پروفیسر فیضان مصطفی
19 اپریل 2025
ملا بنا دیا ہے اسے بھی محاذ جنگ
اک صلح کا پیام تھی اردو زباں کبھی
آنجہانی پنڈت آنند نارائن ملا کے مذکورہ شعر نے اردو کی حالت زار کانقشہ کھینچا ہے۔اردو کو مسلمانوں کی زبان اور ایک غیر ملکی زبان سمجھا جاتا رہا ہے۔لہٰذا سپریم کورٹ کو باضابطہ طور پر ایک فیصلہ کے ذریعہ یہ ڈکلیر کرنا پڑاکہ اردوہندوستان کی زبان ہے اور اس کا کسی خاص مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایک جرات مندانہ فیصلے میں، دورکنی بنچ کے سربراہ جسٹس سدھانشودھولیا نے جو شاندار فیصلہ سنایا اس میں انہوں نے اردو مخالفین کے منہ پر زوردار طمانچہ رسید کیا ہے۔ انہوں نے مشاہدہ کیا کہ ’’ہمارے تصورات بالکل واضح ہیںکہ زبان مذہب نہیں ہوتی، زبان مذہب کی نمائندگی بھی نہیں کرتی۔ زبانیں کسی کمیونٹی، کسی علاقے اور لوگوں سے تعلق رکھتی ہیں نہ کہ مذہب سے۔‘‘ ہم اپنے ان ججوں کو سلام کرتے ہیں۔
سپریم کورٹ میںاردو کے خلاف مقدمہ ایک مراٹھی لے گیاتھا جو میونسپل کمیٹی کےسائن بورڈپر اردو سے ناراض تھا۔اس بورڈپر مراٹھی کے بعد چھوٹے فونٹ میں اردو میںبھی لکھا ہواتھا۔ جاہل درخواست گزار کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اردو کی ابتدا مہاراشٹر سے ہی ہوئی ہے۔ اس طرح، دہلی اور لکھنؤ کی بجائے دکن ہی اس عظیم زبان کی ابتدائی نشوونما کا بہتر دعویدار ہے۔ اسے درحقیقت دکنی کہا جاتا تھا۔ اس کا پہلا شاعر ولی دکنی (1667-1707) خود مہاراشٹر کے اورنگ آباد سے تھا۔ ارودکو زبانِ ہند بھی کہا جاتا تھا۔ اسے ریختہ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا،ریختہ ایک فارسی اصطلاح جس کا مطلب ہے ’’مخلوط زبان‘‘، جس میں مقامی ہندوستانی گرامر کی بنیاد تھی (کھڑی بولی، موجودہ قومی راجدھانی کے علاقے کی بولی جانے والی ہندوی بولی) زیادہ تر فارسی سے اور تھوڑی حد تک ترکی اور عربی کے الفاظ اور تاثرات سے مزین تھی۔ ریختہ، یا اردو شروع میں ایک بولی جانے والی مقامی زبان کی بجائے ایک ادبی اور شاعرانہ زبان تھی۔
ہر زبان کا اپنے بولنے والوں کے ساتھ ہمیشہ ایک جذباتی رشتہ ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے، ہم زبان کے معاملے میں ایک بار پھر شمال اور جنوب کی تقسیم کا شکار ہیں۔ زبان نہیں قومیں مذہب بناتی ہیں۔ بنگلہ دیش کی تشکیل نے جناح اور ساورکر کے دو قومی نظریہ کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ کسی بھی اسلامی یا مسلم ملک میں مسلمان اردو نہیں بولتے۔ یہاں تک کہ پاکستان کا اردو پر کوئی دعویٰ نہیں ہے کیونکہ اس کے چاروں صوبوں میں لوگ سندھی، بلوچ، پشتو اور پنجابی بولتے ہیں۔ اکیلا ہندوستان ہی اس پر قانونی طور پر دعویٰ کرسکتا ہے کیونکہ یہ اس کی اپنی مقامی زبان ہے۔مزید یہ کہ مسلمانوں کا اردو پر کوئی خاص دعویٰ نہیں ہے۔ ہندوؤں میں لکشمی نارائن شفیق، چندو لال سدن‘ اور ان کے پوتے کشن پرشاد شاد، رگھوپتی سہائے فراق، گلزار، اور برج نارائن چکبست جیسے شاعروں نے بھی اردو زبان وادب کی آبیاری کی۔اردو نے دوسری زبانوں کو بھی متاثر کیا۔ درحقیقت دشینت کمار جیسے شاعروں نے اپنی غزلیں ہندی میں ترتیب دیں۔ یقین کریں یا نہ کریں غزلیں گجراتی میں بال شنکر کنٹھاریا نے لکھیں اور مراٹھی میں سورسن جی گوہل اور ملیالم میں ابراہیم ’’امبائی‘‘ نے لکھیں۔ پریم چند، آنند نارائن ملا، اقبال دیپ، سریندر پرکاش، ہرچرن چاولہ، گوپی چند نارنگ، جگن ناتھ آزاد وغیرہ اردو کے عظیم ادیب تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے صرف ایک ماہ قبل یو پی اسمبلی میںاردو بولنے والوں کوکٹھ ملا کہہ کران کا اور اردو کا مذاق اڑایا تھا۔
اردو صرف اس ملک کی زبانوں میں سے ایک زبان نہیں ہے بلکہ جیسا کہ سپریم کورٹ نے بجا طور پر کہا ہے کہ یہ اپنے آپ میں ایک ثقافت اور تہذیب ہے۔ گلزار نے ٹھیک کہا:بڑے شائستہ لہجے میں کسی سے اردو سن کرکیا نہیں لگتا کہ ایک تہذیب کی آواز ہے اردو۔ جسٹس دھولیا نے مشاہدہ کیا کہ ’’ زبان کسی کمیونٹی اور اس کے لوگوں کے تہذیبی سفر کوناپنے کا پیمانہ ہے، اسی طرح اردو کا معاملہ ہے، جو گنگا جمنی تہذیب، یا ہندوستانی تہذیب کا بہترین نمونہ ہے، جو شمالی اور وسطی ہندوستان کے میدانی علاقوں کی جامع ثقافتی اقدارکی حامل ہے۔‘‘بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ گاندھی جی کو ناتھورام گوڈسے نے ’ہندوستانی زبان‘ کو قومی زبان کے طور پربنائے جانے کی وکالت کرنےکی وجہ سے گاندھی جی کا قتل کیا تھا۔ عدالت میں اپنے ثبوت میں، اس نے واضح طور پر گواہی دی کہ ’’گاندھی کی مسلم نواز پالیسی صریحاً غلط تھی اسی طرح ہندوستان کی قومی زبان کے سوال پر ان کا رویہ بھی غلط تھا۔ یہ بالکل واضح ہے کہ اولین زبان کے طور پر قبول کرنے کا سب سے پہلا دعویٰ ہندی کاہے۔ ہندوستان میں اپنے کیریئر کے آغاز میں گاندھی نے ہندی زبان کی زبردست حوصلہ افزائی کی تھی۔لیکن جیسے ہی انہیں احساس ہوا کہ مسلمان ہندی کو زیادہ پسند نہیں کرتےتو وہ ’ہندوستانی‘کے چیمپئن بن گئے۔
زبان سب سے زیادہ متنازعہ سوالات میں سے ایک تھی جس کا سامنا دستور ساز اسمبلی کو کرنا پڑا۔ اسمبلی نے گاندھی جی کے مشورے کو نظر انداز کر دیا جو ہندوستانی زبان کو دیوناگری اور فارسی رسم الخط دونوں میں قومی زبان کے طور پر لکھنے کے پرجوش حامی تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے کانگریس پر زور دیا کہ وہ اس سلسلے میں اپنی 1925 کی قرارداد پر قائم رہے۔ اس قرارداد میں یہ شرط رکھی گئی کہ جہاں تک ممکن ہو کانگریس کی کارروائی ہندوستانی زبان میں چلائی جائے گی۔یہاں تک کہ آئین کے مسودے میں الگ زبان کا کوئی انتظام نہیں تھا لیکن اس میں یہ شرط رکھی گئی تھی کہ پارلیمنٹ کی زبان ہندستانی ہو یا انگریزی۔دستور ساز اسمبلی میں سیٹھ گووند داس نے مسلمانوں سے کہا کہ وہ ہندوستانی ثقافت کے اندر ضم ہوجائیں جیسا کہ ان کی برادری نے دنیا کے دوسرے حصوں میں کیا ہے۔ انہوں نے چین اور روس کی مثالوں کا حوالہ دیا جہاں مسلمان اکثریت کی زبان بولتے ہیں اور ان کے وہی نام ہیں جو ان کے ہم وطنوں کی اکثریت استعمال کرتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے اپنے ملک کو ایک سیکولر ریاست تسلیم کیا ہے لیکن ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ اس قبولیت کا مطلب متضاد ثقافتوں کے مسلسل وجود کو قبول کرنا ہے۔ داس نے اپنی اصلیت ظاہر کی جب انہوں نے 12 ستمبر 1949 کو دستور ساز اسمبلی میں کہا: "میں یہ نہیں کہتا کہ یہاں اردو صرف مسلمان استعمال کرتے ہیں۔ میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ بہت سے ہندو شاعروں اور دانشوروں نے بھی اردو میں شاندار ادب تخلیق کیا ہے۔ اس کے باوجود، میں یہ کہنے سے رک نہیں سکتا کہ اردو نے زیادہ تر ملک کے باہر سے تحریک حاصل کی ہے۔اردو ادب میں کہیں بھی آپ کو ہمالیہ کی کوئی تفصیل نہیں ملتی۔ اس کے بجائے’ کوہ قاف ‘کی تفصیل ملتی ہے۔ آپ کو اردو ادب میں اپنی پسندیدہ کوئل کبھی نہیں ملے گی لیکن بلبل ضرور موجود ہے۔ بھیم اور ارجن کی جگہ آپ کو وہاں رستم ملے گا جو ہمارے لیے بالکل اجنبی ہے۔‘‘آر وی دھولکر نے اپنی مذہبی جنونیت کی وجہ سے اردو بولنے والوں کے ساتھ غیر ملکیوں جیسا سلوک کیا۔ ’’میں کہتا ہوں کہ یہ سرکاری زبان ہے اور یہ قومی زبان ہے۔ آپ اس سے انکار کر سکتے ہیں۔ آپ کا تعلق کسی اور قوم سے ہو سکتا ہے لیکن میرا تعلق، ہندی قوم، ہندو قوم، ہندوستانی قوم سے ہے‘‘۔ اس انتہائی فرقہ وارانہ نوعیت کی بحث سے پریشان قاضی سید کریم الدین اپنے آپ کو روک نہ سکے اور بلند آواز میں غالب کی تخلیق’’تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں‘‘پیش کی۔لسانی تنوع کی وجہ سے آئین نے کسی ایک زبان کو قومی زبان قرار نہیں دیا۔ مزید یہ کہ آرٹیکل 29 ہر شہری کو اپنی مخصوص زبان، رسم الخط اور ثقافت کے تحفظ کا بنیادی حق دیتا ہے۔ یہ ایک مکمل حق ہے اور کسی کو اسےچھیننے کا حق نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی اپنے تازہ فیصلہ سے اس پر مہر ثبت کردی ہے۔
--------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/supreme-court-historic-verdict-urdu-civilization/d/135249
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism