New Age Islam
Tue Jun 24 2025, 01:26 PM

Urdu Section ( 11 Jan 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

A Ray of Hope Thanks To the Supreme Court's Judgement سپریم کورٹ کا فیصلہ امید کی کرن

سہیل انجم

10 جنوری،2024

بلقیس بانو کے گنہگاروں کو دوبارہ جیل بھیجنے کا سپریم کورٹ کافیصلہ انصاف پسند طبقات کے لیے بہت بڑا سہارا ہے۔ ایسے ہی فیصلوں کی روشنی میں یہ کہا جاتاہے کہ اگرچہ انصاف میں تاخیر ہو جائے لیکن انصاف ہوکر رہتاہے۔ بلقیس کے مجرموں کو سزا سنائے جانے میں تو تاخیر ہوئی تھی لیکن گجرات حکومت کی جانب سے ایک قانون کی آڑ میں انہیں معافی دے کر جیل سے رہا کرنے کے معاملے میں زیادہ تاخیر نہیں ہوئی۔ جب یہ معاملہ جسٹس بی وی ناگ رتنا کی بینچ کے سامنے آیا تھا اسی وقت امید کی کرن جگمگا نے لگی تھی اور انصاف پسند طبقات کو ایسا لگنے لگا تھاکہ عدالت کوئی نہ کوئی بڑاقدم ضرور اٹھائے گی۔ جسٹس ناگ رتنا اور جسٹس اُجّل بھویّاں نے اپنے فیصلے میں جو کچھ اورجس لب ولہجے میں کہاہے اس سے جہاں انصاف کی سر بلندی ہوئی ہے وہیں بلقیس بانو کے زخموں پر کسی نہ کسی حد تک مرہم پاشی بھی ہوئی ہے۔حالانکہ ان کا زخم اتنا کاری او رگہرا ہے کہ اس سے تازہ زندگی ٹیسیں اٹھتی رہیں گی۔ لیکن اگر موجودہ ماحول میں کوئی فیصلہ مرہم کا کام کرتاہے تو یہ بھی غنیمت ہے۔ چند روز قبل چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ نے بابری مسجد تنازعے میں دیے جانے والے فیصلے کے بارے میں جو کچھ کہاہے اس سے انصاف پسند طبقے کو مایوسی ہوئی ہے۔ خیال رہے کہ جس بینچ نے فیصلہ سنایا تھا اس کے سربراہ اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی تھے جن کے بارے میں عوام کی بڑی اچھی رائے تھی۔ لیکن ایودھیا فیصلے اور ان کو ملنے والے انعام نے اس رائے کو یکسر پلٹ دیا۔اس بینچ میں جسٹس چندر چوڑ بھی تھے۔ ان کا یہ کہنا کہ یہ فیصلہ جج کے نام سے نہیں بلکہ عدالت کے نام سے سنایا گیا تھا، ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے خود بھی فیصلے کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی۔ ممکن ہے کہ اس وقت رام مندر کے افتتاح کے موقع پر جو پرجوش ماحول بنایا گیا ہے اس کا کوئی اثر ہو۔حالانکہ چیف جسٹس کے کردار سے ایسا نہیں لگتا۔ان کے بارے میں شبہ کرنے کی ابھی کوئی وجہ نہیں ہے۔

جسٹس ناگ رتنا اور جسٹس اجل بھویاں نے جس انداز میں بلقیس بانو کیس میں فیصلہ سنایا ہے وہ نہ صرف گجرات حکومت کے فیصلے کی بلکہ مرکزی حکومت کی تائید پر بھی سوالیہ نشان ہے۔مجرموں کی رہائی کی قصوروار صرف گجرات حکومت نہیں بلکہ اس مرکزی حکومت او ربالخصو ص وزارت داخلہ نے بھی اپنا حصہ ڈالا تھا۔ گجرات حکومت کا فیصلہ اس وقت تک عملاً نافذ ہی نہیں ہوسکتا تھا جب تک کہ مرکزی حکومت اس پر صادنہ کردیتی۔ فیصلہ سناتے ہوئے بینچ نے کہا کہ عدالت کے ساتھ فریب کیا گیا،اسے دھوکہ دیا گیا اور حقائق کو چھپا یا کر فیصلہ کروالیا گیا، اسے دھوکہ دیا گیا اور حقائق کو چھپا کر فیصلہ کروا لیا گیا تھا۔ بینچ کا اشارہ 13/مئی 2022ء کے اس فیصلے کی جانب تھا جو جسٹس اجے رستوگی او رجسٹس وکرم ناتھ نے سنایا تھا اور جس میں گجرات حکومت سے کہا گیا تھا کہ وہ قیدیوں کو معافی دینے کے معاملے پر غور کرے۔ اس سے یہ حقیقت چھپائی گئی تھی کہ مجرموں نے بامبے ہائی کورٹ سے رجوع نہیں کیا بلکہ براہ راست عدالت عظمیٰ میں آگئے۔ اس بینچ نے بھی صرف غور کرنے کو کہا تھا مجرموں کو رہا کرنے کو نہیں۔ لیکن جسٹس ناگ رتنا کی بینچ نے اس فیصلے کو کالعدم کردیا۔ اس نے اس بارے میں کی جانے والی تمام کارروائیوں کو منسوخ کردیا۔ عدالت نے یہ کہہ کر کہ گجرات حکومت نے مجرموں کے ساتھ ساز باز کرکے انہیں رہا کرنے کا فیصلہ کیا تھا، اس کی نیت کو بے نقاب کردیا۔ عدالت کے مطابق گجرات حکومت نے مہاراشٹر حکومت کے اختیارات کو غصب کرکے فیصلہ کیا۔ سپریم کورٹ کی سینئر وکیل اندراجے سنگھ کا کہناہے کہ اختیارات کے غصب کرنے او راس کے غلط استعمال میں بہت فرق ہے۔ اختیارات غصب کرنا زیادہ سنگین معاملہ ہے۔ عدالت کا یہ کہنابہت اہم ہے کہ ان مجرموں نے آزادی کا اپنا حق کھودیا ہے۔جب کوئی شخص مجرم قرار دے دیا جاتاہے تو اس کی آزادی سلب ہوجاتی ہے۔ ایسے لوگوں کو جیل ہی میں ہونا چاہئے۔یہ کہنا بھی بہت اہم ہے کہ اگر مجرم اپنی سزا کے حکم کو روک سکتے ہیں تو پھر معاشرے میں امن کیسے قائم ہوسکتا ہے۔دراصل ایک پلاننگ او رایک منصوبے کے تحت مجرموں کو رہا کیا گیا۔ حالانکہ گجرات اور مرکز دونوں حکومتوں کو یہ معلوم رہا ہوگا کہ وہ معافی دینے کی مجاز نہیں ہیں۔ معافی دینے کے معاملے پر اسی ریاست کی حکومت غورکرسکتی ہے جہاں سماعت کے بعد سزا سنائی گئی ہو۔ یہ ہوہی نہیں سکتا کہ حکومت کے وکلا نے اسے یہ قانونی نقطہ نہ بتایا ہو۔لیکن اس سے عمداً اس سے چشم پوشی کی او رمجرموں کی رہائی کا فیصلہ کیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ انہیں یوم آزادی پر جیل سے آزادی دی گئی اوراسی موقع پر دی گئی جب وزیر اعظم نریندرمودی تاریخی لال قلعے کی فیصل سے خواتین کے احترام کی دہائی دے رہے تھے۔

اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ عدالت نے تو اپنا کام کردیا کیا گجرات اور اس کی پولیس بھی اپنی ذمہ داری ادا کرے گی۔بلقیس کے گنہگاروں کو دوبارہ جیل بھیجے گی۔ اس میں شبہ ہے کہ وہ ان مجرموں کو جن کو ’سنسکاری برہمن‘ کہا گیا او رجیل میں جن کے اچھے اخلاق کی دہائی دی گئی انہیں پھر سلاخوں کے پیچھے ڈالا جائے گا۔ یہ وہی قیدی ہیں جن کی رہائی پر ان کا پرجوش خیر مقدم کیا گیا تھا۔ خواتین نے ان کی پیشانیوں پر اس طرح قشقہ لگا کر ان کے سامنے ہاتھ جوڑ ے تھے جیسے وہ بہت بڑے یودھا ہوں۔کیا ان کے ہاتھوں میں پھر ہتھکڑیاں لگیں گی جن کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے گئے تھے۔ ذرا سوچئے ایسے لوگوں کے حسن اخلاق دہائی دی گئی جنہوں نے معصوم او رنہتوں پر مسلح حملہ کیا اور چودہ افر اد کو تہہ تیغ کر دیا۔ جنہوں نے پانچ ماہ کی ایک حاملہ انیس سالہ خاتون کی اجتماعی عصمت دری کی۔جنہوں نے اس کی تین سالہ معصوم بچی کو پتھر پر پٹک پٹک کر مار ڈالا۔ ایسے ’اخلاق مند‘ لوگوں کو کیسے دوبارہ جیل میں ڈالا جاسکتاہے۔ کیا گجرات کی پولیس ان لوگوں کو دبارہ پکڑے گی جو سیاسی منافع کے ضامن بن گئے ہیں۔ کیا پولیس یہ نہیں کہہ سکتی کہ وہ لوگ فرار ہوگئے ہیں۔ ہم نے اس کے گھروں کو چھان مارا مگر وہ کہیں نہیں ملے۔ جب حکومت او رپولیس کسی عدالتی حکم کی نافرمانی کرناچاہتی ہیں تو ان کے سامنے بہت سے بہانے ہاتھ باندھے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ وہ روپوش ہوگئے ہیں۔ اخبار انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق ان کے گھروں میں قفل پڑگئے ہیں او رہاں سناٹا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ عدالت کے بقول گجرات کی حکومت ان کو معافی دینے کی مجاز نہیں تھی،مہاراشٹر ا کی حکومت تھی۔اب مہاراشٹر امیں بھی بی جے پی کی حکومت ہے۔کیا وہ انہیں معافی دینے پر غور نہیں کرسکتی۔حالانکہ جس 1992ء کے قانون کی دہائی دی گئی تھی وہ ایسے گھناؤ نے جرائم کے مرتکبین پر نافذ نہیں ہوتا۔ کیا یہ بات حکومت کو نہیں معلوم تھی۔بلقیس بانو کے اہل خانہ نے اس فیصلے پر اپنے فوری در عمل میں کہا کہ انہوں نے راحت کی سانس تو لی ہے لیکن وہ اسے اپنی فتح نہیں کہہ سکتے۔ وہ لوگ اس فیصلے کو کیسے اپنی فتح کہہ سکتے ہیں۔ ان کے ساتھ جوکچھ ہوا ہے کیا وہ قابل فراموش ہے۔ جب سپریم کورٹ نے اپریل 2019 ء میں گجرات حکومت کو ہدایت دی تھی کہ وہ بلقیس بانو کو پچاس لاکھ روپیہ بطور معاوضہ دے، سرکاری ملازمت دے اور رہنے کے لئے گھر دے تو بلقیس اور ان کے شوہر یعقوب رسو ل نے دہلی کے پریس کلب آف انڈیا میں ایک پریس کانفرنس کی تھی اور اپنی معصوم بیٹی کی ہلاکت پر ذہنی کرب کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ اسے کہاں دفن کیا گیا۔ دفن بھی کیا گیا یا نہیں۔ ہم اگراس کی قبر پرجاکر فاتحہ پڑھنا چاہیں تو کہاں جائیں۔ یہ دکھ لوگوں کو اندر ہی اندر زخمی کرتارہتا ہے۔ایسے میں یہ فیصلہ ان کیلئے عارضی مرہم تو ہوسکتاہے، مستقل علاج نہیں۔

10 جنوری،2024، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی

-----------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/supreme-court-judgement-hope/d/131495

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..