نیو ایج اسلام اسٹاف رائیٹر
8 مئی 2024
آج کل پوری مسلم دنیا میں
خلفشار ، تباہی ، تشدد ، اور اخلاقی اور سماجی برائیاں عروج پر ہیں۔ جہاں مسلمان اکثریت
میں ہیں وہاں بھی خلفشار اور تشدد ہے اور جہاں اقلیت میں ہیں وہاں بھی وہ اکثریتی فرقے
کی سازشوں اور ظلم و ستم کے شکار ہیں۔۔ خصوصا ہندوستان اور پاکستان کے مسلمان سیاسی
اور سماجی خلفشار کی وجہ سے پریشان ہیں۔ مسلمانوں کی اس حالت کے بہت سارے سیاسی ، مذہبی
اور معاشی اسباب ہیں۔ اور دونوں ملکوں کے مسلمان جس بدحالی میں مبتلا ہیں اس کی وجہ
ان کے ملی و سیاسی قائدین کے غلط فیصلے اور غلط نظریات ہیں۔۔ انہوں نے اپنی اپنی ڈیڑھ
اینٹ کی مسجد بنائی اور اس کے امام بن گئے۔ وہ مسلکوں میں بٹ گئے اور قوم کوبھی فرقوں
میں تقسیم کردیا۔ اپنے ذاتی مفاد کے لئے حکومتوں سے قوم کے مفاد کا سودا کرلیا۔ وہ
سیاسی خیموں میں بٹ گئے اور اپنی اپنی سیاسی پارٹی کو فروغ دینے میں قوم کے مفادات
کو نظرانداز کردیا۔ملی قائدین نے قوم کو جدید تعلیم سے دور رکھا جس کی وجہ سے وہ تعلیمی
پسماندگی کے شکار ہو گئی اور معاشی ترقی کی دوڑ میں دوسری قوموں سےپچھڑ گئی۔
مسلمانوں کے ملی قائدین کو
اب قوم کی اس حالت پر افسوس اور رنج ہورہا ہے اور وہ قوم کو اس بدحالی سے نکالنے کے
لئے مضطرب اور فکر مند ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کے کچھ سرکردہ علماء سوشل میڈیاکے
مختلف پلیٹ فارموں سے قوم کے تئیں اپنی فکر مندی اور اضطراب کا اظہار کررہے ہیں۔ وہ
انہیں خواب غفلت سےبیدار ہونے کی تلقین کررہے ہیں۔ انہیں آنے والے خطرات سے خبردار
کررہے ہیں اور انہیں اپنی حالت سدھارنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے
کہ ان علماء کے پاس قوم کو اس بحران ، بدحالی اور تباہی سے نکالنے کا کوئی ٹھوس پلان
یا لائحہء عمل نہیں ہے۔ لہذا ، وہ قوم کو معاشی بدحالی ، خلفشار اورحکومتوں کے ظلم
و ستم سے نجات کے لئے وظائف و اوراد بتارہے ہیں اور انہیں یہ یقین دلارہے ہیں کہ صبح
و شام۔ان اوراد و وظائف پر عمل کرکے وہ معاشی پریشانی ، حکومتوں کے ظلم وستم اورطا
قتور قوموں کی بالادستی سے نجات حاصل کرلیں گے اور دنیا پر غالب آجائینگے۔ ان علماء
کا کام اب یہی رہ گیا ہے کہ وہ یوٹیوب اور فیس بک پر قوم کو پریشانیوں سے نکالنے والے
اورادو وظائف بتائیں۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ یہ علماء ہندوستان اور پاکستان کے
مسلمانوں کے سیاسی حالات اور اجتماعی مسائل یا بحران سے نجات کے لئے بھی وظائف تجویز
کررہے ہیں۔ ہندوستان کے ایک عالم دین نے ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح سے ایک دن
پہلے یوٹیوب پر مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا کہ وہ صبح و شام سات بار سورہء مزمل پڑھ لیں۔
اس کی برکت سے افتتاح کے دن ان پر کوئی مصیبت نہیں آئے گی۔اسی طرح ہندوستان کے ہی ایک
سرکردہ عالم دین نے یوٹیوب پر اپنی تقریر میں کہا کہ دعاؤں سے قوموں کی تقدیر بدل سکتی
ہے۔پاکستان کے ایک عالم دین اور مفتی کا دعوی ہے کہ مسلمان اگر کچھ اوراد پر قائم رہیں
تو ملک میں جو بحران ہے وہ دور ہو سکتا ہے۔ یہ تمام علماء مسلمانوں کو دعاؤں اور وظائف
سے اپنے ملک کے سیاسی و معاشی حالات اور سیاسی قیات کے بدلنے کی بشارت دے رہے ہیں۔
اور قوم اس قدر نکمی ہے کہ گھر میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے صرف وظائف پڑ ھنے سے بھی کترارہی
ہے۔ دراصل ہندوستان اور پاکستان کے مسلمانوں کی یہ حالت ہی اس لئے ہوئی ہے کہ ہمارے
علماء نے مسلمانوں کو ہمیشہ یہی بتایا ہے کہ دعاؤں اور وظائف سے نہ صرف ان کی بلکہ
پوری قوم کی تقدیربدل سکتی ہے۔ جبکہ قرآن واضح طور پر کہتا ہے کہ اللہ کسی قوم کی حالت
تب تک نہیں بدلتا جب تک کہ اس کا ہر فرد اپنے آپ میں تبدیلی نہ لائے۔ (سورہ الرعد
: 11) اس آیت میں قوم کی حالت کی تبدیلی نفس ( فرد) کی حالت کی تبدیلی سے مشروط ہے۔
جب تک قوم کا ہر فرد اپنے طرز فکر اورطرز عمل میں تبدیلی نہ لائے تب تک اجتماعی طور
پر قوم میں تبدیلی یا بہتری نہیں آسکتی۔ یہ قوموں کی ترقی کا قرآنی اصول۔ہے۔ خدا کسی
فرد کی انفرادی پریشانی اس کی دعاؤں کے بدلے دور کرسکتا ہے یا اس کی حاجت پوری کرسکتا
ہے وہ بھی کچھ مصلحتوں کے ساتھ تاکہ بندہ دعاؤں کے ذریعے اس سے جڑا رہے اور اس کے سامنے
اپنی عاجزی اور محتاجی کا اظہار کرتا رہے۔ اس سے بے نیاز نہ ہو جائے کیونکہ بے نیازی
یعنی صمدیت صرف خدا کی صفت ہے۔ اس لئے قرآن میں خدا کہتا ہے کہ۔
۔"اے ایمان والو مدد چاہو صبر اورنماز کے ساتھ۔بے شک اللہ صابروں
کے ساتھ ہے۔۔"(البقرہ: 133).
لیکن قوموں کی اجتماعی حالت
میں انقلاب صرف دعاؤں اور وظائف سے نہیں آتا بلکہ اس کے لئے انفرادی اور اجتماعی طور
پر جدوجہد کرنی پڑتی ہے ، طویل المدت منصوبے اور لائحہء عمل تیار کرنا پڑتا ہے بلکہ
قوم کے ہر فرد کے مزاج اور کردار کی تشکیل اسی نہج پر کرنی پڑتی ہے۔عرب کے عوام ماقبل
اسلام دور میں ااخلاقی اور سماجی برائیوں میں مبتلا تھے اور قبائل میں بٹے ہوئے تھے۔
لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد ہر فرد کے کردار اور سوچ میں تبدیلی آئی تو پورے سماج
میں انقلاب آگیا۔ مدینہ میں پہلی اسلامی حکومت قائم کرنے والے لوگ باہر سے نہیں آئے
تھے اور نہ ہی آسمان سے اترے تھے بکہ اسلامی تعلیمات پر چل کر اپنے اندر تبدیلی لے
آئےتھے۔ اس کے بعد ان کے اندر اجتماعی تبدیلی آگئی۔
ؒلہذا، مسلمانوں کو موجودہ بحرانی دور سے نکلنے کے لئے انہیں انفرادی
طور پر بدلنا ہوگا۔ انہیں اسلامی تعلیمات پر چل کر اپنے نفس میں تبدیلی لانی ہوگی۔
انہیں بدعنوانی ، رشوت خوری، شراب نوشی ، منشیات ، جمع اندوزی ، مسلکی تشدد ، مسلکی
اور تکفیری نظریات سے باز آنا ہوگا۔ اور نئے دور کے تقاضوں کے مطابق اپنے تعلیمی نظام
کی تشکیل کرنی ہوگی اور جدید علوم کے حصول میں زیادہ سے زیادہ دلچسپی لینی ہوگی۔ جب
تک مسلمان اپنے طرز فکر و عمل میں تبدیلی نہیں لائینگے اور جدید تعلیمی نظام کو نہیں
اپنائینگے تب تک خدا مسلمانوں کی حالت نہیں بدلے گا۔
-------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism