسن بن داؤد کے حوالوں سے اور عم مرحوم علامہ سید محمد رضی صاحب رحمۃ اللہ علیہ  نے سفینۃ البحار ۔ ج۔:۱، ص : 126 اور کامل ابن اثیر۔ ج :3، ص : 187 وغیرہ سے۔

ان حضرت نے جو کچھ لکھا ہم یہاں اس طرح لکھیں کہ تکرار و طوالت نہ ہو۔

1۔ حجر ابن عدی الکندی ۔ یمن سے آئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک آئے اسلام قبول کیا۔ بہت ہی کمسنی میں ۔

2۔ حجر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عظماء صحابہ میں شمار ہونے لگے۔

3۔ وہ کمسنی ہی میں بڑے بزرگوں میں شمار ہوتے تھے۔

4۔ ان کی عبادت و زہد کا تذکرہ تمام عرب میں ہونے لگا۔

5۔ ان کی دعا قبول ہوتی ہے ہر طرف شہرت تھی۔

6۔ وہ اصحاب امیر المومنین  میں سرداروں میں تھے ( جنگ صفین ونہرو ان میں لشکر کے سرداروں میں تھے)

7۔ علم اور کثرت عبادت حجر کی پہچان بن چکے تھے ۔

8۔ زیاد پر نماز میں تاخیر کرنے پر اعتراض کیا اس نے معاویہ سے شکایت لکھی ۔

اوپر کے واقعات پہلے ہی مخالفت کا سبب تھے ان کے خلاف حکم دے دیا گیا کہ قیدی بنا کر دمشق  بھیج دیئے جائیں ۔

9۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اور صحابی عدی بن حاتم کے چچازاد بھائی عبدا للہ بن خلیفۃ الظاتی نے سنا تو حجر کو اپنے قبیلے  میں بھیج دیا ۔ زیادنے اس پر خود عبداللہ کو گرفتار کر لیا ان کے بہن ‘‘ نوار’’ نے قبیلہ میں آکر فریاد کی ‘‘ کیا تم لوگ عبداللہ کو دشمنوں کے سپرد کردوگے’’۔ایک بہادر قبیلے کی بہادر عورت کی فریاد رنگ لائی قبیلہ طے کے جوانوں نے زیاد کے سپاہیوں کو بری طرح مار کر عبداللہ کو چھڑا لیا ۔ سپاہیوں نے زیاد کو واپسی پر اس وقت خبر کی جب وہ مسجد میں تھاوہاں خود صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم عدی بن حاتم موجو د تھے ۔ زیاد نے غصہ میں ان سے کہا عبداللہ کو میرے پاس حاضر کرو۔پوچھا ‘‘ خطا کیا ہے’’ تب زیادنے بتایا تو رسول کے بہادر صحابی نے حاتم طائی جیسے سخی کے بیٹے نے جواب دیا ۔‘‘ جو ہوا قبیلہ میں ہوا مجھے کیا خبر؟ لیکن تم چاہتے ہو کہ میں اپنے چچا زاد بھائی  کو لے آؤں؟ اور تم اسے قتل کر ڈالو؟ خدا کی قسم اگر وہ میرے قدم کےنیچے بھی ہوگا جب بھی اپنا             قدم اس پر سے نہ ہٹاؤں گا۔’’ زیاد نے جس کی بے دینی سے اس دور تک عابد زاہد شریف النفس اصحاب حضور صلی اللہ علیہ وسلم و عام مسلمان ناراض تھے ۔ عدی کو گرفتار کرلیا خبر عام ہوئی یمن اور دوسری جگہوں سے قبائل سردار زیاد کے پاس گئے اسےبتا یا گیا عدی بن  حاتم اصحاب رسول میں کس منزلت کے مالک ہیں۔ ان کے ساتھ یہ عمل کتنا نا مناسب ہے۔ زیاد نے مجبور ہوکر شرط رکھی یہ عبداللہ کو قبیلہ سے نکال دیں۔ فتنے کو سرد کرنے کے لئے ایک صحابی رسول نے وہی کیا جو ملت کے مفاد میں تھا ۔ عدی نے عبداللہ کو ‘‘جبلین ’’ بھیج دیا ۔ اور وقت گذر نے کے ساتھ زیاد کو موقع ملا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم صحابی حضرت حجر ابن عدی الکندی اپنے 11 ساتھیوں کے ساتھ گرفتار کر لئے گئے اور دمشق روانہ کردئے گئے۔

10۔ معاویہ کو قیدیوں کی آمد کی خبر ملی دمشق سے باہر ‘‘ حرج عذرا’’ میں ان کو قید کردیا گیا ۔ اور پھر صحابی  رسول کو قتل کردینے کے حکم کےساتھ جلادوں کی ٹولی بھیج دی گئی۔

اصحاب حضور میں موت کا استقبال کس طرح کیا جاتاتھا اس کی مثال کوئی جناب حجر اور ان کے ساتھیوں سے لے ۔ حضرت حجر کے ساتھیوں میں سے ایک نے کہا ‘‘ لگتا ہےہم میں سے آدھے قتل کئے جائیں گے آدھے چھوڑ دیئے جائیں گے’’ ساتھیوں میں کسی نے پوچھا ۔ ایسا کیسے کہا۔ جواب دیا دیکھتے نہیں ہو، جلادوں کےسردار کی ایک ہی آنکھ ہے ۔ ہنستے ہوئے موت کی طرف دیکھا اسی کو کہیں گے ۔ مگر یہاں ہم عظمت حضرت حجر کے لئے انہیں ایک جملہ نقل کریں گے۔ یہ تو سب ہی جانتے تھے کہ حضرت حجر تمام عرب میں اپنی عبادت و زہد کے  لئے مشہور تھے ۔ اسی سلسلے کا ایک جملہ ان کا ایسا ہے جو تمام دنیا  کے نمازیوں ، عبادت گذاروں کے کیف عبادت کی ترجمانی کرتا ہے مگر اس سے پہلے اتنادیکھیں کہ ہوا کیا ‘‘ جلادوں کے سردار نے کہا ‘‘ اے ابوتر اب کے دوست! امیر شام کا حکم ہے کہ میں تم کو اور تمہارے ساتھیوں کو قتل کردوں بچنے کی ایک ہی صورت ہےعلی علیہ السلام پر لعن کرو۔’’ حجر اور اُن کے ساتھیوں نے کہا ‘‘ تلوار کی گرمی پر صبر ہمارے لئے آسان ہے بہ نسبت اس کے جو تو چاہتا  ہے، ہمارے لئےبہتر یہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی خدمت میں حاضر ہوں بجائے جہنم کی آگ کے ۔’’ حجر کے پانچ ساتھیوں نے علی علیہ السلام پر سب کرنا  منظور کر لیا وہ چھوڑ دیئے گئے ۔حضرت حجر نے کہا کیا دو رکعت نماز کی اجازت ہے۔ اجا زت ملی۔ نماز۔ ایک عظیم صحابی رسول ۔ صحابی علی ۔ صحابی امام حسن و امام حسین علیہ السلام کی  آخری دو رکعتیں ۔ نماز ختم  ہوئی۔جلاد نے  کہا ‘‘ اے حجر موت سے ڈرتےہو جو اتنی دیر  نماز پڑھی؟ وہ بیچارہ عبادت کیف عبادت سےناواقف وہ کیا جانتا  تھا کہ عابد کےلئے عبادت کیا ہوتی ہے۔اس نے اپنے کلچر  اپنی سوسائٹی اپنے سماج اپنی تہذیب کی نمائندگی کی نماز پر طنز کر کے۔ اور حضرت حجر نے اس صحابیت  کی  نمائندگی  اپنے مختصر سے مگر یاد گار جملے سے کردی یہ فرماتے ہوئے ‘‘ موت سے نہیں ڈرتا مگر میں نے آج تک اس سے  کم وقت کی  نماز نہیں پڑھی ’’ ۔ اس آخری فقرے نے آنے والی اسلامی تہذیب کے لئے ایسا چراغ روحانیت روشن کردیا ہے کہ جس کی روشنی کبھی ختم  نہ ہوگی ۔ شہید  کر دیئے گئے ۔میں کہوں گا اتنے کم وقت کی نماز شاید اسی  لئے پڑھی کہ بار گاہ  رب میں بار گاہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں اور بار گاہ علی  علیہ السلام میں پہنچنے میں زیادہ تاخیر نہ ہو۔

جو ساتھی شہید کر دیئے گئے ان کے  نام اس طرح ہیں ۔  شریک بن شداد الحضر می، صیفی ابن شبل الشیبانی ، قبیصہ ابن ضبعیۃ العبسی ، محرز ابن شہاوب المنتصر ی، کدام بن حیان الغزی، عبد الرحمٰن بن حسان الغزی۔

جب زوجۃ رسول کی خدمت میں معاویہ نے حاضری دی توپوچھا گیا ‘‘ تمہیں  اہل عذر ا اور حجر و اُن کے اصحاب کے قتل پر کس بات نے آمادہ کیا’’۔ کہا اے ام المومنین میں نے دیکھا اُن کے قتل میں صلاح اُمت اور باقی رہ جانے میں فساد اُمت  ہے۔ جواب ملا، میں نے خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے  سنا ہے ۔ ‘‘ میرے بعد عذرا میں وہ قتل ہوگا کہ اللہ اس کے لئے غضب نازل کرے گا اور اہل آسمان ۔’’

تاریخ کا وہ دین کیسا سیاہ تھا جب حضرت حجر و ان کے ساتھیوں کو شہید کردیا گیا اور تاریخ کا یہ دن بھی کتنا سیا ہ ہے جب ان کی قبر مطہر اور ان کے جسد اقدس کےساتھ بے ادبی ہوئی ہے۔

اُس وقت بھی تمام عرب و اسلامی دنیا میں اس کی مذمت کی گئی۔ خود نواسۂ رسول امام حسین علیہ السلام نے معاویہ کو مذمتی خط لکھا اور واضح فرمایا کہ ‘‘ حجر بن عدی کندی صلح پسند و عبادت گذار لوگوں میں تھے ۔’’

اس وقت کے خراسان کے گورنر جو دمشق کی طرف سےمعین تھے سن کر اتنا متاثر ہوئے مسجد جامع میں  مجمع جمع کیا ۔ اور کہا۔ ‘‘وفات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایسا حادثہ ابھی تک نہیں ہوا تھا۔’’ اور پھر اسی عالم میں دعا مانگی ۔‘‘ اے اللہ اگر ربیع کو کچھ بھی تقریب و منزلت تیری بار گاہ میں حاصل ہے تو اُس کی جان ابھی قبض کرلے’’ ۔ اور اسی وقت ان کی موت ہوگئی ۔

تقریباً 1400 برس گذر گئے ۔ ایک محترم صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی شہادت کے 1400 برس بعد بے ادبی سے قبر سے نکال لیا گیا ۔ آج  پھر تمام عالم اسلام میں ناراضگی کی لہر ہے، برہمی کا اندازہ ہے۔ لکھنؤ کےمختلف روز نامہ اخبارات ایسے  بیانات سے بھرے پڑے ہیں ۔ تمام دنیا اور ہمارے ملک میں اس واقعہ کی شدید مذمت کی جارہی ہے ۔ درسگاہیں  ، تنظیمیں ، جماعتیں ، انجمنیں ، ادارے، شخصیتیں اس واقعہ سے متاثر ہیں۔ انٹر نیٹ سےشائع تصویر ۔ آنکھوں کےذریعہ دل کی ان رگوں تک پہنچتی ہے جہاں خون بہتا ہے ۔ وہ خون جو زندگی بھی دیتا ہے زندگی لیتا  بھی ہے۔

میرے سامنے اس وقت اخبار ات کے ذریعے جن کے اہم بیانات موجود ہیں ان میں ہندوستان کی مشہور درسگاہوں میں دارالعلوم دیوبند ، ندوۃ العلماء ، جامعہ ناظمیہ  ، سلطان المدارس وغیرہ و دیگر اہم مدارس اور لکھنؤ وبیرون لکھنؤ مختلف شہروں  امروہہ ، نوگانواں، جون پور، حسین آباد ، آلہ آباد، بمبئی ، بنارس ، دہلی کے اہم مدارس کے علماء و شخصیتوں کے اسماء گرا می ہیں ۔ مثلاً دیو بند سے مفتی ابو القاسم نعمانی صاحب وہیں کےاستاد حدیث مفتی محمد عارف قاسمی صاحب، آل انڈیا تنظیم مفتیان کے صدر مفتی محمد احسان قاسمی صاحب، لکھنؤ میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کےمہتمم محترم سعید الرحمٰن اعظمی ندوی صاحب ، ٹیلہ والی مسجد کے امام مولانا فضل الرحمٰن  ندوی صاحب ، دہلی کےشاہی امام مولانا احمد بخاری صاحب ، لکھنؤ کے قاضی شہر مولانا ابو العر فان صاحب اور اُن کے علاوہ گوشے گوشے سےاس کی  مذمت بتا رہی ہے۔ حجر ابن عدی آپ آج بھی زندہ ہیں اس لئے کہ آپ جس بارگاہ سے متعلق رہے اس کا دین باقی ہے اس کا پیغام باقی ہے اور اس سے وابستگی ہی میں وہ زندگی ہے جو صدیاں گذر جائیں مگر نہ جسم مردہ ہوتا ہے نہ روح نہ ہدایت کا سرچشمہ خشک ہوتا ہے نہ فکر و تعقل کی راہیں  مسدود ہوتی ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے اہل عذرا کاقتل غضب الہٰی  کا ذریعہ  بنے گا۔ آج کا شام اس کی تصدیق کررہا ہے ۔ اسی دمشق میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسیاں اور گھر والے  بھی ہیں۔ جب حجر ایسے ہیں تو ان کے آقا اور ان کی آقا زاد یوں کے بارے میں کیاکہنا سوائے اس کےجو اُس در کی خاک کاذرّہ بھی بن جائے وہ آفتاب کو روشنی بخشے گا۔

9 مئی، 2013  بشکریہ: روز  نامہ اودھ نامہ، لکھنؤ

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/the-sun-damascus-/d/11608

 

Loading..

Loading..